قرآن حکیم میں عذاب قبر کا کیوں بیان نہیں؟ حالانکہ اسے جاننے اور اس پر ایمان لانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ انسان خوف کرے اور تقویٰ اختیار کرے۔
اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو قسم کی وحی اُتاری اور لوگوں پر واجب کردیا کہ دونوں طرح کی وحی پر ایمان لا کر عمل کرتے رہیں۔ فرمایا: ’’وہی ہے جس نے امیّوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجمعۃ ۶۲:۲)
’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن اور ’’حکمت ‘‘سے مراد بالاتفاق سنت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن باتوں کی خبر دی ان پر ایمان و تصدیق‘ ان باتوں کی طرح ہے جن کی حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی زبانی خبر دی۔ یہ مسلمانوں کا ایک اجماعی اصول ہے۔ کوئی فرقہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کتاب کے ساتھ اس کی مانند سنت بھی دی گئی۔ لہٰذا اگر کوئی مسئلہ قرآن میںنہیں اور حدیث میں ہے تو سمجھ لو‘ گویا قرآن ہی میں ہے کیونکہ حدیث بھی مثل قرآن ہی کے ہے۔
قرآن پاک میں بھی کئی جگہ برزخ کے عذاب و ثواب کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر اس آیت میں: وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ ج اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْط اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ o (الانعام ۶:۹۳) ’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لائو‘ نکالو اپنی جان‘آج تمھیں اُن باتوں کی پاداش میں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
یہ باتیں فرشتے موت کے وقت مرنے والوں سے کہہ رہے ہیں۔ فرشے سچے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عذاب ان سے دنیا میں مرتے ہی ختم ہو جاتا تو یہ جملہ الیوم تجزون (آج تمھیں عذاب دیا جا رہا ہے) صحیح نہ ہوتا۔ فرمایا: فَوَقٰہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ o اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا ج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴۵-۴۶) ’’آخرکار اُن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں‘ اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا‘ اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔
اس آیت میں صراحت سے برزخ و آخرت کے عذاب کا بیان ہے۔ فرمایا: فَذَرْھُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ فَیْہِ یُصْعَقُوْنَ o یَوْمَ لاَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا وَّلاَھُمْ یُنْصَرُوْنَo وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُونَ ذٰلِکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لاَیَعْلَمُوْنَ o (الطور ۵۲:۴۵-۴۷) ’’پس اے نبیؐ، انھیں اِن کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اُس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے‘ جس دن نہ اِن کی اپنی کوئی چال اِن کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ اور اُس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے‘ مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں‘‘۔
عذاب قبر: اس سلسلے میں مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس کے اسباب جہالت‘ حق تلفیاں اور گناہ ہیں۔ حق تعالیٰ ارباب محبت و معرفت اور فرماں برداروں کے بدنوں اور رُوحوں پر عذاب نہیں فرماتا‘کیونکہ عذابِ قبروعذاب آخرت اللہ کے غصے اور ناراضی کی نشانی ہیں۔جس نے دنیا میں اللہ کو غصہ دلایا اور اسے ناراض کیا‘ پھر بلاتوبہ کے مر گیا‘ اس پر بقدر اللہ کی ناراضی کے‘ برزخ میں عذاب ہوگا۔ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ‘ خواہ وہ برزخ کے عذاب کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔
حدیث میں ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں پر قبر میں عذاب ہوتا دیکھا۔ آپؐ نے عذاب قبر کی دووجوہ بتائیں۔ ایک تو اِدھر کی اُدھر لگایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچا کرتا تھا۔ دوسرے نے تو پاکی کو چھوڑ دیا تھا جو واجب تھی‘ اور پہلا ایسی حرکت کرتا تھا کہ اس کی زبان سے لوگوں میں عداوت ہو جاتی تھی‘ اگرچہ واقعات سچے ہی بیان کرتا ہو۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ و بہتان اور کذب و افترا سے لوگوں میں عداوت پیدا کرنے والا سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے نماز چھوڑ دی‘ جس کی شرطوں میں سے ایک شرط پیشاب سے پاکی بھی ہے‘ وہ بھی سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا۔ ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے کہ ایسا کوڑا مارا جس سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی کیونکہ اس نے بلاوضو کے ایک نماز پڑھ لی تھی اور مظلوم کے پاس سے گزرا تھا تو اس کی مدد نہیں کی تھی۔ بخاری کی سمرۃ والی حدیث میں گزر چکا کہ اُس پر قبر میں عذاب ہو رہا تھا جو جھوٹ بولا کرتا تھا اور دنیا میں اس کا جھوٹ پھیل جایا کرتا تھا ‘ اور اس پر بھی عذاب ہو رہا تھا جو قرأت قرآن کے باوجود رات کو سو جاتا تھا اور دن میں اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکار مردوں اور عورتوں پر اور سودخوروں پر برزخ میں عذاب کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ کچھ لوگوں کے سر پتھر سے کچلے جا رہے تھے‘ کیونکہ ان کے سر نماز سے بھاری ہو جاتے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ضریح و زقوم (دوزخ کے پھل) کھاتے تھے کیونکہ وہ زکوٰۃ نہیں دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ بدبودار سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے کیونکہ زناکار تھے۔ بعض لوگوں کے ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے‘ کیونکہ وہ اپنی باتوں اور تقریروں سے فتنے بھڑکایا کرتے تھے۔ بعض کے منہ میں انگارے ٹھونسے جا رہے تھے جو ان کی دبر سے نکل جاتے تھے۔ یہ ظلم سے یتیموں کا مال کھانے والے تھے۔ کچھ عورتوں کی چھاتیاں بندھی ہوئی تھیں اور لٹک رہی تھی‘ یہ زناکار عورتیں تھیں۔ بعض کی کروٹوں سے گوشت کاٹ کاٹ کر انھی کو کھلایا جا رہا تھا‘ یہ چغل خور تھے۔ بعض کے تانبے کے ناخن تھے اور ان سے اپنا منہ اور سینہ کھرچ رہے تھے‘ یہ لوگوں کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے غنیمت کے مال میں سے چادر چرا لی تھی۔ آپؐ نے بتایا کہ اس پر اس کی قبر میں آگ بھڑک رہی ہے حالانکہ اس کا بھی مال غنیمت میں حق تھا۔ پھر جس کا کسی مال میں حق نہ ہو اور ظلم سے کسی کا مال مارے اس پر تو بدرجہ اولیٰ عذاب ہوگا۔
عذاب قبر کے مختلف اسباب: عذاب قبر دل‘ آنکھ‘ کان‘ منہ‘ زبان‘ پیٹ‘ شرم گاہ ‘ ہاتھ‘ پائوں اور تمام بدن کے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اِدھر کی اُدھر لگانے والا‘ جھوٹا‘ چغل خور‘ جھوٹا گواہ‘ پاک دامنوں پر الزام لگانے والا‘ فتنہ بھڑکانے والا‘ بدعت کی اشاعت کرنے والا‘ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر جھوٹ باندھنے والا‘ اللہ کے کلام میں اٹکل اور رائے سے کام لینے والا‘ سود کھانے والا‘ ناحق یتیموں کا مال ہڑپ کرنے والا‘ رشوت وغیرہ سے حرام کھانے والا‘ ناحق مسلمان کا مال کھانے والا‘ شراب پینے والا‘ شجرملعونہ سے نوالہ توڑنے والا‘ لواطت و زنا کرنے والا‘ چور‘ خائن‘ غدار‘ دھوکا باز‘ مکار‘ سود کا گواہ و کاتب‘ حلالہ کرنے اور کرانے والا‘ اللہ کے فرائض ساقط کرنے کے لیے حیلے بہانے کرنے والا‘ حرام کا ارتکاب کرنے والا‘ مسلمانوں کو ایذا دینے والا‘ ان کے عیبوں کے پیچھے لگنے والا‘ غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرنے والا‘ غیر شرعی باتوں کا فتویٰ دینے والا‘ گناہوں اور زیادتیوں پر تعاون کرنے والا‘ ناحق قتل کرنے والا‘ حرم میں بے دینی پھیلانے والا‘ اسما و صفات کے حقائق معطل کرنے والا اور ان میں الحاد سے کام لینے والا‘ اپنی رائے‘ ذوق اور تدبر کو سنت پر مقدم کرنے والا‘ نوحہ کرنے والی‘ نوحہ سننے والے‘ حرام گانا گانے والے اور انھیں سننے والے‘ قبروں پر مسجدیں بنانے والے‘ ان پر قندیلیں اور چراغ جلانے والے‘ لیتے وقت پورا لینے والے مگر دیتے وقت کم دینے والے‘ جبار‘ متکبر‘ ریاکار‘ آنکھ یا زبان وغیرہ سے نکتہ چینی کرنے والے‘ اسلاف کو برا کہنے والے‘ کاہن‘ نجومی‘ رَمّال‘ جفر اور فال وغیرہ کھولنے والوں کے پاس جانے والے اور ان سے پوچھ کر ان کی باتوں کی تصدیق کرنے والے‘ ظالموں کے مددگار‘ جنھوں نے غیروں کی دُنیا کے بدلے اپنی آخرت فروخت کر ڈالی‘ اللہ سے ڈرانے اور پندوموعظت کے باوجود نہ ڈرنے والے اور گناہوں سے باز نہ رہنے والے لیکن مخلوق سے ڈرائے جائیں تو ڈرنے والے اور باز آجانے والے وہ لوگ جن کی اگر قرآن و سنت سے رہنمائی کی جائے تو پروا نہ کریں اور راہ پر نہ آئیں لیکن جن سے حسن عقیدت ہے اگر ان کی کوئی بات بتا دی جائے تو دل و جان سے قبول کرلیں‘ حالانکہ انبیا کے سوا تمام لوگ غیرمعصوم ہیں اور سب سے غلطیاں ہوتی ہیں۔
وہ جنھیں قرآن سنایا جائے تو اس سے متاثر نہ ہوں بلکہ گھبرانے لگیں لیکن اگر شیطانی کلمات‘ زنا کا منتر اور نفاق کا مادہ سن لیں تو کھل جائیں‘ حال پر حال آنے لگیں‘ دل میں بے حد مسرت محسوس کرنے لگیں ‘ دلی خواہش رکھیں کہ گانے والے یا گانے والیاں خاموش نہ ہوں۔ اللہ کی جھوٹی قسم کھانے والے اور غیراللہ کی جھوٹی قسموں کو کسی حال میں بھی نہ ترک کرنے والے خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ دی جائے۔ گناہوں پر فخر کرنے والے‘ اور اپنے بھائیوں اور دوستوں میں دل کھول کر بے پروائی سے خوب گناہ کرنے والے‘ وہ جن سے لوگوں کی عزتیں اور مال محفوظ نہ ہوں‘ بدزبان و بدخلق ‘ جن کے غنڈے پن سے ڈر کر لوگ انھیں چھوڑ دیں۔ آخری وقت نماز پڑھنے والے‘ مرغ کی طرح ٹھونگیں مارنے والے اور اللہ کا ذکر نہ کرنے والے‘ خوشی سے زکوٰۃ نہ دینے والے‘قدرت کے باوجود حج نہ کرنے والے‘ قدرت کے باوجود حقوق نہ ادا کرنے والے۔ حرام نگاہ سے‘ حرام بات سے اور حرام لقمہ و حرام قدم سے نہ بچنے والے‘ کمائی میں حرام و حلال کی تمیز نہ کرنے والے‘ صلہ رحمی نہ کرنے والے۔ مسکینوں‘ بیوائوں‘ یتیموں اور بے زبان جانوروں پر ترس نہ کھانے والے بلکہ یتیموں کو ڈانٹنے والے اور محتاجوں کو کھانے کی رغبت نہ دلانے والے‘ دکھاوے کے لیے عمل کرنے والے۔ برتنے کی چیزوں کو روکنے والے اور اپنے عیب و گناہ چھوڑ کر لوگوں کے عیب و گناہ ٹٹولنے والے۔ غرضیکہ ہر قسم کے گناہ گار اپنے اپنے گناہوں پر قبر کے عذاب کا شکار ہوں گے اور گناہوں کے ہلکے اور سنگین ہونے سے عذاب قبر بھی سنگین یا ہلکا ہو گا۔
قبر کی پکار: اکثر لوگ گنہ گار ہوتے ہیں اس لیے اکثر مرُدوں پر عذاب ہوتا ہے۔ عذاب قبر سے محفوظ رہنے والے تھوڑے ہیں۔ آہ! بہ ظاہر قبروں پر مٹی ہے مگر ان کے اندر عذاب اور حسرتوں کے انبار ہیں۔ ان پر مٹی یا نقشین پتھروں کی عمارات ہیں لیکن اندر مصائب و آفات ہیں جن میں حسرتیں کھول رہی ہیں‘ جیسے ہانڈیوں میں کھانا کھولتا ہے اور انھیں کھولنا بھی چاہیے۔ انسان کے اور اس کی خواہش و تمنائوں کے درمیان قبروں کے مصائب حائل ہیں۔ اللہ کی قسم! قبر ایسا جامع وعظ ہے جس نے کسی واعظ کے لیے کوئی بات نہیں چھوڑی۔
قبروں سے آواز آ رہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کر رکھا ہے جو بہت جلدی تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اُجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کر رکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اُجاڑ رکھے ہیں جن میں تمھیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے کا اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے۔ یہ یا تو باغیچۂ جنت ہے‘ یا جہنم کا خطرناک گڑھا !
عذاب قبرسے رہائی بخشنے والے اعمال: ان تمام اسباب سے بچنا چاہیے جو عذاب قبر کا باعث ہیں۔
اس سلسلے میں ایک انتہائی نفع بخش عمل یہ ہے کہ انسان رات کو سوتے وقت تھوڑی دیر اپنے نفس کا حساب لینے بیٹھ جائے اور دن بھر کی کمائی کا حساب لگائے کہ کیا کھویا اور کیا پایا‘ نفع ہوا یا نقصان؟ سچے دل سے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے توبہ کرے اور پکا ارادہ کر لے کہ اگر صبح تک زندہ رہا تو پھر گناہ نہیں کروں گا اور اسی توبہ پر سوئے۔ روزانہ رات کوسوتے وقت تجدید توبہ کرتا رہے۔ اگر رات میں فوت ہو گیا تو توبہ پر فوت ہوگا اور اگر زندہ رہا تو نیک عملوں کے لیے خوشی خوشی کمربستہ ہو گا کہ حق تعالیٰ نے مجھے زندگی کا ایک دن اور بخش دیا کہ ربّ کی ملاقات کے لیے تیاری کر لوں‘ اور جو کچھ زیادتیاں ہوئی ہیں ان کی رو دھو کر تلافی کر لوں اور معافی مانگ لوں۔ انسان کے لیے اس نیند سے زیادہ نفع بخش کوئی عمل نہیں جس کے بعد اللہ کا ذکر ہو۔ نیز ان دعائوں کو استعمال میں رکھا جائے جو سوتے وقت رحمت عالمؐ سے ثابت ہیں اور انھی کو پڑھتے پڑھتے نیند آجائے۔ بڑا خوش نصیب ہے وہ جسے اللہ اس عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ توفیق و قدرت اسی کی طرف سے ہے۔
اس سلسلے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سن لیجیے:
حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ایک صحابیؓ نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپؐ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا: یہ سورہ عذاب قبر روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابن عباسؓ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمھیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سنائوں‘ تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنایئے۔ فرمایا: سورہ ملک پڑھا کرو‘ اسے تم بھی یاد کر لو‘ اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرا دو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرا دو‘ کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے رب سے جھگڑے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو ربّ سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبدبن حمید)۔یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالمؐ نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ (سورہ ملک) نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی کہ حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدالبر)
عذاب قبر سے بچانے کے بارے میں دلوں کو اطمینان دینے والی حدیث ابوموسیٰ اپنی کتاب‘ ترغیب و ترہیب میں بیان کرتے ہیں:
حضرت عبدالرحمنؓ بن سمرۃ روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینہ کے ایک چبوترے پر جمع تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور کھڑے ہو کر فرمایا: کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے ہیں لیکن ماں باپ کی اطاعت آکر ملک الموت کو اس سے ہٹا دیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ شیطانوں نے اسے بوکھلا رکھا ہے لیکن ذکر لاالٰہ آکر تمام شیطان اس سے بھگا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے عذاب کے فرشتوں نے وحشی بنا رکھا ہے لیکن اس کی نماز آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا‘ پیاس سے بے تاب تھا‘ جس حوض کے پاس جاتا ہے‘ دھکا دے دیا جاتا ہے اور بھگا دیا جاتا ہے لیکن رمضان کے روزے آکر اسے خوب سیراب ہو کر پانی پلاتے ہیں۔
میں نے دیکھا‘ انبیا اپنے اپنے حلقے باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ جس حلقے میں جاتا ہے ‘ اس کا غسل جنابت اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کے چاروں طرف اور اُوپر نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہ اس میں حیران و سراسیمہ ہے لیکن اس کا حج اور عمرہ آکر اسے اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں پہنچا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ کے شعلوں اور انگاروں سے بچنا چاہ رہا ہے‘ اتنے میں اس کا صدقہ آکر اس کے اور آگ کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بھی کر لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اس سے بات نہیں کرتا لیکن اس کی صلہ رحمی آکر کہتی ہے‘ مسلمانو! یہ صلہ رحمی میں پیش پیش رہتا تھا‘ اس سے بولو چالو۔ آخر مسلمان اس سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے جہنم کے فرشتوں نے پریشان کر رکھا ہے لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکرآکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتے ہیں اور رحمت کے فرشتوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ دوزانو بیٹھا ہے اور اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ حائل ہے لیکن اس کا حسن خلق آتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس لے جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کا اعمال نامہ اس کی بائیں طرف سے دیا جاتا ہے لیکن خوف الٰہی اس کے پاس آکر اعمال نامہ لے کر دائیں طرف رکھ دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا اس کی تول ہلکی ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس کم سنی میں مر جانے والے بچے آتے ہیں اور اس کا وزن بھاری کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ جہنم کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے پاس اللہ سے اُمید آتی ہے اور اسے وہاں سے ہٹا لیتی ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ میں گر گیا ہے لیکن آنسو کا وہ قطرہ آتا ہے جو اللہ کے خوف سے گرا تھا اور اسے جہنم سے نکال لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر کھڑا ہوا اس طرح کانپ رہا ہے جیسے آندھی میں کھجور کا تنا ہلتا ہے لیکن اس کا اللہ کے ساتھ حسن ظن آکر اس کی کپکپاہٹ کو دُور کر دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر گھسٹ رہا ہے‘ کبھی گھسٹتا ہے اور کبھی لٹک جاتا ہے لیکن اس کی نماز آ کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دیتی ہے اور بچا لیتی ہے‘ اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے‘ دروازے بند ہو جاتے ہیں‘ لیکن کلمہ توحید آکر دروازے کھلوا کر اسے جنت میں داخل کرا دیتا ہے۔
حافظ ابوموسٰی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اعلیٰ درجے کی حسن ہے۔ اسے حضرت سعید بن مسیب‘ حضرت عمر بن زر اور حضرت علی بن زید روایت کرتے ہیں۔ ایسی ہی احادیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نبیوں کے خواب بھی وحی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر ہے۔ یہ خواب ان خوابوں کی طرح نہیں جو تعبیر کے محتاج ہیں۔ اس خواب میں مختلف عذابوں کے ساتھ ان اعمال کا بھی بیان ہے جو صاحب عمل کو عذاب سے چھڑا دیتے ہیں۔ میں نے شیخ الاسلام سے اس حدیث کی عظمت سنی۔ آپؐ نے فرمایا: سنت کے اصول اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ بہترین احادیث میں سے ہے۔ (کتاب الروح‘ تدوین: مسلم سجاد)