’’دہشت گردی کے الزام اور اُمت مسلمہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ)‘ میں محترم قاضی حسین احمد نے جس سوز و درد سے تجزیہ کیا ہے‘ اصحاب فکر و دانش کو اس پر توجہ کرنی چاہیے۔ ’’عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار‘‘ منعقد کرنے اور ایک متفقہ مؤقف مرتب کرنے کی تجویز جلد عمل درآمد کی متقاضی ہے۔
’’تہجد اور تزکیہ نفس‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) ہمارے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا ہے‘ بالخصوص موجودہ حالات میں جو مسائل ذہن کو پریشان رکھتے ہیں ان کا شافی جواب مل گیا ہے۔ تفہیم القرآن کی اہمیت مسلمہ ہے مگر مولانا مودودیؒ کے درس قرآن کی اپنی تاثیر اور اہمیت ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ کوئی تحریکی تحقیقی ادارہ ان سب دروسِ قرآن کو کتابی صورت میں لے آئے۔
’’نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بہت متاثر کیا بلکہ آب دیدہ کر دیا۔ امریکا میں قید ایک قیدی کو ترجمان القرآن کا کوئی گذشتہ شمارہ ملتا ہے‘ اور خرم مراد کے ایک مضمون کوخطبہ جمعہ کا موضوع بناتا ہے اور اس کے ذریعے کئی غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہوجاتے ہیں۔ تحریک سے وابستہ افراد کو سوچنا چاہیے کہ ہم دعوت کے کتنے امکانات کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے۔
’’اشارات‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) میں حاسبوا قبل ان تحاسبوا،خود اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے (ص ۱۸) کو فرمانِ رسول لکھا گیا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا قول ہے جیسا کہ ترمذی نے بیان کیا ہے‘ نیز درست یہ ہے: حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔
’’عورت کی ملازمت‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں درمیانی طبقے اور غریب طبقے کی عورتوں کی ضروریات کا ذکر ہے لیکن شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کی کمائی کے مواقع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ ان مواقع کو ان عورتوں کے گھروں سے ۳۰۰‘ ۵۰۰ میٹر کے اندر اندر کسی مناسب مرکزی مقام پر ہونا چاہیے جہاں وہ پیدل‘ کم وقت میں اور آسانی سے پہنچ سکیں۔ ان مراکز میں چھوٹی چھوٹی‘ دستی اور گھریلو صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔ اس میں کم سرمایہ لگتا ہے اور زیادہ کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ خام مواد اور مقامی‘ قومی اور عالمی نکاسی پر منصوبہ بندی کے ساتھ عمل ہونا چاہیے۔یہی اباحت پسند این جی اوز کا عملی جواب بھی ہے۔
ایران کے انتخابات پر محترم سلیم منصور خالد کے مضمون (اگست ۲۰۰۵ئ) کے بارے میں اپنے احساسات پیش کر رہا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ ایران کے انقلاب کو اسلامی انقلاب کہنا خلافِ حقیقت ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ مضمون شائع کر کے ہمیں کیا ثواب ملا‘ بلکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ لوگ صحابہ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ ایسے مضامین سے ہمارا ووٹ بنک بڑھے گا نہیں بلکہ کم ہوگا۔ تیسری بات یہ کہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لاحقہ استعمال کرنا بھی حد سے تجاوز کرنا ہے۔
سلیم منصور خالد: چند باتیں واضح رہنی چاہییں۔ پہلی یہ کہ ہر فرد‘ قبیلہ‘ گروہ‘ قوم یا ملک اپنے حوالے سے کچھ امتیازی پہچان کے پہلو رکھتا ہے۔ اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ انھیں اسی نام سے پکارا جاتاہے۔ ایران کا انقلاب‘ قومی سطح پر اپنے آپ کو اسلامی انقلاب کہلاتا ہے‘ اس لیے ہمیں اس کا حق بالکل اسی طرح تسلیم کرنا چاہیے‘ جس طرح ہم ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ نہ ہونے کے باوجود اسے ’اسلامی‘ اور ’جمہوریہ‘ قرار دیتے اور لکھتے ہیں۔عوامی جمہوریہ چین کو بھی ’عوامی‘ اور ’جمہوریہ‘ لکھتے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب اپنے آپ کو شریعت کے مطابق اسلامی ریاست قرار دیتا ہے لیکن شیعہ حضرات سے قطع نظر خودسنی لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس سے اتفاق نہیں رکھتی‘ تو کیا ہم اُن سے‘ اُن کی طے کردہ پہچان چھین کر اپنا لیبل لگا دیں۔ یہ آپ نے گری ہوئی بات لکھی کہ مضمون ’ووٹ‘ بنک بڑھانے کے لیے لکھا گیا تھا اور آپ لوگ صحابہ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ جب علما کے ۲۲ نکات کا مسئلہ ہو تو علما کی مجلس میں شیعہ علما کے دستخط اکٹھے ہوں(جہاں پر مفتی محمد شفیع‘ مولانا ابوالحسنات قادری اور سیدسلیمان ندوی وغیرہ‘ شیعہ علما کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوں)‘ قادیانیت کے خلاف تحریک میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہمراہ شیعہ علما اور ذاکرین صفِ اوّل کے سُنی علما کے ساتھ بیٹھے نظر آئیں‘ متحدہ مجلس عمل یا ملّی یک جہتی کونسل بنے تو شیعہ‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہلحدیث اکٹھے جدوجہد کریں (اپنے اصولی مؤقف پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر)‘ لیکن جب ایک امرواقعہ یا سیاسی صورت حال پر تبصرے کا وقت آئے تو اسے ’صحابہ دشمنی اور شیعہ نوازی‘ کہا جائے اور ووٹ بنک بڑھانے کا حربہ قرار دے دیا جائے۔
جہاں تک لفظ ’امام‘ کے لاحقے کا تعلق ہے تو ریاست ایران اور ان کی عظیم اکثریت اپنے قائد کو ’امام‘ کے لفظ سے یاد کرتی یا پکارتی ہے۔ ترکی میں مصطفیٰ کمال کو ’اتاترک‘ اور پاکستان میں محمد علی جناح مرحوم کو ’قائداعظم‘ لکھاجاتا ہے۔ جو یہ نہیں لکھنا چاہتا نہ لکھے‘ مگر ہماری خواہش کے احترام میں ’قائداعظم‘ لکھنے والے کو مطعون کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔