نومبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

روس میں مسلمانوں کا ماضی وحال

محمدظہیرالدین بھٹی | نومبر۲۰۰۵ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

روس میں اسلام کی آمد

۹۸۸ء میں روسی بادشاہ ولاڈی میر نے تینوں آسمانی مذاہب کے نمایندوں کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ وہ ان سے بات چیت کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک مذہب کو اپنی نوخیز مملکت کا مذہب قرار دے۔ گفتگو کے بعد بادشاہ کو اسلامی اصول و تعلیمات بھائے۔ چنانچہ اس نے قبولِ اسلام اور اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ اس نے مسلم عالمِ دین سے یہ رعایت طلب کی کہ بادشاہ اور روسی رعایا کو شراب نوشی کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ روسی شراب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مسلمان فقیہہ نے یہ شرط قبول کرنے سے صاف انکار کیا۔ اس پر ولاڈی میر نے عیسائیت قبول کرلی۔

یہ حقیقت ہے یا من گھڑت‘ اس سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سرزمینِ روس میں ۹۲۲ء کے قریب پہنچا اور ۱۲۲۹ء تک پھیلتا رہا۔ ۹۲۱ء (۳۰۹ھ) میں عباسی خلیفہ المقتدر باللہ نے‘ بلغاریہ کے بادشاہ الموش بن یلطوار کی درخواست پر‘ بغداد سے ایک دینی سیاسی وفد براعظم ایشیا کے مرکز‘ جو اُس وقت ارضِ صقالبہ کہلاتا تھا ‘کی جانب روانہ کیا۔ یہ وفد علما‘ فقہا‘سرکاری اعلیٰ افسروں اور مؤرخوں پر مشتمل تھا‘اس کی قیادت احمد بن فضلان نے کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالمِ اسلام سے بلغاریہ جانے والے یہ اوّلین لوگ تھے۔ ان سے پہلے مسلمان تاجر بغرضِ تجارت بلغاریہ تک آجارہے تھے اور انتہائی سادگی سے عام اسلامی اصولوں کو پیش کرتے رہے تھے۔ ان کی امانت و دیانت اور حسنِ معاملہ سے لوگ پہلے ہی متاثر تھے۔ ان تاجروں نے ایک طرف بغداد سے وسطِ ایشیا کے ممالک تک اور دوسری طرف بلغاریہ اور روسی قبائل تک ایک طویل تجارتی راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔

جدید تحقیقات کی رُو سے موجودہ مسلم علاقوں کا روس سے تعلق کم از کم آٹھویں مسیحی صدی سے ہے۔ مثال کے طور پر مسلم جمہوریہ بشکیریا کے علاقے لیوشووسیکی میں ہونے والی کھدائی سے اسلامی تہذیب کی کئی علامات ملی ہیں۔ ان میں اہم ترین عباسی خلفاکے چاندی اور سونے کے درہم و دینار ہیں‘ بلکہ کچھ ایسے عربی سکّے بھی ملے ہیں جن کا تعلق دوسری مسیحی صدی سے ہے۔

احمد بن فضلان کی سرکردگی میں سفارتی وفد نے عباسی خلیفہ اور شاہِ بلغاریہ کے مابین سرکاری معاہدے پر دستخط کیے کہ حکمران طبقے تک اسلامی افکار پہنچائے جائیں۔ منتخب و ممتاز افراد کے قبولِ اسلام کے بعد‘ اہلِ بلغاریہ نے اسلامی شعائر و عقائد کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و رسوم اور عرف و رواج بھی اپنائے رکھے حتیٰ کہ مرکز ایشیا کے منبع نور یعنی دبستانِ بخارا سے اُبھرنے والے افکارِ جدید کی روشنی نے بلغاروی عادات و رسوم کو ختم کر ڈالا۔

یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجانا چاہیے کہ مذکورہ بالا ’’وفد ابن فضلان‘‘ نے صدیوں سے جغرافیائی لحاظ سے مختص روسی خطے تک اسلام نہیں پہنچایا تھا بلکہ صرف بلغاروی قوم تک پہنچایا تھا۔ بلغاروی وسط ایشیا کے ترکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وسط ایشیا ہی سے وہ دریاے مولغا کی طرف بڑھے تھے اور اس کے کناروں پر اپنی آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ ان ہی میں سے بعض لوگوں نے قبیلہ ہن کی معیت میں‘ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مشرقی یورپ کا رخ کیا اور جنوب مشرقی یورپ میں بلغاریہ کی مملکت قائم کر لی۔

اس زمانے میں روس کی آخری سرحدیں کوہِ ارال تک تھیں۔ گویا روس محض مولغا بلغار مملکت کا ہمسایہ تھا۔ روس اور بلغاریہ کے مسلمانوں کے مابین تعلقات برابری کی سطح پر قائم رہے مگر روسی حکمرانوں کی نظر بلغاروی مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت پر رہی۔ دسویں صدی کے اوائل سے سولھویں صدی کے نصف تک وہ موقع کی تلاش میں رہے۔ بالآخر روسی بادشاہ ایفان نے مولغا مسلمانوں کو اطاعت پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ۱۵۵۲ء میں مسلم دارالحکومت کازان کا سقوط ہوگیا۔

آرتھوڈکس عیسائیت قبول کرنے کے ساتھ ساتھ روس میں بت پرستی بھی جاری رہی۔  (سنی حنفی) اسلام بھی روس میں حالات کے مطابق اپنی جگہ بناتا رہا۔ سولھویں صدی میں اسلام مولغا‘ تترستان اور بشکیریا میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکا تھا۔ جب روس اور تتارستان میں مسلح تصادم ہوا تو بشکیر اورشاہِ روس کے مابین اس امر پر اتفاق ہوگیا کہ بشکور توستان کو روسی مملکت میں داخل کرلیا جائے‘ جب کہ دین اسلام اس کے مذہب کے طور پر بحال رہے۔ آرتھوڈکس روسی شہنشاہیت نے تترستان اور بشکیریا میں سرکاری طور پر تو اسلام کو بطور دین قبول کرلیا مگر عملاً مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے خوف اور لالچ کا ہر حربہ استعمال کیا حتیٰ کہ اذان کے میناروں پر صلیبیں گاڑ دی گئیں مگر کسی ایک مسلمان کو بھی عیسائی نہ بنایا جا سکا۔

روسی تسلط کے بعد مسلم اوقاف پر دستِ ستم دراز کیا گیا۔ روسی حکمرانوں نے وقف ناموں کے منشا و مضمون کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلم اوقاف کی املاک میں تصرفِ بے جا کیا۔ اسلامی تشخص کو مسخ کر کے اسے مسیحی رنگ دینے کی کوشش کی۔ دریاے مولغا کی ریاست میں مساجد کو تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے جواب میں جب ردعمل سامنے آیا تو حکومت نے اوقاف کی تمام املاک پر قبضہ کر کے انھیں مسیحی اداروں کے حوالے کر دیا۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۳۸)

  • زار شاھی دور حکومت: روسی شہنشاہیت اسلامی اقدار سے متاثر ہوئی‘ چنانچہ اس نے امن و امان کے فروغ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اسلامی قوانین سے استفادہ کیا۔ روسی سیاح اواناسی نیکٹن نے مشرق کی سیاحت کی تھی‘ اس کا مسلمانوں کے ساتھ بہت میل جول رہا۔ اس نے مسلمانوں کے عدل و انصاف‘ عاجزی و تواضع‘ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم نہ کرنا‘ ضعیفوں اور عورتوں سے رحم دلی وغیرہ جیسی صفات کا اپنی یادداشتوں میں بھرپور اظہار کیا۔

اسلامی اقدار سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا روسی شہنشاہ ایفان سوم (۱۴۴۰ئ- ۱۵۰۵ئ) تھا۔ اس کا شمار روسی تاریخ میں مجددین میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ملک کی عدلیہ کا نظام سدھارنے میں بہت زیادہ دل چسپی لی اور کئی اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس نے عدلیہ کی بالادستی قائم کی‘ عوام کو کمرہ عدالت میں کارروائی دیکھنے کی اجازت دی‘ عدالتی اخراجات پانچ گنا کم کر دیے اور عدل و انصاف اور امن و امان کے لیے اس نے اسلامی سزائوں کا بھی نفاذ کیا۔ اس طرح روسی شہنشاہیت کی اصلاح اور اسے عثمانی اسلامی نمونہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۴۲)

  • کمیونزم اور مسلمانانِ روس: انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ ملا تو مسلمانوں نے بھی زمینیں‘ دکانیں‘ تجارتی گودام خریدنے شروع کیے۔ انھوں نے مساجد بھی تعمیر کیں مگر جونھی بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا تسلط ہوا تو مذہب حقیر ہو کے رہ گیا۔ تشدد کے نئے مفہوم سامنے آئے۔ مذہب عوام کے لیے افیون اور سوویت اقوام کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرمایہ داری کے زمانۂ عروج میں تشکیل پانے والے دینی ادارے مقفل کر دیے گئے اور کمیونزم کے فلسفے: ’’مذہبی پیشوا محنت کش انسان کا استحصال کرتے ہیں‘‘ کو فروغ ملا۔

روسی مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں میں ’’اسلامی اتحاد‘‘ اور ’’تُرک اتحاد‘‘ کے نظریات کو کچلنے میں کمیونسٹ حکام نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی کیونکہ اگر یہ افکار عملی جامہ پہن لیتے تو روسی سرحدوں میں بہت بڑی تبدیلی ہوسکتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ اور بیسویں صدی کے ربع اوّل میں متعدد مسلم ممالک میں سیکولرازم کے ظہور نے روسی کمیونسٹوں کو اپنے زیرتسلط مسلمانوں کو کچلنے میں مدد دی‘ حتیٰ کہ روسی مسلمان ’’بے ضرر‘‘ سمجھے جانے لگے۔ ان کی عادات‘ اخلاق‘ رسوم و رواج اور طور طریقوں سب کو بظاہر ختم کر کے رکھ دیا گیا۔

مسلمان زیرزمین خفیہ طور پر نماز ادا کرتے کیوں کہ انھیں سوویت کمیونسٹ حکام کی طرف سے سزا ملنے کا اور جلاوطن کیے جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ اُدھر روس کے مرکزی اقتدار کو ہمیشہ یہ اندیشہ دامن گیر رہتا کہ مسلمانوں کو ذرا سی بھی ڈھیل ملی تو ان کے ہاتھوں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اسلام میں بقا اور تجدد کی صلاحیت ہے‘ وہ دبانے سے اُبھرتا ہے۔ اسلام انسانی تاریخ کے اس خوفناک ترین دور میں بھی زندہ رہا۔ غربت و افلاس‘ ظلم و تشدد اور سائبیریا جیسے سرد ترین مقام میں جلاوطن مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی ختم نہ کرسکی۔ عام مسلمان بلکہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں ترین مسلمان ارکان بھی تمام تر پابندیوں اور کڑی نگرانی کے باوجود خفیہ طور پر اسلامی شعائر پر کاربند رہے۔ جب ۸۰ کی دہائی میں اسلامی شعائر کو ادا کرنے کی اجازت ملی تو مسلمانانِ روس نے اس اجازت کو اپنے دینی و قومی تشخص کو نمایاں کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا۔

سوویت یونین میں بہت سے غیرقانونی (غیر رجسٹرڈ) دینی ادارے قائم تھے۔ اس کا آغاز ۶۰ کی دہائی سے ہوا تھا۔ ۱۹۶۳ء کے آغاز میں پورے سوویت یونین میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ مساجد کی تعداد ۳۲۵ تھی‘ جب کہ غیرسرکاری (غیرقانونی) مساجد کی تعداد ۲۰۰۰ تھی۔ ان تمام غیررجسٹرڈ مساجد کے لیے ہر مسجد کا الگ الگ امام ہوتا تھا۔ یہ ائمہ حضرات عیدین‘ جمعہ اور تمام دینی مواقع پر خفیہ طور پر امامت کراتے تھے۔ سب سے زیادہ دینی تقریبات تتارستان میں ہوتی تھیں۔ چیچن اور انگوش مسلمانوں پر چوں کہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور ان کی اکثریت کو سائبریا میں جلاوطن کر دیا گیا تھا‘ اس لیے ان دونوں مقبوضہ مسلم ریاستوں میں غیرقانونی مساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ اگرچہ یہاں کے مسلم پورے سوویت یونین میں سب سے زیادہ دین دار تھے۔

۹۰ کے عشرے میں روس میں اسلام کو بہت فروغ ملا۔ اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ فریضہ حج ادا کرنے والوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہونے لگا۔ صرف داغستان سے ہر سال ۱۲ ہزار سے زیادہ مسلمان حج پر جانے لگے۔ جنوبی روس کے شہر استراخان میں شیدائیانِ اسلام کی کانفرنس منعقد ہوئی تو نہضتِ اسلام پارٹی قائم ہوئی۔ یہ پارٹی سوویت یونین میں اسلامی تحریک کی محرک ثابت ہوئی۔ تاجکستان میں ۱۹۹۲-۱۹۹۳ء کے عرصے میں یہ پارٹی ملک کی سب سے طاقت ور حزبِ مخالف ثابت ہوئی۔ ماسکو میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود اسے سوویت یونین میں اپنی سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ اسے نومبر ۱۹۹۱ء سے مارچ ۱۹۹۳ء تک تاجکستان میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ملی۔ ۱۹۹۱ء میں اس پارٹی نے سوویت یونین کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا۔ پورے سوویت یونین میں کئی اسلامی تحریکیں برسرِکار تھیں۔ داغستان‘ تتارستان وغیرہ میں بہت سی علاقائی سطح کی مسلم جماعتیں ظہور میں آئیں جیسے چیچنیا میں اسلامک پاتھ اور داغستان میںڈیموکریٹک اسلامی پارٹی وغیرہ۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۹)

  • ریشین فیڈریشن میں شامل مسلم ریاستیں اور ان کے مسائل: طویل تاریخی تصادم کے نتیجے میں سوویت یونین کے ڈھانچے سے چھے اسلامی مملکتیں برآمد ہوئیں‘ جب کہ ابھی تک تقریباً ۲۳ ملین مسلمان‘ سوویت فیڈریشن میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اقوام آزادی کے لیے کوشاں ہیں‘ جب کہ باقی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یوں مسلمانانِ روس تین مرحلوں سے گزرے ہیں۔ عیسائی بنانے کے درپے زارانِ روس‘ مارکسزم اور کمیونزم کا فولادی شکنجہ اور وفاقی سیکولرازم۔

روس ۹۰ سے زائد انتظامی وحدتوں میں منقسم ہے‘ ہر وحدت گویا وفاق کی ایک اکائی ہے جو عملاً دارالحکومت ماسکو کے زیرانتظام ہے۔ یہ انتظامی وحدت جمہوریہ‘ صوبہ‘ علاقہ یا حق خود ارادیت رکھنے والی ریاست ہوسکتی ہے۔ روس میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی جمہوریائوں میں رہ رہی ہے جنھیں یونائٹیڈ ریشین فیڈریشن کے قانون کی رُو سے یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو آزادی کے لیے کوشش کرسکتی ہیں۔ ان میں سے ہر جمہوریہ کی اپنی الگ پارلیمنٹ ہے‘ اپنا صدر اور بجٹ ہے جو وفاقی بجٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ ملحقہ جدول سے روس میں مسلمانوں کی جغرافیائی پوزیشن       واضح ہوگی۔ مسلمان دو علاقوں میں مرکوز ہیں۔ پہلا علاقہ: روس کے مرکز میں فولغا اور اورال کا علاقہ۔  اس میں چھے جمہوریائیں ہیں: ۱- تترستان ‘۲- بشکیریا‘ ۳- جوفاش‘ ۴- مورود وفیا‘ ۵-ماری یل‘ ۶-اودموت۔ مسلمان بڑی انتظامی وحدت‘ یعنی صوبہ اورن برگ میں موجود ہیں۔ دوسرا علاقہ: شمالی کوہِ قاف جو سات جمہوریائوں پر مشتمل ہے: ۱-داغستان‘ ۲-چیچنیا‘ ۳-انگوشیا‘ ۴-قبردین بلغاریا‘ ۵- شمالی اوسیٹما الانیا‘ ۶- ادیغہ‘ ۷- قارچیف چرکپیا۔

شمالی کوہ قاف بڑے کوہ قاف کے برابر کا حصہ ہے۔ اس بڑے کوہ قاف کا جنوبی نصف روسی سرحدوں سے باہر ہے اور تین ممالک میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک مسلم ملک‘ یعنی آذر بائیجان ہے‘ جب کہ باقی دو ملک جارجیا اور آرمینیا عیسائی ہیں۔

روسی مسلمان مختلف لسانی اور نسلی خاندانوں کی طرف منسوب ہیں۔ روسی مسلمان ۴۰ مختلف نسلی گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی جمہوریہ داغستان کی مثال دیتے ہیں جس کے باشندے ۱۲ (لسانی نسلی) گروپوں کی طرف منسوب ہیں۔

قلب روس (فولغا اور اورال کے علاقوں) میں رہنے والے مسلمان بے بہا معدنی ثروت‘ تیل کے ذخائر‘ بھاری اور متوسط صنعتوں کے باوجود علیحدگی کے لیے کوشاں نہیں‘ اس لیے کہ وہ روس کے مرکز میں ہیں‘ روس انھیں کسی قیمت پر آزادی نہیں دے گا۔ بالفرض اگر وہ آزاد ہوبھی گئے تو وہ چاروں طرف سے روس میں گھرے ہوںگے‘ جب کہ کوہ قاف کی مسلم ریاستیں___ چیچنیا اور کسی حد تک داغستان کی حالت دیکھتے ہوئے کم از کم مستقبل قریب میں کسی ایسے تلخ تجربے کے لیے تیار نہیں جس میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں اور آبروئیں ضائع ہوں۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۶)

چند نمایاں مسائل

کمیونزم کے طویل تسلط سے نجات کے بعد روس کے مسلمان صحت‘ تعلیم اور دیگر سماجی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بالخصوص نوجوان طبقہ بے روزگاری کا شکار ہے۔ چند مسائل یہ ہیں:

آبادی میں اضافہ اور سھولیات میں کمی:شرحِ پیدایش کے لحاظ سے روس اس وقت دنیا کے ممالک کی فہرست میں ۱۴۱ ویں نمبر پر ہے۔ مسلم اکثریت کی روسی ریاستوں چیچنیا‘ داغستان‘ انگوش‘ شرکس اور کارچیف کی مسلم آبادی کا روس کی عام آبادی سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غیرمسلم روسی آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔ ۱۹۹۲ء سے روس کی آبادی میں ۵ئ۳ ملین افراد کی کمی ہوئی ہے۔ روسی وزارتِ داخلہ کی تحقیق کے مطابق روس کی آبادی ۱۴۵ ملین سے کم ہو کر ۲۰۱۰ء میں صرف ۱۳۰ ملین رہ جائے گی‘ جب کہ ۲۰۵۰ء میں روس کی کل آبادی گھٹ کر صرف ۷۰ملین ہوجائے گی۔ مسلمانوں کی روز افزوں آبادی روسی حکام کے لیے خطرہ ہے کیونکہ مسلمان روسیوں سے نظریاتی اختلاف اور تاریخی تصادم و کش مکش کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے پیش نظر مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جا رہے‘ بلکہ مختلف حربوں سے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں جس وجہ سے مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کی بدنظمی و زیادتی : روسی مسلمان اسلام کے سنہری اصولوں عدل‘ مساوات‘ آزادی اور اخوت کو اپنے لیے آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ وہ خلافتِ راشدہ کو تاریخ انسانیت کا سنہری دور سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف روسی حکمرانوں کی بدانتظامی‘تعصب اور نفرت پر مبنی کارروائیوں کو دیکھ کر وہ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں روس سے الگ ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن چیچنیا کے خونی تجربے کے بعد وہ روس سے لڑ کر علیحدہ ہونے کا نہیں سوچتے۔ مسلمانوں پر زیادتی روسی حکام کا وتیرہ ہے۔ جس سے مسلمان مشتعل ہوجاتے ہیں۔مسلم کارکنوں اور روسی پولیس کے مابین ایسے ہی ایک تصادم کے بعد ۹ جون ۲۰۰۳ء کو ۱۰۰ سے زائد افراد کو ماسکو میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام لگایا کہ یہ ممنوعہ حزب آزادی اسلامی (اسلامک فریڈم پارٹی) کے ارکان کی سرکردگی میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ روسی حکام مسلمانانِ روس کے اتحاد سے سخت خوف زدہ ہیں اور اس اتحاد کو کسی بھی حالت میں قائم نہیں ہونے دیتے۔ ادھر روس کے چوٹی کے اخبارات جہاد کے بارے میں منفی شرانگیز پروپیگنڈے میں منہمک ہیں۔ روسی مسلمانوں کی انٹرنیٹ پر صرف دو ویب سائٹ ہیں۔ دونوں کو ماسکو کی طرف سے سخت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ سابق سوویت صدر میخائل گوربا چوف نے ان حالات کو دیکھ کر روسی حکام سے کہا ہے کہ وہ چیچنیا کو خصوصی اہمیت دے اور امریکا کے عراق میں پھنسنے سے عبرت حاصل کرے۔ (المجتمع‘  شمارہ ۱۶۴۰)

یھودی مذموم پروپیگنڈا :روسی یہودی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ بہت سے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہودی سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں ایک یہودی حاخام عفروم شمولی ویچ (سربراہ تحریک براے مادر وطن) نے کئی مضامین میں یہ شرانگیز بات کہی کہ روس میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مسلمان ملوث ہیں لہٰذا مسلمانوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

مسلمانانِ روس کی قومی تنظیم نے اس یہودی کی الزام تراشی کا سخت نوٹس لیا ہے‘ جب کہ روسی پارلیمنٹ کے ارکان کے ایک گروپ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روس میں یہود کی تمام مذہبی‘ ثقافتی اور سیاسی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔ ان ارکانِ پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ یہودی تنظیمیں ملک میں فرقہ واریت‘ نفرت اور انتشار کو ہوا دیتی ہیں۔ یہود کا ایک مختصر سا ٹولہ روس جیسی عظیم مملکت کے تمام وسائل پر قابض ہے‘ جس طرح امریکا میں مختصر سی یہودی اقلیت نے پورے امریکا کو اپنے اور اسرائیل کے مفادات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ روس میں یہودیوں کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے مگر وہ ملک کے ۷۰ فی صد سے بھی زائد وسائل پر قابض ہیں۔ یاد رہے کہ صہیونیت دشمنی اور یہودی تسلط کا سب سے بڑا مخالف ایک ریٹائرڈ جنرل ماکشوف ہے۔ اُسے روسی عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے۔

  • روسی خاندان اور معاشرہ بحران کا شکار: روس کی کل آبادی ۱۴۴ ملین ہے‘ جس میں سے ۲۳ملین مسلمان ہیں۔ روس کے مشہور ماہر عمرانیات الگزینڈر سینی لینیکوف کی رائے میں روسی خاندان اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ روسی تکبر اور انانیت میں مبتلا ہیں۔ روس میں ہر سال ۷۷۰ ہزار شادیاں ہوتی ہیں۔ سال میں ۲۰ فی صد طلاقیں ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال ۳۴ ملین افراد شادی کے بندھن میں بندھ گئے مگر ان میں سے ۳ ملین کا سرکاری طور پر اندراج نہیں ہوا۔ روسی ماہر عمرانیات کے بقول: ’’شادی کو رجسٹرڈ کرانے کا کیا فائدہ؟ جب بعد میں یک دم طلاق تک نوبت پہنچتی ہو۔ طلاق کی صورت میں مرد کو بچوں کا نفقہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ نیز اپنے گھر اور ملکیت میں سے ایک حصے سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے بہت سے جوڑے شادی کو رجسٹرڈ ہی نہیںکراتے تاکہ علیحدگی کی صورت میں ان اخراجات سے بچا جا سکے‘‘۔

ماسکو یونی ورسٹی کے ایک ماہر عمرانیات کے بقول: شادیوں کی ناکامی میں ذرائع ابلاغ کا بہت دخل ہے۔ ڈائجسٹوں اور رسالوں میں ازدواجی زندگی کے تلخ پہلو سامنے لائے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کو صرف مادی طور پر خوش حال ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بڑی عمر میں کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گذشتہ ۱۵ برسوں میں شرحِ پیدایش میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ اب شرح پیدایش صرف ۲۵ئ۱ ہے‘ جب کہ بقا کے لیے شرح پیدایش ۱۵ئ۲ درکار ہے۔ بچوں کی پیدایش اور ان کی تربیت کے لیے شادی ضروری تصور نہیں کی جاتی۔ حکومت کو شرحِ پیدایش میں کمی پر تشویش ہے اور وہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مالی امداد اور دیگر سہولتوں کی ترغیب دے رہی ہے۔

روس کی اعداد وشمار کمیٹی کے سربراہ ولادی میر سوکولین نے کہا ہے کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد بچے ایسے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی سرکاری طور پر رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ روس‘ امریکا‘ کینیڈا اور آسٹریلیا اس معاملے میں یکساں ہیں۔ فرانس اور برطانیہ میں ناجائز بچوں کی شرح   ۴۰فی صد ہے‘ جب کہ سویڈن میں یہ شرح ۵۰ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔

چیچنیا پر فوج کشی کا بھی روسی معاشرے پر اثر پڑا ہے۔ ۱۹۹۳ء سے لے کر اب تک ۸۰ہزار روسی فوجی چیچنیا میں ہیں۔ روسی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے آغاز سے پہلے وہاں سے فوج مکمل طور پر نکل جائے گی۔ چیچنیا میں روسی فوجی شہریوں سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں مختص خاتون یاک ہین ارتورک نے کہا ہے کہ انھوں نے ایسی شہادتیں جمع کرلی ہیں جن سے روسی فوجیوں کی طرف سے چیچن خواتین پر تشدد کی تصدیق ہوتی ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ میں مجاہدین اور شہدا کی مائوں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کو ’’سیاہ عورتیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

ریشین فیڈریشن کے زیرانتظام بحیثیت مجموعی مسلم ریاستوں کو مشکلات‘ مسائل اور روسی حکومت کے جبر کا سامنا ہے۔ روسی افواج مظالم بھی ڈھا رہی ہیں‘ وسائل کی قلت بھی درپیش ہے‘ سیاسی آزادیوں سے بھی محرومی ہے‘ تاہم مسلمان منظم ہو رہے ہیں‘ اسلامی تنظیمیں آگے بڑھ رہی ہیں‘ جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور اس کے لیے تمام ممکنہ ذرائع و وسائل کام میں لا رہی ہیں‘ جذبۂ جہاد سے سرشار مجاہدین بھی سرگرم عمل ہیں۔ دوسری طرف روسی معاشرہ خود انتشار کا شکار ہے‘ اقتصادی حالت بگڑ رہی ہے___ ریشین فیڈریشن جبر اور طاقت کے بل پر مسلمانوں کو زیادہ دیر تک دبا کر نہیں رکھ سکتی۔ (ماخوذ: المجتمع‘ شمارہ ۱۶۲۴‘ ۱۶۳۸)

انتظامی وحدت

رقبہ

آبادی

مسلمانوں کی شرح

تتارستان

۶۸ ہزار مربع کلومیٹر

۴۲ لاکھ

۶۵ فی صد

بشکیریا

۶ئ۱۴۳ ہزار  "

۴۳   "

۶۰   "  

چوفاش

۱۲  ہزار

۱۶    "

۵۸   "  

موردوفیا

۲۸    "

۱۲    "

۵۵   "  

ماری یل

۳۴   "

۱۰    "

۵۲   "  

اودمورت

۴۳   "

۲۰    "

۵۲   "  

اورن برگ

ایک لاکھ ۲۴ ہزار

۲۵    "

۵۳   "  

داغستان

۵۳ ہزار

۳۲   "

۷۵   "  

چیچنیا

۱۷   "

۱۰    "

۷۴   "  

انگوشیتیا

۴    "

۵۰   "

۷۴   "  

کابردین بلکاریہ

۱۲ ہزار ۵ سو

۹     "

۷۵   "  

اوسیتیا شمالی الانیہ

۸   ہزار

۸    "

۵۳   "  

ادیغہ

۷۶  "

۶    "

۶۰   "  

قارچییف - چیرکیسیا

۱۴   "

۶    "

۷۵   "