جمہوریت نے تو عوام کی پسند اور ناپسند کو معیاری حیثیت دینے کا کارنامہ دور جدید میں انجام دیا ہے اور اب راے عامہ کے عالمی جائزے اس کا ایک اہم پیمانہ بن گئے ہیں‘ لیکن انسانی ضمیر نے ہمیشہ عوام کے جذبات و احساسات کو ہوا کا رخ جاننے اور بھلے اور برے میں تمیز کرنے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ پرانی کہاوت ہے ؎
زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو
برا کہے جسے دنیا اسے برا سمجھو
پچھلے دو ماہ میں ایسے کئی اہم جائزے سامنے آئے ہیں جن کے آئینے میں امریکا کی موجودہ قیادت‘ خصوصیت سے صدربش اور ان کی نیو کون (Neo-Con) ٹیم کے بارے میں اور اس سے بھی زیادہ امریکا کی جاری پالیسیوں کے بارے عالمی راے عامہ اور دنیا کے چوٹی کے تھنک ٹینکس کی حالیہ سوچ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آج صدر بش دنیا کی واحد سوپر پاور کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ اور ان کے انتہاپسند حواری دنیا پر بزعم خود جمہوریت مسلط کرنے کے داعی ہیں بلکہ اس کے لیے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کے یہ علم بردار ایک لمحہ توقف کرکے اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جن پر وہ ’’جمہوریت‘‘ نازل کرنا چاہ رہے ہیں‘ وہ خود بش صاحب اور امریکا کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔
امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد سے امریکا میں راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ صدر بش کی مقبولیت کا گراف خود امریکا میں مسلسل نیچے جارہا ہے اور تازہ جائزوں کے مطابق ۶۱ فی صد آبادی اب ان سے‘ ان کی کارکردگی سے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے مایوس ہے۔
اس سے زیادہ دل چسپ اور چشم کشا نتائج اس سروے کے ہیں جس میں دنیا بھر سے ۱۵ہزار افراد نے شرکت کی اور جس کا اہتمام بی بی سی نے کیا تھا اور جسے power play game(اقتدار کا کھیل) کا نام دیا گیا تھا۔ ان ۱۵ ہزار افراد نے ایک باہمی عمل کے ذریعے عالمی راے کی روشنی میں ۱۱ افراد کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا جو دنیا کی صحیح رخ پر قیادت کرے اور انسانی مسائل کو حل کرسکے۔ اس جائزے کے نتیجے میں جن ۱۱افراد کا انتخاب ہوا ان میں سرفہرست جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ بل کلنٹن نمبر۲ پر ہیں اور کوفی عنان گیارھویں ہیں۔ دل چسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں کسی اور سیاست دان کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جن افراد کو مذہبی قیادت فراہم کرنے کی نسبت حاصل ہے ان میں سے دو اس میں آسکے ہیں‘ یعنی دلائے لاما اور آرچ بشپ ڈیسمونڈ ٹوٹو۔ مؤخرالذکر کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے ہے اور وہاں کے Truth Commissionکے سربراہ تھے۔ امریکی پالیسیوں کے ناقد نوم چومسکی کو اس ٹیم میں نمبر۴ پر شریک کیا گیا ہے۔ باقی پانچ افراد کا تعلق IT اور عالمی مالیات سے ہے۔ جارج بش کا نمبر ۴۳ ہے‘ جب کہ ان کے دو بڑے ناقد ہیوگوشاواز اور فیڈل کاسترو نے ۳۳ ویں اور ۳۶ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جائزے میں ۱۰۰ میں صرف ایک مسلمان کا نام آتا ہے اور وہ ہے اسامہ بن لادن جس کا نمبر ۷۰ واں ہے۔ بش کے ناقدین میں امریکا کا مشہور صحافی اور مصنف مائیکل مور بھی ہے جس کا نمبر ۱۵ ہے‘ یعنی بش سے ۲۸ منزلیں اوپر ہے۔
راے عامہ اور تحقیق کے امریکی ادارے Pew اور گیلپ کے تمام جائزے بھی ایسی ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں امریکا کی قیادت اور پالیسیوں سے بے اطمینانی کا اظہار ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کر رہی ہے اور عالمِ اسلام میں یہ بے زاری اور نفرت ۷۰ سے ۹۲ فی صد تک ہے۔
راے عامہ کے تمام جائزے تسلسل کے ساتھ عالمی ضمیر کا جو فتویٰ پیش کر رہے ہیں‘ اس کی توثیق ایک ایسے ادارے کی طرف سے بھی ہوئی ہے جس کے بارے میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کے اعلانات سے بھی ہوا کا یہی رخ سامنے آئے گا۔ ہماری مراد ہے سویڈن کے نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی عالمی کمیٹی۔ گذشتہ دو ہفتوں میں دو اہم ایوارڈ جن شخصیات کو دیے گئے ہیں‘ وہ بھی اسی رخ کی تائید کرتے ہیں۔ پہلا امن کا نوبل انعام ہے جو ویانا کی عالمی ایٹمی توانائی کی اتھارٹی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر البرادی کو ملا ہے جس سے بش اور امریکا اتنے خفا تھے کہ اس کی مدت میں توسیع کی سرتوڑ مخالفت کر رہے تھے اور اس میں ناکام رہے۔ البرادی نے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں (WMD's) کے امریکی ڈھونگ میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور اتھارٹی کے انسپکٹر برٹس (Brits) نے امریکا کو انسپکشن ٹیم کے سارے کام کو سبوتاژ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔ البرادی کو امن کا انعام ملنا صدر بش اور امریکا کی موجودہ قیادت کے منہ پر ایک طمانچا تھا اور امریکی قیادت اس پر اتنی جزبز ہوئی کہ کمیٹی کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا فیصلہ معروضی حقائق پر مبنی تھا اور اسے کسی کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔
ابھی امریکا کی قیادت اس زخم کو چاٹ رہی تھی کہ نوبل کمیٹی نے ایک اور بم گرا دیا۔ اس سال ادب کا نوبل انعام برطانیہ کے ادیب اور ڈراما نویس ہیرلڈ پنٹر (Harold Panter) کو دیا گیا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر ویسے تو مشہور ادیب ہے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی سے اسے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا ڈراما The Birthday Party ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا تھا اور اسٹیج بھی ہوا لیکن گذشتہ ۱۰ برس سے اس کی شہرت ڈراموں سے بھی زیادہ اس کے سیاسی بیانات اور سرگرمیوں کی بنا پر ہے۔ بلاشبہہ اس کے ڈراموں میں بھی سیاسی رنگ موجود ہے۔ دنیا کے بے سہارا اور مجبور انسانوں کے غم کو اس نے ادب کی زبان میں بیان کیا ہے بلکہ اندازِ بیان بھی منفرد ہے کہ وہ روانی اور لسانی چاشنی کے مقابلے میں بے ترتیبی اور ابہام کو ذریعہ بناتا ہے جو اس کی نگاہ میں اس دور کے کرب و اضطراب کا مظہر ہے۔ آج اس کی دھوم امریکا کی تشدد کے خلاف نام نہاد جنگ کی بھرپور سرگرم مخالفت اور بش اور بلیر پر جان دار تنقید کی وجہ سے ہے۔
بش نے کہا ہے ’’ہم دنیا کے بدترین ہتھیاروں کو دنیا کے بدترین رہنمائوں کے ہاتھوں میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ بہت خوب! سامنے آئینہ دیکھو‘ یہ تم ہو!
آزادی اور جمہوریت ___ بش اور بلیر کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب موت‘ تباہی اور انتشار ہے۔
پنٹر نے ۲۰۰۳ء کے اپنے ایک مضمون میں بش کی انتظامیہ کو ہٹلر کے نازی جرمنی سے تشبیہ دی تھی۔ گوانتاناموبے کے قیدخانے کو جرمنی کے اجتماعی تعذیب گھروں کا تازہ نمونہ قرار دیا تھا‘ اور صدر بش کو خون کا پیاسا عالمی درندہ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کو فریب زدہ احمق اور قتل عام کرنے والے کے لقب سے نوازا تھا۔ اس نے امریکی میڈیا پر بھی سخت تنقید کی تھی اور اسے بش کے جرائم میں شریک قرار دیا تھا۔ اس نے اپنی ایک نظم The Bombs میں آج کی سیاسی صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
بم چل رہے ہیں
The bombs go off
ٹانگیں دھڑ سے الگ ہو رہی ہیں
The legs go off
سر کٹ کر گر رہے ہیں
The heads go off
بیان کے لیے الفاظ نہیں مل رہے
There ar no more words to be said
ہمارے پاس اب بموں کے علاوہ کچھ نہیں
All we have left are the bombs,
بم ہمارے سر پھاڑ کر باہر آرہے ہیں
Which burst out of our head.
ہیرلڈ پنٹر کو ادب کا نوبل انعام اور ڈاکٹر البرادی کو امن کا نوبل انعام ان دونوں کے لیے تو اعزاز ہے‘ لیکن یہ امریکا‘ جارج بش اور ٹونی بلیر کی قیادت پر عالمی ضمیر کے عدمِ اعتماد (vote of no-confidence) کا بھی برملا اعلان ہے۔ سچ ہے‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!