سوال: میں ایک مقامی گورنمنٹ کالج میں ملازم ہوں۔ کالج میں آج کل غیرشرعی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے پریشان رہتی ہوں اور اب آپ سے مشورہ طلب کر رہی ہوں۔
آج کل حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت کم گرانٹ دے رہی ہے۔ اس لیے کالج کی انتظامیہ اخراجات کے مسئلے پر بہت مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ کالج انتظامیہ جب اخراجات کی زیادتی اور فنڈز کی کمی کی شکایت کرتی ہے تو ڈائریکٹریٹ سے جواب ملتا ہے ورائٹی شو اور مینابازار کروا لو۔ اس طرح گرلز کالجوں میں فنڈ ریزنگ کے نام پر ورائٹی شو‘ مینابازار‘ میوزک فیسٹیول اور کلچرل شو تقریباً ہر دوسرے چوتھے دن کے مسائل بن چکے ہیں جس سے ایک طرف تو ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف طالبات میں بے راہ روی پھیلتی ہے‘ اور نادار طالبات پر بوجھ بھی ہے۔ ان مینابازاروں اور کلچرل شوز میں عموماً آدھے اسٹال باہر کے مردوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ پھر مردوں والے اسٹالوں پر زیادہ رش ہوتا ہے اور آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں ناچ گانا‘ ڈانس‘ ہوٹنگ‘ چیٹنگ‘ فوٹوسیشن وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے۔ دین دار اساتذہ کو ایسی ڈیوٹیاں انجام دینے پر سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے۔
ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ میراتھن ریس کی ناکامی کے بعد حکومت نے خواتین کے میچوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس میں بھی کئی قباحتیں ہیں۔ جبری ڈیوٹی سے انکار پر محکمانہ کارروائی کا خوف دلایا جاتا ہے۔کیا ہمارے لیے کسی حد تک ان ڈیوٹیوں کی گنجایش نکلتی ہے؟ ہم بارِ گناہ و جرم سے اپنے آپ کو کس حد تک سبکدوش سمجھ سکتے ہیں؟
جواب :تعلیمی اداروں میں چندہ جمع کرنے کے لیے ورائٹی شو منعقد کرنا لادینی تہذیب کی ایک حکمت عملی ہے اور قیام پاکستان سے آج تک برسرِاقتدار طبقے نے ہمیشہ ایسے کاموں کی حمایت ہی کی ہے‘ الا ماشاء اللہ۔ لیکن کسی برائی کا مسلسل کیا جانا نہ اسے حلال کر دیتا ہے اور نہ اس کی خرابی میں کمی کرتا ہے۔ قرآن کریم نے ایسی برائیوں کی جاے ارتکاب پر سے الگ سے گزر جانے کا حکم دیا ہے اور لغو سے مکمل طور پر بچنے کی تلقین کی ہے۔ اس لیے ایک باشعور مسلمہ کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ ایسے کسی کام میں تعاون سے بچے۔
اس اصولی موقف کی وضاحت کے بعد زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ضرر اور منکر کو رفع کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ ایک معلمہ اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے پرنسپل کو تحریری یا زبانی طور پر مطلع کر دے کہ اس کی تدریسی ذمہ داری میں خلاف اسلام ورائٹی شو کروانا شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے اس سے رخصت دے دی جائے۔ اگر انتظامیہ معقول ہو تو اسے اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا میں ویت نام کی جنگ کے موقع پر غیرمسلم عیسائی اور دہریہ امریکیوں میں سے بعض نے حکومت کی جبری بھرتی میں جانے سے محض اپنے ضمیر کی بنا پر انکار کیا اور بعض نے ملک چھوڑنا اور بعض نے جیل میں جانا پسند کیا لیکن جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس صورت حال میں جیساکہ آپ نے لکھا ہے‘ یہ امکان ضرور رہتا ہے کہ انتظامیہ بعض قوانین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے ایسے کسی فرد کو فارغ کر دے یا احکام کی حکم عدولی کی بنیاد پر کوئی کارروائی کر ڈالے۔ گویا اس حکمت عملی میں ملازمت سے فارغ کیے جانے کا خطرہ لازماً رہے گا۔
دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ وہ معلمات جو اس سرگرمی کو غلط سمجھتی ہیں دیگر معلمات سے تبادلۂ خیال کریں اور اس کے مضر پہلوئوں پر انھیں قائل کرنے کے بعد سب مل کر متبادل طریقے تلاش کریں جن سے فنڈ بھی مل سکے اور سرگرمی اسلامی اصولوںکے منافی نہ ہو۔ اس غرض کے لیے باہمی مشاورت سے ایسے پروگرام سوچے جائیں جن میں کھانے پینے کی اشیا کی فروخت‘ جیسے bakesale ہوتی ہے‘ کے ذریعے فنڈ پیدا کیا جائے اور اسٹال صرف خواتین لگائیں‘ مردوں کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہو۔ اس کے لیے باہمی مشورے سے شرائط وغیرہ تیار کی جائیں اور ایک جائز طریقے سے فنڈز کا حصول ممکن بنایا جائے۔
اس کے ساتھ اخبارات میں کالم اور خطوط کے ذریعے راے عامہ کو کالج اور اسکول کے اس مسئلے سے مطلع بھی کیا جائے اور اسے تیار بھی کیا جائے۔ اگر معلمات کی کوئی مقامی یا مرکزی تنظیم ہو تو وہ اس مسئلے پر علمی مکالمے کاانتظام کرے تاکہ انتظامیہ کو مختلف نقطہ ہاے نظر سننے کا موقع ملے اور وہ اسے کوئی سیاسی رنگ دے کر چند ایسے افراد کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہ ہو جن پر ’’ملائیت‘‘ کی چھاپ جب چاہیں لگا سکتے ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اگر تمام مثبت کوششوں اور ابلاغ کے ذریعے اپنے مؤقف کی وضاحت کے باوجود آپ کو کامیابی نہ ہو تو کم از کم ایک برائی کو دُور کرنے کی کوشش کا اجر آپ کو ضرور ملے گا۔ ہاں‘ اگر حالتِ اضطرار میں‘ یعنی مجبوری کی شکل میں جب آپ کے پاس حلال طور پر حصول رزق کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہوئے اور اپنی حد تک برائی کو برائی قرار دیتے ہوئے‘ ایسی سرگرمی میں حصہ لیں۔
جہاں تک معاملہ طالبات کے دوڑ میں حصہ لینے‘ کرکٹ میچ‘ یا کھیلوں میں حصہ لینے کا ہے‘ اگر ایسا پروگرام کسی ایسے مقام پر کیا جا رہا ہے‘ جہاں طالبات مردوں کی نگاہوں سے محفوظ ہیں اور ان کے لباس ساتر ہیں تو دوڑنا بجاے خود کوئی غیرشرعی فعل نہیں ہے لیکن یہی کام اگر غیرساتر لباس اور مردوں کی موجودگی میں کیا جائے تو اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس سلسلے میں بھی معلمات اور طالبات میں راے عامہ کو ہموار کرنا‘ انھیںاسلامی حدود میں رہتے ہوئے سرگرمی کرنے پر اُبھارنا اور غیراسلامی طریقے کا رد کرنا آپ کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے دعوتی انداز میں حکمت عملی وضع کرنا ہوگی محض غصہ اور نفرت کے اظہار سے مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ طالبات کی جانب سے بھی اس پر رائے کا اظہار اجتماعی طور پر ہونا چاہیے لیکن اس سے قبل آپ کو کوشش کر کے طالبات اور معلمات کے ذہن کو اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ وقت کی قید سے آزاد ہوکر اور جلد نتائج پیدا کرنے سے بچتے ہوئے ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے صبرواستقامت ہی واحد ذریعہ ہیں۔ یہ جہاد ہمارے ملک کی ہر باشعور معلمہ کو کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ایسے کاموں میں برکت پیدا کرے گی‘ان شاء اللہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)