انسانوںکے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کمی اور کوتاہی فطری ہے کیونکہ انسان نہ عقل میں کامل ہے اور نہ ہی پوری بصیرت کا حامل ہے۔ اس لیے اسلام نے انسان کی ان بنیادی کمزوریوں کو دُور کرنے‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہترانداز سے گزارنے‘ صحیح سمت پر قائم رہنے اور بڑے نقصانات سے بچنے کے لیے جو ہدایات اور احکام دیے ہیں ان میں ایک اہم ہدایت اپنے معاملات میں باہم مشورہ کرنا ہے۔
امام راغب اصفہانیؒ نے مفردات القرآن میں لکھا ہے کہ: ایک دوسرے سے رجوع کرکے کسی رائے پر پہنچنے کا نام مشورہ ہے‘ اور شوریٰ اس معاملے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مشورہ کیا جائے۔ شوریٰ کا لفظ اسمبلی اور مجلس شوریٰ کے لیے بھی مستعمل ہے۔ لفظ شوریٰ قرآن مجید میں تین مقامات پر وارد ہوا ہے اور ان تینوں مقامات پر انسانی زندگی کے نہایت اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف اس لفظ کے معنی اور مفہوم کا تعین ہوجاتا ہے‘ بلکہ اسلام میں مشورے کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
مشاورت کا مقصد باہمی گفت و شنید کے بعد کسی منصوبے کو تیار کرنا اور اس کے اطلاق کو قابلِ عمل بنانا ہے۔ ایک محقق جونز کے نزدیک مشاورت ایک ذاتی حرکت کا عمل ہے جو دو افراد کے درمیان واقع ہوتا ہے جس میں ایک فرد عمررسیدہ اور زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے یا دوسرے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے۔ یہ عمررسیدہ فرد باہمی گفت و شنید کی بدولت اپنے سے کم عمر یا کم تجربہ کار فرد کے مسائل کی تشریح کرتا ہے اور مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے۔ مشاورت کا مطلب درحقیقت خود آگاہی ہے‘ اس کی بدولت فرد کو اس بات سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے اور اپنی مشکلات پر کس طرح قابو پاسکتا ہے۔ اس طرح مشاورت میں ایک فرد مشورہ دینے والاہوتا ہے جسے مشیر کہتے ہیں اور دوسرا فرد وہ ہے جسے مشورہ دیا جاتا ہے۔ مشورے سے کسی مسئلے کے جملہ پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ مشورہ اور مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا‘ باہمی سوچ بچار کرنا۔
۱- سورئہ شوریٰ میں ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی۴۲:۳۸) ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ گویا‘ اہلِ اسلام کا ہر معاملہ باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے۔
یہ مکی سورہ ہے اور مکہ میں اسلامی ریاست ابھی تک وجود میں نہ آئی تھی اس لیے اہلِ اسلام کو ہر معاملے اور ہر بات میں باہمی مشورہ کرنے کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ایک منفرد معاشرہ قائم کرنے اور اسے چلانے کی صلاحیت اور استعداد پیدا کرلیں۔ یہ بات اسلام میں شوریٰ اور افہام و تفہیم کی اہمیت کی دلیل ہے۔
۲- سورہ بقرہ میں ہے: فَاِنْ اَرَادَ فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا (۲:۲۳۳) ’’پھراگر وہ دونوں (میاں بیوی) آپس کی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں توا ن پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘۔
۳- سورئہ اٰل عمران میں ہے: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو‘پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔
سورئہ آل عمران کی مذکورہ آیت کریمہ مفسرین اور اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی امورِ دنیا اور معاملاتِ حکومت میں اہلِ اسلام سے مشورہ لینے اور کثرتِ رائے کا احترام کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کے رسولؐ پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپؐ کسی سے مشورے کے محتاج نہ تھے۔ لیکن اُمت کے لیے ایک اسوہ اور سنت قائم کرنا مقصود تھا۔ ان آیات کے علاوہ بھی بے شمار آیات سے مشورے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ شوریٰ قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جہاں اجتہاد کا حکم دیا وہاں مشورے کا بھی حکم دیا۔ آپؐ کا ذاتی معمول بھی یہی تھا کہ تمام معاملات میں صحابہ کرامؓ سے اجتماعی اور انفرادی مشورہ لیتے تھے۔
معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص موقع پر یہ حضوؐر کی ذاتی رائے تھی مگر آپؐ نے اس پرعمل نہیں کیا۔ آپؐ خود نامزد فرما سکتے تھے مگر آپؐ نے شوریٰ کے حق کو باقی رکھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے حکمران‘ ان لوگوں سے مشورہ لیا کرتے تھے جو اپنی دیانت اور امانت کے اعتبار سے قابلِ اعتماد ہوتے اور جو دین کا علم رکھتے تھے۔ (بخاری‘ ج ۲‘ ص ۱۰۹۰)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا طرز عمل یہ تھا کہ جب آپ کو کسی فیصلہ طلب معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو معاشرے کے سرکردہ افراد سے مشورہ لیتے تھے۔ جب کسی بات پر اتفاق رائے ہوجاتا تو اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (الدارمی‘ ج ۱‘ص ۵۸)
حضرت عمرؓ کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان علومِ قرآنیہ کے ماہرین ہوا کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ نے منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ کتاب و سنت کے بعد‘ میں اس فیصلے کا پابند ہوں گا جس پر تمھارا اتفاق رائے ہوچکا ہو۔ (تاریخ طبرانی‘ ج ۲‘ ص ۱۵۹)
حضرت علیؓ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہم کوئی چیز قرآن وسنت میں نہ پائیں تو کیا کریں؟۔ حضورؐ نے فرمایا: قانون جاننے والے عبادت گزار مسلمانوں سے مشورہ کرو۔ مزید فرمایا: ایسے موقع پر کسی کی انفرادی رائے جاری نہ کرو۔ (اعلام الموقعین‘ج ۱‘ ص ۵۴)
معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں: ۱- انفرادی معاملات ۲- اجتماعی معاملات۔
اس میں سب سے اہم اور نازک حیثیت شوریٰ اہلِ حل و عقد کی ہے‘ یعنی حکومتی سطح کے فیصلے‘ جن میں وزرا اور مشیران اور عوامی نمایندے ریاست کو چلانے کے لیے سربراہِ حکومت کو مشورے اور رائے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شوریٰ بلائی گئی تھی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذؓ بن جبل کو (گورنر بناکر) یمن بھیجا گیا۔ (مجمع الزوائد‘ ص ۴۶‘ ج ۹ بحوالہ اسلامی سیاست)
آخر الذکر صورت دراصل اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد ہے جس پر اہلِ قلم نے سیاست کے عنوان سے قلم اٹھایا ہے۔ دراصل اسلامی حکومت شورائی حکومت ہے اور صاحبِ اقتدار اُس کا رہنما ہے۔ امام‘ شوریٰ کے اختیارات کا نمایندہ ہے اور حکمت عملی کے دائرے میں مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کا ترجمان ہے۔ اس حیثیت سے اسلامی حکومت کا راہنما عام انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ شوریٰ کا فیصلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی شخص صدارت کے منصبِ عظمیٰ پر فائز ہوتا ہے اور اُمت کی راے عامہ ہی سربراہِ حکومت کو اس کے عہدے سے معزول کرسکتی ہے۔ شوریٰ وہ اصول ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نظام میں پارلیمنٹ کا فیصلہ صدر کے فیصلے پر قانونی فوقیت رکھتا ہے۔ سربراہِ حکومت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی طاقت شوریٰ کی طاقت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس سے بے نیاز ہوکر کام کرنا اس کے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔
علامہ ابن عطیہؒ نے اس معاملے میں واضح لکھا ہے کہ اگر سربراہِ حکومت ماہرین علم و فن اور اُمت کے دین دار افراد کی شوریٰ طلب کیے بغیر اپنی رائے سے کام کرتاہے تو اس کو عہدے سے معزول کر دینا چاہیے۔ اس پر تمام علماے قانون متفق ہیں۔ (فتح القدیرشوکانی‘ ص ۳۶۰)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر جماعت کا کوئی فرد اپنے کسی بھائی سے مشورہ طلب کرے‘ تو مشورہ دینا اس کے لیے لازمی ہو جاتا ہے۔(ابن ماجہ)
صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدے سے فارغ ہو کر حضوؐر نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اسی حدیبیہ کے مقام پر قربانی کر کے سر منڈوائو اور احرام کھول دو۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی مگر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا‘ کیونکہ صحابہؓ پر اس وقت رنج و غم کا شدید غلبہ تھا۔ حضوؐر کے دورِ رسالت میں اس ایک موقعے کے سوا کبھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی کہ آپؐ صحابہؓ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضوؐر کو اس موقعے پر سخت صدمہ ہوا۔ اس کٹھن مرحلے میں آپؐ نے اُم المومنین حضرت سلمہؓ سے مشورہ کیا اور اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا اور اُم المومنینؓ کے مشورے پر خود قربانی کی اور سر منڈایا اور پھر آپؐ کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی قربانیاں کرلیں اور احرام کھول دیے۔
یہ ہیں وہ روایات جن سے مشورے کی اہمیت و ضرورت پر روشنی پڑتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ ایک قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔
قرآن مجید میں مشورے کا جو حکم دیا گیا ہے یہ حکم ان امور کے بارے میں ہے جو قرآن کے قانونِ اساسی میں طے شدہ نہیں ہیں اور مشورے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ دنیاوی امور کودین کے ماتحت چلایا جائے۔ (اسلام کا نظامِ حکومت بحوالہ شوکانی‘ ج ۱‘ ص ۳۶۰)
اس قاعدے کلیے کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کس طریقے سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملے کافیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۱۰)
اسی طرح معصیت اور نافرمانی کے کسی معاملے میں مشورہ لینا یا دینا بھی معصیت ہے اور مومن کی شان کے خلاف ہے۔
امام راغب اصفہانیؒ نے تصریح کی ہے کہ مشورے کا مفہوم آرا کا حاصل کرنا ہے اور اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف رائے لینے والے ہوتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف رائے دینے والے ہوتے ہیں۔ ایک سمت کے اصحاب دوسری سمت کے لوگوں سے رائے طلب کرتے ہیں اور کامیابی کے لیے ایک فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں بس اسی کا نام مشورہ ہے۔ (مفردات القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۴۵)
۱- مشاورت کے عمل میں شریک دونوں حضرات کے مابین خوش گوار تعلقات۔ ۲- دونوں افراد کے مابین مطلوبہ مسئلے پر کھل کر گفتگو۔ ۳- مشیر میں اہلیت‘ تجربے اور خوداعتمادی اور قوتِ فیصلہ۔ ۴- مشاورت کے عمل میں مشیر کا مطلوبہ مسئلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھانا۔ ۵- مشاورت سے قبل مکمل تیاری کرنا۔
۱- یک جھتی پیدا کرنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو اُس کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔
۲- ماحول کی تبدیلی: فرد کے ماحول کو تبدیل کر دیا جاتا ہے کیونکہ ایک بدلے ہوئے ماحول میں انسان اپنے لیے آسانی محسوس کرتا ہے۔
۳- مناسب مھارتوں کا حصول: مشورہ لینے والے کی کمزوریوں کی نشان دہی کرکے انھیں دُور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۴- رویے میں تبدیلی: مشورہ طلب کرنے والے فرد کے رویے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور پھر اسے اپنے رویے میں مناسب تبدیلی لانے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
۵- انٹرویو: یہ مشورے کی ایک اہم تکنیک ہے۔ اس کی بدولت فرد سے روبرو گفتگو کی جاتی ہے اور ایسا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اندرونی کیفیت کا خود بخود اظہار کرتا چلا جائے۔ انٹرویو کے دوران دوستانہ فضا قائم ہو اور ہر قسم کی معلومات کو محفوظ رکھا جائے اور آخر میں نتیجہ اخذ کرکے درپیش معاملے کا حل تجویز کیا جاتا ہے۔
___ مشورہ کرنے سے من جانب اللہ حق اور صحیح بات کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
___ مشورے سے معاملے میں خیر و برکت ہوتی ہے اور وزن اور قوت آتی ہے۔
___ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پیروی ہوتی ہے۔
___ کسی معاملے میں مشورہ کرنے اور اس پر کھل کر گفتگو کرنے سے اس کے مثبت و منفی پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مثبت پہلو کو اپنا کر اس کے منفی پہلو سے بچ جانے سے نقصان کا اندیشہ نہیں رہتا۔
___ مشورے سے کام کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیںاور کام میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
___ اجتماعی معاملات میں مشورہ کرنے سے راے عامہ کا اعتماد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔
___ مشورہ کرنے سے اعلیٰ رہنمائی اور رشد و ہدایت حاصل ہوتی ہے۔
___ مشورہ کرنے سے صحیح غورورفکر اور درست نتائج تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔
___ مشورے سے یکسوئی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور صبروتحمل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
___ مشورے کے بعد کام میں اگر کوئی کمی رہ جائے تو بھی انسان نفس اور لوگوں کی ملامت سے بچ جاتا ہے۔
___ مشورہ کرنے سے لوگوں میں خوش گوار برادرانہ تعلق مستحکم ہوتا ہے۔
___ مشورے سے رویوں کا جائزہ لے کر انسان کو مناسب تبدیلی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
___ مشورے سے خوداعتمادی اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔
مشیر کا کردار ایک کنجی کی مانند ہے جس سے وہ صندوق کا تالا کھول کر حقیقت کا اندازہ کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ معتمد ہوتا ہے‘‘ (ابوداؤد‘ ج ۵‘ ص ۳۴۵)۔ گویا مشیر وہ ہونا چاہیے جس کی امانت و دیانت پر بھروسا کیا جا سکتا ہو۔
مشیر کی صفات دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک مثبت‘ یعنی وہ صفات جن کا پایا جانا بہتر اور ضروری ہے۔ دوسری منفی صفات جن کا نہ ہونا بہتر اور ضروری ہے۔
مشورہ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس تفصیلی جائزے سے یہ بات بخوبی اجاگر ہوجاتی ہے کہ اسلامی معاشرت میں اس کی مضبوط روایت رہی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک اہم معاشرتی قدر ہے۔ ایک جمہوری معاشرے کی روح بھی مشاورت میں ہے نہ کہ آمریت۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مضبوط روایت اور قدر کو آگے بڑھایا جائے۔ مشورہ محض رسم بن کر نہ رہ جائے بلکہ ایک فرد کی ذاتی زندگی‘ خاندان‘ اداروں‘ تنظیموں اور جماعتوں سے لے کر‘ اقتداراعلیٰ تک تمام امور میں اس روایت اور قدر کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ یہ ایک معاشرتی چلن بن جائے۔ آمریت کے بجاے مشاورت فروغ پائے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بحیثیت مجموعی اگر مشورے کے ان مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے ‘تو بہت سی ذہنی الجھنوں سے نجات مل سکتی ہے اور زندگی آسان اور پُرمسرت ہوسکتی ہے۔