نومبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں انفاق فی سبیل اللہ

مولانا عبد المالک | نومبر ۲۰۰۱ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

رمضان کا مہینہ‘ تلاوت قرآن کا مہینہ‘ قیام اللیل کا مہینہ اور رحمت و مغفرت اور آگ سے آزادی کا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ بھی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے جس کی طرف قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے توجہ دلائی گئی ہے۔ سیرت پاکؐ، واقعات صحابہ ‘ اسلامی تاریخ اور خود ہمارے آج کے دور میں بھی اس حوالے سے درخشندہ اور قابل تقلید مثالیں ملتی ہیں۔ بھلا جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اللہ کے وعدوں کو سچا جانتا ہو‘و ہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کیوں بچائے گا۔ قرآن کے مطابق‘ انفاق کی مثال ایسے بیج کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں (البقرہ ۲:۲۶۱)۔ یوں ۷۰۰ گنا اجر کا محاورہ بن گیا۔ جو ۲۰‘ ۲۵ فی صد کی امید پر لاکھوں حاضر کر دیتے ہیں ‘ وہ اگر ۷۰۰ گنا کے یقینی وعدے پر ہزاروں پیش کرنے میں تکلف کریں‘ تو یہ ضرور کچھ غور کرنے کی بات ہے۔ اور پھر رمضان میں تو مزید ۱۰ گنا کا حساب لگایا جائے تو بات ۷ ہزار گنا تک پہنچتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو اللہ کے وعدوں پر ایمان اور یقین کا ہے۔

روایات کے مطابق رمضان کا مبارک مہینہ آتا تھا تو اللہ کے رسولؐ کی سخاوت دوچندہو جاتی تھی‘ ایک تیز ہوا کی مانند‘ جس سے ہرکس و ناکس فیض یاب ہوتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جن کو اللہ نے دیا ہے ‘ وہ اس مہینے کو دینے کا مہینہ بنا دیں‘ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے کا مہینہ! اللہ کی ہستی ایک کریم اور فیاض ہستی ہے اور اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ وہ ’’قرض‘‘ واپس کرنے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرے گا۔ وہ اپنی راہ میں اخلاص سے دینے والوں کو اتنا نوازے گا ‘ اتنی برکت دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں اور آنے والے ۱۱ ماہ سنبھال بھی نہ سکیں اور آخرت کا اجر بھی باقی رہے گا۔ اس حوالے سے کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: انسان کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا بہتر ہے‘ موت کے وقت ۱۰۰ درہم صدقہ کرنے کے مقابلے میں۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کون سا صدقہ سب سے زیادہ اجر والا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جو اس حال میں کرو کہ تندرست ہو‘ حریص ہو‘ فقر کا خطرہ ہو اور دولت مندی کی آرزو ہو--- دیر نہ کرو! جب جان حلق میں آ جائے تو اس وقت تم کہنے لگو کہ فلاں کا اتنا ہے اور فلاں کا اتنا ہے حالانکہ وہ تو فلاں کا ہو گیا (متفق علیہ)

روز مرہ زندگی گزارتے ہوئے‘ معمول کی ضروریات پر اپنا مال خرچ کرتے ہوئے موت کے بعد کی تیاری کرنا ہی اصل بات ہے۔ جب موت سامنے نظر آجائے ‘ تو پھر وہ بات نہیں رہتی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دسیوں عنوان سامنے آتے ہیں۔ ان سے آدمی ایسے ہی نہ گزر جائے بلکہ ان مواقع کو اپنی آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔


حضرت عثمانؓ کے ایک مولیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم سلمہؓ کو گوشت کا ایک ٹکڑا ہدیہ کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت بہت پسند تھا۔ حضرت اُم سلمہؓ نے خادمہ سے کہا: اسے محفوظ کر کے رکھ دو‘ شاید رسولؐ اللہ تشریف لائیں تو اسے تناول فرمائیں۔ انھوں نے یہ ٹکڑا گھر کے طاق میں رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد ایک سائل آیا اور دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے آواز لگائی: صدقہ کرو‘ اللہ آپ لوگوں کو برکت دے--- گھر والوں نے جواب دیا: اللہ آپ کو برکت دے۔ سائل واپس چلا گیا۔ پھر نبی کریمؐ تشریف لائے اور فرمایا: اُم سلمہؓ ! تمھارے پاس میرے کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! اور خادمہ سے کہا: جائو‘ اور رسولؐ اللہ کے لیے وہ گوشت لے آئو۔ وہ گئیں تو طاق میں ایک پتھر کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہ پایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے سائل کو نہ دیا تو وہ گوشت پتھر بن گیا۔ (بیہقی)

اپنی ضرورت پر سائل کی ضرورت کو ترجیح دینا یقینا صدقے کا اعلیٰ درجہ ہے (اور جب رسولؐ اللہ کے گھر میں یہ نہ کیا گیا تو نتیجہ بھی سامنے آگیا)۔ لیکن اپنی ضروریات بلکہ ایک حد تک آسایش پوری کرنے کے بعد جو بچتا ہے اُسے تو کھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی روش ہر کسی مسلمان کی ہونا چاہیے۔ یہ کیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی تاحیات ضروریات کا مکمل انتظام کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی دنیا کی سب فکروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اہل ضرورت فہرست میں آ ہی نہیں پاتے یا بہت دُور کہیں براے نام۔ جب آخرت حق ہے‘ اجر یقینی ہے‘ دنیا میں برکت کے وعدے ہیں‘ (اور اللہ کے وعدے ہیں!) تو پھر پس و پیش کیسا؟ اگر معاشرے میں‘ ضرورت سے زیادہ جو کچھ پاس ہے‘ اسے جمع کرنے کے بجائے دینے کا چلن ہو جائے تو معیشت کے کتنے ہی مسائل حل ہو جائیں اور اسلام کا مطلوب معاشرہ نظر آجائے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:

جو پاکیزہ مال میں سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے--- اور اللہ قبول نہیں کرتا مگر پاکیزہ مال--- تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے‘ اور اس کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ ایک کھجور جتنا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

ایک دوسری روایت میں‘ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:

صدقے نے کبھی بھی مال میں کمی نہیں کی۔ اور معافی دینے کے سبب اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ کوئی بھی اللہ کے لیے تواضع نہیں کرتا‘ مگر اللہ تعالیٰ اُسے رفعت عطا کر دیتے ہیں۔ (مسلم)

اجر عطا کرنے کے کیا کیا انداز ہیں۔ بڑھانے کا وعدہ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جائے ‘ بندہ اور کیا چاہتا ہے! عزت میںاضافہ ہو‘ رفعت عطا ہو‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور کیا چاہیے! اکثر اس لیے رقم نہیں نکالی جاتی کہ کمی ہو جائے گی۔ سچ بتانے والے رسولؐ نے بتایا کہ صدقے نے کبھی مال میں کمی نہیں کی۔ ہمیں اعتبار کیوں نہیں آتا۔


حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو دُور کرتا ہے۔ (ترمذی)

یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دو مزیدفوائد ہیں۔


حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آپؐ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا: وہ لوگ تباہ و برباد ہو گئے۔

میں نے کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! کون لوگ تباہ و برباد ہو گئے؟

آپؐ نے فرمایا: وہ تباہ و برباد ہو گئے جو زیادہ دولت مند ہونے کے باوجود خرچ نہیں کرتے۔ کامیاب صرف وہی ہوگا جو اپنی دولت لٹائے‘ سامنے والوں کو دے‘ پیچھے والے کو دے‘ اور بائیں جانب والوں کودے اور ایسے مال دار خرچ کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔ (بخاری و مسلم)

کیوں نہ مسلمانوں کے دولت مند ‘ ایسے خرچ کرنے والے بنیں اور تباہ و برباد ہونے سے بچ جائیں۔


حضرت ابومسعودؓ انصاری سے روایت ہے کہ ایک آدمی مہاربند اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: قیامت کے روز اس کے بدلے تیرے لیے ۷۰۰ اونٹنیاںہوں گی جو سب مہاربند ہوں گی۔ (ابوداؤد)

لیجیے‘ ۷۰۰ گنا کی تصدیق--- اور رمضان بھی ہو تو--- آپ خود حساب لگا لیں۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سایہ دار خیمہ ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے خادم کا عطیہ ہے‘ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جوان سواری دینا ہے۔

یعنی‘ کوئی جایداد ‘ مکان‘ کمرہ یا کسی کل وقتی کارکن کا ماہانہ مشاہرہ یا (اچھی حالت کی  موٹر گاڑی۔ اور یہ نہ بھی ہو توتھوڑی سی کھجوریں ہی زر و جواہر کے ڈھیر پر بھاری ہو جاتی ہیں کہ اصل وزن اخلاص اور حسن نیت کا ہے۔

اللہ نے جو مال دیا ہے اُسے خرچ کرنے کے بارے میں جو ہدایات و تعلیمات ہیں وہ سب ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ دل سے مال کی محبت نکالنے کا ہے جو اصل مرض اور سبب فساد ہے۔ انفاق اسی مرض کا علاج ہے۔

اموال میں سائل و محروم کا حق ہے۔ کسی کو دیتے ہیں تو احسان نہیں کرتے‘ اس کا حق پہنچاتے ہیں۔ احسان جتانا تو اجر ضائع کرنے کا مجرب نسخہ ہے جس کے سایے سے بھی بچنا چاہیے۔

کہاں خرچ کیا جائے؟ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنا بھی صدقہ ہے۔ اعزہ و اقارب میں جو مفلوک الحال ہوں‘ حاجت مند ہوں‘ خاموشی سے اُن کی مدد کرنا چاہیے۔ محلے میں جو ضرورت مند ہوں‘ خصوصاً بیوہ یا یتیم اُن کا پہلا حق ہے۔ شادیوں کی جائز ضروریات ‘ علاج‘ تعلیم سب حقیقی مسائل ہیں۔ معاشرے میں اللہ کا دین غالب نہ ہو تو اُس کو غالب کرنے کی کوششوں میں وقت و صلاحیت کے ساتھ اپنے مال کا بھی انفاق کرنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ اور جب جہاد کی نفیرعام ہو جائے تو اپنی ذات اور اہل خانہ کی ضروریات تک روک کر جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔

آنے والا مہینہ رمضان کا ہے جس میں نیکی کا اجر بہت زیادہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ موقع ہی موقع ہے۔ فائدہ اٹھانا آپ پر ہے۔ اس سال زکوٰۃ کے علاوہ اپنی ایک ماہ کی کل آمدنی (اگر آپ کے پاس اس کے بقدر بچت ہے) اس ماہ مبارک کے دوران اللہ کی راہ میں خرچ کریںتاکہ نہ صرف آنے والے ۱۱ ماہ میں بلکہ آپ کی پوری زندگی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکتوں سے خوب خوب نوازے۔