اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کر دیے گئے‘ جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو‘ یا سفر پر ہو تو دُوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے‘ تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو‘ تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ (البقرہ ۲:۱۸۳-۱۸۴)
اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انھیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو۔ روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجاآوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رُک جانے کے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ۔ اور واہی ]بے ہودہ[اخلاق سے انسان کا تنقیہ ]تزکیہ [ہو جاتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ ہی فرماتا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے کا حکم تھا۔ اس بیان سے یہ بھی مقصود ہے کہ یہ اُمت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی اُمتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا ‘ یعنی ہر ایک کے لیے ایک طریقہ اور راستہ ہے اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت کر دیتا لیکن وہ تمھیں آزما رہا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے اگلوں پر تھے۔ روزے سے بدن کی پاکیزگی ہے اور شیطانی راہ کی روک ہے۔صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے جوانو! تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کر لے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے۔ اس لیے کہ یہ شہوت کو کمزور کرتا ہے۔ پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادایگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس خدائی فریضے کو بجا لائے۔ پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا۔ پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا۔ (تفسیرابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۸۹)
صیام جمع ہے صوم کی۔ صوم اور روزہ اصطلاحِ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے پینے اور عملِ زوجیت سے روکے رہے۔ جو روزے فرض ہیں وہ ماہِ رمضان کے ہیں۔ غیبت‘ فحش‘ بدزبانی وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں۔ جدید و قدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دُور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے لیے ایک بہترین مصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی رُوح جو ساری اُمت میں تازہ ہو جاتی ہے‘ اُس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔ (تفسیر ماجدی‘ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، ص ۶۸)
صوم اور صیام مصدر ہیں۔ صوم کے لغوی معنی کسی شے سے رک جانے اور اس کو ترک کرنے کے ہیں۔ صام الفرس صومًا کے معنی ہیں گھوڑے نے چارہ نہیں کھایا۔ نابغہ کا شعر ہے ؎
خیل صیام وخیل غیر صائمۃ
تحت العجاج واخری تعلک اللجما
بہت سے بھوکے اور بہت سے آسودہ گھوڑے میدانِ جنگ کے غبار میں کھڑے تھے اور دوسرے بہت سے اپنی لگامیں چبا رہے تھے۔
مولانا فراہی ؒ لفظ صوم کی تحقیق کے سلسلے میں اپنی کتاب اصول الشرائع میں فرماتے ہیں: ’’اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اُونٹوں کو بھوک اور پیاس کا عادی بنانے کے لیے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تھے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکیں۔ اسی طرح وہ اپنے گھوڑوں کو تند ہوا کے مقابلے کی بھی تربیت دیتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے حالات میں‘ جب کہ ہوا کے تھپیڑوں سے سابقہ پیش آجائے‘ بڑی کام آنے والی ہے… جریر نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کا حوالہ دیا ہے‘ وہ کہتا ہے ؎
ظللنا بمستن الحرور کاننا
لدی فرس مستقبل الریح صائم
ہم لُو کے تھپیڑوں کی جگہ جمے رہے گویا ہم ایک ایسے گھوڑے کے ساتھ کھڑے ہوں جو بادِ تند کا مقابلہ کر رہا ہو اور روزہ رکھے ہوئے ہو
اس شعر میںاس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے حال کی تشبیہ ایک ایسے شخص سے دی ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کھڑا ہو اور اس کو بھوک اور بادِ تند کے مقابلے کی تربیت دے رہا ہو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اہل عرب تشبیہ کے لیے انھی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں جو ان کے عام تجربے میں آئی ہوں۔ ان کو نادر چیزوں کی تلاش زیادہ نہیں ہوتی… الغرض گھوڑوں کے صوم کے بارے میں اشعار بہت ہیں‘‘۔
اسی سے صائم ہے جس کے معنی وہ شخص جو کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جائے۔ اس کے لیے کچھ مخصوص شرعی حدود و قیود ہیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ج ۱‘ ص ۴۰۰-۴۰۱)
روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریباً ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘ طبع چہاردہم کی جلد ۹‘ ص ۱۰۶ اور جلد ۱۰‘ ص ۱۹۳ سے ظاہر ہے لیکن قرآن کو مشرکانہ مذہبوں سے بحث نہیں۔ الذین من قبلکم سے اس کی اصل مراد اہل کتاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور مشہور جزو ہے۔ مذاہب عالم سے اِتنی گہری واقفیت‘ کہ صاف صاف اُن میں روزے کے جزو مذہب ہونے کی خبر دے دی‘ ڈاک اور ریل کے زمانے سے صدیوں قبل اور اخبارات اور کتب خانوں کے دَور سے ہزار بارہ سو سال پیش تر عرب جیسے دُور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بے تعلق جزیرہ نما میں ایک اُمّی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں--- بجز وحی الٰہی کے توسط کے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸)
پہلی اُمتوں میں سے نصاریٰ پر روزہ فرض ہونے کا بیان ایک حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ نصاریٰ پر ماہِ رمضان کا روزہ فرض ہوا تھا ۔اُن کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اُس کی قوم نے نذر مانی کہ اگر بادشاہ کو شفا ہو جائے تو ہم ۱۰ روزے اور اضافہ کر دیں گے۔ پھر اور کوئی بادشاہ بیمار ہوا اُس کی صحت پر سات کا اور اضافہ ہوا۔ پھر تیسرا بادشاہ ہوا سو اُس نے تجویز کیا کہ ۵۰ میں ۳ ہی کی کسر رہ گئی ہے لائو تین اور بڑھا لیں اور ایام بیع میں سب رکھ لیا کریں۔ (بیان القرآن‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۲)
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینے میں تین روزوں کا حکم ہوا جو حضورؐ کی اُمت کے لیے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں پر بھی ایک مہینے کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے اگلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں کو یہ حکم تھاکہ جب وہ عشا کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو اُن پر کھانا پینا‘ عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیںاگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ص ۱۸۹)
روزہ تعمیل ارشادِ خداوندی میں تزکیۂ نفس ‘ تربیت ِجسم دونوں کا ایک بہترین دستورالعمل ہے۔ اشخاص کے انفرادی اور اُمت کے اجتماعی ہر دو نقطۂ نظر سے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ارشاد سے اسلامی روزے کی اصل غرض و غایت کی تصریح ہو گئی کہ اس سے مقصود تقویٰ کی عادت ڈالنا اور اُمت و افراد کو متقی بنانا ہے۔ تقویٰ انفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر غذائوں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہو جاتی ہے اور مادی لذتوں سے لُطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہو جاتی ہے‘ بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے‘ خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کر لینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی و حیاتِ اخلاقی کے حق میں مضر ہیں‘ ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہو کر رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزے کی افضلیت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزوں پر علانیہ ثابت ہوتی ہے‘ اور خیر مشرک قوموں کے ناقص ‘ ادھورے اور براے نام روزوں کا تو ذکر ہی نہیں‘ خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلاکو دفع کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں‘ یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کو۔ یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے: قدیم زمانے میں روزہ یا تو بطور علامت ِ ماتم کے رکھا جاتا تھا ‘ اور یا جب کوئی خطرہ درپیش ہوتا تھا ‘ اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبولِ الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا‘‘ (جلد ۵‘ ص ۳۴۷)۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸۰)
یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دنیا میں قائم کرنے ‘ اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے‘ اُس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور عزم بالجزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے رب سے اطاعت و انقیاد کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی ضرورتوں پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو--- جو وہ صرف اس لیے اٹھاتا ہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں جو اجر ہے‘ وہ اُسے حاصل ہو --- برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس راہ کی‘ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے‘ جس کے اطراف و جوانب میں مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں‘ اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اٹھتی رہتی ہیں--- مشقتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کے لیے نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔
اللہ تعالیٰ روزے کے ذکر کی ابتدا اُس ندا سے کرتا ہے جو اہل ایمان کو محبوب ہے۔ اس طرح وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا ہے۔ پھر وہ انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہر خدائی شریعت میں اہل ایمان پر فرض رہا ہے۔ اِس فریضے کا اوّلین مقصود تقویٰ‘ صفاے قلب‘ احساسِ ذمہ داری اور خشیت الٰہی کے لیے دلوں کو تیار کرنا ہے۔
آیت سے روزے کی عظیم غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن اِس فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت‘ اُس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے--- خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میںتقویٰ کا کیا وزن۔ یہی اُن کی منزلِ مقصود تھی‘ جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اُس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے اُن کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے راستے سے وہ اِس منزل کا رخ کر سکیں۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے!‘‘
مرض اور سفر کے سلسلے میں آیت کے الفاظ مطلق ہیں‘ اُن میں کوئی قید اور تحدید نہیں ہے۔ کوئی بھی مرض اور کوئی بھی سفر ہو‘ اُس میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ مریض صحت پانے پر اور مسافر مقیم ہونے پر روزے ادا کر لے۔ اِس مطلق آیت کا یہی مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور یہی تنگی اور مشقت سے بچانے کے‘ اسلامی مقصد سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حکم مرض کی شدت یا سفر کی مشقت سے نہیں‘ مطلق مرض اور سفر سے متعلق ہے‘ تاکہ لوگوں کو سہولت ہو اور وہ دشواری میں نہ پڑیں۔
یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ اس رائے کو بیان کیا جائے تو رخصتوں کے متلاشی رخصتوں کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور معمولی معمولی باتوں کے بہانے فرض عبادات ترک کر دی جائیں گی--- اور یہی وجہ ہے کہ فقہا نے اس معاملے میں شدت برتی اور شرطیں عائد کی ہیں--- لیکن میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے کہ نصِ قرآنی نے جس حکم کو مطلق اور عام رکھا ہے‘ اُسے اِس اندیشے سے مقید اور خاص کر دیا جائے۔ دین لوگوں کو طوق و سلاسل میں جکڑ کر خدا کی اطاعت کی طرف نہیں لاتا۔ وہ تقویٰ اور خوفِ خدا سے اپنی طرف کھینچتا ہے‘ اور اِس عبادت کی تو غایت خصوصیت سے تقویٰ ہی ہے۔ جو شخص کسی رخصت کی آڑ لے کر فریضے کی ادایگی سے کتراتا ہے‘ اُس میں شروع ہی سے کوئی خیر نہیں ہے۔ اُس میں فریضے کی ادایگی کی اوّلین غایت ‘ تقویٰ کا وجود نہیں ہے۔
یہ دین انسانوں کا نہیں‘ خدا کا دین ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اُس نے کس طرح رخصتوں کے مواقع اور شدت کے مواقع کو ملا کر اس دین کو ایک وحدت کی شکل دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی موقع پر رخصت کے پیچھے کوئی مصلحت ہو سکتی ہے جو اُس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہیں‘ نہیں! ضروری ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ لوگ اللہ کی بخشی ہوئی رخصتوں کو قبول کریں۔ اگر کسی دَور میں لوگ بگڑ جائیں تو اُن کی اصلاح کا طریقہ یہ نہیںہے کہ احکام میں شدت پیدا کر دی جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اور ان کے دلوں کی اصلاح اور اُن کی اچھی تربیت کی جائے اور اُن کے باطن میں تقویٰ کا شعور زندہ و بیدار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ لوگ بگڑ جائیں تو اُن کے بگاڑ کے علاج اور سدباب کے ذریعے کے طور پر معاملات میں شدت برتی جا سکتی ہے لیکن عبادات کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عبادت خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عبادات سے بندوں کے مصالح کا--- جن میں ظاہری حالات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے--- براہِ راست کوئی تعلق نہیںہے۔
عبادات میں اُس ظاہر کی‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر نہ ہو‘ کوئی قیمت نہیں۔تقویٰ موجود ہو تو کوئی شخص راہِ فرار اختیار نہ کرے گا۔ وہ رخصتوں سے اُسی وقت فائدہ اٹھائے گا ‘ جب کہ اُس کا دل اس پر مطمئن ہو‘ وہ دیکھے کہ یہی صورت اولیٰ ہے اور وہ محسوس کر رہا ہو کہ جس صورت حال سے وہ دوچار ہے اُس میں خدا کی اطاعت اِس میں ہے کہ اس رخصت کو اختیار کیا جائے۔ عبادات کے احکام میں شدت پیدا کرنا اور جن رخصتوں کو نصوص نے مطلق اور بلاقید رکھا ہے‘ ان میں تنگی پیدا کرنا بعض لوگوں کے لیے تنگی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے‘ جب کہ راہِ فرار اختیار کرنے والوں کو درست کرنے کے لیے یہ عمل بہت زیادہ سودمند نہیں ہوسکتا۔ ہر حال میں یہی بہترہے کہ ہم امور کو اُس شکل میں اختیار کریں جس شکل میں اللہ انھیں چاہتا ہے۔ اُس کے دین میں جو رخصتیں ہیں اور جن معاملات میں عزیمت کی راہ اختیار کرنی ہے‘ اُن دونوں میں جو دُور و قریب کی مصلحتیں مضمر ہیں‘ اللہ انھیں ہم سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہم سے زیادہ صاحب حکمت و دانش ہے --- یہ ہے اس معاملے میں خلاصۂ کلام۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطب شہیدؒ ، ترجمہ: سید حامدعلیؒ، ج ۱‘ ص۴۲۶-۴۲۹)
روزوں کی تبدیلیاں سنیے:
اول‘ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ …الخ نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کیے۔
دوم ‘ ابتداً یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے۔ پھریہ آیت اُتری: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے۔ پس جو شخص مقیم ہو‘ مسافر نہ ہو‘ تندرست ہو‘ بیمار نہ ہو‘ اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا۔ ہاں‘ بیمار اور مسافر کے لیے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا پھوس جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو‘ اُسے بھی رخصت دے دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتدا میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا۔ سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لیے منع تھا۔ پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابیؓ دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے‘ عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی۔ دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہو گئی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو انھوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ اِدھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا اُدھر حضرت عمرؓ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہؓ سے مجامعت کر لی اور حضورؐ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا۔ جس پر آیت اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط سے ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج (البقرہ ۲:۱۸۷) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی۔ (تفسیر ابن کبیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۰)
شریعت اسلامی رسولؐ اللہ کی حیاتِ رسالت میں بتدریج نازل ہوئی۔ کہیں تو ایسا کلام ہوا کہ احکام شروع میں نرم تھے۔ رفتہ رفتہ سخت کیے گئے‘ مثلاً شراب نوشی‘ کہ پہلے صرف ناپسند کی گئی ‘ اور پھر ہوتے ہوتے اُس کی حرمت کا حکم آگیا‘ اور کہیں اس کے برعکس ہوا ہے‘ یعنی ابتداً قانون سخت تھا‘ رفتہ رفتہ اس میں سہولتیں اور رعایتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ چنانچہ یہی روزے کا معاملہ ہے کہ پہلے صحبت رات میں بھی حرام تھی‘ بعد کو جائزکر دی گئی۔ رَفَثُ کے لفظی معنیٰ شہوت انگیز کلام کے ہیں۔ لیکن جب صیغۂ متعدی میں اسے لایا جاتا ہے تو اس سے مراد صحبت یا مباشرت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہے۔ … یہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیوی کی طرف میل و رغبت ذرا بھی کمالِ رُوحانیت و تزکیۂ نفس کے منافی نہیں‘ جیسا کہ بہت سے مشرکانہ اور جاہلی مذہبوں نے سمجھ لیا ہے‘ اور ماہِ صیام کی طاعت و عبادت‘ اور بیوی سے خلوت و صحبت کے درمیان منافقت ذرا بھی نہیں‘ جیسا کہ مذہب کے جوگیانہ اور راہبانہ تخیل نے دلوں میں بٹھا دیا ہے۔ شریعت اسلامی نے جس چیز پر سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے ‘ وہ شہوتِ حرام اور اس کے مبادی و مقدمات ہیں‘ نہ کہ نفسِ شہوت--- بھوک‘ پیاس‘ نیند کی طرح جنسی بھوک بھی اگر اپنے حدود کے اندر ہے تو ایک طبعی اور بے ضرر خواہش ہے۔ (تفسیر ماجدی ‘ ص ۷۱)
اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ‘ مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا‘ مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں‘ وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے جن میں روزے کی طاقت نہ ہو‘ اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انھیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُن سے چھوٹ گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)
سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ سفر میں جایا کرتے تھے ‘ اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرتؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بدحال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپؐ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر‘ اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضورؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قددنوتم من عدوکم فافطروا اقوی لکم‘یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے‘ روزے چھوڑ دو تاکہ تمھیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔
عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘ حضورؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابۂ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے‘وہ افطار کے لیے کافی ہے۔
یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو‘ اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُسے اختیار ہے‘ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے‘ اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہؓ سے ثابت ہیں۔
یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو‘ تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں‘علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علامہ ابن تیمیہؒ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۲-۱۴۳)
(اداے فدیہ کے باب میں) یعنی]ایک شخص کو کھانا کھلائے[‘ اس قدر مقدار تو بہرحال واجب ہے۔ اب اگر اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے‘ یعنی ایک شخص کے بجائے دو شخصوں کو کھلا دے‘ کھانے کی تعداد بڑھا دے‘ کھانے کی قسم بہتر کر دے‘ فدیے کے ساتھ روزے کو بھی جمع کر لے تو اور بہتر ہے۔ خیر‘ خیرات‘ فیاضی و سیرچشمی‘ حسن سلوک و حسن معاشرت کی تاکید تو اسلام میں ہمیشہ اور ہر حال کے لیے موجود ہے۔ لیکن رمضان کے ماہِ مبارک میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہے۔ چنانچہ ماہِ مبارک کے ختم پر‘ یا ختم سے ذرا قبل جو صدقہ فطرواجب بتایا گیا ہے کہ آس پاس کا کوئی کلمہ گو بھوکا نہ رہنے دیا جائے وہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ رسول ؐاللہ فیاضی‘ سخاوت‘ جودوکرم میں اپنی نظیر آپ تھے ‘ تاہم متعدد حدیثوں میں آتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں آپؐ کا جوش کرم اور بڑھ جاتا تھا اور آپؐ فیاض سے فیاض تر ہو جاتے تھے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص۶۹)
رمضان وہ مہینہ ہے ‘جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے‘ جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے‘ اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو‘ تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے‘ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)
قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اُوپر والی آیت کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی جس میں ایک حقیقت تو یہ واضح کی گئی کہ رمضان کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے روزوں کے لیے کیوں منتخب فرمایا۔ دوسری یہ کہ اب تک سفر یا بیماری کے سبب سے قضا شدہ روزوں کے لیے فدیہ کی جو اجازت تھی وہ اجازت منسوخ ہوئی۔ اب روزوں کی تلافی روزوں ہی کے ذریعے سے ضروری قرار دے دی گئی۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۰۶)
ماہِ رمضان شریف کی فضیلت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں قرآن کریم اترا۔ مسنداحمد کی حدیث میں ہے: رسولؐاللہ نے فرمایا ہے کہ ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور تورات چھٹی تاریخ‘ انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارھویں کو۔ اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل و زبور جس جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزۃ سے آسمانِ دنیا تک تو ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتاً فوقتاً حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا۔ یہی مطلب ہے: انا انزلنہ فی لیلۃ القدر اور انا انزلنہ فی لیلۃٍ مبارکۃٍ اور انزل فیہ القرآن کا‘ کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضا ن المبارک کے مہینے میں لیلۃ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلۂ مبارکہ بھی کہا ہے۔ ابن عباسؓ وغیرہ سے یہی مروی ہے۔ آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قرآن کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں جا کر اُتر چکا‘ پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلۃ القدر میں اُترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ وغیرہ)۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھے رمضان میں قرآن کریم آسمانِ دنیا کی طرف اُترا ‘بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت وقائع اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اُترتا رہا اور ۲۰ سال میں کامل ہوا۔ اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں۔ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارے کا سارا کیوں نہیں اُترا جس کے جواب میں فرمایا گیا: لنثبت بہ فوادک ورتلنہُ ترتیلا … الخ یہ اس لیے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں وغیرہ۔
پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں۔ تدبر اور غوروفکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے۔ یہ حق اور باطل‘ حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے۔ ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں جدائی کرنے والا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۱)
یہی مبارک مہینہ ہے جس میں دنیا کی ہدایت کے لیے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس ہدایت کے متعلق فرمایا کہ یہ ہدایت بھی ہے اور اس میں ہدایت اور فرقان کی بینات بھی ہیں‘ یعنی یہ صراط مستقیم کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عقل کی رہنمائی اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے لیے وہ واضح اور قاطع حجتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہے جو کبھی کہنہ ہونے والی نہیں ہیں… بینات سے مراد واضح‘ دل نشین اور ہر اُلجھن کو دُور کر دینے والے براہین و حجج ہیں۔ قرآن صرف حلال و حرام بتانے کا ضابطہ ہی نہیں ہے بلکہ حجج و حکمت کے بینات کاکبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ بھی ہے۔ اس وجہ سے یہ رہتی دنیا تک عقلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔
اس عظیم نعمت کی شکرگزاری کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا تاکہ بندے اس میں اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکیں اور اپنے قول و فعل‘ اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز و شب ہر چیز سے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اور اس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے۔
غور کرنے والے کو اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں پیش آ سکتی کہ خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے۔ اس لیے کہ عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو عقل سائنس کی ساری دُوربینیں اور خردبینیں لگا کر بھی اندھیرے ہی میں بھٹکتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی وہ سزاوار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اور اس کی شکرگزاری کا خاص مہینہ ٹھہرا دیا جائے تاکہ اس نعمت عظمیٰ کی قدروعظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکرگزاری اور تکبیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جو اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے درحقیقت قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے جیسا کہ اس سورہ کی بالکل پہلی ہی آیت میں اس نے خود یہ حقیقت واضح فرما دی ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَرَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (یہ آسمانی کتاب ہے‘ اس کے آسمانی ہونے میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے‘ یہ متقیوں کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے)۔
گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے۔ اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔ (تدبرقرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۰۶-۴۰۷)
حقیقت یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے: ’’اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اِس بات پر کہ اُس نے تمھیں ہدایت سے نوازا اور امید ہے کہ تم (اُس کا شکر ادا کرو گے!‘‘)
یہ اِس فریضے کی ایک غرض و غایت ہے کہ اہل ایمان اُس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہل ایمان ہر زمانے سے زیادہ اِس ہدایت کی قدروقیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں اُن کے دل خدا کی نافرمانی کے لیے سوچ بچار سے‘ اور اُن کے اعضا و جوارح معصیت کے ارتکاب سے رکے‘ ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اِس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو رہے ہوں!--- اور یہ سب اس لیے کہ وہ اِس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی بخشش پر اُس کا شکر ادا کریں اور روزے کی اِس اطاعت کے ذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں‘ جیسا کہ روزے پر گفتگو کے آغاز ہی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے‘‘۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ‘ جو جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے ‘ اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اُس کی غرض و غایت مومن کی تربیت ہے اور اُمت مسلمہ کو اُس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اِس رول کی ادایگی کی حفاظت تقویٰ‘ اللہ کے نگراں و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۳۷)
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ اُنھیں مزیدبرآں اُس عظیم الشان نعمت ِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانش مند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکرگزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے‘ جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔
قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے‘ اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت ِقرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکرگزاری ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)