نومبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

اسلامی مملکت کا دفاع قرآن کی روشنی میں

پروفیسر رشیداحمد انگوی | نومبر۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

انسانی تاریخ کا سفر جاری ہے۔ لمحۂ موجود میں عالم اسلام مسلح کفر کی بے رحم جارحیت سے دوچار ہے۔ مسلم ممالک کی کاہلی و غفلت اور احکام الٰہی کی حکم عدولی کی بنا پر اُمت مسلمہ کو ذلت و رسوائی کا سامنا ہے‘ ان کی آزادیاں چھینی جارہی ہیں‘ تہذیب ملیامیٹ کی جارہی ہے اور ان کی زمینوں میں مغرب کے ایجنٹ ہراول دستے تعلیم و ثقافت اور سیاست و سرکار کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وقت کی ضرورت اور پکار ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے حالات کا تفصیلی و تنقیدی جائزہ لے کر اصلاح حال کی کوشش کرے۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ مضمون ہے جس میں گذشتہ صدی کے مفسرین کی تفاسیر سے سورۂ انفال کی آیت نمبر ۶۰ اور ۶۱ کے حوالے سے رہنمائی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ خالصتاً دین و ایمان کا مسئلہ ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر اس کا دقتِ نظر سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ یہ اُمت آخری آسمانی کتاب ہدایت کی حامل اور آخری و رہنما اُمت کے مقام پر فائز ہے‘ اور اس شمع ہدایت کو مٹانے والوں کی آرزوئوں کے سامنے ڈٹ جانا اس کے منصب کا تقاضا ہے۔ آیئے علماے اُمت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ

مسلمانوں پر فرض ہے کہ جہاں تک قدرت ہو سامانِ جہاد فراہم کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں گھوڑے کی سواری‘ شمشیرزنی اور تیراندازی وغیرہ کی مشق کرنا    سامانِ جہاد تھا۔ آج بندوق‘ توپ‘ ہوائی جہاز‘ آبدوز کشتیاں‘ آہن پوش کروز وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا‘ بلکہ ورزش وغیرہ کرنا‘ سب سامان جہاد ہے۔ اسی طرح آیندہ جو اسلحہ و آلات حرب و ضرب تیار ہوں‘ ان شاء اللہ وہ سب آیت کے منشا میں داخل ہیں۔ باقی گھوڑے کی نسبت تو آپؐ خود ہی فرما چکے کہ قیامت تک کے لیے خدا نے اس کی پیشانی میں خیر رکھ دی ہے۔ اور احادیث میں ہے کہ ’’جو شخص گھوڑا جہاد کی نیت سے پالتا ہے‘ اُس کے کھانے‘ پینے بلکہ ہر قدم اٹھانے میں اجر ملتا ہے اور اُس کی خوراک وغیرہ تک قیامت کے دن ترازو میں وزن کی جائے گی‘‘… یہ سب سامان اور تیاری دشمنوں پر رعب جمانے اور دھاک بٹھانے کا ایک ظاہری سبب ہے۔ باقی فتح و ظفر کا اصلی سبب تو خدا کی مدد ہے… اور وہ لوگ جن کو بالیقین تم نہیں جانتے منافقین ہیں جو مسلمانی کے پردہ میں تھے‘ یا یہود بنی قریظہ‘ یا روم و فارس وغیرہ سب قومیں جن سے آیندہ مقابلہ ہونے والا تھا۔

مالی جھاد: جہاد کی تیاری میں جس قدر مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا‘ یعنی ایک درہم کے ۷۰۰ درہم اور بسااوقات دنیا میں بھی اس سے کہیں زیادہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تیاری اور مجاہدانہ قربانیوں کو دیکھ کر بہت ممکن ہے کہ کفار مرعوب ہوکر صلح و آشتی کے خواستگار ہوں تو آپ کو ہدایت ہے کہ حسب صوابدید آپ بھی صلح کا ہاتھ بڑھا دیں کیونکہ جہاد سے خونریزی نہیں‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور دفع فتنہ مقصود ہے۔ اگر بدون خونریزی کے یہ مقصد حاصل ہوسکے تو خواہی نہ خواہی خون بہانے کی کیا حاجت ہے۔ اگر یہ احتمال ہو کہ شاید کفار صلح کے پردے میں ہم کو دھوکا دینا چاہتے ہیں تو کچھ پروا نہ کیجیے‘ اللہ پر بھروسا رکھیے وہ اُن کی نیتوں کو جانتا اور اُن کے اندرونی مشوروں کو سنتا ہے۔ اُس کی حمایت کے سامنے ان کی بدنیتی نہ چل سکے گی۔ (تفسیر عثمانی‘ ص ۲۳۸)

مولانا مفتی محمد شفیعؒ

مقابلے کی قوت جمع کرو۔ اس میں تمام جنگی سامانِ اسلحہ‘ سواری وغیرہ بھی داخل ہیں اور اپنے بدن کی ورزش‘ فنونِ جنگ کا سیکھنا بھی۔ قرآن کریم نے اس جگہ اُس زمانے کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرماکر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہرزمانے اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اُس زمانے کے اسلحہ تیر‘ تلوار‘ نیزے تھے۔ اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا۔ پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت اُن سب کو شامل ہے۔ اس لیے آج کے مسلمانوں کو بقدرِ استطاعت ایٹمی قوت‘ ٹینک اور لڑاکا طیارے‘ آب دوز کشتیاں جمع کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس کے لیے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار سے مقابلے کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔

آج بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کو گھوڑوں کے بغیر فتح نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے۔ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامانِ جنگ فراہم کرنے اور اُس کے استعمال کی  مشق کرنے کو بڑی عبادت اور موجبِ ثواب عظیم قرار دیا ہے۔ تیربنانے اور چلانے پر بڑے بڑے اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اور چونکہ جہاد کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہے‘ اور دفاع ہرزمانے اور ہر قوم کا جدا ہوتا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جَاہِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح دفاع و جہاد ہتھیاروں سے ہوتا ہے بعض اوقات زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلم بھی زبان ہی کے حکم میں ہے۔ اسلام اور قرآن سے کفر والحاد کے حملوں اور تحریفوں کی مدافعت زبان یا قلم سے‘ یہ بھی اس صریح نص کی بنا پر جہاد میں داخل ہے۔ سامانِ جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل و قتال نہیں بلکہ کفرو شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کر دینا ہے۔ وہ کبھی صرف زبان یا قلم سے بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات اُس کے لیے قتل و قتال ضروری ہوتا ہے۔ جیسی صورت حال ہو اُس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے۔ جنگ و جہاد کی تیاری سے جن لوگوں کو مرعوب کرنا مقصود ہے اُن میں سے بعض کو تو مسلمان جانتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا مقابلہ جاری تھا‘ یعنی کفار مکہ اور یہود مدینہ۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو ابھی تک مسلمان نہیں جانتے۔ مراد اس سے پوری دنیا کے کفار و مشرکین ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے مقابلے پر نہیں آئے۔ آیندہ ان سے بھی تصادم ہونے والا ہے۔ مگر اس آیت نے بتلا دیا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے موجودہ حریف کے مقابلے کی تیاری کرلی تو اس کا رعب صرف انھی پر نہیں بلکہ دُور دُور کے کفار‘ کسریٰ و قیصر وغیرہ پر بھی پڑے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خلفاے راشدین کے عہد میں یہ سب مغلوب و مرعوب ہوگئے۔ جنگی سامان جمع کرنے اور جنگ کرنے میں ضرورت مال کی بھی پڑتی ہے بلکہ سامان جنگ بھی مال ہی کے ذریعے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے آخر آیت میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اُس کا اجرعظیم اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اُس کا پورا پورا بدلہ تمھیں دے دیا جائے گا۔(معارف القرآن‘ ج ۴‘ ص۲۷۲ تا ۲۷۴)

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ

اس سے مطلب یہ ہے کہ تمھارے پاس سامانِ جنگ اور ایک مستقل فوج (standing army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کارروائی کرسکو۔ بین الاقوامی معاملات میں تمھاری پالیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسے پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے‘ بے تکلف اس کے لیے تیار ہوجائو۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھائو تاکہ تمھاری اخلاقی برتری ثابت ہو اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تاکہ کبھی کوئی غدار قوم تمھیں نرم چارہ سمجھنے کی جرأت نہ کرے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۵۵ تا ۱۵۶)

مولانا ابوالکلام آزادؒ

فرمایا: ’’جہاںتک تمھارے بس میں ہے‘‘ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی جماعت اس طرح کا سروسامان جنگ مہیا کرسکے جو ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ پس معلوم ہوا‘ مسلمانوں کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق جو کچھ کرسکتے ہیں کریں‘ اور اداے فرض کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب تک دنیا جہان کے ہتھیار اور ہرقسم کے سازوسامان مہیا نہ ہوجائیں اس وقت تک بے بسی کا عذر کرتے رہیں اور فرض دفاع سے بے فکر ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روح کو سمجھا ہوتا تو اس اپاہج پنے میں مبتلا نہ ہوتے جو ۱۵۰برس سے تمام مسلمانانِ عالم پر طاری ہے۔ چونکہ جنگ کی تیاری بغیر مال کے نہیں ہوسکتی تھی‘ اس لیے اس کے بعد کی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا۔ اگر اس انفاق کی حقیقت آج مسلمان صحیح طور پر سمجھ لیں‘ تو ان کی ساری مصیبتیں ختم ہوجائیں۔ آیت ۶۱ نے کیسے قطعی لفظوں میں قرآن کی دعوتِ امن کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب کہ جنگ بدر کے فیصلے نے مسلمانوں کی  فتح مندی آشکار کر دی تھی اور تمام جزیرہ عرب ان کی طاقت سے متاثر ہونے لگا تھا۔ تاہم‘ حکم ہوا جب کبھی دشمن صلح و امن کی طرف جھکے‘ چاہیے کہ بلاتامل تم بھی جھک جائو۔ اگر اس کی نیت میں   فتور ہوگا تو ہوا کرے اس کی وجہ سے صلح و امن کے قیام میں ایک لمحے کے لیے بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (ترجمان القرآن‘ ج ۲‘ ص ۶۸-۶۹)

سید قطب شھیدؒ

اسلام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ضروری قوت موجود ہو اوروہ اس قوت کے  بل بوتے پر آگے بڑھے اور تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے رہا کرائے۔ چنانچہ اس قوت کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس قدر آزاد کرا دے کہ وہ کوئی بھی نظریہ قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ انھیں کوئی روکنے والا نہ ہو اور نہ دنیا میں ایسی قوت ہو کہ کسی کو کسی مخصوص عقیدے کے اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی ہو۔ دوسرا فریضہ یہ ہے کہ یہ قوت دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر خوف زدہ کرے کہ وہ اسلامی ریاست کے قوت مرکز ‘یعنی دارالاسلام پر حملے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ اور تیسرا فریضہ یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر مرعوب کر دیا جائے کہ وہ اسلام کی راہ روکنے کے بارے میں کسی بھی وقت نہ سوچیں تاکہ اسلامی تحریک اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو آزاد کرسکے۔ اور چوتھا فریضہ یہ ہے کہ یہ اسلامی قوت ان تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے جو اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت قائم کرتی ہیں اور لوگوں پر اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت اور اپنا قانون جاری کرتی ہیں‘ اور وہ یہ اعتراف نہیں کرتیں کہ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے کیونکہ وہی الٰہ ہے‘ وحدہ لاشریک۔ اسلام پوری زندگی کا ایک عملی نظام ہے اور وہ تمام دوسرے نظاموں کے مقابلے میں آکر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ان تمام قوتوں سے برسرِپیکار ہوجاتا ہے جو ان باطل نظاموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس کے سوا اسلام کے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی راہ میں حائل ہونے والی تمام قوتوں کو پاش پاش کر کے رکھ دے کیونکہ یہ قوتیں اسلام کی راہ روکتی ہیں اور اسے قائم ہونے نہیں دیتیں بلکہ یہ قوتیں اسلام کے بالمقابل دوسرے نظام قائم کرتی ہیں۔

اس آیت میں ہمیں جس حد تک تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی حدود کا بھی ہمیں اچھی طرح علم ہونا چاہیے‘ یعنی جس قدر تمھاری استطاعت میں ہو‘ یعنی تیاری میں اپنی پوری قوت صرف کردو۔ پھر اس آیت میں اس تیاری کی غرض و غایت بھی بتا دی گئی ہے: ’’تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے دشمنوں اور اللہ کے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرسکو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘، یعنی اس تیاری کے مقاصد یہ ہیں کہ اس سے تمھارے دشمن جو اللہ کے دشمن ہیں خوف زدہ ہوجائیں۔ ان میں وہ ظاہری دشمن بھی شامل ہیں جن کو مسلمان جانتے ہیں اور کچھ ان کی پشت پر دشمن طاقتیں ہیں جن کا علم مسلمانوں کو تو نہیں ہے لیکن اللہ کو ہے۔ مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ وہ صاحبِ قوت ہوں اور ان پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک قوت جمع کریں تاکہ وہ زمین کے تمام لوگوں کے لیے باعث خوف ہوں اور یہ اس لیے کہ دنیا پر اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ اب جنگی تیاریوں کے لیے چونکہ اخراجات ہوں گے اور تھے--- لہٰذا جنگی تیاریوں کے حکم کے ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں اپنی دولت کو      خرچ کر--- اسلام جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو تمام دنیاوی اغراض و مقاصد سے پاک کردیتا ہے۔ اسلام صرف ایک جنگ کی اجازت دیتا ہے‘ یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی نسل دوسری نسلوں‘ یا کوئی وطن دوسرے اوطان پر‘ یا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقات پر‘ یا فرد دوسرے افراد پر‘ یا کوئی قوم دوسری قوم پر غالب ہوکر اپنی حاکمیت‘ اپنی حکومت اور اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرے۔(فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی‘ ج ۳‘ ص ۳۶۲-۳۶۴)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ

جہاد کے لیے قابل جہاد لوگوں کو بھی منظم کرو اور تربیت دیے ہوئے گھوڑے بھی تیار رکھو۔ اپنی فوجی قوت نفری کے اعتبار سے بھی اور اسلحہ و اسباب جنگ کے اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ اس زمانے کی جنگ میں گھوڑوں کو وہی اہمیت حاصل تھی جو اس زمانے میں ٹینک اور ہوائی جہاز کو حاصل ہے۔ اس تیاری کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ کے اور تمھارے دشمنوں پر تمھاری دھاک اور ہیبت قائم رہے کہ تمھیں نرم چارہ سمجھ کر وہ تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہاں مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اللہ کا دشمن ٹھیرایا ہے‘ اس لیے کہ مسلمانوں کی جنگ جس سے بھی تھی‘ اللہ کے دین کے لیے تھی‘ اس میں کسی اور چیز کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اللہ اور مسلمانوں کے یہ دشمن دو قسم کے تھے۔ ایک تو وہ جو سامنے آچکے تھے‘ مثلاً قریش‘ جو روز اوّل سے دشمن تھے۔ دوسرے وہ جو ابھی پردے میں تھے‘ مثلاً یہود‘ جن کی خفیہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر اُوپر گزر چکا ہے۔ نیز وہ قبائل جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ غیر جانب داری تھا لیکن‘ یہود اور قریش کی تحریک سے وہ بھی پر تولنے لگ گئے تھے۔ علاوہ ازیں وہ منافقین جو منافقت میں بڑے مشاق تھے اور برابر دشمنوں کی مقصد برآری کے لیے مصروف سازش رہتے تھے۔(تدبر لقرآن‘ ج۳‘ ص ۹۳)

مولانا اشرف علی تہانویؒ

حدیثوں میں تیراندازی کی مشق اور گھوڑوں کو رکھنے اور سواری سیکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اب بندوق اور توپ قائم مقام تیر کے ہے اور عموم قوت میں یہ سب اور ورزش بھی داخل ہے۔(بیان القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۰)

مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ

آیت میں بڑی گہری حقیقت کی تعلیم ہے وہ یہ کہ اہلِ کفر تو برابر تمھارے دین کے دشمن رہا ہی کریں گے۔ تم ان سے مقابلے کے لیے ہمیشہ تیاررہو۔ ان کی طرف سے غافل کبھی نہ ہو اور اپنے پاس وہ سامان برابر تیار رکھو جن سے ان پر ہیبت طاری ہوتی ہو اور ان کے دل دہلتے ہوں۔ مِنْ قُوۃِ… قوۃ کا لفظ عام ہے‘ عددی قوت‘ سامانِ جنگ کی قوت‘ آلاتِ حرب کی قوت‘ سب کچھ اس کے اندر آگیا‘ یہاں تک کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی۔ صاحب روح المعانی نے آیت کے تحت میں بندوق کا ذکر تصریح کے ساتھ کیا ہے اور اگر آج ہوتے تو مشین گن‘ طیارہ‘ اور ٹینک اور جیپ اور  ایٹم بم وغیرہ سب کے نام لکھ جاتے۔ رِبّاطِ الْخَیْل ،سوار فوج کی اہمیت اس حکم سے ظاہر ہے۔ یہاں اشارتاً یہ بتا دیا کہ علاوہ ان کافروں کے جن سے تمھارا سابقہ رہا کرتا ہے کچھ اور بھی قومیں ہیں جو ابھی تمھارے علم میں نہیں مگر اللہ کے علم میں تو ہے کہ کبھی اُن سے بھی تمھاری مڈبھیڑ ہوگی۔ اس میں ایران کے مجوسی اور رومہ کی مسیحی قومیں تو آہی گئیں جن سے آگے چل کر حضرات صحابہؓ کو معرکہ آرائی کرنی پڑی‘ باقی قیامت تک کی ساری مخالف قومیں آسکتی ہیں۔ مرشد تھانویؒ نے فرمایا کہ ان آیتوں میں تدابیر حرب و سیاست بتائی گئی ہیں۔ اُن سے صاف دلالت اس امر پر ہورہی ہے کہ یہ سیاسی تدبیریں بڑے سے بڑے کمالاتِ باطنی کے بھی منافی نہیں۔(تفسیر ماجدی ‘ ص ۳۸۸)

ڈاکٹر غلام مرتضٰی ملک شھیدؒ

ہمہ وقت اتنی تیاری رکھو کہ کوئی تمھیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکے۔ مزید فرمایا کچھ اور لوگ بھی ہیں جنھیں تم نہیں جانتے لیکن اللہ انھیں جانتا ہے‘ان کے لیے بھی تمھیں تیاری کرنا پڑے گی۔ یہاں قوت کے حصول سے مراد جدید ترین ٹکنالوجی کا حصول ہے۔ اس میں ہمیں اپنے دور کی جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کرنا پڑے گی۔ یہ تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے قرآن مجید میں فرض کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی علوم کا حصول ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہوگیا۔ اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دینی کتب کی تیاری سے کام بن جائے گا‘ وہ بھی   غلط ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیوی علوم سے کام بن جائے گا‘ وہ بھی غلطی پر ہیں۔ دونوں کے  حسین امتزاج ہی سے کام چلے گا۔ ان کو باہم یک جان کرنے سے کام بنے گا۔ اس کے بغیر تیاری ممکن نہیں لیکن سائنسی علوم کے حصول سے قبل اچھا مسلمان اور اچھا انسان بننا ضروری ہے۔ اس لیے ایسی طرزتعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی‘ روحانی اور دنیوی علوم خوب صورت توازن کے ساتھ یک جان ہوچکے ہوں۔ اس کے بغیر اس آیت پر عمل ممکن نہیں۔ اسی لیے آیت کریمہ کے بعد قتال اور صلح کے خصوصی احکام کا تذکرہ ہوا کہ ہم بہترین انسان کی حیثیت سے ایک عملی نمونہ بن کر پیش ہوسکیں۔(انوارالقرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۲۷-۲۲۸)

پیر کرم شاہ الازھریؒ

قوۃ سے یہاں کسی خاص ہتھیار کی تخصیص مقصود نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے جنگ میں طاقت حاصل ہو (حوالہ: بیضاوی‘ احکام القرآن)۔ اس سے مراد ہر وہ اسلحہ ہے (جدید ہو یا قدیم) جس سے جنگ میں قوت و طاقت میسر ہوسکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لفظ قوت کی تفسیر ان الفاظ میں منقول ہے: خبردار قوت رمی ہے (تین بار)۔ کلامِ رسالت کی گیرائی ملاحظہ ہو۔ سہم اور قوس (تیروکمان) نہیں فرمایا بلکہ ’’رمی‘‘ کا عام لفظ استعمال فرمایا تاکہ دُور سے نشانے پر پھینکے جانے والے تمام ہتھیار جو اس وقت موجود تھے اور جو قیامت تک ایجاد ہونے والے تھے سب کو شامل ہو۔ قیامت تک اس شمع حق کو بجھانے کی کوشش کرنے والی خدا معلوم کتنی قومیں کس کس علاقے سے اٹھیں گی‘ سب کی سازشوں کو ناکام بنانا‘ سب کے منصوبوں کو خاک میں ملانا‘ اُمت مسلمہ کا فرض اوّلین ہے۔(ضیاء القرآن‘ ج ۲‘ ص ۸۳۳-۸۳۴)

مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ

دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لیے جس قدر مادی قوت اور طاقت تم مہیا کرسکو‘ اس میں دقیقہ اٹھا نہ رکھو اور اتنی طاقت فراہم کرو کہ تمھارا رعب دشمن پر قائم ہوجائے۔ اور وہ تمھاری طاقت سے اتنا مرعوب اور خوف زدہ ہوجائے کہ وہ خود تمھارے ساتھ بدعہدی کرسکے اور نہ تمھارے کسی دشمن کی مدد کرسکے۔ ان لوگوں کو جب تمھاری طاقت کا علم ہوگا تو وہ نہ تم پر حملہ کرنے کی جرأت کریں گے اور نہ تمھارے دشمن کے ساتھ علانیہ تعلق قائم کرنے کی ہمت کریں گے‘ اور اتنا سازوسامان کرو کہ تمھارا دشمن تمھاری طاقت سے مرعوب ہوجائے اور اس پر تمھاری دھاک بیٹھ جائے۔ جو قوت اور طاقت اور زور تم سے بن پڑے وہ مہیا کرو۔ تم کو ایسی طاقت اور قوت فراہم کرنی چاہیے کہ جس سے تمھارے ظاہری دشمن اور چھپے دشمن سب مرعوب اور خوف زدہ ہوجائیں۔ تم اتنی قوت اور طاقت فراہم کرلو جو آیندہ چل کر ان دشمنوں کے مقابلے میں بھی کام آسکے جن کی دشمنی کا تم کو علم نہیں‘ اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ تمھارے چھپے دشمن ہیں‘ تمھاری تاک میں اور موقع کے منتظر ہیں‘ جیسے آج کل خاص کر مغربی ممالک جو دن رات اسلامی حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ احادیث میں اگرچہ قوت کی تفسیر تیراندازی سے کی گئی ہے مگر باعتبار عموم الفاظ اس سے مراد ہر قسم کا سامانِ حرب ہے۔ وہ سازوسامان اور آلات حرب مہیا کرو جس کے ذریعے سے تم دشمن کی مدافعت کر سکو اور اس پر غالب آسکو۔ جس قدر طاقت اور قوت فراہم کرسکتے ہو اس میں کسر نہ چھوڑو اور ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں سامان جنگ بدلتا رہا ہے۔ آیندہ جو اسلحہ اور آلات حرب و ضرب تیار ہوں گے ان شاء اللہ وہ سب اس آیت کے عموم اور مفہوم میں داخل ہوں گے اور عین منشاء قرآنی ہوں گے۔ لہٰذا اس آیت کی رو سے مسلمان حکومتوں پر جدید اسلحہ کی تیاری اور ان کے کارخانوں کا قائم کرنا فرض ہوگا‘ اس لیے کہ اس آیت میں قیامت تک کے لیے ہر مکان و زمان کے مناسب قوت و طاقت کی فراہمی کا حکم دیا گیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر و تلوار کے علاوہ جدید آلاتِ حرب بھی استعمال کیے اور صحابہؓ کو ان کے بناکے کا حکم بھی دیا۔ پس حق جل شانہ نے اس آیت (وَاَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃ) میں ہر قسم کی قوت اور طاقت کے مہیا کرنے کا قطعی حکم دے دیا۔

اس آیت کا عموم قیامت تک ظاہر ہونے والی قوتوں کو شامل ہے‘ لہٰذا اب اگر کوئی اسلامی حکومت اس سے غفلت برتتی ہے تو یہ قصور اس کا ہے اسلام کا کوئی قصور نہیں۔(معارف القرآن‘ ج ۳‘ ص ۲۵۳‘ ۲۵۵‘ ۲۵۷)