ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنے مقالے: ’’معاصر اسلامی فکر: چند توجہ طلب مسائل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں جو چھے موضوعات اٹھائے ہیں‘ اُن میں سے کچھ موضوعات پر ان شاء اللہ ادارہ معارف اسلامی لاہور میں تحقیقی کام کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ میں اس سلسلے میں اپنے احباب سے مشورہ کر رہا ہوں۔
اشارات (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں پروفیسر صاحب نے موضوع کے ہر پہلو پر قلم اٹھایا ہے لیکن انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ امریکہ میں دہشت گردی اور ایسے وسیع پیمانے پر تباہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتباہ ہو سکتا ہے کہ روس کے بعد اس سوپرپاور کی تباہی بھی قریب ہے۔ اب ممکن ہے کہ افغانستان جہاں روس کا قبرستان بنا‘ وہاں امریکہ کا قبرستان بھی بن جائے۔ امریکہ کا نامۂ اعمال جیسا سیاہ ہے‘ سب کو معلوم ہے۔ اب اس ظالم کا بھی یومِ حساب قریب ہے۔ ’’اسلام اور عصرحاضر کے معاشی چیلنج‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) چشم کشا تحریر ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کی، ’’مسلم ممالک‘ جمہوری روایت اور اسلام‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) بھی بے حد عمدہ لگی۔
’’ترقی کا مفہوم‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں یہ کہنا ناکافی ہے کہ مسلم ترقی دوسری تہذیبوں سے صرف بعض اخلاقی اصولوں کی پابندی کی بنا پر مختلف ہے۔ اسلام دنیا اور آخرت دونوں بلکہ ترجیحاً آخرت کی ترقی کا خواہاں ہے‘ جب کہ مغربی تہذیب صرف دنیوی ترقی کو موضوع بناتی ہے۔ اس اصولی فرق سے ترقی کے مفہوم‘اقدامات‘ اقدار‘ اہداف اور نتائج میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ امریکہ میں ہونے والے واقعات کے بعد اخبارات‘ ٹی وی‘ ملکی اور غیر ملکی تبصرے پڑھے اور سنے۔ ایک پریشانی تھی جو کہ بڑھتی جاتی تھی۔ عالم کفر کا یوں اُمڈتے آنا اور ایک دیوقامت (monolith) کا طاقت کے نشے میں بڑھتے جانا باعث تشویش تھا۔ اس کا جواب کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے‘ سوجھتا نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ خرم مراد کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کے مضمون ’’دورِ فِتن میں راہ عمل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) نے یہ اُلجھن دُور کر دی۔
سرورق کی ڈیزائننگ میں تو خیر آپ لوگوں کا اپنا اک انداز اور معیار ہے‘ یعنی سادگی بھی‘ کشش بھی اور نظروں کو خیرہ کرنے والا بھی۔ لیکن اگر کریڈٹ پیج کو کچھ اچھے طریقے سے ڈیزائن کروا لیا جائے تو شاید پرچے کا حسن دوبالا ہو جائے۔ خرم مراد کا مضمون ’’دورِ فِتن میں راہ عمل‘‘ بھی بہت اچھا ہے۔اللہ آپ کو اور محنت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
’’کچھ صلہ رحمی کے بارے میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء)‘ ڈاکٹر انیس احمد مفتی یا قاضی کے بجائے پیچیدگی کے شکار خاندان کے کوئی بزرگ نظر آتے ہیں جن کی زیادہ دل چسپی اپنے خاندان کو پیچیدگی سے نکالنے سے ہوتی ہے‘ دوسرے پہلوئوں کی طرف ان کی نظر کم ہی جاتی ہے۔