سورہ عقود ]المائدہ[میں اللہ تعالیٰ نے پہلے کھانے کی چیزوں میں سے جو چیزیں جائز ہیں ان کو بیان کیا‘ پھر جن عورتوں سے نکاح جائز ہے ان کو بیان کیا‘ پھر وضو کا ذکر فرمایا۔ اب ان کی مناسبت پر غور کرو گے تو دو چیزیں تمھارے سامنے آئیں گی۔ ایک شئی اور ایک شرطِ شئی۔ شرائط میں سے وہ چیزیں بیان کیں جن سے یہ چیزیں پاک ہوتی ہیں۔ اب دیکھو‘ ذبح چوپایوں کو پاک کرتا ہے‘ مہر اور احصان سے عورتیں پاک ہوتی ہیں‘ اور وضو نماز کی پاکی ہے۔ پھر تمام حقیقت کو آخر میں یہ فرما کر کھول دیا: ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولٰکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہٗ علیکم اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے۔ یہ شرائط کا بیان تھا۔ اب اشیا پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ یہاں تین چیزیں بیان کی گئیں: طیباتِ طعام‘ طیباتِ نسا‘ طیبات نماز۔
اگر اس سے زیادہ تعمق کی نگاہ سے دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا عالم کون و فساد ہے‘ پس یہاں تین عوالم: عالم شخص‘ عالم نوع اور عالم روح کے نقص کی تلافی تین چیزوں: طعام‘ نکاح اور نماز سے فرمائی۔ پھر طعام اور نکاح میں ایک اور مناسبت بھی ہے کہ دونوں میں سے جو چیزیں حرمت کا محل ہیں ان کی تخصیص کر دی گئی چنانچہ دیکھو دونوں آیتییں بالکل ایک ہی نہج پر وارد ہوئیں۔ حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم الآیہ حرمت علیکم المیتۃ والدم الآیہ۔ اسی طرح نماز اور نکاح میں مناسبت کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ نکاح بدکاری کی آلودگیوں سے حفاظت کرتا ہے اور نماز فحشا اور منکر سے روکتی ہے۔ ان الصلوۃ تنھٰی عن الفحشاء والمنکر۔ یہ مناسبت دونوں میں پاکیزگی کے پہلو سے تھی۔ بقرہ میں تخفیف کے پہلو سے ان کی مناسبت دیکھو۔ فرمایا: حافظوا علی الصلوات … فان خفتم فرجا لا او رکبانا۔ یہی صورت حال نکاح میں ہے۔ نکاح کی حفاظت حتی الامکان واجب ہے‘ مگر طلاق کے وقت اس میں کسی قدر تخفیف کی گئی۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں ہر تالیف اپنے اندر ایک نیا جلوئہ حسن و جمال رکھتی ہے۔ (مقدمہ ’’تفسیرنظام القرآن‘‘ ، مولانا امین احسن اصلاحی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘۲‘ ۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ/ستمبر‘ اکتوبر‘ نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۴۱-۴۲)