سوال: میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے اور ارائیں برادری سے ہے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف اپنی برادری میں ہی شادی کرنے کا رواج ہے۔ کسی دوسری برادری میں اچھے رشتے ہونے کے باوجود بھی شادی نہیں کی جاتی۔ میرے والدین کا بھی اصرار ہے کہ شادی صرف اپنی برادری میں ہی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج تک کسی غیر برادری میں رشتہ نہیں ہوا۔ کسی نے اپنی بیٹی کسی غیر ارائیں کو نہیں دی۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو تمام برادری اس کا بائیکاٹ کر دے گی۔ پھر آج تک اپنے آبا و اجداد سے ہم اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ اس بات کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟
جواب: اسلام کے انقلابی کارناموں میں سے ایک کارنامہ عرب جاہلیت کے قبائلی‘ لسانی اور نسلی تعصبات کو چکنا چور کر کے انسانوں کو اللہ کی بندگی کے ذریعے اسلام کے رشتہ اخوت و یگانگت میں منسلک کر دینا تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم نے سورہ الحجرات میں یہ حقیقت واضح فرما دی کہ گو انسانوں کو تعارف کی خاطر مختلف قبائل اور اقوام میں پیدا کیا گیا ہے‘ لیکن اللہ کی نگاہ میں عزت و تکریم کی بنیاد صرف تقویٰ یا نیک عمل ہے (۴۹:۱۳)۔ اس حقیقت کو نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبے میں دو ٹوک الفاظ میں رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو پائوں تلے روندتے ہوئے تمام اہل ایمان کو یاد دلایا کہ وہ سب حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں۔ ہجرت ِ مدینہ کے فوراً بعد ہی آپؐ نے یہ اہتمام بھی فرمایا کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے‘ ان کے اور انصار کے درمیان رشتۂ اخوت کو باقاعدہ اعلان کے ذریعے قائم فرما دیا۔ ساتھ ہی ذات برادری کی برتری یا کم تری کے تصور کو مٹانے کے لیے خود اپنے خاندان کی رشتے کی بہن کو حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نکاح میں دے دیا جس کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔
اس اقدام کا صرف ایک مقصد تھا کہ رشتۂ ازدواج کی بنیاد تقویٰ ‘ علم‘ نیکی اور بھلائی ہو‘ اور رنگ‘ خون‘ برادری اور قبائلی تعصب کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اگر ہمارے ہاں ابھی تک ہندوانہ تصورات پائے جاتے ہیں اور ارائیں یا کسی بھی ذات کے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ شادیاں صرف ان کی ذات برادری میں ہی ہوں تو یہ اسلام کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں برادری اور ذات کی بندگی سے نجات دے اور صرف اپنی بندگی کی توفیق دے۔ اپنی ذات سے باہر شادی کرنا نہ گناہ ہے نہ بدعت‘اور نہ شریعت کی مخالفت بلکہ دین و شریعت کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور دینی علوم کی تعلیم بھی حاصل کر چکی ہوں۔ میری تین بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں البتہ سب سے چھوٹی بیٹی کے بارے میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے‘ جب کہ ہم نے تحریکی بنیادوں پر شادی کی۔
میری بیٹی نے مدینۃ الحکمت سے بی ایڈ اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی اکنامکس کی پوری تعلیم باپردہ حاصل کی لیکن شادی کے بعد بیٹی کو جو ہمارے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پر رہتی ہے‘ تنہا آنے کی اجازت نہیں۔ اگر اپنے ساتھ کہیں لے جانا چاہوں تو اس کی اجازت نہیں اس لیے کہ خاوند سے پوچھا نہیں۔ وہ میرے ساتھ بازار جا کر اپنی مرضی سے کچھ خرید نہیں سکتی۔
اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ میرے داماد نے میری بیٹی سے بات کیوں کی‘ جب کہ وہ اس کی ماموں زاد بہن ہے۔ اگر ۱۶ سال چھوٹی بہن کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا جائے تو اس پر بھی اعتراض ہے؟ کیا قریبی رشتے داروں کا کوئی حق نہیں؟
حق مہر کے بارے میں کہا گیا کہ چونکہ پہلی بہوئوں کا حق مہر ۵ ہزار روپے مقرر ہوا تھا‘ اس کا بھی یہی ہوگا۔ کیا یہ اسلامی رویہ ہے؟ اسلام نے عورت کی عزت نفس کا خیال کیا ہے اور بنیادی حقوق مقرر کیے ہیں۔ کیا اس ہندووانہ رسموں کے مارے ہوئے معاشرے میں کوئی ماں اپنی بیٹی کو حقوق کے حصول کے لیے عدالت جانے کا مشورہ دے سکتی ہے؟ اگر اتنی پرانی روایات کو سینے سے لگائے رکھنا تھا تو اُسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنے پر کیوں اصرار تھا؟ رہنمائی فرمایئے۔
ج : آپ کی چھوٹی بیٹی کو اپنے سسرال میں جو صورت حال پیش آ رہی ہے وہ ہمارے معاشرے میں دین کی تعلیمات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی ایک واضح مثال ہے۔ فہم دین کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآن کریم اور اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کو براہ راست مطالعہ کرنے کا رواج بہت کم ہے‘ اس لیے بہت سی ایسی باتیں جن کی بنیاد قرآن و سنت پر نہیں ہے‘ رواج پا گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے والدین یا بہن بھائی سے اس کا رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس طرزعمل کو ’’قطع رحمی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو ’’صلہ رحمی‘‘ کی ضد ہے۔
ہم اپنے معاملات کے حوالے سے اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام بنیادی طور پر اخلاق‘ معروف‘ بِر‘ رضاے الٰہی اور خوفِ الٰہی کا نام ہے اور قانون محض اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔ چنانچہ اخلاق کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے والدین اور بھائی بہن کی طرح عزت و احترام و محبت سے پیش آئے۔ صلبی و نسبی رشتوں کے احترام میں کوئی فرق اسلام تسلیم نہیں کرتا۔ دین نے جو حدود شرم و حیا اور حجاب کی مقرر کر دی ہیں ان میں غلو کرنا دین کی روح کے منافی ہے۔ جہاں تک مہر کا تعلق ہے یہ ایک لڑکی کا حق ہے اور نکاح سے قبل دو خاندانوں کے باہمی اتفاق سے طے پانا چاہیے۔ اسلام نے مہر کی رقم پر کوئی پابندی نہیں رکھی ہے۔ یہ کم سے کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ لیکن دونوں شکلوں میں اس کا مقصد وہ تحفہ ہے جو دلہن کو خلوص نیت کے ساتھ استقبال کرتے وقت عملاً دیا جائے اور محض لوگوں کو دکھانے کے لیے بطور ایک اعلان نہ ہو۔ نکاح سے قبل دونوں خاندان جس رقم پر بھی چاہیں اتفاق کر لیں‘ اس پر بعد میں غور کرنا مناسب نہیں۔
سالی اور دیور دونوں کے حوالے سے احادیث سے جو ہدایت ہمیں ملتی ہے اس میں جسمانی تعلق (body contact)کو ممنوع قرار دیا گیا ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں بہت سے خاندانوں میں اسے ایک طرح کی بے تکلفی سمجھا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں ہے۔ اگر دو تین گلی کے فاصلے پر لڑکی کی والدہ کا گھر ہو اور اس علاقے میں کسی فساد کا خطرہ نہ ہو تو ایک فرد کو اپنی بیوی کے ماں کے ہاں جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ سفر میں تنہا جانے میں جو خدشات ہو سکتے ہیں وہ پرُامن حالات میں ایک محلے کے اندر جانے میں بنیاد نہیں بن سکتے۔ لیکن ان تمام معاملات میں مسئلے کا حل قانونی حقوق کے مطالبات سے نہیں ہو سکتا۔ قرآن و حدیث سے تعلق اور تعلیم و تبادلۂ خیالات کے ذریعے ہی اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ (ا-ا)
محترم جناب ڈاکٹر انیس احمد نے جوجواب دیا ہے (ستمبر ۲۰۰۱ء) اس کا سوال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ ’’لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوںکی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں‘ تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کوکالج سے اغوا کر لیا‘‘۔ سوال کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گھرانوں کے افراد کی موجودگی میں لڑکے نے تین طلاقیں بغیر ’’اکراہ و اجبار‘‘ کے دی تھیں لیکن اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’اگر لڑکے نے دبائو اور خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں‘‘۔
طلاق مکرہ کا مسئلہ اختلافی ہے۔ ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا محدثین کی رائے یہ ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور اس کا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اور نکاح برقرار نہیں رہتا۔ دونوں آرا کے دلائل فقہ اور شروح احادیث کی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ مجھے اس مسئلے میں ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا کی رائے قوی اور صائب نظر آتی ہے۔ لیکن زیرغور سوال تو طلاق مکرہ سے متعلق نہیں ہے۔ اگرچہ مطلق دبائو‘ دھمکی اور ڈرانے کو شرعاً اکراہ نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں پر تو دبانے‘ ڈرانے اور دھمکی دینے کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ صرف مفروضے کے طور پر بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کو طلاق مکرہ قرار دینا تو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس بارے میں جب کسی نے سوال کیا تو اکتوبر کے شمارے میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے‘‘۔
نصوص و اصول کی تعبیر یا انطباق میں اجتہاد و فقاہت کی صلاحیت رکھنے والوں کے درمیان آرا کا اختلاف تو ہو سکتا ہے اور فقیہ و راسخ العلم شخص کو حق حاصل ہے کہ ان آرا میں سے کسی رائے کو اختیار کر لے‘ لیکن بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں آرا کا اختلاف نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔
(۲) تین طلاقیں جب ایک مجلس میں دی گئی ہوں تو ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں البتہ بعض فقہا کے نزدیک مجلس واحدہ میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور عدت کے دوران رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اگر محترم ڈاکٹر صاحب ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کو نظرانداز کر کے بعض اہل علم کی شاذ رائے کو پسند کرتے ہیں تو ضرور کریں لیکن انھوں نے تو مطلقاً عدم وقوع کا ذکر کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ دبائو اور خوف کی وجہ سے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی حالانکہ سوال میں دبائو کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (مولانا گوہر رحمان)