ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ گویا رمضان المبارک کی اہمیت روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ نزول قرآن کی شان اس کو اہم بناتی ہے۔یہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ ’’لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے‘ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لیے شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ! کہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی۔ اس پر تو لوگوں کو خوشی منانا چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘ (سورہ یونس ۱۰:۵۸)۔ گویا روزوں میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ‘ وہ قرآن سے تعلق ہے۔ روزے کی شان یہ ہے کہ اس میں کلام الٰہی سے نسبت بڑھائی جائے۔
قرآن سے تعلق بڑھانے اور روزے کی شان دوبالا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟
سب سے پہلے تو ہم اپنی نیت کو خالص کریں کہ تمام نیکیوں اور اعمال کا دارومدارنیت پر ہے۔ نیت شعور و احساس پیدا کرتی ہے‘ شعور بیدار ہو تو ارادہ مستحکم ہوتا ہے اور پھر محنت اور کوشش کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی لیے نماز ‘ روزہ اور عبادت کے لیے نیت کی تاکید کی گئی۔ اگر اعمال میں صحیح نیت کی روح ہو تو وہ اثرآفرینی ‘نشوونما اور نتیجہ خیزی کی قوت رکھتے ہیں۔ اگر نیت خالص نہ ہوگی اور آپ کام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کریں گی تو وہ قبول نہ ہوگا ‘محض راکھ کا ڈھیر ثابت ہوگا۔
۱- خالص نیت کریں کہ رمضان المبارک میں قرآن سننا اور پڑھنا اپنے رب کی رضا کے لیے ہوگا اور اس تمنا کے ساتھ کہ یہ کلام میرے عمل کا حصہ بن جائے۔
۲- یہ بھی رمضان المبارک کی تیاری کا حصہ ہے کہ پہلے سے سوچ لیا جائے کہ کتنی مرتبہ قرآن پاک پڑھنا ہے۔ عربی متن کے ساتھ اُردو ترجمہ کتنی مرتبہ پڑھنا ہے۔ روزانہ کا پارہ اور پھر ترجمہ روز پڑھ لینا ہرگز مشکل نہیں۔ یہ نہ ہو سکے تو پورے پارے کا خلاصہ جو اکثر اخبارات میں روزانہ تراویح کے حساب سے چھپتا ہے‘ ذہن نشین کر لیا جائے۔
۳- حفظ کی کوشش کرنا ۔جو قرآن کا حصہ حفظ ہے‘ اس کو دہراتے رہنا ۔
رمضان المبارک کے آغاز پر ہی ہم کوئی ایک اچھی عادت اپنانے کا ارادہ کر لیں‘ کوئی ایک بری عادت چھوڑنے کا سوچ لیں اور پورا مہینہ اس پر کاربند رہیں۔ جس طرح ہم ہر وقت کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ظاہری لباس کو خوب سے خوب تر بنائیں‘ اسی طرح تقویٰ کا لباس بہترین سے بہترین بنانے کے لیے کوشش تیز کر دینی چاہیے۔
مطالعہ قرآن و حدیث ‘ اسلامی لٹریچر‘ نوافل‘ خیرات‘ نیکی کی جستجو‘ ذکر و دعا‘ قیام اللیل‘ شب قدر‘ اعتکاف اور اللہ کے بندوں کی مدد--- یہ وہ چیزیں ہیں جو تقویٰ کا لباس بنانے کے لیے ہمیں درکار ہیں۔ ان سب کے لیے اپنے اوقات کار اور اپنے کاموں کو منظم کرنا اور سہولت حاصل کرنا ضروری امر ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں‘ راتوں کو اپنے رب سے لو لگانے کا خاصا وقت مل سکتا ہے۔
میں یہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گی کہ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے ہم جہاں گھر کی صفائی خوب توجہ اور خاص محنت سے کرتے ہیں‘ کچھ ایسی ہی صفائی اپنی روحانی دنیا کی بھی کرنی چاہیے۔ تقویٰ جو دل میں اپنا مقام بناتا ہے‘ اس دل کی صفائی کتنی کر لی گئی ہے۔ کتنے اخلاقی اوصاف اس گھر میں سجائے گئے ہیں اور اخلاقی برائیوں کے کتنے جالے اور جھاڑ جھنکار‘ اس گھر میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک اس اندرونی گھر کی صفائی نہ ہوگی گھروں‘ کپڑوں اور جسم کی صفائی ادھوری رہے گی۔
رمضان المبارک کی پہلی سحری آپ کی جدوجہد کا بنیادی نقطہ بن سکتی ہے۔ کچن کے معاملات میں تھوڑی سی سمجھ داری سے کام لیا جائے تو بہت سا وقت اور بہت سی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔
رمضا ن المبارک کی سحری و افطار کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند دن پہلے ہی کچھ کام کر لیے جائیں تو انتہائی سہولت رہتی ہے:
پیاز‘ لہسن اور ادرک چھیلنے پیسنے میں بہت وقت لگتا ہے‘ اگر ایک دن بچوں کو ساتھ ملا کر یا گھر میں کام کرنے والی ماسی کے ذریعے مہینے بھر کا مسالہ پسوا لیا جائے‘ پیاز سرخ کر کے پیس لی جائے اور یہ سب چیزیں شیشیوں میں بھر کر فریج میں رکھ دی جائیں تو رمضان میں بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے اور وقت بھی وافر مل جائے گا۔ بہت سی سبزیاں بھی صاف کر کے اُبال کر یا اُبالے بغیر محفوظ کی جا سکتی ہیں‘ بلکہ اب تو ایک ہی دن بہت سے کھانے پکانے کے کام کر کے باقی دنوں میں فارغ رہا جا سکتا ہے۔
افطاری میں ڈھیر سارے کھانے دسترخوان پر سجانے کے بجائے سادگی اور ون ڈش کو رواج دیا جائے۔ اس میں سہولت بھی ہے‘ بچت بھی اور صحت بھی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازموں سے مشقت میں کمی کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا بہت زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ اس کے لیے بھی خصوصی اور شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ برتنوں کا کم سے کم استعمال کیا جائے اور گھر کے ہر فرد کو ہدایت کی جائے کہ اپنا گلاس اور پلیٹ خود دھوکر رکھ دے ۔ ان کو احساس دلایا جائے کہ اس کا کتنا اجر ہے۔
عیدالفطر کی تیاری بھی رمضان المبارک کے آنے سے پہلے مکمل کر لی جائے تو رمضان کے قیمتی وقت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ شب قدر جیسی عظیم راتیں اور چاند رات جیسی قیمتی رات کہ اس وقت ’’مزدور‘‘ کا ’’مزدوری‘‘ لینے کا وقت ہوتا ہے‘ خواتین چوڑیوں‘ کپڑوں‘ دوپٹوں اور بٹن دھاگوں کے مسائل میں الجھی رہتی ہیں ۔ یوں شیطان ان سے وہ تمام محنتیں ضائع کرا دیتا ہے جو پورے مہینے کی تھیں۔ یاد رکھیے کہ رمضان المبارک کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی اس کا نعم البدل ملنا محال ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ایک فہرست بنا لی جائے کہ اس ماہ مبارک میں وہ دنیاوی امور جو انجام دینا ناگزیر ہیں‘ کون سے ہیں‘ اور کون سے کام ایسے ہیں جن کی بجاآوری ضروری نہیں۔ ترجیحات کا تعین انسان کو سچی خوشی اور کامیابی عطا کرتا ہے۔
عید کے موقع پر نئے کپڑے اور زیور بنانا آپ کا حق ہے۔ مگر کیا ہم اپنے ارد گرد تمام انسانوں کی ضروریات پوری کر چکے ہیں یا جتنا ہم کر سکتے ہیں کر لیا ہے؟ کیا ہمارے لباس پر خرچ ہونے والی رقم کا کوئی اس سے بہتر مصرف نہیں ہے؟ کیا ہم سے زیادہ ضرورت مند کوئی موجود نہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’بندوں کے عمل اللہ کے نزدیک سات درجے پر ہیں۔ دو عمل ایسے ہیں کہ دو چیزوں کو واجب کرتے ہیں اور دو ایسے ہیں کہ ان میں بدلہ عمل کے برابر ملتا ہے۔ ایک عمل وہ ہے جس کے بدلے ۱۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے بدلے ۷۰۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے ثواب کی حد سوائے اللہ پاک کے اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ عمل جس کا بدلہ ۷۰۰ گنا تک ہے وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے‘ اور وہ عمل جس کے اجر کی کوئی حد نہیں‘ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ہے۔
جب رمضان المبارک میں روزے کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس قدر ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے تو ہمیں ضرور اس کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس اگر اتنی گنجایش نہیں کہ خوب خرچ کریں تو یہ ایثار تو کر سکتے ہیں کہ بہت شان دار اور قیمتی لباس کے بجائے سادہ لباس بنالیں یا اس لباس کو کسی ایسے کو دے دیں جو زیادہ مستحق ہو۔
رمضان المبارک میں اپنی اولاد کی طرف اس طرح خصوصی نظر کرم کریں کہ جس طرح اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ روزے کے ساتھ چند دن تو ایسی مشق کی جا سکتی ہے کہ بچوں کے سامنے ایک بہتر نمونہ موجود ہو۔ بچے کو بھی معلوم ہو کہ روزہ دار ماں اور عام دنوں میں ماں کی مہربانی میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ وہ جان لے کہ روزہ رکھنے والی ماں کتنی اچھی ماں ہوتی ہے اور پھر یہی مشق دوسرے ۱۱ مہینوں میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ روزہ رکھ کر چیخنا چلانا روزے کو خراب کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر بدزبانی اور غیبت کرنا حرام ہے۔ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں زبان کی حفاظت نہ کی گئی ہو۔ اپنے بچوں کو روزے کی خوب صورتی کا احساس دلائیں۔ روزے کی محبت ان کے دل میں جاگزیں کرنا چاہیے۔
افطار کے وقت ہر عمر کے بچے کو روزہ دار ہونا چاہیے۔ عمر کے لحاظ سے روزہ رکھوایا جا سکتا ہے۔ اسکول جانے والے چھوٹے بچے اسکول سے آکر عصر سے مغرب تک روزہ رکھ سکتے ہیں حتیٰ کہ دو سال کا بچہ بھی افطاری سے چند منٹ پہلے روزے کا احساس کر سکتا ہے۔ بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو افطاری کی خوشی میں شریک کرنا چاہیے۔ افطاری مغرب کی اذان سے ۱۵‘ ۲۰ منٹ پہلے تیار کر لینی چاہیے۔ تمام کاموں سے فارغ ہو کر ذکر الٰہی کیا جائے۔ تمام اہل خانہ سمیت اجتماعی و انفرادی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔
سحری کے وقت خواتین اپنے رب سے راز و نیاز کر سکتی ہیں‘ کام کاج کرتے ہوئے بھی‘ چند منٹ پہلے اٹھ کر اپنے رب کے حضور سجدہ کر کے بھی‘ اپنے گناہوں کی معافی چاہنا اللہ کو بے حد پسند ہے۔ توبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو دنیاوی پریشانیوں سے بھی نجات ملتی ہے۔ شب قدرکی تلاش اور اس کی معراج ہر روزہ دار کی آرزو ہوتی ہے۔ اپنے قلب و روح‘ مزاج و انداز‘ فکروعمل کو اپنے اللہ کے رنگ میں رنگنے کی جستجو اور کوشش جاری رہے تو یہ نعمت بھی ملنا ناممکن نہیں۔ خودپسندی‘ عجب‘ تکبر‘ اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے میں مانع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنا قرب عطا نہیںکرتا جو خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہوں۔
سحری کے وقت نفل پڑھنا یا کوئی بھی نفل نماز پڑھنے سے پہلے اعتکاف کی نیت کر لینا چاہیے۔ اگر مسجد میں نمازتراویح پڑھنے کا موقع ملے تو اس سے ضرور مستفید ہوں اور مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کر لی جائے۔
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ ہر عمل نیکی کے بیج سے پھوٹ کر پھل پھول لا رہا ہوتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بہار کس کے لیے ہے؟ کس کی زندگی میں؟ کس کے رمضان میں؟ لازماً گذشتہ پورے سال میں اپنے دل میں نیکیوں کے بیج بوئے ہوں گے تو موسم بہار میں رنگینی بہار نظر آئے گی۔ دلوں میں ایمان اور نیکیوں کے بیج بو کر ان کی آبیاری کتنی کی گئی‘ اسی لحاظ سے یہ بہار بھی آئے گی۔ اگر اس رمضان میں ثمربار شجر اور پھولوں کی مہکار نظر نہیں آ رہی تو اس کی تلافی ممکن ہے۔ ابھی اور آج ہی سے وہ بیج بو لیے جائیں۔ دل کی زمین جتنی زرخیز ہوگی پھل اسی کثرت سے اور خوب تر آئے گا۔
رمضان المبارک تو سالانہ نیکیوں کا میلہ ہے جس کے تین حصے بنا دیے گئے: رحمت‘ مغفرت اور آگ سے رہائی۔ ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق وصول کر رہا ہے۔جو محروم رہ گیا‘وہ نہ جانے دوبارہ اس میلے میں شریک ہو سکے گا یا نہیں؟ نیکیوں کی سیل لگی ہوئی ہے۔ کم دام دے کر زیادہ چیزیں خرید لو‘ قیمتی خرید لو۔ نفل نیکی کا فرض کے برابر اور فرض کا ۷۰ فرض کے برابر ثواب۔ رحمت خداوندی جوش میں ہے۔ خوش نصیب ہیں جواس سے فیض حاصل کرلیں۔
رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ امتحان کا سا درجہ رکھتا ہے۔ جنت اور رضاے الٰہی ہمارا مقصود و مطلوب ہے۔ یہی ہماری منزل ہے۔ اس منزل کو پانے کے لیے ہم درجہ بہ درجہ اُوپر کی طرف جا رہے ہیں‘ نیچے کی طرف جا رہے ہیں‘ اپنے ربّ سے قریب ہو رہے ہیں‘ یا دُور ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے جائزے کا وقت ہے۔ رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ منصوبہ بندی کا وقت ہے۔ اس رمضان اور آیندہ رمضان کے دوران ہم نے کیا حاصل کرنا ہے‘ کیا چھوڑنا ہے‘ کیا خریدنا ہے‘ کیا چیزیں ضروری ہیں‘ کتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے اور آگے پھیلانا ہے؟ قرآن و حدیث کی تعلیم کا نصاب بنانا‘حقوق اللہ و حقوق العباد میں توازن پیدا کرنا اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرنا کیسے ممکن ہے؟
گھر کی کون سی چیزیں ضروری خریدنا ہیں اور کن کے بغیر گزارا ہو جائے گا۔ اپنے بچوں کے لباس اور دیگر مشاغل میں سادگی کا عنصر کتنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ کون سی اخلاقی خوبیاں اپنے اندر اجاگر کرنا اور کون سی برائیاں چھوڑنی ہیں؟ اس بابرکت مہینے میں جو بھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔ پورا نہیں تو کچھ مفید منصوبہ پورا ہوگا۔ زندگی ایک منظم طریقے سے بسر ہوگی۔ دل کو اطمینان اور خوشی ملے گی اور آیندہ رمضان اگر نصیب ہوا تو معلوم ہو جائے گا کہ ہم اپنے دفتر میں کیا جمع کر رہے ہیں۔
روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ دل کا چراغ ہے‘ عبادت اس چراغ کا تیل ہے۔ تیل ہوگا تو چراغ روشن ہوگا۔ اس چراغ کی روشنی باطن کو منور کرتی ہے‘ ظاہر کو حسن بخشتی ہے۔ مضبوط قوت ارادی کے ذریعے خواہشات و جذبات کو قابو میں کر لینے کا نام ضبط نفس ہے۔ یہ ضبط نفس ہی اصل میں پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔
انسان کی خواہشات اور جذبات اعتدال کی حدود سے آگے گزر جائیں تو برائی سرزد ہوتی ہے۔ خواہشات کی یہ خصوصیت ہے کہ جب ہم انھیں پورا کرتے چلے جائیں تو یہ مضبوط ہوتی ہیں‘ دباتے رہیں تو کمزور ہوتی ہیں۔ ہر خواہش نفس کو دباتے رہنے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ روزے میں بھوک‘ پیاس کی خواہش کے دبے رہنے سے یہ خواہش پورا دن سر نہیں اُبھارتی۔ قوت ارادی سے روزے میں بھوک‘ پیاس کے احساس کو مغلوب کر لیا جاتا ہے‘ اسی طرح اپنے تمام اعضا کو قوت ارادی کے ذریعے برائی سے دُور رکھا جا سکتا ہے۔ دراصل پیٹ کے روزے سے مومن کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جب اپنی قوت ارادی سے بھوک‘ پیاس اور نفسانی خواہشات پر قابو پا سکتے ہو تو دیگر خواہشات اور اعضا اور فکروعمل پر پابندی لگانا‘ ان پر قابو پانا تو آسان ہے۔ دنیا میں تمام جرائم اور اخلاق رذیلہ کی بنیاد پیٹ ہے۔ جس نے اس پر قابو پا لیا وہ دیگر روحانی مدارج کو طے کرنے کے لیے اپنے آپ کو کامیابی کی راہ پر گامزن سمجھے۔