نومبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

فریضہ عظیم : دفاع

ابوالکلام آزاد | نومبر ۲۰۰۱ | حالات حاضرہ

Responsive image Responsive image

حقیقت حکم دفاع : اسلام کے شرعی واجبات و فرائض میں ایک نہایت اہم ‘ اور اکثر حالتوں میں ایمان و کفر کا فیصلہ کر دینے والا فرض ’’دفاع‘‘ ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان حکومت یا کسی مسلمان آبادی پر کوئی غیر مسلم گروہ حملہ کرے‘ تو یکے بعد دیگرے تمام دنیا کے مسلمانوں پر شرعاً فرض ہو جاتا ہے کہ دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘ اس حکومت اور آبادی کو غیر مسلم قبضے سے لڑ کر بچائیں۔

اسلامی فرائض میں یہ اس درجہ مشہور فرض ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی مسلمان اس سے ناواقف نکلے۔ یہی باہمی مدد اور دفاع اعدا کا قانون ہے جس پر اسلام نے شریعت و اُمت کی حفاظت کی ساری بنیادیں استوار کی ہیں۔

سورہ بقرہ میں فرمایا: اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو مسلمانوں سے لڑائی لڑ رہے ہیں مگر زیادتی نہ کرو۔ اللہ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا (۲:۱۹۰)۔ پھر اس حکم کی علت بھی بتلا دی کہ الفتنۃ اشدُّ  من القتل۔ بلاشبہ یہ جنگ قتل ہے اور انسانی قتل بہت بڑی برائی ہے‘ لیکن اس برائی سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ لوگ اپنی آبادیوں اور حکومتوں پر قانع نہیں رہتے‘ دوسروں کے حقوق آزادی و حکومت چھیننا چاہتے ہیں۔ توحید کے بجائے کفر و شرک کے ماتحت مسلمانوں کو لانا چاہتے ہیں۔ قوموں کاقدرتی حق حریت پامال کرتے رہے ہیں۔ اگر اس کے دفع کا انتظام نہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی قوم زندہ و باقی نہیں رہ سکتی۔ پس بڑی برائی کے دُور کرنے کے لیے چھوٹی برائی اختیار کر لینی چاہیے۔ یہ خود نیچر کا عالم گیر قانون اور کارخانۂ حیات کا دائمی عمل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا خود کبھی جنگ کا حکم نہ دیتا۔

فضائل دفاع : اسلامی احکام میں یہ حکم ’’دفاع ‘‘جو اہمیت رکھتا ہے وہ عقائد ضروریہ کے بعد کسی حکم‘ کسی فرض‘ کسی رکن عبادت کو حاصل نہیں۔ سنن ابوداؤد میں ہے: ’’جب کوئی جماعت جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دیتی ہے تو اس پر بلائیں نازل ہوتی ہیں جو کبھی دُور نہیں ہو سکتیں الا یہ کہ وہ اس معصیت سے باز آئیں‘‘۔

کوئی خاص وقت اور عہد اس (جہاد) کے لیے مخصوص نہیں۔ ہر حال اور ہر زمانے میں ایک مسلم و مومن زندگی کے ایمان و صداقت کی بنیاد یہی چیز اور اس کا سچا عشق و ولولہ ہے۔ یہی سنامِ دین ہے‘ یہی عمادِ ملّت ہے‘ یہی اساسِ شرع ہے‘ یہی ملاکِ اسلام ہے‘ یہی ایمان و نفاق کی اصل پہچان ہے۔ نماز اسی سے ہے‘ روزہ اسی سے ہے‘ حج اسی سے ہے۔ زکوٰۃ کا سب سے پہلا اور افضل مصرف یہی ہے۔ سب اس کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں‘ اس کو کسی کی خاطر نہیںچھوڑا جا سکتا۔ پس اس کی فضیلت کو نہ نماز پہنچ سکتی ہے‘ نہ روزہ‘ نہ اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا عمل ہے۔ ہزاروں نمازیں اور ہزاروں روزے بھی اُس ایک قطرئہ خون کی فضیلت و تقدیس نہیں پا سکتے جو اس راہ میں بہایا گیا‘ اور عمر بھرکے صدقات و خیرات بھی اُس ایک درہم (روپے) کے اجر کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو اس راہ میں خرچ کیا گیا حتیٰ کہ یہی عمل اسلام و ایمان کی اصل پہچان قرار پایا۔  صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جو مسلمان اس حالت میں دنیا سے گیا کہ نہ تو کبھی اللہ کی راہ میں لڑائی لڑی اور نہ اس کے دل میں اس بات کی طلب رہی‘ اس کی موت ایسی حالت میں ہوئی جو نفاق کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔

بخاری میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے‘ آپؐ سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ افضل آدمی کون ہے؟ فرمایا: وہ مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرتا ہے۔ ترمذی میں ہے: ’’جس مسلمان نے ایک رات بھی جہاد کرتے ہوئے دشمن کے انتظار میں کاٹی‘ اس کے لیے ایسا اجر ہے‘ گویا ہزار دنوں کا روزہ اور ہزار راتوں کی عبادت‘‘۔ جو لوگ خود اپنی ذات سے جہاد و دفاع میں حصہ نہ لے سکیں مگر مجاہدین کو اپنے مال و متاع سے مدد پہنچائیں‘ تو اگرچہ وہ مجاہدین کا اجر و ثواب نہیں پا سکتے لیکن ان کے لیے بھی اجر ہے‘ اور ساری عبادتوں اور طاعتوں سے بڑھ کر اجر ہے۔ ابن ماجہ میں ہے: جو مسلمان ایسے وقتوں میں گھر سے نہ نکلا صرف اپنے روپے سے جہاد میں مدد دی تو اس کو ایک روپے کے بدلے ۷۰۰ روپے کا اجر ملے گا۔ اگر اُمت کے لیے دفاع و جنگ کا وقت آ گیا تو ایسے وقتوں میں صرف نفس جنگ ہی نہیں بلکہ سعی و کوشش کی ساری باتیں شریعت کے نزدیک جہاد ہیں۔ جس کی طاقت میں جنگ کرنا نہیں ہے اور اس نے مال دیا تو وہ بھی مجاہد ہے‘ جس نے زبان سے دعوت و تبلیغ کی وہ بھی مجاہد ہے‘ جس نے اس راہ میں کسی طرح کی کوئی تکلیف و محنت اٹھائی وہ بھی مجاہد ہے۔ البتہ ایسے وقتوں میں اگر کوئی مسلمان لڑائی کی طاقت رکھتا ہے اور اس سے پہلوتہی کرے تو اس کا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ اس کا شمار مومنوں کی جگہ منافقوں میں ہوگا۔ جو مال دے سکتا ہے اور نہ دیا‘ تو وہ بھی ایمان و اخلاص کی زندگی سے نکل گیا۔

احکام قطعیہ دفاع : غرضیکہ ’’دفاع‘‘ اسلام کے اُن بنیادی احکام میں سے ہے جن کو ایک مسلمان مسلمان رہ کر بھی کبھی ترک نہیں کر سکتا۔ اگر ایک مسلمان کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان کی محبت باقی رہ گئی ہے تو اُس کی طاقت سے باہر ہے کہ اللہ کی یہ صداے حق سنے اور ازسرتاپا کانپ نہ اُٹھے: ’’مسلمانو! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوتو تمھارے قدموں میں حرکت نہیں ہوتی اور زمین پر ڈھیر ہوئے جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی پر قناعت کر لی ہے؟ اگر یہی بات ہے تو یاد رکھو‘ جس زندگی پر تم ریجھے بیٹھے ہو وہ آخرت کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہے۔ (التوبہ ۹:۳۸)۔ اور اسی بنا پر مسلمانوں پر فرض ٹھہرایا کہ اگر دنیا کے کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں اور وہاں کے مسلمان ان کے مقابلے کی کافی قوت نہ رکھتے ہوں‘ یا بالکل مغلوب و مقہور ہو گئے ہوں‘ تو تمام دوسرے حصص عالم کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کی یاوری و اعانت کے لیے اسی طرح اُٹھ کھڑے ہوں جس طرح خوداپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اُٹھتے‘ اور اپنی جان و مال سے اسی طرح مدد کریں جس طرح خود اپنے گھر بار کی حفاظت کے لیے مدد کرتے۔

یہ نہ تو کوئی نیا مذہبی اجتہاد ہے‘ نہ کوئی پولٹیکل فتویٰ۔ تمام دنیا کے مسلمان فقہ و قوانین کی جو کتابیں صدیوں سے پڑھتے پڑھاتے آتے ہیں‘ اُن سب میں یہ احکام موجود ہیں۔ اسلامی دینیات کا کوئی طالب علم ایسا نہیں ملے گا جو ان احکام سے بے خبر ہو اور ان سب کے اوپر مسلمانوں کی کتاب اللہ ہے جو اپنے ہر پارہ اور ہر سورہ کے اندر اس حکم کا اعلان اور اس قانون کی پکار صدیوں سے بلند کر رہی ہے۔

یہ (دفاع) فرض کفایہ نہیں ہے بلکہ بالاتفاق مثل نماز روزہ کے ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ ایک گروہ کے دفاع کرنے سے باقی مسلمان بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ جس طرح ایک گروہ کے نماز پڑھ لینے سے باقی مسلمانوں کے ذمے نماز ساقط نہیں ہو جاتی۔

ابن حمام اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’فرض کفایہ کی صورت اس وقت تک ہے کہ نفیر کی حالت نہ ہو۔ لیکن اگر مسلمانوں کے شہروں میں کسی شہر پر غیر مسلموں نے حملہ کر دیا تو اس وقت جنگ کرنا ہر مسلمان فرد پر فرض عین ہوگا۔ خواہ جنگ کے لیے دعوت دینے والا عادل ہو یا فاسق (فتح القدیر‘ ۴:۲۸)۔ موطا امام مالک میں ہے: ’’اگر کفار اپنے اپنے ملکوں میں ہیں‘ مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہوئے ہیں تو اس حالت میں جہاد فرض کفایہ ہے لیکن جب وہ ہمارے ملکوں کا قصد کریں اور امیر اسلام نفیر کا اعلان کرے تو پھر (دفاع) فرض عین ہو جائے گا‘‘۔

اس نفیر کی وضاحت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں یہ کی ہے کہ ’’یہ ضروری نہیں کہ کوئی خاص شخص مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارے کہ آئو جہاد کرو۔ مقصود یہ ہے کہ ایسی حالت پیدا ہو جائے جو مقتضاے نفیر ہے۔پس جب غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہو گئی تو جہاد فرض ہو گیا اور جب دشمنوں کی طاقت اُن ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خو ف ہو‘ تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانانِ عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے۔ یہی حال تمام فرائض کا ہے۔ نماز کا جب وقت آجائے تو خواہ موذن کی صداے حی علی الصلوٰۃ سنائی دے یا نہ دے‘ وقت کا آنا وجوب کے لیے کافی ہوتا ہے (مسویٰ‘ جلد ۲‘ ص ۱۲۹)۔

ترتیب وجوب دفاع : صورت اس کی یہ ہے کہ جب غیر مسلموں نے کسی اسلامی حکومت اور آبادی کا قصد کیا‘ تو اُس شہر کے تمام مسلمانوں پر بہ مجرد قصد اعداء دفاع فرض عین ہو گیا۔ باقی رہے دیگر ممالک کے مسلمان تو اگر زیرجنگ مقامات کے مسلمان دشمن کے مقابلے کے لیے کافی قوت نہیں رکھتے تو اُس حالت میں یکے بعد دیگرے تمام دنیا کے مسلمانوں پر بھی دفاع فرض عین ہو جائے گا۔  فتح القدیر میں ہے: ’’اگر غیر مسلموں نے حملہ کیا تو پھر اُس شہر کے تمام باشندوں پر دفاع کے لیے اٹھ کھڑا ہونا فرض عین ہو جائے گا‘ اور اگر دشمن زیادہ طاقت ور ہے اور مقابلے کے لیے وہاں کے مسلمان کافی نہیں ہیں تو جو مسلمان اُن سے قریب ہوں گے‘ اُن پر بھی فرض عین ہو جائے گا۔ اور اگر وہ بھی کافی نہیں یا انھوں نے سستی کی‘ یا دانستہ انکار کیا‘ تو پھر اُن تمام لوگوں پر جو اُن سے قریب ہوں یہ فرض عائد ہوگا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے اس کا وجوب منتقل ہوتا جائے گا حتیٰ کہ تمام مسلمانوں پر مشرق میں ہوں یا مغرب میں‘ دفاع کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا فرض ہوجائے گا۔ (جلد ۴‘ ص۸۲)

اگر قیامت کا آنا حق ہے ‘ اور یہ جھوٹ نہیں کہ خدا کا وجود ہے‘ تو مسلمانان عالم کے پاس اس وقت کیا جواب ہوگا‘ جب قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ تم کروڑوں کی تعداد میں زندہ و سلامت موجود تھے‘ تمھارے جسموں سے روح کھینچ نہیں لی گئی تھی‘ تمھاری قوتوں کو سلب نہیں کر لیا گیا تھا‘ تمھارے کان بہرے نہ تھے‘ نہ ہاتھ کٹے ہوئے اور پائوں لنگڑے تھے‘ پھر تمھیں کیا ہو گیا تھا کہ تمھارے سامنے تمھارے بھائیوں کی گردنوں پر دشمنوں کی تلواریں چل گئیں‘ وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر ہو گئے‘ اسلام کی آبادیاں غیروں کے قبضہ و تسلط سے پامال ہو گئیں‘ پر نہ تو تمھارے دلوں میں جنبش ہوئی‘ نہ تمھارے قدموں میں حرکت ہوئی‘ نہ تمھاری آنکھوں نے محبت و ماتم کا ایک آنسو بخشا‘ اور نہ تمھارے خزانوں پر سے بخل و زر پرستی کے قفل ٹوٹے؟ تم نے چین اور آرام کے بستروں پر لیٹ کر بربادیٔ ملّت اور پامالی اسلام کا یہ خونیں تماشا دیکھا‘اور اُس بے درد تماشائی کی طرح بے حس و حرکت تکتے رہے جو سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر ڈوبتے ہوئے جہازوں اور بہتی ہوئی لاشوں کا نظارہ کر رہا ہو۔ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ قِلِیْلٌ o (التوبہ ۹:۳۸)

(مسئلہ خلافت ‘ انتخاب و تلخیص: جاوید اسلام خان)