نومبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

معاصر اسلامی فکر چند توجہ طلب مسائل (دوسری اور آخری قسط)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی | نومبر ۲۰۰۱ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

۷- فوج داری قوانین کا مسئلہ: اسلام کے فوج داری قوانین پر عربی میں اچھا کام ہوا ہے‘ جس میں سے بعض چیزیں اردو میں منتقل بھی کی جا رہی ہیں۔ بعض مخصوص شرعی سزائوں کے سلسلے میں مختلف پہلوئوں کی مزید تحقیق و وضاحت درکار ہے۔ کیوں کہ جرم و سزا کے بارے میں جدید فلسفوں اور جدید انسان کے مزاج نے حدود شرعیہ کی نسبت سے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اس وضاحت کا ایک پہلو خود فلسفوں کے تنقیدی جائزے اور اس بارے میں اسلامی فکر کے بیان اور ان حقائق کی یاد دہانی سے تعلّق رکھتا ہے جن کی طرف پہلے دو مسائل کے بیان میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ دوسرا پہلو ہر شرعی سزا پر علیحدہ تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ چور‘ زانی‘ زنا کی تہمت لگانے والے اور برسرِجنگ باغیوں کی سزا قرآن میں مقرر کر دی گئی ہے‘ لیکن معاصر اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سزائیں اسلامی معاشرہ برپا ہو جانے کے بعد ہی نافذ کی جانی چاہییں۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ابتدا میں بھی یہ قوانین اسلامی معاشرے کے برپا ہونے کے بعد نافذ کیے گئے تھے۔ نیز سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ غیر معمولی حالات میں بعض شرعی سزائوں کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔ اس اجمالی موقف کی مزید تشریح کے طور پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دورِ جدید میں ان سزائوں کا نفاذ کن شرائط کی تکمیل کے بعد کیا جا سکے گا۔

قرآن کریم میں شراب پینے والے کو سزا دینے کا ذکرنہیں‘ مگر یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ یہ قابل سزا جرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شراب خور کو سزا دینا ثابت ہے مگر سزا کی جو کیفیت اور مقدار فقہ مرتب میں بیان ہوئی ہے‘ اس کی بنیاد خلفاے راشدین کا عمل اور صحابہؓ کا فیصلہ ہے۔ مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ امر قابل غور ہے کہ جدید اسلامی قانون سازی میں اس بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔

شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن متعین مجرموں کے سلسلہ میں یہ طریقہ اختیار کیا‘ ان کے جرم کی نوعیت کی ازسرنو تحقیق درکار ہے تاکہ یہ بات صاف ہو سکے کہ یہ سزا صرف احصان کے باوجود زنا کے ارتکاب کی تھی یا جرم کی نوعیت زیادہ پیچیدہ تھی۔ پھر یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اصل سزا سزائے موت ہے یا یہ مخصوص طریقہ سزا بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کریم میں مرتد کی سزا نہیں بیان ہوئی ہے۔ مرتد کی جو سزا سنت سے ثابت ہے‘ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ کے ایک مشہور اثر کی بنا پر اکثر فقہا مرتد کو تین دن تک توبہ کی مہلت دینے اور اس طرح اس کے شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے اسے اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتے ہیں۔ آزادی ضمیر کی ضمانت دینے کے باوجود ارتداد کو قابل سزا جرم قرار دینا اور اس جرم کی ایک ایسی سزا دینا جو آیندہ اصلاح کے مواقع ختم کر دے‘ بہت نازک مسئلہ ہے۔ فساد عقیدہ اور بنیادی امور میں اختلاف نیز اہل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں موجودہ علما کا طرزِعمل اس مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتے ہیں‘ کہ مرتد کی تعریف کیا ہوگی اور اس کو کن شرائط کی تکمیل پر سزا دی جا سکے گی؟ اس صورت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا جب ملزم کو اس بات پر اصرار ہو کہ وہ مرتد نہیں ہوا ہے؟

ترک اسلام کے ساتھ اسلامی ریاست سے بغاوت اور اسلام دشمنی کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ نازک تر مسئلہ‘ مجرد تبدیلی دین اور ترک اسلام کی سزا کا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قتل اس جرم کی آخری سزا ہے یا واحد سزا۔ کیا وجہ ہے کہ مرتد کے شکوک و شبہات دُور کرنے کے لیے تین ہی دن کا موقع دیا جائے‘ مزید وقت دینے میں کون سی دلیل شرعی مانع ہے؟ اور ایک جدید اسلامی ریاست اس بارے میں کوئی قانون بناتے وقت اس حقیقت کو کتنا وزن دے گی کہ اسلامی نظام عرصہ سے معطل رہا ہے اور عہدجدید کے انسان پر حجت اس طرح نہیںتمام ہوئی ہے جس طرح اہل عرب پرہوئی؟

۸- اقدار کا موضوع:  اسلامی تعلیمات کامدار اخلاقی قدروں پر ہے‘ شریعت انھی قدروں کی تحصیل متعین احکام و ہدایات کے ذریعے کرتی ہے‘ اور یہی قدریں زندگی کے نت نئے مسائل میں انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتی ہیں۔

انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر‘ سماجی اداروں کی تشکیل اور جدید مسائل میں نئی اسلامی قانون سازی میں ان قدروں کی رہنما اہمیت مسلم ہے۔پھر یہی قدریں نظام تعلیم و تربیت میں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں اور مطالعۂ حیات میں اسلامی ادیب کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ اخلاقی قدروں کی اس کلیدی اہمیت کے پیش نظر ان کے مطلق یا اضافی ہونے کی بحث بہت اہم ہے۔ اسلامی مفکرین جب اخلاقی قدروں کے مطلق ہونے پر زوردیتے ہیں تو ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اخلاقی قدروں کا مفہوم احوال وظروف کی تبدیلی کے ساتھ نہیں بدلتا اور ان قدروں کے عملی اظہار کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوتی؟ کیا انھی باتوں کی تعبیر اس طرح مناسب نہ ہوگی کہ اخلاقی قدروںکے تصور میں ارتقا ہوتا رہتا ہے اور اس ارتقا کے امکانات لامحدود ہیں؟ دورِ جدید میں نظام تعلیم‘ قانون‘ ادب اور سماجی علوم کی تشکیل جدید کے ضمن میں اس بنیادی بحث کا حق نہیں اداکیا گیا ہے۔

۹- فلسفہ تاریخ:  اسلام کے نظام فکروعمل میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کے ضمن میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلامی مبصر کی نگاہ میں تاریخ انسانی میں اصل کارفرما قوتیں کیا ہیں جن کے حوالے سے ماضی کی توجیہ و تعبیر اور مستقبل کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جا سکے؟

اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب تاریخ انسانی کو ایک مخصوص رخ پر لے جانے کی کوشش کرنے والی اسلامی تحریک کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل ہی اس کے طریق کار میں حقیقت پسندی‘ خود اعتمادی اور اس کی صفوں میں اپنی بالآخر کامیابی کا یقین پیدا کر سکتی ہے۔ اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب اور اس کی روشنی میں پوری انسانی تاریخ کی نئی تدوین اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاصر فکری مزاج کی تشکیل میں تاریخ کی مادی تعبیر نے اہم حصہ لیا ہے۔ آج تاریخ کا مطالعہ انسانی تاریخ میں روحانی قوتوں اور اخلاقی مقاصد کے عمل سے غفلت برتتا ہے اور ثانوی درجہ کے دوسرے عوامل ہی کو فیصلہ کن اہمیت دیتا ہے۔ تاریخ کے اس مطالعہ کو ردّ کر کے ایک نیا تاریخی شعور حاصل کیے بغیر انسانوں سے کسی تہذیبی انقلاب کی توقع لاحاصل ہے۔ افسوس کہ اس عظیم کام کے سلسلہ میں جو ابتدائی کوششیں کی بھی گئی ہیں‘ ان کا بہت کم نوٹس لیا گیا ہے اور بظاہر اس کام کے آگے بڑھنے کے کوئی آثار نہیں نظرآتے۔ اسلامی مفکرین کی توجہات زیادہ تر ان مسائل پر مرکوز ہیں جو مخصوص سیاسی یا کلامی فضا کی وجہ سے فوری اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ مگر جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو نہیں پورا کیا جاتا‘ عصرحاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی۔

معاشرتی مسائل

۱- پردہ: معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کے سیاسی اورسماجی حقوق کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے صف اوّل کے مفکرین کے درمیان بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔

الاخوان المسلمون کے رہنما مصر و شام کے دوسرے علما کی طرح‘ عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک اصل شرعی حکم ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما صرف ضرورت کی بنا پر ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور عام حالات میں چہرے کے پردے کے قائل ہیں۔ جو لوگ اس اختلاف سے واقف ہیں ان کے لیے یہ بڑا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے علما کی رائے کو خدا کی شریعت کا درجہ دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص خود کتاب وسنت سے مسئلے کی پوری تحقیق نہیں کر سکتا ہے۔

یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی‘ سماجی اور بسااوقات معاشی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے اسے اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں رائیں اپنے دلائل کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی تحریکیں بالخصوص اور مسلمان معاشرہ بالعموم ایک ایسا مزاج اختیار کرے جو مخلص مسلمانوں کو اختلافی مسائل میں اس بات کی پوری آزادی دے کہ وہ جس رائے کو زیادہ وزنی پائیں اسے عمل کی بنیاد بنائیں۔ رواج کے قہر یا سماج کے دبائو کے ذریعے کسی ایک رائے کا نفاذ اسلامی تحریک اور مسلمان معاشرے کے لیے نہ صرف نتیجے کے اعتبار سے مہلک ہوگا بلکہ دینی اعتبار سے بھی غلط ہوگا۔

اس سیاق میں یہ بات قابل افسوس ہے کہ مسلمانوں کی کسی دینی یا اصلاحی تحریک نے اپنی قوتوں کا کوئی قابل لحاظ حصہ اس اہم کام پر نہیں صرف کیا کہ ایسی صاحب علم خواتین تیار کرے جو پوری ذمہ داری کے ساتھ ان جیسے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کا حق اداکر سکیں اور کسی ایک رائے تک پہنچنے میں مدد کر سکیں۔ جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی ان مسائل پر غوروفکر کرنے والوں کی ایک مخصوص ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ دورِ جدید کی مسلمان عورت کی علمی‘ معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی ضروریات اور حوصلوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھیں۔

۲- عورت کے سیاسی حقوق: عورت کے سیاسی حقوق پر غور کرتے وقت ہم اس ضرورت کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکرین نے اس مسئلے میں مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔

انتخابات میں رائے دہی‘ مجالس قانون سازی کی رکنیت‘ مناصب حکومت پر تقرر‘ ہر مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور گذشتہ ۵۰ برسوں میں تبدیلی رائے کی بھی دل چسپ مثالیں ملتی ہیں۔ مسئلے کو سلجھانے کے لیے چندبنیادی امور پر ازسرِنو غور ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ آیت قرآنی  امرھم شورٰی بینھم میں ھم کی ضمیر صرف مسلمان مردوں کی طرف راجع ہے یا مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف۔ یہی سوال قرآن و سنت کے بعض دوسرے نصوص کی تعبیر کے سلسلے میں بھی پیدا ہوگا۔ عہد نبوت اور خلافت راشدہ کا تعامل بھی تحقیق طلب ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی تنقیح کا محتاج ہے کہ اگر اجتماعی امور پر مشورے میں مردوں کی نسبت عورتوں کی شرکت کم رہی تھی تو اس کے اسباب مقامی اور عارضی تھے یا شارع جل شانہ کے کسی دائمی منشا کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھا گیا تھا۔

یہی سوال اس دور کے سیاسی‘ سماجی ‘معاشی اورزندگی کے بعض دوسرے مظاہر کی نسبت سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اتنے اہم مسائل جن کا تعلّق انسانوں کی نصف تعداد کے اہم حقوق سے ہو‘ بڑی ذمہ داری اور باریک بینی کے متقاضی ہیں‘ اور یہ ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے کا مدار کتاب و سنت ہو۔ اگر کوئی مفکرنفسیاتی‘ حیاتیاتی‘ مطالعے کی روشنی میںاور متعلقہ مصالح کے ذاتی فہم کی بنا پر کوئی رائے رکھتا ہے تو اس رائے کو صرف اس دائرے میں کوئی وزن دیا جاسکتا ہے جس میں کتاب و سنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی ہو۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے اور متعلقہ مسائل پر غوروبحث کے دوران میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مزید بحث و تحقیق کے ذریعے کسی رائے تک پہنچا جائے۔

جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں‘ اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس غوروبحث میںمرد علما اور اصحاب رائے کے ساتھ صاحب علم و بصیرت‘ دین دار خواتین بھی پورا حصہ لیں۔ اگرآج ایسی خواتین کی کمی ہے تو ہمیں ان کی ضرورت و اہمیت محسوس کر کے ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ یہ کمی جلد از جلد پوری ہو۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس ضرورت کی عدم تکمیل کے سبب ہم نے اسلامی معاشرے کو اس انداز پر تشکیل دینا چاہا جسے خود دین دارخواتین بھی دل سے نہ قبول کرتی ہوں تو خطرناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ ان خطرات کے سدّباب کا واحد محفوظ طریقہ عورتوں میں علم و بصیرت پیدا کرنا اور ان مسائل کی بابت کیے جانے والے فیصلوں میں ان کی شرکت ہے۔

۳- عائلی قوانین میں اصلاح:  اسلام کی عائلی قوانین یا پرسنل لا کی جو دفعات کتاب و سنت سے ماخوذ اور متفق علیہ ہیں ان کی حکمتوں اور مصالح کے بیان پر‘ نیز ان پر مغرب کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں اردو اور عربی میں خاصا لٹریچر موجود ہے‘ جو کسی حد تک جدید ذہن کو مطمئن بھی کر سکتا ہے۔ مگر جوچیز کھٹکتی ہے وہ وہ اختلاف ہے جو جزئی امور میں اصلاح و ترمیم‘ اور ریاست کی مداخلت اور نئی ضابطہ بندی کے ذریعے عدل و انصاف کی ضمانت دینے کے باب میں تحریک اسلامی کے مفکرین کے درمیان پایا جاتا ہے۔کسی حد تک اختلاف سے تو مفر نہیں‘ مگر جتنا اختلاف اس باب میں نظر آتا ہے وہ بہت کچھ کم ہوجاتا اگر ایک دوسرے کی رایوں سے واقف ہوکر بحث و مذاکرے کے ذریعے اختلافات میں کمی کی کوشش کی جاتی۔

یہاں تفصیل کا موقع نہیں صرف اشارہ کیا جاسکتا ہے‘ مثلاً پاکستان میں علما اور جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا وہ اپنی تفصیلات میں اس موقف سے بہت مختلف ہے جو مصر‘ شام اور مراکش وغیرہ کے بعض علما اور الاخوان المسلمون کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے‘ اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی‘ طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا‘ حق خلع کی تجدید‘ مطلقہ کے حقوق‘ ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ‘ صغیرہ کے نکاح‘ ولایت اجبار‘ اور خیار بلوغ کے مسائل‘ نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غوروفکر ضروری ہے۔

۴- غیر مسلموں کے سیاسی حقوق: دورِ جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے۔ اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔

موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا‘ البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔ ان میں سے پہلی بات یعنی صدر ریاست کا مسلمان ہونا متفق علیہ اور ہر ایک کے لیے قابل فہم ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جس دستوری پابندی کے تحت مجالس قانون ساز میں غیرمسلموں کی شرکت روا رکھی گئی ہے‘ اسی دستوری پابندی کے تحت کابینہ یا شوریٰ کی کسی دوسری شکل میں ان کی شرکت کیوں نہیں روا رکھی جا سکتی ہے؟ فوجی خدمات کوکسی حالت میں بھی غیر مسلمانوں کے لیے لازمی نہ قرار دینا ایک معقول بات ہے۔ لیکن اگر وہ خود کو اس خدمت کے لیے پیش کریں تو ان کے لیے اس کا دروازہ بند کرناضروری نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ فوجی خدمت اور دوسرے مناصب پر تقرر کا معیار دستور سے وفاداری کو بنایا جائے اور اس اصولی موقف کے ساتھ عملی طور پر انتخاب یا تقرر میں متعلقہ غیر مسلم افراد کے واقعی رجحانات اور کردار کو بھی نظرمیں رکھا جائے۔ اس طرح مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اورمدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دورِجدیدکی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیاہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو‘ نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔

اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد و مصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اوراسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیرغور مسئلہ میں‘ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

۵- مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک :  غیر مسلم اکثریت والے آزادممالک میں بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمانوں کے اپنے ملک کے سیاسی نظام سے تعلّق کی نوعیت بھی مذکورہ بالا مسئلے سے کم اہم نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلّق ان کی سیاسی قوت اور اس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی اور معاشی حالت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ان مسلمانوں کی سیاسی قوت‘ تعلیمی اور معاشی حالت کی اس داعیانہ کردار کے لیے بھی اہمیت ہے جو انھیں ان ملکوں میںاختیار کرنا چاہیے۔ اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظرثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی‘تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثرانداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث و مذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

معاشی مسائل

۱- اسلام اور معاشی ترقی: اگرچہ معاصر اسلامی فکر کے بعض توجہ طلب پہلوئوں کی نشان دہی میں ہم معاشی مسائل کا ذکر سب سے آخر میں کر رہے ہیں۔ مگر یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دورِجدید میں ان مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

بہت سے جدید ذہنوں کی اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں بے دلی یا مخالفت ان مسائل سے وابستہ ہے۔ بہت سے مسلم دانش ور یہ احساس رکھتے ہیں کہ بعض اسلامی تعلیمات معاشی ترقی کے لیے ناسازگارہیں اور اسلام تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ایجابی طور پر سازگارفضا نہیں پیدا کر سکتا۔ مسلمان ماہرین معاشیات نے اپنے مغربی اساتذہ سے یہ سیکھا ہے کہ صنعتی ترقی کا ایک لازمی نتیجہ اور تیز رفتار ترقی کی ایک شرط روایتی سماج کے شیرازے کا منتشر ہونا ہے۔ ان دانش وروں کا تصور اسلام روایتی مذاہب کے تصور سے زیادہ نہیں ہے‘ اور اسلا م کے مطالعے کی کمی کے سبب وہ مشرق کے مسلمان ممالک کے روایتی سماج ہی کو اسلامی سماج سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا ذہن یہ بات بھی تقریباً قبول کر چکا ہے کہ اسلام تیزرفتار معاشی ترقی کے صدمات نہ سہہ سکے گا۔

اگر تحریک اسلامی کو نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنے ماہرین معاشیات کا تعاون حاصل کرنا ہے تو ان کی ان غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ معاشی ترقی کے حقیقی تقاضوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسلام کے حرکی رجحانات کی مخفی قوتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ معاشی ترقی کے لیے سازگار فضا بناتے ہیں۔ قدرتی طور پر ہمیں ان امور سے بھی بحث کرنی ہوگی کہ اسلام میں ترقی آخری مقصود کا نہیں بلکہ فلاح انسانی کا درجہ رکھتی ہے۔ اس ذیل میں بیش از بیش سامان حیات پیدا کرنے‘ معیار زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ چاہنے‘ انسانی ضروریات میں بے تحاشا وسعت پیدا کرتے چلے جانے اور فردِانسانی کو مزید سامانِ حیات کی کبھی نہ تشفی پانے والے طلب کے دبائو کے تحت مصروف محنت رکھنے کے معاصر مقاصد و مناہج پر تنقید بھی ضروری ہوگی۔ زندگی کے روحانی‘ اخلاقی اور جمالیاتی پہلوئوں کے اہم تقاضوں پر زور دیتے ہوئے معاشی ترقی کے سلسلے میں ایک ایسا معتدل نقطۂ نگاہ سامنے لانا ہوگا‘ جو مقام انسانیت کے شایان شان ہو۔

اسلام کے مجموعی نظام اقدار کے پس منظر میںمعاشی قدروں کے صحیح مقام کی تعیین کے بعد یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ اسلام مطلوبہ معاشی ترقی کے لیے قوی محرکات فراہم کرتا ہے اور اس کا اجتماعی نظام اس کے اہتمام کا ذمہ دار ہے۔ اس موضوع پر اب تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر عام لوگوں کے لیے کچھ مفید ہو سکتا ہے مگر معاشیات کے ماہرین کے لیے تشفی بخش نہیں ہے۔

۲- پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی بحث:  دورِ جدید میںمعاشی ترقی‘معاشی عدل کے قیام اور فی الجملہ زندگی کی تنظیم میں انفرادی اور نجی کوششوں کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور تعاون باہمی پر مبنی اداروں نیز ریاست کا دائرہ عمل وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کسی مخصوص فلسفے کا اثر نہیں بلکہ جدید ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے جو اشیا کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر اہتمام‘ طویل عرصہ پیداوار اور اس کے تقاضے کے طور پر پیداواری منصوبہ بندی اور کامیاب منصوبہ بندی کے لیے رسد اورطلب نیز خام اشیا اور تیار شدہ سامانوں کی قیمتوں میںیک گونہ استقرار کی طالب ہے۔ ایک اسلامی معیشت میں پبلک سیکٹر‘ کوآپریٹو سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کے اضافی مقامات پر اور صنعتوںکو قومی ملکیت میں لینے یا نہ لینے کے مسئلے پر غور کرتے وقت انفرادی حقوق اور شورائی نظام کے تقاضوں کے ساتھ جدید ٹکنالوجی کے ان تقاضوں کو بھی پوری طرح سامنے رکھنا ہوگا۔ متعلقہ عملی مسائل میں فیصلہ کا مدار مصالح کو بنانا چاہیے اور یہ ظاہر ہے کہ اکثر اوقات بالاتر مصالح کے حصول کے لیے کم تر مصالح کی قربانی یا ان کے تحفظ کے لیے دوسری تدابیر اختیار کرنا بھی لازم آئے گا۔

اس مسئلے پر جو لٹریچر ہمارے سامنے ہے‘ اس کا بیش تر حصہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے متوقع مسائل کو سامنے رکھ کر تیار نہیں ہوا ہے‘ بلکہ غیر اسلامی معاشی نظاموں کے ردّ میں تیار ہوا ہے۔ اصل ضرورت ایک ترقی پذیر اسلامی ریاست کے لیے موزوں معاشی پالیسی مرتب کرنے کی ہے‘ اور اس مسئلے میں اصل اہمیت اصطلاحوں کے ترک و قبول کی نہیں‘ بلکہ پالیسی کے ایسے رہنما اصول وضع کرنے کی ہے جو قومی ملکیت میں لینے‘ تحدید ملکیت‘ مسئلہ ملکیت زمین‘ آزادی کاروبار کے حدود اور معاشی منصوبہ بندی جیسے امور میں موزوں فیصلوں کی بنیاد بن سکیں۔

بلاشبہ اس کام کا حق تو اس وقت ادا کیا جا سکے گا‘ جب کسی ملک میں اسلامی نظام عملاً قائم ہو جائے۔ مگر خودایسا ہونا اب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان دانش وروں اور ماہرین معاشیات کو خصوصاً اور دورِجدید کے انسان کو عموماً اس بات پر مطمئن کر سکیں کہ اس سلسلے میں تحریک اسلامی ایک واضح‘ حقیقت پسندانہ اور حرکی موقف اختیار کرتی ہے۔

۳- غیر سودی معیشت: اسلا م میں سود کی حرمت اور معاصر معاشی نظاموں میں سود کی کلیدی اہمیت اکثر جدید تعلیم یافتہ افراد کو الجھن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینے کے بعد بنک کاری‘ نظام زر و کریڈٹ‘ تجارت خارجہ‘ بین الاقوامی مالی تعلّقات کن بنیادوں پر منظم کیے جا سکیں گے۔ بہت سے مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ بنک کا سود ان خرابیوں سے پاک ہے جو قرآن کے حرام کیے ہوئے ربا میں پائی جاتی ہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے‘ حرمت سود کی حکمتوں کے بیان اور مذکورہ بالا امور کی تنظیم کے لیے متبادل بنیادوں کی وضاحت پر جو کام اب تک کیا گیا ہے وہ ابتدائی معیار کا ہے۔ مزید تفصیلات پر غور اور متبادل نظام کی فنی وضاحت درکار ہے۔ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تاریخ انسانی میں بالعموم اور معاصر دنیا میں بالخصوص سود کے کردار اور اس سے پیدا ہونے والی حق تلفیوں‘ عدم توازن اور فساد پر گہرا تجزیاتی اور معلوماتی کام کیا جائے۔ ساتھ ہی سود کی وضاحت کرنے والے اور اس کا جواز فراہم کرنے والے علمی نظریات پر علمی تنقید کا کام بھی آگے بڑھانا چاہیے۔

۴- انشورنس : صنعتی دَور میں انشورنس ایک اہم کاروباری ضرورت ہے۔ انشورنس کارخانہ دار کے لیے یہ ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ایک متعین سالانہ صرفہ برداشت کر کے ناگہانی خطرات کے مالی عواقب سے  بے نیاز ہو جائے۔ اس تحفظ کے بغیر وسیع پیمانے پر صنعتی پیداوار کی تنظیم دشوار ہے۔ یہی ضرورت زندگی کے دوسرے دائروں میں بھی پیش آتی ہے۔ موت کے وقت کے عدم تعین کے سبب افراد زندگی کی انشورنس کے ذریعے موت کے مالی عواقب سے تحفظ چاہتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں تحفظ کی بنیاد یہ فنی حقیقت فراہم کرتی ہے کہ جس خطرے کا وقوع افراد کے لیے مجہول اور غیر متعین ہوتا ہے اسی خطرے کا افراد کے ایک بہت بڑے مجموعے میں وقوع حسابی طور پر معلوم اور متعین ہوتا ہے۔ اس بنیاد پرتعاون باہمی کے اصول پر افراد کے مجموعے خطرات کے مالی عواقب برداشت کرنے اور فردِ واحد کے لیے ان کی شدت کم کرنے کا اہتمام کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر تجارتی کمپنیاں بڑی تعداد میں افراد سے انشورنس کے معاہدے کر کے مذکورہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ خود نفع کماتی ہیں ‘اور اسی بنیاد پر اجتماعی نظام سوشل انشورنس کی مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔

ان حقائق کے پیش نظر اسلامی معاشرے کے لیے چند بنیادی سوالات غور طلب ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کو زندگی کے تمام دائروں میں اجتماعی نظام کے زیراہتمام پورا کرے گا یا بعض دائروں میں ایسا کرے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہر دائرے میں اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام ریاست کے سپرد نہ کیاجاسکتا ہو تو ایسے دائروں میں صرف تعاون باہمی پر مبنی اداروں کو روا رکھا جائے گا یا تجارتی انشورنس کو بھی بعض دائروں میں گوارا کیا جائے گا؟

انشورنس کا موجودہ نظام سود سے ملوث ہے مگر سود کے بغیر انشورنس کی تنظیم جدید اس سے کہیں زیادہ آسان ہے‘ جتنی بنک کاری کی تنظیم جدید۔اس حقیقت کو سامنے نہ رکھنے اور بڑی حد تک انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اس موضوع پر ظاہر کی جانے والی آرا میں بہت کم وزن ہے۔ اردو میںاس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ برسوں میں عربی میں اس پر کئی مقالات لکھے گئے ہیں ‘ مگر اب تک مسئلہ صاف نہیں ہوا ہے۔ انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں کے پیش نظر بعض علما کی یہ رائے کہ اس میں قمار پایا جاتا ہے نظرثانی کی محتاج معلوم ہوتی ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی مزید تحقیق اور جامع بحث کی ضرورت ہے۔

۵- نظام محاصل : دورِ جدید کی اسلامی معیشت کے نظام محاصل پر کسی جامع کام کی ضرورت ہے۔ اگرچہ متعدد معاصر فقہا و مفکرین نے مال کی نئی قسموں مثلاً کمپنیوں کے حصص‘ مشینوں اور کارخانوں اور کرایہ پر دیے جانے والے مکانات وغیرہ کے سلسلے میں زکوٰۃ کے وجوب پر روشنی ڈالی ہے‘ مگر ابھی اس سلسلے کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکا‘ اور زیرغور مسائل میں اختلاف رائے کم کرنے کے لیے بحث و فکر کی رفتار بہت سست ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کاروباری پیمانے پر کی جانے والی زراعت کے سلسلے میں شرعی محصول کیا ہوگا؟ عشر و زکوٰۃ کے مصارف اور جدید حالات میں ان کے مطابق عمل کی صورتیں کیا ہوں گی؟ اس بارے میں بھی مزید غوروبحث کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ شرعی محاصل اور مزید محاصل‘ مالیاتی پالیسی (fiscal policy) اور سماجی تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے غیر سودی اسلامی معیشت کے پس منظر میں ایک جامع نظام تجویز کیا جائے۔

۶- تحدید نسل:  آج کل کم ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسی میں تحدید نسل نے بھی ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ انفرادی سطح پر ضبط ولادت کا مسئلہ قومی پیمانے پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے مسئلے سے بڑی حد تک علیحدہ ہے‘ لیکن اس موضوع پر معاصر بحث و مذاکرہ اول الذکر مسئلے کے زیرسایہ شروع ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض مفکرین اس بارے میں غیر معمولی شدت اختیار کر رہے ہیں۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا سوال ہے اس پر اس بڑے مسئلے کے پس منظر میں غور کرنا چاہیے جس کا ذکر معاشی ترقی کے تصور اور مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مسئلے کے دونوںپہلوئوں پر مزید تحقیقی کام کی اور بحث و مذاکرے کے ذریعے موجودہ اختلاف رائے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔