کسی بھی دن کا اخبار لے لیں‘ عراق کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ‘ ایک نہ ایک خبر افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے سمجھا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد طالبان کی تحریک کا خاتمہ ہوگیا۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے حملوں کا سارا ملبہ طالبان پر گرایا گیا اور اسی بنا پر افغانستان پر تسلط عمل میں لایا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کی عسکری کارروائیوں کے بارے میں امریکی ذرائع ابلاغ کی نشریات میں شدید مزاحمت اور مسلح کارروائیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طالبان کی تحریک ازسرنو پوری قوت کے ساتھ افغانستان میں ابھر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے گفت و شنید کی خبریں بھی آنے لگیں۔
بعض عالمی ماہرین اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ القاعدہ تنظیم کے بعض دھڑے افغانستان میں ازسرنو منظم ہو رہے ہیں تاکہ طالبان کی صفوں کو مستحکم کیا جا سکے اور بھرپور منظم ہوکر جنوبی اور مشرقی علاقوں میں کارروائیاں کی جا سکیں۔ نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی جنگجو ان علاقوں میں افغانی‘ امریکی اور ناٹو کی قابض افواج کو پھانسنے اور ناکام کرنے کے لیے واپس آگئے ہیں تاکہ شدید مزاحمت کے ذریعے ان کو نکلنے پر مجبور کر دیں۔
عسکری کارروائیوں میں سے ایک کے بارے میںقندھار کے والی گل آغا شیرازی نے زور دے کر کہا کہ القاعدہ کے کئی عرب دھڑے افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں اور فدائی حملوں کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ یہی بات افغانستان کے وزیردفاع عبدالرحیم وردگ نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی: ہم القاعدہ کو اکٹھے ہوتے دیکھ رہے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ افغانستان میں مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی مواقع پر کارروائیوں میں غیرملکی افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے (۱۵ جولائی ۲۰۰۵ئ)۔ اسی طرح افغانستان کے وزیرخارجہ عبداللہ نے ہندستان کے دورے کے اختتام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:طالبان کے دھڑوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انھیں باہر سے امداد مل رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک خصوصی گروپ کے ذمہ دار فرانس کے جان آرنو نے سلامتی کونسل میں ۲۶ جون ۲۰۰۴ء کو گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’یقینا مجاہدین مزید وسائل حاصل کرچکے ہیں اور تباہی پھیلانے والا اسلحہ اور بہترین تشہیری وسائل اُن کے پاس ہیں اور وہ بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ قوت استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ سال ۲۰۰۴ء کے آغاز سے عسکری کارروائیوں میں اب تک ۶۰۰ کے لگ بھگ طالبان کے مقابلے میں ۸۵۰ افراد مارے گئے ہیں۔
امریکی جاسوسی اداروں کی ایجنسی میں بن لادن یونٹ کے ذمہ دار مائیکل شاور نے کہا: افغانستان میں سب کچھ القاعدہ کے نظریات اور منصوبہ بندی کے مطابق اور اُس کے تحت ہو رہا ہے۔ ان کا کام مسلح اسلامی تحریکوں کی معاونت ہے۔ یقینا طالبان کی قیادت یہاں بڑھتی ہوئی قوتوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری بخوبی جانتی ہے۔ القاعدہ کا نظریہ اس لحاظ سے واضح ہے کہ وہ مسلح افراد کی مکمل مدد کریں اور سامنے آنے سے اجتناب کرتے ہوئے انھیں مختلف امور سکھائیں اور مقامی اہم افراد کو اپنی منشا کے مطابق مختلف کارروائیوں کی قیادت کے لیے چھوڑ دیں۔
امریکی اور افغانی افواج نے کئی دُور دراز علاقوں میں سخت جان جنگجو افراد کا کھوج لگایا ہے جو گھنٹوں مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی موسم گرما کی کارروائیاں بہت سخت اور پچھلے سالوں کے مقابلے میں جان لیوا ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی افواج پر مسلسل دبائو کی وجہ پاک افغان سرحد کے قبائلی علاقوں میں بسنے والی القاعدہ کی قیادت ہے۔ اُن کی نقل و حرکت کی وجہ سے ہی طالبان کا ان علاقوں پر کنٹرول ہے۔ علاوہ ازیں ان امور کے ماہر اولیفیہ روا نے‘ جو فرانس کی علمی تحقیق کے ادارے المرکز الوطنی میں ہیں اور ان علاقوں کے حوالے سے عالمی ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے جلدبازی سے اجتناب کرنے کو کہا ہے: اس وقت ہمارے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ غیرملکیوں کی موجودگی ثابت کی جا سکے۔ اس نے مزید کہا: افغانستان کے حکمرانوں کے مفاد میں ہے کہ یوں کہیں: یقینا یہ سب غیرملکیوں کی کارروائیاں ہیں جن میں پاکستان میں طالبان عناصر بھی شامل ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عرب مجاہدین کی یہاں موجودگی ثابت نہ ہوئی تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔
افغانستان کی سرزمین پر طالبان کے وسعت پذیر عسکری حملوں سے چند مہینے پہلے کی امریکا کی عسکری رپورٹس کی تائید ہوتی ہے جن میں کہا گیا کہ طالبان کی تحریک پھر قوت پکڑ رہی ہے اور اُن کی صفیں ازسرنو منظم ہو رہی ہیں۔ امریکی افواج کے خدشات ہیںکہ یہاں کی صورت حال عنقریب عراق کا منظرنامہ پیش کرے گی۔ عالمی ماہرین اور ناٹو کی افواج کو نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی عراق کی صورت حال دہرائی جارہی ہے۔ طالبان کا مطمح نظر مختلف جماعتیں اور ملیشیا تشکیل دے کر امریکیوں اور افغان فوج کی توجہ کو تقسیم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے گوریلا جنگ اور شہروں میں جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ ساری صورت حال عراق کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ اگر تفصیل میں جایا جائے تو اغوا‘ فدائی حملے‘ مختلف افراد‘ سیاسی شخصیات کا قتل اور اس کی تصویریں___ یہی کچھ افغانستان میں گذشتہ چند مہینوں سے ہو رہا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ گمان تھا کہ امریکی تسلط کے کئی سال گزرنے اور افغانستان کے اکثر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حالات معمول پر آگئے ہیں اور امریکا کے لیے سازگار ہوگئے ہیں‘ جب کہ اس کے برعکس ناٹو کی افواج جو موسم گرما ۲۰۰۳ء کے بعد سے افغانستان میں ہیں‘ یہ سمجھ چکی ہیں کہ اصل امتحان ابھی شروع نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیکورٹی فورسز کی ساری کوششوں کا مرکز قندھار ہے اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کی آواز اب بھی توانا ہے‘ اُن کی تعداد بہت ہے اور انھیں قبائل اور عوام الناس کی بڑی تائید حاصل ہے۔
طالبان کے حملوں کا آغاز کرنے میں جغرافیائی حدود کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ یہاں کے پہاڑی سلسلے امریکیوں کے لیے بڑی سخت رکاوٹ ہیں۔ جغرافیائی قبائلی حدود کا باہم ملنا بھی طالبان تحریک کی سرگرمیوں کو چھپنے کے لیے مواقع اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ ہم امریکا کو پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مغربی کنارے اور شہروں کے مضافات سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قندھار ایئرپورٹ کو امریکی افواج نے اپنا بیس کیمپ بنا یا ہے‘ وہاں بھی ہیلی کاپٹر عام پرواز نہیں کرسکتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑائی کے جلد ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔
اب امریکی قندھار‘ زابل اور ازرگان کے علاقوں کی مثلث میں روزانہ کی جھڑپوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان‘ اُن کا اسلحہ‘افرادی قوت‘ عسکری طاقت‘ اُن کے حمایتی اور قائدین بڑھ رہے ہیں۔ اُن کا خاتمہ نہیں ہوا جس طرح بعض لوگوں کا گمان ہے۔ امریکی ذرائع نے کئی سالوں سے طالبان سے بات چیت کی کوششیں کی اور گویا اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ امریکا نے ابھی تک کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کیا‘علاوہ اس کے کہ طالبان جنگجوئوں کو تقسیم کر کے کمزور کر دیا ہے۔ حقیقتاً طالبان کی قوت موجود ہے۔ اُن کے قائد ملاعمر گرفتاری سے بچے ہوئے اور آزاد ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے امریکا مجبور ہوگیا ہے کہ طالبان کے وجود اور اُن کے خطرے کااعتراف کرے۔ وہ حقیقت سے آنکھیں چرانے اور بلاوجہ تاویل کرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے آخری لڑائیوں میں طالبان کے نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے۔حالیہ عسکری کارروائیوں میں اکثر ’مارو اور چھپ جائو‘ کی صورت حال اور سڑکوں پر لڑائی کی کیفیت رہی جن میں طالبان کو کافی مال غنیمت ہاتھ آتا رہا۔
افغانستان میں موجودہ صورت حال فقط عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ طالبان کی بھرپور واپسی کا آغاز ہے اور اُن کی صفوں کی ازسرنو ترتیب ہے‘ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے لیے نہایت مثبت ردعمل ہے۔ افغانستان کے عوام جنھوں نے حامدکرزئی اور امریکی تسلط کے چار سال گزارے ہیں ‘ ان کے لیے افغانستان کے معاملات میں واپسی کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس کا آغاز امریکی تسلط کے خلاف جدوجہد سے ہوچکا ہے۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۷۰‘ ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ئ)