نومبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

۸ اکتوبر ___ گرفت‘آزمایش اور انتباہ

پروفیسر خورشید احمد | نومبر۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کی صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر پاکستان اور کشمیر کے طول و عرض میں اور خصوصیت سے صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں ایک ایسا تباہ کن بھونچال آیا جس نے ہزاروں جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دیا۔ ایک لاکھ کے قریب جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں اور بچے زخموں سے چور ہوگئے‘ ۵۰ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے اور دسیوں شہر اور سیکڑوں دیہات دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہمہ گیر تباہی کے احساس سے پاکستان اور اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کم از کم وقتی طور پر دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں___ لیکن کیا جاگتوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ قیامت خیز زلزلہ‘ پاکستان کے ۱۵ کروڑ نیند کے متوالوں اور ان کی غافل اور حق فراموش قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟

ساری تباہی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اور فوری امداد کی ہر کوشش وقت کا تقاضا اور انسانی اور قومی ضرورت ہے۔ جانیں بچانے‘ یعنی ریسکیو (rescue)‘ مدد پہنچانے یعنی ریلیف (relief) اور بحالی (rehabilitation) کی تمام مساعی ضروری اور فوری توجہ کی مستحق ہیں اور ان کے باب میں کوئی کوتاہی‘ اخلاقی اور اجتماعی ظلم کی بدترین مثال ہوگی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ کیا ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ اس گمبھیر آزمایش میں‘ بحیثیت قوم ہمارے رویوں اور ردعمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟

خود احتسابی‘ انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ‘ قومی اور سرکاری پالیسیوں پر نظرثانی‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک‘ اپنے رب سے توبہ و استغفار اور حقیقی خدمت‘ بھائی چارے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ٹھیک ٹھیک ادایگی کی فکر ہی ہمیں زندگی کے      مصائب و آلام سے حقیقی نجات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی رویے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ غیراسلامی رویے کا سارا دروبست صرف طبعی اور وقتی امورسے عبارت ہوتا ہے یعنی ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی ___  اور اسلامی رویہ ان کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی اصل روح‘ جذبہ اور حقیقی ہدف اللہ کی رضا کا حصول‘ اس سے تعلق اور استعانت کی طلب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق و انصاف کے قیام کے لیے اصلاحِ احوال سے عبارت ہوتا ہے تاکہ معاشرہ  خیر اور فلاح کا گہوارہ بن سکے اور زمین و آسمان سے اللہ کی برکتیں میسر آسکیں۔

قرآن و حدیث کا نقطہ نظر

قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کا جو آہنگ دیا ہے‘ اس کا سب سے امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں زندگی کے طبعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کے مادی احوال و ظروف کا ادراک کرتا ہے اور انھیں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہیں ان کے پیچھے کارفرما اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی اسباب و عوامل کو بھی بھرپورانداز میں نمایاں کرتا ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اور اخلاقی اسباب و اسباق کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے اور اس طرح سوچ کے ان دو بنیادی زاویوں کو ایک دوسرے سے نمایاں کردیتا ہے جو اسلام اور غیراسلام کا خاصہ ہیں اور زندگی کے دو تصورات (paradigms) کے مظہر ہیں۔ زندگی کا ایک وہ رویہ ہے جو صرف طبعی پہلو پر اکتفا کرلیتا ہے اور دوسرا طبعی پہلو کے ساتھ اس کے اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی پہلو کو بھی اپنی گرفت میں لے آتا ہے اور اس طرح چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر واقعے کو زندگی کے بنیادی تصورات‘ اقدار اور مقاصد اور کامیابی اور ناکامی کے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ کردیتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْـرُ نِ o   الَّذیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۱-۲)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی اور درگزر فرمانے والا بھی۔

موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور شب و روز ہم سب ہی اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں‘ کبھی اپنے اعزہ اور اقارب کی جدائی کی شکل میں اور کبھی بڑے بڑے اجتماعی حادثات کی صورت میں جو اپنے اور غیر سب کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ وہ صرف ان قوموں کے غضب ناک انجام ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کے لیے اور خصوصیت سے اہلِ ایمان کے لیے انتباہ کا سامان بھی لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کی اصل حکمت بھی یہی ہے کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کریں تاکہ وہ زندگی اور موت کے ان تمام مناظر سے عبرت لے سکیں جو خواہ ماضی میں واقع ہوئے ہوں یا ان کی جھلک خود ان کے اپنے گردوپیش میں دیکھی جا سکتی ہو‘ یا جس کا تجربہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے انسان اور اقوام وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ (اعراف ۷:۹۷-۱۰۰)

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ کیا ان لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں‘ اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟

قرآن اقوامِ سابقہ کے حق سے انحراف اور ظلم و جور میں حد سے گزر جانے کے واقعات کا تذکرہ کر کے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دے رہا ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل کو باہم دگر مربوط دیکھنے کی روش اختیار کریں اور ماضی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی فکر کریں۔ اللہ کی اس گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی‘ نیز عذاب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر عذاب ایک ہی نوعیت کا نہیں‘ لیکن یہ سب علمی بحثیں ہیں جن کا یہ محل نہیں ___ جو بات ناقابلِ انکار ہے‘ وہ یہ ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اورزلزلے‘ طوفان‘ سیلاب‘ تباہی پھیلانے والے جھکڑ جہاں اپنے طبعی اسباب و احوال رکھتے ہیں‘ وہیں ان کے پیچھے مضبوط اور چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔  کوتاہ بیں اپنی نظر کو صرف طبعی احوال تک محدود رکھتے ہیں لیکن مومن صادق ان کے اخلاقی‘ روحانی‘ مابعد الطبیعیاتی اور تہذیبی اسباب و عواقب پر بھی اپنی نگاہ کو مرکوز کرتا ہے اور اُن سے اصلاح احوال کے لیے عبرت کا درس لیتا ہے۔

پورا قرآن غوروفکر کے اس اسلوب کی تعلیم دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیارے اور بڑے مؤثرانداز میں اس ربط و تعلق پر انسانوں کی توجہ کو مرکوز فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:

ما من قوم یظھرُ فیھم الزنا الا اخذوا بالسنۃ وما من قوم یظھر فیھم  الرّشا الا اُخذ وبالرعب (رواۃ احمد‘ مشکٰوۃ‘ کتاب الحدود)

کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا‘ اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلا دے گا‘ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہوگی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا‘ جس معاشرے میں ناپ تول میں بددیانتی کا رواج عام ہوگا وہ رزق کی برکت سے محروم ہوجائے گی‘ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی لازماً ہوکر رہے گی اور جس قوم نے بدعہدی کی‘ اس پر دشمن کا تسلط بہرحال ہوکر رہے گا۔ (رواہ مالک‘ مشکوٰۃ‘ باب تفسیرالناس)

اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ترمذی میں اس طرح روایت ہوا ہے:

جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے‘اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے‘ اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو) اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے‘ اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے (اور مسجد کے آداب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات چیت اور بحث و تکرار شروع ہوجائے) قبیلے کا سردار فاسق (اللہ رسولؐ کا نافرمان) بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے‘ اور آدمی کی عزت اس کے شرسے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے‘ آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے (اگر ایسی صورت حال ہوجائے) تو تم انتظار کرو‘ سرخ آندھیوں کا___ زلزلوں کا___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا‘اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔(ترمذی‘ حدیث ۲۱۳۶‘ کتاب الفتن)

قرآن پاک نے زمانے کے نشیب و فراز اور قوموں کے عروج و زوال کے ذکر سے جس تذکیر کا اہتمام کیا ہے‘ ارشادات نبویؐ میں انھی پہلوئوں کی طرف مستقبل کے واقعات اور حالات کی نشان دہی کرکے ہمیں انتباہ کیا گیا ہے تاکہ انسان بحیثیت مجموعی اور مسلمان بطور خاص زندگی اور موت‘ اور حوادثِ زمانہ اور طبعی احوال سے بس یونہی نہ گزر جائیں بلکہ ان میں جو اصل معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں‘ فساد فی الارض پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کریں‘ خیروصلاح پھیلانے والے اقدام کی فکر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جب بھی اس کی گرفت واقع ہوتی ہے تو وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال اور ظلم و طغیان کی وجہ سے ہوتی ہے اور پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کی تباہی کی زد میں صرف ظالم اور بدکردار ہی نہیں آتے بلکہ وہ بھی آتے ہیں جو خواہ شریکِ جرم نہ ہوں لیکن ظالم اور باغی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَـآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۵)

اور بچو اس وقت سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ o (ھود ۱۱:۱۱۷)

اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا‘ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

انتباہ کے ساتھ آزمایش کا بھی ایک نظام ہے جس کا اصل مقصد تو اخلاقی اور روحانی تزکیہ اور تربیت ہے لیکن وہ بھی طبعی عمل کے ذریعے کارفرما ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تنزل اور تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ کے لیے ترقی اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور جس طرح انتباہ‘ گرفت اور سزا اصلاح کے عمل کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح آزمایش اور جانچ پرکھ کا الٰہی نظام بھی اس وسیع تر عمل کا ایک لازمی پہلو ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۲-۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ اور کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے جو چیز بالکل صاف ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی اور اس کے پیچھے محض طبعی عوامل ہی نہیں‘ اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور ہر ایسا واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہے‘ وہیں اسے دل کی آنکھوں کو کھولنے والا بھی بننا چاہیے تاکہ انسانی زندگی سے بگاڑ‘ ظلم اور طغیانی ختم ہو اور انسان اللہ کی رحمت اور برکتوں کے مستحق بن سکیں۔

جائزے اور احتساب کی ضرورت

آج پاکستانی قوم جس آزمایش میں مبتلا ہے‘ اس میں جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد‘  ان کے غم اور تکلیف میں شرکت‘ مریضوں کی تیمارداری اور علاج ‘ تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے‘ وہیں اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ استغفارو توبہ اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے‘ اور اس کی مغفرت اور رحمت کو دعوت دی جا سکے___ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر فرد اور ہر قوم کو معاف کرنے والا‘ گنہگاروں اور خطاکاروں کو اپنی مغفرت میں ڈھانپ کر اپنے الطاف و اکرام سے نوازنے والا ہے۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۹)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (التوبہ ۹:۱۰۴)

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

جن حالات سے آج ہماری قوم دوچار ہے ان میں صرف انفرادی توبہ و استغفار ہی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)

اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

اس وقت جب کہ پوری قوم ۸ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کے زیراثر غم اور خوف کی لپیٹ میں ہے‘ امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز بے حد ضروری ہے وہ رجوع الی اللہ‘ انفرادی اور اجتماعی احتساب‘ اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور اللہ سے وفاداری اور ان مقاصد کے لیے عزم نو کے اظہار کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور جس کا عہد ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے کیا تھا کہ ہم کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی سربلندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلنے کے لیے یہ آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

کیا آج اس سوال پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ ہم نے اللہ سے اپنے اس عہد کے ساتھ عملاً کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایک آزاد ملک سے نوازا اور ہم نے عملاً غیراسلامی قوتوں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت مسلمہ کی نشات ثانیہ کا نقیب بنایا اور ہم نے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلمان ممالک پر  فوج کُشی کی اور ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ نتیجتاً مسلمان ممالک میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور امن و چین تباہ ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو سود‘ سٹے‘ رشوت خوری‘ ناجائز منافع خوری‘ اور ظلم و استحصال کی آماج گاہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور صرف ایک دو فی صد عیش و عشرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو فکری اور تہذیبی غلامی کا آلہ بنا دیا ہے اور نئی نسل کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ فواحش کا بازار گرم ہے اور زنا بالجبر کے واقعات روز افزوں ہیں۔ عام انسانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں اور جن کا کام عام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت تھا‘ وہ خود جان اور مال کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور جن کے ذمے دفاع وطن کا مقدس فریضہ تھا‘ وہ چوکیدار کے بجاے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ بنیادی قومی امور پر بے دردی سے یوٹرن لیے جا رہے ہیں اور حکمرانوں اور قوم میں اعتماد اور ہم آہنگی کا تعلق ختم ہوگیا ہے۔ پھر بات صرف حکمرانوں‘ اہلِ سیاست‘ اصحابِ ثروت اور بااثر طبقات ہی کی نہیں کہ وہ تو ہر حد کو پامال کر رہے ہیں‘ اب تو بات پوری قوم کی ہے الا ماشا اللہ___ جب عموم بلوہ کی کیفیت ہو تو پھر اللہ کی گرفت کا تازیانہ کیوں حرکت میں نہ آئے۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں‘ یہی سنت الٰہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o

اس لیے ۸ اکتوبر کا پہلا اور سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری مدد اور تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ بسانے کی مطلوب کوششوں کے ساتھ استغفار‘ انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اس کے ساتھ اعمال اور پالیسیوں کے باب میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے وہ بیداری اور روشنی رونما ہوگی جس میں غفلت‘ بے راہ روی‘ اللہ سے نافرمانی‘ اللہ کے بندوں کے حقوق سے روگردانی‘ ظلم و استحصال‘ اور غیروں کی مغلوبیت اور محکومی کی تاریکیوں سے یہ قوم نکل سکے گی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی‘ امن وامان‘ صلح و آشتی‘ عدل وا نصاف‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خودمختاری‘ عزت و وقار اور انفرادی اور اجتماعی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔

مثبت اور منفی پھلو

۸ اکتوبر کے قومی سانحے پر جو ردعمل ملک کے طول و عرض میں رونما ہوا ہے‘ وہ بھی اپنے اندر غوروفکر کے بڑے اہم پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف سہمی ہوئی قوم نے فوراً اپنے رب کو پکارا۔ ہم نے بچشم سر یہ منظر دیکھا کہ جس وقت زمین لرز رہی تھی اور فلک بوس عمارتیں کانپ رہی تھیں‘ خاص و عام سب قبلہ رو ہو کر اللہ کو پکار رہے تھے اور اس سے حفظ و امان کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر جیسے جیسے تباہی کے آثار نمایاں ہوئے‘ فی الفور عام انسان‘ خصوصیت سے نوجوان‘ یونی ورسٹیوں‘ کالجوں‘ اسکولوں اور دینی مدارس کے طلبہ جوق در جوق اپنے تباہ حال بھائیوں اور بہنوں کی مدد کو دوڑ پڑے۔ خیبر سے کراچی تک بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ عام و خاص ‘ امیر و غریب‘ جوان اور بوڑھے سب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بے چین ہوگئے۔ عطیات بارش کی طرح برسنے لگے‘ ننگے ہاتھوں لوگ ملبے کو صاف کرنے‘ ملبے تلے دبے انسانوں کی جان بچانے‘ زخمیوں کو خون دینے‘ اور مر جانے والوں کی میتوں کو دفن کرنے میں کسی تخصیص کے بغیر تن من دھن سے لگ گئے۔ قوم نے آزمایش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے ایک نئے جذبے کا اظہار کیا___ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جس نے اس تاریک رات کو صبح نو کا پیغام دیا۔

لیکن اس ایمان افروز ردعمل کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جن کو سب سے پہلے اس قومی تباہی کا ادراک کرنا چاہیے تھا اور تمام وسائل کو بلاتاخیر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جھونک دینا چاہیے تھا‘ وہ تین دن تک حیص بیص کا شکار رہے۔ وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ کاروبار چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ ایک کور کمانڈر کہتے ہیں کہ کیوں واویلا کرتے ہو‘ مرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ وزیراعظم بھی غصے میں کہہ ڈالتے ہیں کہ میڈیا منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں پہلے دن مارگلہ ٹاور کا ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین میسرآسکی۔ برطانیہ اور جاپان سے تیزرفتار ایمرجنسی فورس ۲۴ گھنٹے میں پہنچ گئی مگر فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن اور کراچی سے مدد آنے میں تین دن لگ گئے۔ اسپین کی ریسکیو ٹیم ۲۴ گھنٹے میں آگئی مگر ایئرپورٹ پر ۴۸ گھنٹے انتظار کرتی رہی۔

بحران سے نمٹنے (Crisis Management) کے باب میں اپنے قومی افلاس اور  بے بسی کا منظر ہر دیکھنے والے کے لیے سوہانِ روح تھا۔ ہمارے پاس وہ آلات نہیں جن سے کنکریٹ کو چیرا جا سکے‘ زندوں کا پتا لگایا جا سکے‘ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکے۔ پولیس اور فوج تک کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ فائربریگیڈ دنیا بھر میں ایسی ایمرجنسی کے لیے ہر قسم کے آلات اور تربیت یافتہ افراد سے آراستہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ ۱۹۵۲ء کا سول ڈیفنس ایکٹ موجود ہے‘ ۱۹۵۸ء کا مغربی پاکستان کا National Calamities (Prevention and Relief) Act کتابِ قانون کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۰ء میں قومی بحرانوں سے نمٹنے کا ایک مرکز‘ مرکزی وزارت داخلہ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر سربراہ بھی ہے۔ پانچ سال سے نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ ایجنسی کا منصوبہ سرکاری فائلوں میں گردش کر رہا ہے جس کے لیے UNDP نے ۱۵ کروڑ ۵۰ لاکھ کا بجٹ (پانچ سال کی مدت کے لیے) طے بھی کیا ہوا ہے مگر یہ سب کاغذوں پر ہیں اور مصیبت اور آزمایش کے وقت بچائو کی معمولی کارروائی کے لیے بھی ننگے ہاتھوں پر انحصار کرنا پڑا یا بیرونی امداد پر!

یہ ہے قومی سطح پر ہماری تیاری کی کیفیت۔ اہم شاہ راہیں اگر بند ہوجاتی ہیں تو ہمیں ان کو کھولنے کے لیے ہفتوں اورمہینوں کی ضرورت ہے اور وہ انسان جو ان نامساعد حالات کی گرفت میں آجائیں ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک تریاق عراق سے آئے سانپ کا ڈسا اللہ کو پیارا ہوجائے!

قوم نے اربوں روپے‘ قرض کا بوجھ سر پر اٹھا کر‘ فوج پر خرچ کیے مگر اس کے پاس اتنے ہیلی کاپٹر بھی نہیں کہ کچھ علاقوں میں مؤثر امدادی کام انجام دے سکیں۔ وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو ہیلی کاپٹروں کی کمی نہیں لیکن آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کے لیے چندہیلی کاپٹر سے زیادہ ہم فراہم نہیں کرسکے۔ بلاشبہہ تباہی بہت عظیم اور غیر متوقع ہے مگر کسی درجے میں تو قوم اور اس کے کلیدی اداروں کو ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس حادثۂ فاجعہ نے ہماری اس کمزوری کو بالکل طشت ازبام کر دیا اور سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ Emperor has no clothes (بادشاہ سلامت بے لباس ہیں)۔

بات صرف نظام‘ اس کے اداروں‘ اور ذمہ داری پر فائز افراد کار ہی کی نہیں___ کرایوں میں اضافے‘ اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے‘ ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کے بدن سے اور اجڑے ہوئے گھروں سے قیمتی سامان اور زیورات کی چوری‘ امدادی سامان کی لوٹ مار‘ حتیٰ کہ پولیس کے کارندوں کا ان قبیح کارروائیوں میں ملوث ہونا___ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک طرف خیر اور خدمت کا عوامی جذبہ‘ دوسری طرف ذمہ داروں کی غفلت اور معاشرے کے کچھ عناصر کا ان حالات میں بھی ایسے گھنائونے کردار کا مظاہرہ___  ہماری اجتماعی زندگی کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ شر کی قوتوں کو قابو کرنے اور خیر کی قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے آج بھی حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنوں ہی نے نہیں ‘غیروں نے بھی اس تضاد کو دیکھا اور عالمی صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں کیا۔ تصویر  کے دونوں رخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے منفی پہلو کو اس لیے بیان کیا کہ اس سے  صرفِ نظر ممکن نہیں لیکن ہم مثبت پہلو کو روشنی کی اصل کرن سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کے اس جذبے اور رویے کو صحیح طریقے پر منظم اور متحرک کیا جائے تو اس عظیم تباہی سے مستقبل کے لیے خیرکثیر کے سرچشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر عرض کریں گے کہ عوامی سطح پر جس طرح ملک کے ہر طبقے نے ایثار و قربانی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا اور لوگوں نے انفرادی طور پر اور دینی‘ سماجی اور پروفیشنل تنظیموں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جماعت اسلامی اور مجاہد تنظیموں‘ خصوصیت سے حزب اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے جس طرح اپنے دکھ کو بھول کر اپنے دکھی بھائیوںاور بہنوں کی خدمت کی‘ وہ روشنی کا مینار ہے۔

ابتدائی غفلت کے بعد سرکاری ادارے اور فوج بھی حرکت میں آگئی‘ گو اب تک ان کی کارکردگی توقعات سے بہت کم رہی ہے لیکن جتنا کام بھی وہ اب کر رہی ہیں‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے‘ لیکن ضرورت کا عشر عشیر بھی ابھی پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ جامع منصوبہ بندی کا فقدان‘ ضروری ٹکنالوجی اور صلاحیت کی کمی‘ اور فوج‘ سول حکومت‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور نجی خدمتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی ہے جس کا جلد از جلد تدارک ہونا چاہیے۔

بے شمار افراد نے انفرادی طور پر اور دینی اور سماجی اداروں نے‘ خصوصیت سے ان اداروں کی جن کی اساس اسلامی بنیادوں پر ہے‘ بڑی جاں فشانی سے خدمت انجام دے کر ایک روشن مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کو اٹھانے والی اصل قوت اسلام اور جذبہ خدمت ہے۔

مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں

ہم نے جن دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہزاروں انسانوں نے ان چند ایام میں کیا ہے اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ اس تضاد کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہم ملکی اور غیرملکی مبصرین کی چند آرا کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

اکانومسٹلکھتا ہے:

یہ ۱۱؍اکتوبر کے بعد ہوا کہ فوج نے قصبوں سے باہر پھیلنا شروع کیا… اس تباہی پر حکومت کے سست ردعمل پر ایک غصے کی کیفیت تھی۔ بالاکوٹ میں جہاں ۱۰ اکتوبر کو سڑکیں کھولی جاسکیں‘ لوگوں نے شکایت کی کہ فوج نے پہلا دن اپنے کیمپ قائم کرنے میں صرف کیا۔ مظفرآباد میں ایک چار منزلہ ہوٹل کے مالک نے‘ جو اب محض ایک کھنڈر تھا‘ بتایا کہ تین دن تک فوج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس تباہ شدہ ہوٹل میں اب ۵۰لاشیں دفن ہیں۔ لٹیروں نے ان کی جیبوں کو خالی کر دیا۔ صاف دکھ رہا ہے کہ فوج نے آغاز کرنے میں بہت سستی سے کام لیا۔ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب سے تازہ دم جوانوں کی دو ڈویژن نے کشمیر اور سرحد میں آنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی اور سول اتھارٹیز کے درمیان خراب رابطے کی شکایت کی۔(۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۲۳)

نوائے وقت کا نمایندہ مظفرآباد کے حالات کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

مظفرآباد کا پورا علاقہ قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی بے حسی‘ لاقانونیت اور ہرطرف افراتفری نے لوگوں کو عدمِ تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بے گھر لوگ اپنے گھروں کے ملبے‘ سڑکوں‘چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں بغیر ٹینٹ کے چادروں میں گزارا کر رہے ہیں۔ ہر طرف مسلح نوجوانوں کی ٹولیاں پھرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوف‘ پستول‘ بندوقیں اور ڈنڈے ہیں۔مستحقین کا امدادی سامان جہاں نظر آتا ہے‘ لوٹ لیتے ہیں۔ مظفرآباد شہر میں ڈاکوئوں کے گروہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں‘ جب کہ فوج نے بھی ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے۔ (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

لندن کے دی ٹائمز نے اپنی ۱۵ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہونے والے اداریے میں مسائل کا یوں ذکر کیا ہے:

ٹیلی ویژن پر زلزلے کی خبر کے بعد باغ کے کسی آدمی نے حکومت کی طرف سے اگر کوئی امداد دیکھی ہے تو وہ تباہی کے تین دن بعد تھی۔ کسی وقت کے اس خوش حال چھوٹے سے قصبے کے لوگ آزاد کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ باغ کے ایک دکان دار عبدالرزاق نے کہا: حکومت ٹیلی ویژن پر مدد دکھارہی ہے۔ ہم نے تو پانی کا ایک قطرہ‘ کوئی دوائی یا غلے کا ایک دانہ بھی اپنی طرف آتے نہیں دیکھا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جہاں یہ منفی پہلو ہیں جن کا مؤثر سدباب ہونا چاہیے‘ وہیں مثبت پہلو بھی ایسے ہیں جو امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بی بی سی اور دی نیوز کا نمایندہ اور مشہور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سرحد کے حالات کا یوں نقشہ کھینچتا ہے:

صوبہ سرحداور آزاد کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے اسلامی اور دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ایک شدید لیکن بیشتر صحت مند مقابلے میں مصروف ہیں۔ بالاکوٹ میں تقریباً ۲۰ تنظیموں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا اور وہ نظر بھی آتے تھے جو زلزلہ زدگان کے لیے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی اکثریت‘ یعنی ۱۲ اسلامی ہیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی تباہ شدہ بالاکوٹ کے بازار میں ایک بینر لگایا تھا لیکن ان کے رضاکار کوئی کام کرتے نظر نہ آئے۔ بالاکوٹ میں جن اسلامی تنظیموںنے کیمپ لگائے‘ ان میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ‘ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) کا الرحمت ٹرسٹ‘ امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘ جماعت الدعوۃ‘ جامعہ فریدیہ‘ لال مسجد اسلام آباد اور جہادی گروپ حزب المجاہدین اور جیش محمد شامل ہیں۔ بعض چھوٹی اسلامی تنظیموں نے بھی بینر لگائے تھے اور امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ پھر رہے تھے جو ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے بھیجے تھے۔

الرحمت ٹرسٹ کے منتظم نوید مسعود ہاشمی نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب المجاہدین اور جیش محمد کے ارکان ۸ اکتوبر کی صبح زلزلے کے بعد نہ صرف بالاکوٹ بلکہ آزاد کشمیر کے دوسرے مقامات پر بھی ریسکیو آپریشن کا سب سے پہلے آغاز کرنے والوں میں سے تھے۔ ان گروپوںسے وابستہ مجاہدین علاقے میں موجود تھے اور اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوسروں سے پہلے پہنچ پائے۔ انھوں نے تباہ شدہ مکانات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاکر جانیں بچائیں۔ اس نے بتایا کہ بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد یا باغ‘ ہر جگہ حالات مختلف تھے۔ لیکن کوئی غیرجانب دار نمایندہ دیکھ سکتا تھا کہ زلزلے کے متاثرین کو امداد پہنچانے میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ دیکھنے ہی سے یقین آتا ہے‘اور ہم رپورٹروں اور سیاست دانوں اور قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور جائزہ لیں کہ کون متاثرین کی خدمت کر رہا ہے اور کون صرف شور مچا رہا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے ارکان بالاکوٹ سے آگے مختلف پہاڑوں کے درمیان منتشرآبادیوں میں ان کے گائوں میں پہنچ چکے ہیں تاکہ ان کو امداد پہنچائیں۔

عوام کے اس مثبت رویے کا اعتراف سیکولر طبقے کے سرخیل The Friday Times (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بھی اپنے ادارتی کالم میں کیا ہے اور ایک برطانوی رپورٹر کی یہ رپورٹ نقل کی ہے جو ملاحظے کے لائق ہے:

کترینا کے بعد اور نیو آرلینز سے مقابلہ و موازنہ اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جب حکومت کی امداد نہیں پہنچی تو مسلح لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر آگئے اور بچنے والوںکو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ دوسری طرف پاکستان میں پورے ملک سے لوگ مدد پہنچانے کے لیے آگئے۔ انھوں نے اپنے کام چھوڑ دیے‘ کچھ نے لفٹ لی اور ٹرکوں اور منی بسوں کے ساتھ خطرناک انداز سے لٹک کر انتہائی خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے‘ جب کہ نیچے وادی میں جھانکنے پر خوف آتا تھا‘ مدد کو پہنچ گئے۔ دوسرے پہاڑوں پر سورج کی تپش میں گھنٹوں پیدل چلے‘ جب کہ وہ مسلمانوں کے روزوں کے مہینے رمضان کی وجہ سے پانی بھی نہ پیتے تھے۔ پاکستان کے عظیم عوام کو اتنے شدید حالات میں اس بڑے پیمانے پر جذبۂ انسانیت کے مظاہرے سے زیادہ خراجِ تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا۔

عالمی برادری کی مدد بھی ایک قابلِ قدر پہلو ہے اور اس میں مسلم ممالک اور مغربی اقوام دونوں نے حصہ لیا ہے۔ امریکا کی شرکت اس کے وسائل اور اس کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خدمات کے پس منظر میں نہایت مایوس کن ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھی حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

جن اقوام اور اداروں نے کھلے دل سے مدد کی ہے‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے اور قوم ان سب کی شکرگزار ہے لیکن یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی قوتوں کی عوامی خدمت‘ قربانی اور امتحان کی گھڑی میں تاریخی کردار کو مغربی میڈیا جس انداز میں پیش کر رہا ہے‘ وہ بڑا افسوس ناک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۶ اکتوبر کی اشاعت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ عنوان ہے: Extremists Fill Aid Chasm after Quake ۔ پورا مضمون زہرسے بھرا ہوا ہے‘ صرف چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جو قوم کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔

مظفرآباد (پاکستان‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) فوج ردعمل دینے میں سست رہی اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں بعض حالات میں ابھی آغاز ہی کر رہی تھیں‘ لیکن یہاں پاکستان کے زلزلے کے علاقے کے قلب میں ملبے اور بارش کے اندر جماعت الدعوۃ جو ملک کی سب سے نمایاں انتہاپسند گروپ ہے‘ کے پرجوش مجاہد نظر آرہے تھے۔

دریاے نیلم کے قریب ایک ڈھلوان پر اس گروپ نے ایک بڑا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس میں ایکسرے مشین‘ شعبہ دندان سازی‘ عارضی آپریشن تھیٹر‘ حتیٰ کہ آنے والے صحافیوں کے لیے ایک خیمہ بھی موجود ہے۔ ڈسپنسریوں میں عطیہ کیے ہوئے انٹی بائیوٹک‘ دافع درد ادویات اور دوسرے طبی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے شہر مظفرآباد میں ہفتے کی صبح جو دوسرے گروپ موجود تھے‘ ان میں جماعت اسلامی کا خیراتی شعبہ ہے جو ایک اسلامی سیاسی پارٹی ہے جس کی فلسطین کے جنگجو گروپ حماس سے نظریاتی وابستگی ہے‘ اور الرشید ٹرسٹ‘ کراچی کا ایک خیراتی ادارہ ہے جس کے امریکی اثاثے بش انتظامیہ نے اس بنیاد پر ضبط کر لیے تھے کہ یہ القاعدہ کو فنڈ پہنچاتے ہیں۔ گروپ نے الزام کو مسترد کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف سماجی بہبود تک ہی محدود ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے John Lancestor کے خبثِ باطن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جماعت اسلامی کا ذکر حماس سے اس کے نظریاتی رشتے کے بغیر اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے اور وہ ۱۹۴۱ء سے برعظیم میں سرگرمِ عمل ہے۔

قوم کے بڑے حصے نے اور خصوصیت سے اسلامی تنظیموں اور اداروں نے جس طرح اس قومی آزمایش میں کردار ادا کیا ہے‘ وہ اچھے مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ضرورت ہے کہ تمام اسلامی اور اصلاحی قوتیں مل کر تعمیرنو کا کام اخلاقی جذبے اور نظریاتی تعلیم اور بیداری کے ساتھ انجام دیں۔

مستقبل کا نقشہ

آخر میں ہم مستقبل میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی غفلت‘ کوتاہیوں اور جانب داری کے باوجود جس قومی یک جہتی اور سیاست سے بالا ہو کر خدمت اور وسیع تر ملکی اور ملّی مفاد کی خاطر ایک مثبت قومی رویے کا اظہار کیا ہے ‘وہ بہت قابلِ قدر ہے اور اسے ہر قیمت پر باقی رہنا چاہیے۔ لیکن  اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اپنا رویہ بدلیں۔ اس نازک وقت اور مصیبت کے اس لمحے میں بھی ان کی ساری مساعی اپنی ذات اور فوج کے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سول حکومت‘ کوئی دستوری ادارہ‘ کوئی پارلیمنٹ ملک میں موجود نہیں۔ بس جنرل صاحب اور فوج ہی ساری کرتا دھرتا ہے اور اب تو کھل کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بحران سے ملک کو نکال سکتا ہے جب کہ ہر اعتبار سے‘ فوج کی سیاست اور سول معاملات میں کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن رہی ہے۔ تعمیرنو کا کام فوج کا نہیں‘ سول دستوری نظام کا ہے۔ اس بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر تو بالکل واضح اور  مبنی برحق ہے۔ لیکن جنرل صاحب کے امریکی سرپرست بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں ایان بریمر (Ian Bremmer) کا تبصرہ جنرل صاحب کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ لکھتا ہے:

یونان‘ ترکی اور انڈونیشیا میں ایک بڑی بنیادی بات مشترک ہے‘ یہ جمہوریتیں ہیں۔ ان کے رہنما عوام کی مرضی سے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ایسا کوئی عوامی جوازحاصل نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی جنرل ہیں جنھیں فوج کے زیرحکمرانی ریاست میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیںجن کا مینڈیٹ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک سمجھوتے پر منحصر ہے۔(۱۲ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جنرل صاحب جتنی جلد ان حقیقی زمینی حقائق کا ادراک کرلیں‘ اتنا ہی ان کے لیے‘ بحیثیت ایک قومی ادارہ  فوج کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک اور اس کے دستوری نظام کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ فوری امداد کے کام میں فوج جو بھی مفید کردارادا کرے‘ لیکن مستقبل کے تعمیرنو کے پورے پروگرام کو پارلیمنٹ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ اسے سول نظام کے تحت انجام دیا جانا چاہیے اور سول نظام میں اس انفراسٹرکچر اور مردان کار کی تربیت (capacity building) کا پورا اہتمام ہونا چاہیے جو ایسے نظام کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ مقامی اور علاقائی سیاست سے بالا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مناسب کوارڈی نیشن (باہمی موافقت اور تعاون) ہو اور صوبائی اسمبلی اور حکومت کے توسط سے ایک بااختیار ادارہ صوبہ سرحد کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے قائم کیا جائے اور دوسرا آزاد کشمیر کے لیے ۔ مستقل بنیادوں پر مرکزی سطح پر ایک نظام تشکیل دیا جائے جس میں فیڈریشن اور تمام صوبوں کو مؤثر نمایندگی حاصل ہو‘ نیز کل جماعتی بنیادوں پر اس میں پارلیمنٹ کی نمایندگی ہو۔

چند قابل توجہ امور

دیگر قابلِ توجہ امور یہ ہیں:

۱-  جو بیرونی امداد وصول ہوئی ہے یا آیندہ ہوگی‘ اس کے استعمال پر مناسب پارلیمانی نگرانی ضروری ہے جس کے لیے سرکاری جماعت کے نمایندوں کے ساتھ تمام اہم اپوزیشن جماعتوں کی نگرانی و احتساب کا اہتمام ہونا چاہیے۔

۲- سول حکومت اور عوامی سماجی اداروں کے درمیان ربط اور کوارڈی نیشن کی شدید ضرورت ہے جسے شراکت باہمی کے کسی اصول پر منظم ہونا چاہیے۔ مسلسل عوامی شرکت اور اعتماد کے بغیر اس گمبھیر چیلنج کا مؤثر جواب مشکل ہے۔

۳-  درجہ وار منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ فوری مدد کا ہے جو کم از کم تین چار ماہ پر محیط ہوگا۔ اس میں راستوں کا کھولنا اور انھیں برقرار رکھنا نیز بجلی‘ پانی اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ رہایش کا فوری انتظام اور ہر قسم کی مناسب سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ تعمیرنو کا ہے یعنی کئی شہروں کو آباد کرنا‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی‘ صحیح جگہ کا انتخاب‘ زلزلوں اور دوسرے خطرات کا اندازہ کرکے تعمیر کے لیے صحیح اصول و ضوابط کی تیاری اور ان کے نفاذ اور سختی سے جائزے کا انتظام۔ اس منصوبے میں رہایش‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ رسل و رسائل‘ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے مربوط اسکیموں کی ضرورت ہوگی جنھیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان علاقوں اور ان کے متاثر افراد کی مناسب وقت میں خود کفالت اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا بندوبست ہوسکے۔ نیز یہ سارا کام کم سے کم رقم میں کیا جائے۔

۴-  ایک بڑا مسئلہ زخمیوں اور خصوصیت سے ان ہزاروں افراد کا ہے جو اعضا سے محروم ہوکر مستقل معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے بالکل الگ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

۵-  اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ بچوں کا مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ۵۰‘ ۶۰ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس سے قومی ایمرجنسی کی سطح پر ہی نبٹا جا سکتا ہے۔

۶-  تعمیرات کا کم تر معیار ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ سڑکوں کا رونا تو مدت سے رویا جا رہا تھا۔ اب سرکاری عمارتوں (اسکول‘ ہسپتال) کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ صرف صوبہ سرحد میں ۸ ہائی اسکول اور ایک ہزار ہسپتال زمین بوس ہوگئے۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کا معاملہ بھی ایک اسکینڈل بن چکا ہے۔ اس پورے مسئلے کو بہت سائنسی انداز میں لینا ہوگا اور تعمیرات کے قواعد و ضوابط کے پورے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

۷-  قومی سطح پر تباہی کو روکنے اور بحرانوں سے نمٹنے کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ فائر بریگیڈ‘ اسکائوٹس‘ این سی سی‘ سول ڈیفنس اور خصوصی دستوں  کی ٹریننگ اور ان کے لیے ضروری آلات و اوزار اور جدید ترین تکنیکی سہولتیں ضروری ہیں۔

۸-  ایسے حادثات کے بعد وبائوں کا پھوٹ پڑنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کی     پیش بندی نیز علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو بھی اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔

۹- ہمہ پہلو بدعنوانی اور کرپشن ایک قومی ناسور ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں ۷۰ فی صد اور سول حکومتوں میں ۵۰ فی صد بدعنوانی کی بات عام ہے۔ فوج بھی اب اس بیماری سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ تعمیرنو کے کام میں بڑا خطرہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سارا منصوبہ خاک میں مل جائے۔ اس لیے اس مسئلے کا کھل کر سامنے کرنے اور مناسب نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہر کام میں اور ہر مرحلے پر اخلاقی تربیت‘ دیانت داری کے اہتمام‘ احتساب اور نگرانی کے مؤثر نظام اور حقیقی  شفافیت کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادی وسائل کا استعمال اخلاقی ضابطوں کی حدود میں ہو اور دیانت داری کو صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ضروری صفت قرار دیا جائے۔ نیز حکومت‘ سول سوسائٹی اور عوام سب اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور سب سے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ کام انجام دیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جائے‘ قانون اور ضابطے کی حکمرانی کو حقیقت بنایا جائے‘ کھلی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے کا   ذمہ دار ہو اور کسی ایک ادارے کو سب پر مسلط کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قانونی احتساب کے ساتھ عوامی احتساب کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی جواب دہی سے بالا نہ ہو اور کسی غلط کار کے بچ نکلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

اگر ۸ اکتوبر کا زلزلہ ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے پر اختیار کرنے کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔  صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو ہماری دنیا کو سنوار سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔