رمضان کا مہینہ‘ تلاوت قرآن کا مہینہ‘ قیام اللیل کا مہینہ اور رحمت و مغفرت اور آگ سے آزادی کا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ بھی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے جس کی طرف قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے توجہ دلائی گئی ہے۔ سیرت پاکؐ، واقعات صحابہ ‘ اسلامی تاریخ اور خود ہمارے آج کے دور میں بھی اس حوالے سے درخشندہ اور قابل تقلید مثالیں ملتی ہیں۔ بھلا جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اللہ کے وعدوں کو سچا جانتا ہو‘و ہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کیوں بچائے گا۔ قرآن کے مطابق‘ انفاق کی مثال ایسے بیج کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں (البقرہ ۲:۲۶۱)۔ یوں ۷۰۰ گنا اجر کا محاورہ بن گیا۔ جو ۲۰‘ ۲۵ فی صد کی امید پر لاکھوں حاضر کر دیتے ہیں ‘ وہ اگر ۷۰۰ گنا کے یقینی وعدے پر ہزاروں پیش کرنے میں تکلف کریں‘ تو یہ ضرور کچھ غور کرنے کی بات ہے۔ اور پھر رمضان میں تو مزید ۱۰ گنا کا حساب لگایا جائے تو بات ۷ ہزار گنا تک پہنچتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو اللہ کے وعدوں پر ایمان اور یقین کا ہے۔
روایات کے مطابق رمضان کا مبارک مہینہ آتا تھا تو اللہ کے رسولؐ کی سخاوت دوچندہو جاتی تھی‘ ایک تیز ہوا کی مانند‘ جس سے ہرکس و ناکس فیض یاب ہوتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جن کو اللہ نے دیا ہے ‘ وہ اس مہینے کو دینے کا مہینہ بنا دیں‘ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے کا مہینہ! اللہ کی ہستی ایک کریم اور فیاض ہستی ہے اور اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ وہ ’’قرض‘‘ واپس کرنے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرے گا۔ وہ اپنی راہ میں اخلاص سے دینے والوں کو اتنا نوازے گا ‘ اتنی برکت دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں اور آنے والے ۱۱ ماہ سنبھال بھی نہ سکیں اور آخرت کا اجر بھی باقی رہے گا۔ اس حوالے سے کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:
روز مرہ زندگی گزارتے ہوئے‘ معمول کی ضروریات پر اپنا مال خرچ کرتے ہوئے موت کے بعد کی تیاری کرنا ہی اصل بات ہے۔ جب موت سامنے نظر آجائے ‘ تو پھر وہ بات نہیں رہتی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دسیوں عنوان سامنے آتے ہیں۔ ان سے آدمی ایسے ہی نہ گزر جائے بلکہ ان مواقع کو اپنی آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔
اپنی ضرورت پر سائل کی ضرورت کو ترجیح دینا یقینا صدقے کا اعلیٰ درجہ ہے (اور جب رسولؐ اللہ کے گھر میں یہ نہ کیا گیا تو نتیجہ بھی سامنے آگیا)۔ لیکن اپنی ضروریات بلکہ ایک حد تک آسایش پوری کرنے کے بعد جو بچتا ہے اُسے تو کھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی روش ہر کسی مسلمان کی ہونا چاہیے۔ یہ کیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی تاحیات ضروریات کا مکمل انتظام کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی دنیا کی سب فکروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اہل ضرورت فہرست میں آ ہی نہیں پاتے یا بہت دُور کہیں براے نام۔ جب آخرت حق ہے‘ اجر یقینی ہے‘ دنیا میں برکت کے وعدے ہیں‘ (اور اللہ کے وعدے ہیں!) تو پھر پس و پیش کیسا؟ اگر معاشرے میں‘ ضرورت سے زیادہ جو کچھ پاس ہے‘ اسے جمع کرنے کے بجائے دینے کا چلن ہو جائے تو معیشت کے کتنے ہی مسائل حل ہو جائیں اور اسلام کا مطلوب معاشرہ نظر آجائے۔
اجر عطا کرنے کے کیا کیا انداز ہیں۔ بڑھانے کا وعدہ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جائے ‘ بندہ اور کیا چاہتا ہے! عزت میںاضافہ ہو‘ رفعت عطا ہو‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور کیا چاہیے! اکثر اس لیے رقم نہیں نکالی جاتی کہ کمی ہو جائے گی۔ سچ بتانے والے رسولؐ نے بتایا کہ صدقے نے کبھی مال میں کمی نہیں کی۔ ہمیں اعتبار کیوں نہیں آتا۔
یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دو مزیدفوائد ہیں۔
کیوں نہ مسلمانوں کے دولت مند ‘ ایسے خرچ کرنے والے بنیں اور تباہ و برباد ہونے سے بچ جائیں۔
لیجیے‘ ۷۰۰ گنا کی تصدیق--- اور رمضان بھی ہو تو--- آپ خود حساب لگا لیں۔
یعنی‘ کوئی جایداد ‘ مکان‘ کمرہ یا کسی کل وقتی کارکن کا ماہانہ مشاہرہ یا (اچھی حالت کی موٹر گاڑی۔ اور یہ نہ بھی ہو توتھوڑی سی کھجوریں ہی زر و جواہر کے ڈھیر پر بھاری ہو جاتی ہیں کہ اصل وزن اخلاص اور حسن نیت کا ہے۔
اللہ نے جو مال دیا ہے اُسے خرچ کرنے کے بارے میں جو ہدایات و تعلیمات ہیں وہ سب ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ دل سے مال کی محبت نکالنے کا ہے جو اصل مرض اور سبب فساد ہے۔ انفاق اسی مرض کا علاج ہے۔
اموال میں سائل و محروم کا حق ہے۔ کسی کو دیتے ہیں تو احسان نہیں کرتے‘ اس کا حق پہنچاتے ہیں۔ احسان جتانا تو اجر ضائع کرنے کا مجرب نسخہ ہے جس کے سایے سے بھی بچنا چاہیے۔
کہاں خرچ کیا جائے؟ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنا بھی صدقہ ہے۔ اعزہ و اقارب میں جو مفلوک الحال ہوں‘ حاجت مند ہوں‘ خاموشی سے اُن کی مدد کرنا چاہیے۔ محلے میں جو ضرورت مند ہوں‘ خصوصاً بیوہ یا یتیم اُن کا پہلا حق ہے۔ شادیوں کی جائز ضروریات ‘ علاج‘ تعلیم سب حقیقی مسائل ہیں۔ معاشرے میں اللہ کا دین غالب نہ ہو تو اُس کو غالب کرنے کی کوششوں میں وقت و صلاحیت کے ساتھ اپنے مال کا بھی انفاق کرنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ اور جب جہاد کی نفیرعام ہو جائے تو اپنی ذات اور اہل خانہ کی ضروریات تک روک کر جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔
آنے والا مہینہ رمضان کا ہے جس میں نیکی کا اجر بہت زیادہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ موقع ہی موقع ہے۔ فائدہ اٹھانا آپ پر ہے۔ اس سال زکوٰۃ کے علاوہ اپنی ایک ماہ کی کل آمدنی (اگر آپ کے پاس اس کے بقدر بچت ہے) اس ماہ مبارک کے دوران اللہ کی راہ میں خرچ کریںتاکہ نہ صرف آنے والے ۱۱ ماہ میں بلکہ آپ کی پوری زندگی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکتوں سے خوب خوب نوازے۔