نومبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر۲۰۰۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تاریخِ اسلام کی عظیم شخصیات ‘ ناعمہ صہیب۔ ناشر: فضلی بک سپرمارکیٹ‘ نزد ریڈیو پاکستان‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات:۵۰۰ (مجلاتی سائز)۔ قیمتمجلد: ۳۵۰ روپے۔

انسانی زندگی کا قافلہ‘ روشن دماغوں اور کردار کی دولت سے مالا مال انسانوں ہی کے دم سے انسانیت کی پہچان رکھتا ہے۔ قحط الرجال کے اس عہد میں‘گزرے لمحوں کی عظیم شخصیات سے واقفیت مایوسی کے پردے ہٹاتی اور امید کے دیے روشن کرتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب عصرِحاضر کو زیربحث نہ لانے کے باوجود ۲۰ منتخب شخصیات پر کلام کرتے ہوئے بڑی خوب صورتی سے ماضی کو حال سے جوڑ دیتی ہے۔ پھر عصری بحران سے نکلنے کے متعدد راستے خود بخود نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔

قرن اوّل سے لے کر موجودہ عہد تک ۲۰ شخصیات کا انتخاب ایک بڑا مشکل اور نازک کام تھا۔ مصنفہ نے ہر شخصیت کے انتخاب کے لیے مطالعے اور دانش کے منصف سے فیصلہ لیا۔ بڑی وسیع معلومات میں سے بنیادی چیزوں کو اس طرح گوندھ کر ہر مضمون کو تشکیل دیا کہ واقعات   حسنِ توازن‘ ہمواری اور معنویت کی شیرازہ بندی کر کے نظروں میں سما جاتے ہیں۔ ایک جانب فقہ‘ حدیث‘ دعوت‘ جہاد جیسے علمی اور عملی کاموں کی تفصیل سامنے آتی ہے تو دوسری طرف تکفیر‘ فرقہ پرستی‘ مفاد پرستی اور شرک کی آکاس بیل سے بچائو کی تدابیر بھی نظرنواز ہوتی ہیں۔

خوب صورت نقشے اور عام فہم اسلوب نے تاریخ اور تجزیے جیسے بھاری موضوع کو ناول سے زیادہ دل چسپ بنا دیا ہے۔ ہر شخصیت اسلامی تاریخ کے کسی نہ کسی بنیادی رنگ سے واقفیت   بہم پہنچاتی ہے۔

زیرمطالعہ شخصیت سے ایک خاص نوعیت کی انسیت پیدا ہوتی ہے اور دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کرے ایسی شخصیات دیکھنے کو ملیں‘ طلب اور امید کا یہ سنگم مطالعے کو باثمر بنا دیتا ہے۔ تواریخ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ’’مسلمانوں کی مختصر سیاسی تاریخ‘‘ ۱۴۰۰ برسوں پر ایک جامع تبصرہ ہے۔ کتاب کے مندرجات سے اکثر جگہ اتفاق کرنے کے باوجود چند مقامات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ جس میں احیا پسنداشخاص اور تحریکوں کو ’بنیاد پرست‘ گروہ میں شامل تصور کرنا (ص ۴۹۳)‘ یا پھر یہ کہنا: ’’اخوان المسلمون [کو] عالمِ عرب میں بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اس نے سیاست میں حکومت سے شدید محاذ آرائی کا رویہ اختیار کر کے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا‘ اور بری طرح مار کھائی‘‘ (ص ۴۹۴)‘ یک رخا تبصرہ ہے۔ پھر یہ کہنا: ’’تمام اصلاحی‘ احیائی اور تجدیدی [تحریکیں] ماضی کی تمام غلط‘ صحیح روایات کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اصلاح کی خواہش اور ذرا سی ترمیم بھی انھیں گوارا نہیں۔ یہ اپنے حال میں خوش اور مطمئن ہیں‘‘ (ص ۴۹۵)‘ بذات خود ناہموار بیانیہ ہے۔ چند جگہ سنین کا بھی مسئلہ ہے‘ لیکن ایسی اِکا دکا مثالیں کتاب کے مجموعی کارنامے کی قدرومنزلت اور پیش کش کے خوش رنگ و وقار میں کمی نہیں پیدا کرتیں۔ مصنفہ اور ناشر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد، ابن رشد القرطبی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۲۴۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

مختلف مسالک کی علمی تحقیقات کا یہ بے مثال اور نادر مجموعہ قاضی ابوالولید محمدبن رشدالقرطبی الاندلسی کی تصنیف ہے۔ ان کا خاندان پشت ہاپشت سے علوم و فنون کا گہوارہ چلا آرہا تھا‘ اس طرح اللہ کے فضل سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین اور سنہری موقع میسرآیا۔ ابن رشد نے قرآن‘حدیث اور فقہ پر پوری دسترس حاصل کرکے فلسفے کی طرف توجہ کی اور اس وقت کے مشہور علماے فلسفہ و طب سے علم فلسفہ و طب کی تکمیل کی۔

ہردور میں نادرِ روزگار شخصیتیں حاسدوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ علامہ ابن رشد بھی حاسدین کی رقابت کا شکار ہوئے۔ آپ کو بے دین اور ملحد قرار دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپ کو جلاوطنی کی سزا بڑی بے بسی اور زبوں حالی سے گزارنی پڑی۔ حقیقت حال کھل جانے پر خلیفہ منصور عباسی نے انھیں رہا کیا۔ رہائی کے ایک سال بعد مراکش میں بیمار ہوکر ۵۹۰ھ میں وفات پائی۔

مختلف علوم‘ مثلاً فلسفہ‘ طب‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ علمِ نحو اور علمِ ہیئت پر کم و بیش ۷۰ کتابیں ان کی یادگار ہیں۔ سب سے زیادہ شہرت زیرنظر بدایۃ المجتہد کو ملی کیوں کہ یہ کتاب کسی مسئلے کے بارے میں تمام بڑے بڑے ائمہ کرام اور علماے عظام کی آرا کا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں آرا کے ساتھ ساتھ ان کے دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ کتاب بیک وقت فقہ اور مصادر فقہ کا ایک بہترین اور حسین امتزاج بن گئی ہے۔ علامہ ابن رشد مختلف ائمہ اسلام کی آرا کے اختلاف کی وجہ بھی بتاتے ہیں‘ پھر اپنے نزدیک ترجیحی مسلک کا ذکر کر کے اس کی وجہ بھی بیان کردیتے ہیں۔ آپ اندھی تقلید کے بجاے علمی و تحقیقی تقلید کے قائل ہیں۔ وہ تعصبِ مسلکی کا شکار نہیں‘ علمی ترجیح کو وزن دیتے ہیں۔

اس قدروقیمت کی حامل کتاب اچھے اُردو ترجمے سے محروم تھی۔ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے اس شاہ کار کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا بڑا علمی کام ہے اور قابلِ قدر ہے مگر اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت کافی مقامات پر تسامح ہوگیا ہے‘ مثلاً (ص ۹۷ پر) انما ذلک عرق ولیس بالحیضۃ کا ترجمہ موصوف نے کیا ہے:’یہ تو بس پانی ہے حیض نہیں ہے‘ جو صحیح نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے: ’یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں‘۔اس سے استحاضہ اور حیض میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح ص ۱۰۹ پر عرق کا معنی ’’رطوبت‘‘ کیا ہے حالاں کہ یہاں بھی وہی ’رگ‘ کا معنی ہے۔ اسی طرح ترجمہ‘ اعراب اور پروف کی اغلاط کافی پائی جاتی ہیں‘ تاہم اغلاط و تسامحات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اور ناشرین نے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ (عبدالوکیل علوی)


حدود قوانین اور رضوی کمیشن تجزیاتی مطالعہ ، ثریا بتول علوی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔قیمت: ۲۱ روپے۔

زیرنظر کتاب میں مصنفہ نے جنرل پرویز مشرف صاحب کے مقرر کردہ ویمن کمیشن کا حدود قوانین کے بارے میں اعتراضات کا علمی انداز میں جائزہ لیا ہے۔ یہ دراصل ایک مکتبِ فکر کا جائزہ ہے جو اسلامی روایات اور اقدارِ حیات سے ناآشنا ہے۔ اس سے وابستہ لوگ جن میں خواتین کچھ زیادہ سرگرم نظرآتی ہیں یورپ کی کورانہ تقلید سے اپنا تشخص مسخ کرچکے ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس مجریہ ۱۹۷۹ئ‘ جو منتخب اسمبلی کے ۱۹۸۵ء میں منظوری کے بعد ملکی قوانین بن چکے ہیں‘ کمیشن کے مطالبات کا علمی و فکری جائزہ لیا گیا ہے جو بنیادی طور پر نہ صرف غیرآئینی‘ غیرقانونی بلکہ مضحکہ خیز ہیں۔ مصنفہ نے کمیشن کے اعتراضات کا قرآن و سنت‘ الہامی اور غیرالہامی مذاہب کے حوالے سے مضبوط دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ ان اسباب اور عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے جن کی وجہ سے قوانین حدود کے نفاذ سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ ’’منافی قانون اور الٰہی قانون کا فرق‘‘، ’’اسلامی قانون اور مغربی قانون کا تقابلی جائزہ‘‘، نیز ’’نفاذ حدود کی مختصر تاریخ‘‘ عنوانات کے تحت اہم علمی نکات زیربحث آئے ہیں۔

اصلاح احوال کے لیے انھوں نے ملّت (اُمّہ) اور مملکت کے سامنے چند تجاویز اور سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ان میں ایک تجویز فقہ کی تدوینِ جدید بھی ہے۔

ہمارے جدید تعلیم یافتہ اسلامی ذہن رکھنے والے طبقے نے اس معاملے کو ایک مسئلہ بنا دیا ہے‘ جب کہ اسلام میں یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے قرآن و سنت اور    خاص طور پر حدیث معاذؓ کے حوالے سے ہمیشہ ہر دور کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب محض قرآن و سنت کے قوانین‘ یعنی حدود کو زمانے کے احوال و ظروف کے سانچوں میں ڈھالنا نہیں ہے بلکہ اجتہاد کا مطلب ہر دور کے معاملات جن کا تعلق معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور ہر شعبۂ زندگی سے ہے‘ ان کو قرآن و سنت کے ابدی احکام سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ جیساکہ ہمارے اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے ۱۹۹۳ء میں اپنے معرکہ آرا فیصلہ ظہیرالدین بنام سٹیٹ میں حتمی طور پر یہ قرار دیا ہے کہ آئین کے بنیادی حقوق (fundamental rights) بھی قرآن و سنت کے تابع ہیں اور جو قانون بھی اس سے متصادم ہو وہ کالعدم ہوگا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ)


لمحہ بہ لمحہ زندگی ، ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۷۳۰۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

زیرنظر آپ بیتی مصنف (پیدایش: ۱۹۲۲ئ) کی کثیرالجہات‘ متحرک اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کے واقعات و حوادث اور فکری و ذہنی رویوں کی ایک دل چسپ داستان ہے۔ اس کے ساتھ یہ اپنے عہد اور ماحول کی معتبر تاریخ بھی ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی قابل توجہ ہے کہ ابوالامتیاز فقط ایک شاعر اور ادیب نہیں اور انھوں نے محض قلم کی جولانیاں ہی نہیں دکھائیں (نظم و نثر کی ۱۵کتابوںکے مصنف ہیں)‘ بلکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی خدمات بھی انجام دیں‘ سرکاری اور غیرسرکاری نوکریاں کیں‘ طرح طرح کے خطرات اور مشکلات سے دوچار ہوئے۔ نہ صرف بچپن بلکہ عملی زندگی میں بھی خوش حالی کے ساتھ مفلوک الحالی کا مزہ چکھا‘ بایں ہمہ انھوں نے زندگی کو ایک مسلسل آزمایش اور پیہم امتحان کی طرح گزارا۔ اپنے سفرحیات میں مسلم صاحب نے جو کچھ دیکھا‘ سنا اور تاثر اخذ کیا ہے لمحہ بہ لمحہ زندگی میں حتی الامکان اس کی سچی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔

پہلے دو ابواب میں آبا و اجداد اور وطن (لوہ گڑھ) جالندھر کا ذکر ہے۔ یہ ابتدائی حصہ پنجاب کی اچھی بری روایات‘ تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج کا ایسا سچا اور بھرپور مرقع ہے کہ شہروں میں پلے بڑھے اور دیہاتی زندگی کے تجربے سے ناآشنا نوجوانوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اسکول کی تعلیم کے لیے عبدالستار (ع س)کو میلوں روزانہ سفر کر کے آنا جانا پڑتا تھا۔ اس سخت کوشی نے انھیں مابعد زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔ ان کا بیشتر وقت کراچی اور بیرون ملک گزرا۔ انگریزوں سے الجھے‘ تحریک پاکستان میں بھرپور شرکت کی اور طباعت و اشاعت کا کام بھی کیا۔ پاکستان رائٹر گلڈ کا پہلا انعام یافتہ ناول خدا کی بستی انھوں نے ہی چھاپا مگر اس کے مصنف شوکت صدیقی نے جس دھڑلے سے تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی‘ جھوٹی قسمیں کھائیں‘ مسلم صاحب کو مغلّظات سنائیں اور الٹا ’’اُوپر‘‘ سے کہہ کہلوا کر انھیں عدالت کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی‘ وہ اشتراکیوں اور نام نہاد ترقی پسندوں کے گھنائونے کردار کی افسوس ناک مثال ہے۔

ابوالامتیاز کی مہم جو طبیعت کبھی نچلّا بیٹھ رہنے پر قائع نہیں رہی۔ یوں تو انھوں نے طرح طرح کی انجمنیں بنائیں اور کئی چھوٹے موٹے ادارے قائم کیے‘ مگر ان کا بڑا کارنامہ ۱۹۶۰ء میں ذہنی پسماندگان کے لیے قائم کردہ ادارہ سائنوسا ہے(اس صدقۂ جاریہ کی تفصیل ان کی کتاب پاکستان میں ذہنی پس ماندگی میں دیکھی جاسکتی ہے)۔

لمحہ بہ لمحہ زندگی خاصی متنوع کتاب ہے ذاتی شخصی حالات‘ گھریلو زندگی ’’لون‘ تیل‘ لکڑیاں‘‘ سیلزمینی‘ افسری‘ طرح طرح کی مہم جوئی‘ ادب‘ سیاست‘ ٹریڈ یونین لیکن اس سب کچھ میں ان کی سلیم الطبعی ہمیشہ برقرار رہی۔ اس خودنوشت میں ملک و ملت سے ان کی محبت کا جذبہ اور دین سے ایک گہری وابستگی نمایاں ہیں۔ قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور ہر قسم کی بے اصولی اور بددیانتی سے اجتناب کیا۔ اگر اس خود نوشت کے بعض حصے نصابات میں شامل ہوسکیں تو بہت اچھا ہے۔

کتاب میں ترقی پذیر‘ تنزل پذیر جیسی تراکیب میں ’’پذیر‘‘ کو ہر جگہ ’’پزیر‘‘ لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ذال سے ہونا چاہیے نہ کہ زے سے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


آسمانِ رحمت، اعجاز رحمانی۔ ناشر: ادارہ مدحتِ رسولؐ، اے ۴۴‘ سیکٹر ۵-ایم‘ نارتھ کراچی‘ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اعجاز رحمانی ایک پختہ فکر‘ پُرگو اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نعت‘ ان کی سخن گوئی کا خاص میدان ہے۔ ۱۱ شعری مجموعوں میں سے پانچ نعتیہ ہیں۔ ان کی نعتیں رسمی‘ روایتی یا رواجی نہیں بلکہ حب رسولؐ کے جذبے کا ایک بے ساختہ مگر متوازن اظہار ہیں۔ بڑی ہوش مندی سے وہ توحید و رسالت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کے ایک تجزیہ نگار انوار عزمی کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایک شعر کو ہرہر زاویے سے چھانا پھٹکا ہے کہ اعجاز رحمانی نے بشری تقاضے یا اندھی عقیدت کے تحت توحید کو کہیں مجروح نہ کیا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس طرح کا کوئی قابلِ اعتراض شعر نظر نہیں آیا۔

دوسری اہم بات جس کی طرف خواجہ رضی حیدر نے اشارہ کیا ہے‘ یہ ہے کہ چونکہ اعجاز رحمانی اسلامی انقلاب کے داعی ہیں‘ اس لیے ان کے ہاں اظہار عقیدت کے وفور کے ساتھ‘ دعوت و اصلاح کا شعور بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ (ر - ہ )


متاعِ فکرونظر، عثمان غنی عادل۔ ناشر: فاران بک ڈپو‘ ۸ وہائٹ ہائوس‘ سی ایس ٹی روڈ‘ کرلا (ویسٹ) ممبئی-۷۰۔ صفحات: ۳۵۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے بھارتی۔

یہ کتاب متفرق مضامین‘ مصاحبوں اور تبصروں وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے اکثر بھارت کے مختلف رسائل و جرائد میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ کتاب میں موضوعات کا پھیلائو زیادہ ہے جو بعض صورتوں میں گراں محسوس ہوتا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ ایک مثبت علمی اور فکری کاوش ہے۔

مصنف نے معاصر مسلم دنیا کے مسائل کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور ان کے حل کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ہمیں فروعی اختلافات اور ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو اُچھالنے کے بجاے اپنی توانائیاں اتحاد اُمت کے لیے وقف کرنی چاہییں۔ سیدابوالحسن علی ندوی اور شیخ عبدالبدیع صقر کے مختصر مصاحبے بھی شامل ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ مولانا محمد زکریا وغیرہ کی خدمات کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔

کتاب کے ایک حصے کا رنگ ادبی اور صحافتی ہے۔ چنانچہ میڈیا اور تعلیم کے مسائل سے لے کر زبان وادب کے مسائل‘ تعارف کتب‘ خطوط بنام مدیرانِ جرائد‘ سوال نامہ اور تبصرۂ معاصرین جیسی متنوع تحریروں کو شامل متن کیا گیا ہے۔ اس سے ربط و ترتیب کی موزونیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر مصنف اس کتاب کے مندرجات کو ایک سے زائد الگ الگ حصوں کی زینت بناتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)


بچوں کی صحافت کے سو سال، مرتب: ضیاء اللہ کھوکھر۔ ناشر: عبدالحمید کھوکھر‘ یادگار لائبریری‘ ۸۳-بی‘ ماڈل ٹائون‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۱۱۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

علمی و ادبی اور دینی و مذہبی رسائل کی بہت سی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں (اور ان کے متعدد اشاریے بھی)‘ مگر بچوں کے رسائل کی یہ پہلی فہرست ہے جو عبدالمجید کھوکھریادگار لائبریری گوجرانوالہ میں ۲۰۰۲ء تک موجود ۲۰۰ سے زائد رسائل کی توضیحی فہرست ہے‘ یعنی اس میں ہر رسالے کا مقامِ اشاعت‘ ایڈیٹر‘ آغاز کا سنہ وغیرہ بھی بتایا گیا ہے۔

اس فہرست کے مطابق بچوں کا سب سے پہلا رسالہ بچوں کا اخبار تھا جو لاہور سے مولوی محبوب عالم نے مئی ۱۹۰۲ء میں جاری کیا تھا۔ ۱۰۰ سال سے زائد عرصے میں‘ بچوں کے سیکڑوں رسالے نکلے اور چند ایک اب بھی نکل رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اُردو‘ ایک باثروت زبان ہے۔ بہرحال یہ ایک معلومات افزا فہرست ہے جس میں قدیم و جدید رسائل کے سادہ و رنگین سرورق بھی شامل ہیں۔(ر-ہ)


تعارف کتب

  • تدوین سیرو مغازی، قاضی اطہر مبارکپوری۔ ناشر: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘کراچی۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اپنے موضوع پر پہلی اور منفرد کتاب جس میں پہلی صدی کے نصف آخر سے تیسری صدی تک کے علماے سیرومغازی اور ان کی تصانیف کا ذکر ہے۔ مصنف نے آٹھ سال کی طویل مدت (۱۴۰۱ھ تا ۱۴۰۹ھ) میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالجبار شاکر کا ۲۲ صفحات کا مقدمہ اپنی جگہ ایک قیمتی علمی کاوش ہے]۔
  • سہ ماہی اُردو سائنس میگزین ‘ اُردو سائنس بورڈ۔ مدیر: اسلم کولسری ۔وفاقی وزارت حکومت پاکستان‘ ۲۹۹-اپرمال‘ لاہور۔ [سائنس کے مضامین کو آسان زبان اور عام فہم انداز میں بیان کرنے والا سہ ماہی رسالہ ہے۔ اس شمارے میں مسلم سائنس دان الجزری‘ ذیابطیس‘خلائی اسٹیشن اور دیگر مضامین شامل ہیں۔ سائنسی ذہن بنانے اور سائنسی شعور بیدار کرنے میں مفید۔ مسئلہ تو پاپولر سائنس کے اس رسالے کو پاپولر بنانے کا ہے۔ عوام میں نہ سہی‘  طالب علموں میں ہی ہوجائے۔
  • رسائل توحید ‘حصہ اوّل‘ محمد بن عبدالوہاب‘ ترجمہ: حامد محمود۔ اسلامک سنٹر نزد سخی سلطان کالونی‘ سورج میانی روڈ‘ ملتان۔[محمد بن عبدالوہاب کی یہ تحریر گہرے غوروفکر کے ساتھ مطالعے کی متقاضی ہے۔ عقائد کے حوالے سے بنیادی مباحث آگئے ہیں۔ لا الہ الا اللہ کی شروط‘ اور نواقض الاسلام‘ یعنی جن باتوں سے آدمی مسلمان نہیں رہتا (۱۰باتیں بیان کی گئی ہیں) توحید‘ شرک‘ کفر‘ سب کچھ انھی ۵۰ صفحات میں آگیا ہے۔ مترجم نے بھی ۷ صفحے میں ’’عرض‘‘ کیا ہے۔]