چند روز پیش تر شرق اوسط میں جو عبرت ناک واقعات پیش آئے ہیں اور‘ اس کے نتیجے میں مسلمان جس ذلت اور رسوائی کا شکار ہوئے ہیں‘ اس کی مثال ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔٭
اس جنگ کے دوران ہماری یہ رسوائی بھی ہوئی کہ چودہ عرب ریاستیں اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ ایک حقیر سی ریاست سے شکست کھاگئیں‘ جب کہ ان کی پشت پر تمام مسلمان ممالک کی ہمدردیاں بھی تھیں۔ پھر ہم نے یہ ذلت بھی اٹھائی کہ جو جنگ اس بلند بانگ دعوے سے شروع ہوئی تھی کہ: ’’عالمِ اسلام کے سینہ کا خنجر چار دن میں نکال کر سمندر میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ وہ اس شرمناک انجام پر ختم ہوئی کہ یہ خنجر دو دن میں سینے سے اُوپر ہماری شہ رگ تک پہنچ گیا۔ خلیج عقبہ اور نہر سویز دونوں دشمن کی دست برد سے نہ بچ سکیں۔
سب سے بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ جس مقدس شہر (بیت المقدس) کی حفاظت ہمارے سپرد ہوئی تھی اس کو ہم نے نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا‘ بلکہ اس قوم نے ہم سے اسے چھینا جس کو ڈھائی ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے وہاں سے نکال دیا تھا۔ ان سب پر مستزاد ہمارے نوجوانوں کا وہ گرم گرم خون اور ہمارے ترکش کے وہ تیر ہیں‘ جو بغیر کسی مقابلے کے دشمنوں کے قدموں پر ڈھیر ہوگئے۔
آج ہر مسلمان اپنی اس ذلت پر سوگوار ہے۔ وہ بے چین ہوہو کر پوچھ رہا ہے: ’’آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اب بھی جاگ جائیں اور اس سوال کا جواب پاکر اپنے حالات درست کرلیں تو یہ تازیانۂ عبرت ہمارے لیے سامانِ رحمت بن سکتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس دنیا میں ایک حکیم اور مدبر ہستی کا راج ہے۔ یہ کوئی اندھیرنگری اور چوپٹ راج نہیں ہے کہ بلاسبب اور بلاقانون اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوجائیں۔ جہاں ایک پتّہ بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہ ہل سکتاہو وہاں اتنا بڑا زلزلہ اچانک کہیں خلا سے یوں ہی نمودار نہیں ہوگیا‘ بلکہ ہم نے خدا کے قانون کے تحت وہی فصل کاٹی ہے جس کے بیج ہم عرصے سے بو رہے تھے۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں اور شکست کے اسباب اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجاے اس کی ذمہ داری مغربی استعماری طاقتوں کی دخل اندازی‘ دشمن کی مکاری‘ نام نہاد دوستوں کی بے وفائی اور ٹکنالوجی میں اپنی کم تری جیسے عذرات لنگ کے سر منڈھتے رہے تو ہم کو مستقبل میں اس سے بھی بدتر ذلت کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ قدرت بار بار سبق نہیں دیا کرتی۔
کیا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے یہ معلوم نہ تھا کہ اسرائیل بڑی طاقتوں کا قائم کردہ اور پروردہ ملک ہے اور کسی بھی جنگ میں یہ طاقتیں اس کی پشت پناہی کریں گی۔ پھر دخل اندازی کا یہ گلہ کیوں؟
کیا ہمارے حکمران یہ سمجھتے تھے کہ دشمن ہم سے پوچھ کر حملہ کرے گا‘ کہ کب کریں اور کدھر سے آئیں اور اگر اس کی طاقت ہمارے اندازے سے زیادہ نکلی تو قصور کس کا ہے؟
اگر ’دوستوں‘ نے بے وفائی کی تو ہم اتنے نادان کیوں بن گئے تھے کہ یہ بھی نہ سوچ سکے کہ کفر خواہ واشنگٹن میں ہو یا ماسکو میں‘ پیرس میں ہو یا بیجنگ اور دہلی میں‘ کہیں بھی اسلام کا دوست نہیں بن سکتا۔ پھر شکایت کس لیے؟
اور جہاں تک سائنس اور ٹکنالوجی میں کم تری کا سوال ہے تو کیا ویت نام اور کیوبا اس لحاظ سے اپنے دشمن [امریکا] سے برتر ہیں کہ انھوں نے اس کے دانت کھٹے کر دیے؟
سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کی جتنی قوت پہلے سے ہمارے مسلم عرب حکمرانوں کے پاس تھی‘ کیا وہ ہمارے کام آئی۔ اگر ہمارے لڑاکا جنگی طیارے اُڑ نہ سکے‘ ہمارے میزائل فائر نہ ہوسکے اور ہمارے ٹینک آگے نہ بڑھ سکے تو اور مزید قوت حاصل کرلینے سے ہمارا کیا بھلا ہوجاتا؟ اگر جنگ کے فیصلے کا دارومدار اسلحے اور تعداد پر ہوتا تو آج اسلام دنیا میں کہیں نظر بھی نہ آتا۔
دراصل اتنا بڑا المناک حادثہ جس قانونِ الٰہی کے تحت ہوا ہے۔ وہ اس لیے کہ جب اللہ کی طرف سے کتاب پانے والی قوم اس کتاب کو پیچھے ڈال کر اللہ کے مقابلے میں سر اٹھاتی ہے‘ اللہ کی کتاب کو غالب کرنے کا مشن بھول کر ہر گمراہی کے پیچھے دوڑتی ہے اور اس کے اپنے اندر جو لوگ اس کتاب پر عمل کی دعوت دیتے ہیں ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے‘ اور ان کا خون بہاتی ہے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوکر دنیاوی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے___ تو اللہ تعالیٰ اس پر دشمنوں کو مسلط کرکے اس کی عزت و آبرو کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ منکرین پر تو اس کا عذاب اکثر طوفان‘ کڑک اور زلزلہ کی صورت میں آکر ان کو مٹادیتا ہے‘ لیکن اپنے سے بے وفائی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مٹانے کے بجاے ذلیل و خوار کر کے رہتی دنیا میں ایک سامانِ عبرت بناکر رکھ دیتا ہے:
اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۸۷) ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔
خدا کے اس قانون کی بہترین مثال خود بنی اسرائیل ہیں‘ جن کا ذکر قرآن نے شروع میں ہی اتنی تفصیل سے اسی لیے کیا ہے کہ مسلمان اس انجام سے ہوشیار رہیں‘ جو ان کے حصہ میں آیا ___وہ ہم مسلمانوںسے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل تھے۔ پھر انھوں نے اپنے خدا سے بے وفائی کی تو اللہ نے ان کو اس لیے زندہ نہ رکھا کہ وہ زندہ رہنے کے مستحق تھے‘ بلکہ اس لیے کہ خدا سے بے وفائی کی سزا یہی ہو سکتی تھی کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ اس لیے بھی کہ اگر ان کے بعد آنے والی اُمت بھی خدا سے بے وفائی کرے تو اس پر انھی کو مسلط کیاجائے۔
سوچنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلم اُمہ ہم نے وہ کون سے اعمال کیے ہیں کہ مشیت الٰہی نے یہ تک گوارا کرلیا کہ جس قوم کو وہ ذلیل کر کے دنیا میں تتربترکرچکی تھی‘ اسی کو وہ ہمارے اُوپر مسلط کرنے کے لیے دوبارہ کھڑا کر لائے۔ ظاہر بات ہے کہ جس درخت نے بنی اسرائیل کی جھولی کانٹوں سے بھر دی تھی اگر وہی درخت ہم بوئیں گے‘ تو ہماری جھولی میں پھول نہیں گریں گے بلکہ ویسے ہی کانٹے گریں گے۔ خدا کا قانون نہ بدل سکتا ہے اور نہ جانب داری برت سکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے راستے پر چل کر ہمارا انجام ان سے مختلف ہوتا تو خدا کے عدل پر سوال اٹھایا جاتا۔
ذرا تورات اُٹھا کر دیکھیے تو بنی اسرائیل کے اعمال اور ان کی سزا کے آئینے میں ہم کو اپنی تصویر نظر آئے گی۔ تورات کہتی ہے:
ویسے تو پوری اُمت مسلمہ کسی نہ کسی طرح اسی تصویر کا ایک نمونہ ہے لیکن اس کا وہ حصہ جو اس جنگ میں اسرائیل سے برسرِپیکار تھا‘ اس کی قیادت تو ایسے عناصر کے ہاتھ میں تھی جو خدا سے بے وفائی‘ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کا خون بہانے میں سب سے ہی آگے بڑھ گئے تھے۔
ان عناصر میں سب سے نمایاں مثال مصر کے آمرمطلق جمال عبدالناصر[م: ۱۹۷۰ئ] کی ہے۔ ہر مسلمان کو جاننا چاہیے کہ پچھلے چودہ سال سے وہ کس روش پر گامزن رہے ہیں۔ یہ جاننے سے اس سوال کا جواب ملے کہ یہ عبرت ناک حادثہ کیسے پیش آیا۔
خدا کے دیے ہوئے دین کے ساتھ ان کا سلوک یہ رہا ہے کہ اپنے ریاستی دستور سے کھلم کھلا اسلام کو خارج کر کے عرب سوشلزم (قوم پرستی+سوشلزم) کو سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا۔ مسلمان ہونے کے بجاے عرب ہونے پر فخر کیا۔ عربوں میں سے بھی ان ممالک کو جو سوشلسٹ پارٹیوں کے زیرنگیں نہ تھے‘ انھیں مسلمان اور عرب ہونے کے باوجود دشمن اور گردن زدنی قرار دیا۔ اس عبرت ناک جنگ سے صرف تین ہفتے پہلے ناصرصاحب نے ایک ہی سانس میں‘ اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب‘ اُردن اور تیونس کو مغربی استعمار کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے مٹا دینے کی دھمکی دی۔
حد یہ ہے کہ اس پوری جنگ میں نہ عالمِ اسلام کو مدد کے لیے پکارا‘ اور نہ اپنی قوم کو اسلام کے لیے لڑنے کی دعوت دی۔ قوم کو اس کلمہ کی بنیاد پر لڑائی کے میدان میں نہیں اتارا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے‘ یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، بلکہ وہ اس کلمہ پر میدانِ جنگ میں اترے جو عیسائی پادریوں نے سکھایا اور جو عربیت کا کلمہ ہے‘ یعنی اللّٰہ اکبر والعزۃ للعرب___ حالاں کہ مسلمان تو بنا ہی ایسے خمیر سے ہے کہ وہ صرف فی سبیل اللّٰہ ہی لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔ فی سبیل العرب [عرب کے لیے] مرجانے کا جذبہ وہ کہاں سے لاتا‘ جب کہ اس کو یہ معلوم تھا کہ جو وطن کے لیے مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
قوم پرستی کا مذہب صدر ناصر کو اتنا عزیز ہوا کہ اس کی خاطر انھوں نے فرعونی تہذیب کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس کی تصویریں نوٹوں اور ٹکٹوں پر چھاپیں‘ اس کے مجسّمے بازاروں میں لگائے اور اس بات پر فخر کیا: ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘۔ حد یہ ہے کہ بوسمبل کے بتوں کے نیچے قرآن کے نسخے دفن کیے۔ اس جسارت کے بعد کیا مشیت ایزدی صرف اس لیے جدید فرعونیت کی تائید کرتی کہ بدقسمتی سے وہ اُمت محمدیہ میں پیدا ہوگئی ہے!
معصوموں کا خون بہانے میں وہ اس حد تک نکل گئے کہ اپنی قوم کے مصلحین اور مجاہدین تک کو بے دریغ پھانسی پر چڑھا دیا۔ اخوان المسلمون جس ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘ اس ظلم کو زبان بیان نہیں کر سکتی اور آنکھ نم ہوئے بغیر سنا نہیں جاسکتا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قرآن کی طرف دعوت دے رہے تھے اور عرب قومیت اور سوشلزم کے بجائے اسلام پر چلنا چاہتے تھے حالانکہ یہ وہی اخوان تھے جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں خاک و خون میں لوٹ کر اور اپنی جانیں قربان کرکے بغیرکسی حکومت کی پشت پناہی کے اسی اسرائیل کو اسی صحرائے سینا اور بیت المقدس میں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔
مسلمانوں کے مفادات کے حوالے سے تو عرب قوم پرستی کے علم بردار جمال عبدالناصر کی دردمندی کا یہ عالم ملاحظہ ہو:
خدا سے اپنے بندھن توڑ ڈالنے‘ خدا کی مخالف قوموں کے سے کام سیکھنے‘ معصوموں کا خون بہانے‘ (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کو حقیر جاننے کے بعد‘ اگر یہ بدکرداری پہلے بنی اسرائیل پر دیوار کی طرح گری تھی تو اب ہمارے اُوپر کیوں نہ گرے ___ اگر ان پر خدا کا قہر بھڑکا اور ان کے دشمن ان پر حکمران ہوگئے تو ہمارے اُوپر قہرالٰہی کیوں نہ بھڑکے اور ہم پر ہمارے دشمن کیوں نہ مسلط ہوں۔
ہم نے مصر کا تذکرہ اس لیے تفصیل سے نہیں بیان کیا کہ ان جرائم کا ارتکاب صرف وہیں پر ہوا ہے۔ آپ کسی بھی مسلمان ملک کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس پیمانے پر نہ سہی لیکن کم و بیش یہی داستان ہر جگہ دہرائی جارہی ہے۔ ہر جگہ: پاکستان‘ تیونس‘ الجیریا‘ انڈونیشیا وغیرہ میں جنگِ آزادی اسلام کے نام پر لڑی گئی‘ مگر ہر جگہ آزادی کے بعد عوام کو اختیارات سے بے دخل کرکے اس بات کی کوشش کی گئی کہ اسلام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہر جگہ اسلام کے احکام و حدود کو پامال کیا گیا۔ ہرجگہ اسلام کے علم برداروں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہر جگہ وطنیت اور قوم پرستی کو پروان چڑھایا گیا اور ملکی مفادات پر عالمِ اسلام کے مفادات کو قربان کیا گیا۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جتنی مسلم ریاستیں ہیں‘ بنی اسرائیل کی طرح اتنے ہی ان کے معبود ہیں۔ ممکن ہے یہ معبود پتھر کے بتوں کی صورت میں نہ موجود ہوں‘ لیکن ڈالر‘ روبل‘ اور پونڈ کی صورت میں بالضرور موجود ہیں۔ مسلم ممالک میں سے کسی کا قبلہ لندن‘ کسی کا واشنگٹن‘ کسی کا ماسکو اور کسی کا بیجنگ ہے‘ لیکن یہ بت نہ آج تک ہم کو مصیبت سے بچا سکے ہیں اور نہ آیندہ یہ ہمارے کسی کام آئیں گے۔ یہ سب جھوٹے سہارے ہیں اور کفر کا کوئی بھی ایڈیشن ہو‘ خو اہ وہ سرمایہ داری ہو‘ قوم پرستی ہو‘ یا سوشلزم‘ وہ اسلام کا اور مسلمان کا حقیقی دوست ہرگز نہیں بن سکتا۔ یہ ہماری انتہائی سادہ لوحی اور بیوقوفی ہے کہ ہم پھر انھی جھوٹے سہاروں سے امیدیں باندھ رہے ہیں اور انھی کی طرف دوڑ دوڑ کر جارہے ہیں‘ حالانکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔
سب راستے آزمانے کے بعد اور ہر طرف سے ٹھکرائے جانے کے بعد ہم کو اچھی طرح جان لینا چاہیے‘ کہ ہمارے لیے عزت و سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے مخلص بندے بن جائیں۔
دنیا کی غالب قوموں اور گمراہ نظریات‘ یعنی سرمایہ داری‘ قوم پرستی اور سوشلزم کو چھوڑ کر اسلام کا راستہ اختیار کریں۔ دین حق کی نصرت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ خدا سے بے وفائی چھوڑ کر اس کے وفادار بنیں اور اس کے ساتھ اپنا عہد پورا کریں۔ اس نے جس کام پر ہم کو مامور کیا ہے اور جو مشن ہمارے سپرد کیا ہے‘ یعنی اس کی اطاعت کی دعوت اور اس کے دین کا غلبہ‘ اس کو پورا کرنے کے لیے تن‘ من‘ دھن سے لگ جائیں۔
اگر ہم اللہ کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ ہماری مدد کرے گا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اُوپر غالب نہیں آسکتی۔ یہ اس کا وعدہ ہے جو خدا کی قسم‘ غلط نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنی قوم کو کہیں ذلیل نہیں کیا جب تک وہ اس کی رہی اور جب اس نے دوسروں سے آشنائی کی تو اس نے اسے کبھی معاف نہیں کیا۔
یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ جو قوم کسی ایک راستے کے لیے یکسو نہ ہو وہ ہمیشہ دوسروں کی جھولی بلکہ قدموں میں گری رہے گی اور دنیا میں اس کا اپنا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ اب اس کو کیا کہیے کہ مسلمان قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ان کے حکمران چاہے لاکھ دماغ سوزی کریں‘ وہ قوم پرستی‘ سوشلزم اور دنیا پرستی کے لیے یکسو نہیں ہوسکتی۔ وہ صرف اپنے دین ہی کے لیے یکسو ہوکر بے نظیر کارنامے دکھا سکتی ہے۔
تاہم‘ یہ اسلام کے لیے یکسو نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ آج سارا عالمِ اسلام اتنی عظیم الشان آبادی اور اتنے وسیع وسائل و ذرائع کے باوجود پارہ پارہ ہے اوردوسروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ لیکن عالمِ اسلام کے اتحاد کی ہر دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوگی‘ جب تک ہر مسلمان ملک کی قیادت اخلاص سے اسلام کے راستے پر چلنا شروع نہ کر دے۔
اس معاملے میں بحیثیت پاکستانی ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کسی نسلی یا علاقائی قومیت کے بجاے اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور جس نے اپنے پروردگار سے علانیہ عہد کیا ہے کہ یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ جب تک ہمارا یہ عہد بیان کی دنیا سے نکل کر عمل کی دنیا میں پورا نہ ہوگا‘ اس وقت تک ہمارا پروردگار ہم سے خوش نہ ہوگا۔
آج سارا عالمِ اسلام ہماری رہنمائی کا منتظر ہے اور اس کی نگاہیں ہماری طرف لگی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہمارا ہر جوان‘ مرد‘ عورت‘ بوڑھا‘ بچہ اس کام میں لگ جائے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنایا جائے اور خدا کی ہر نافرمانی کو ترک کر کے اس کی اطاعت کو اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد عالمِ اسلام بھی متحد ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہم مشقت کی زندگی بسر کرکے اسلحہ کے کارخانے بھی بنائیں گے۔ پھر اگر ہماری تعداد کم بھی ہو اور ہمارے پاس اسلحہ نہ بھی ہو تو ہمارا ایک آدمی دس دشمنوں پر بھاری ہوگا۔
آیئے! ہم میں سے ہر آدمی اس تازیانۂ عبرت سے سبق حاصل کر کے اپنے خدا سے اپنا تعلق جوڑے‘ اس کی اطاعت کا عہد کرے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے میدان میں نکل کھڑا ہو۔