مختار حسن (۱۹۴۰ء-۱۹۹۵ء) معروف صحافی اور امور افغانستان کے ماہر ترین افراد میں سے تھے۔ ایک طویل عرصے تک مسئلہ افغانستان سے وابستہ رہے بلکہ جہاد افغانستان کے ہراول دستے میں بھی شامل رہے۔ انھیں بجا طور پر ’’پاکستان کا نمایاں ترین مجاہد افغانستان‘‘ (حمیدگل) کہا گیا۔ وہ اردو اور انگریزی کے علاوہ پشتو اور فارسی زبانیں بھی بہ خوبی جانتے تھے۔ انھوں نے بارہا خود افغانستان جا کر بڑے خطرات مول لے کر مختلف محاذوں کی چشم دید رودادیں مرتب کیں‘ بلکہ بعض مواقع پر جنگ کے متحرک مناظر کو فلم بند کرکے بیرونی دنیا تک پہنچایا۔ اسی ضمن میں انھیں روس کی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں کابل میں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ بایں ہمہ انھوں نے ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ افغانستان ‘خصوصاً جہاد افغانستان اور مابعد کی صورت حال کے مختلف پہلوئوں پر تجزیاتی مضامین اور رپورٹیں لکھیں۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں میں تاریخ کا مطالعہ‘ ایک صحافی کے ذاتی مشاہدات اور ایک سیاسی مبصر کی بصیرت شامل ہے۔ بلاشبہ یہ اعزاز کم از کم پاکستان کے کسی اور صحافی کو حاصل نہیں۔
زیرنظر کتاب افغانستان پر ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے مرتبین نے بڑی کاوش و محنت اور محبت کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ کریملن‘ کابل اور افغان کے نام سے چھپ چکا ہے (تبصرہ: ترجمان‘ جون ۲۰۰۰ء)۔ زیرنظر مضامین ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں لکھے گئے۔ ۱۹۷۲ء کے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مختارحسن مکمل کمٹ منٹ اور اپنی پوری شخصیت کے ساتھ افغانستان کے مسئلے اور جہاد میں شریک اور دخیل(involve) ہو چکے تھے اور یہ موضوع ان کے اندر رچا بسا تھا۔ افغانستان کی تاریخ پر گہری نظر کے ساتھ وہ افغانوں کے مزاج‘ ماحول اور قبائلی روایات سے بھی بخوبی واقف تھے۔
اپنے تبصروں اور تجزیوں میں وہ افغانوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ نقد و جرح کرتے ہوئے مجاہدین کی کمزوریوں اور پاکستان کی فاش غلطیوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ صورت احوال کی وجوہ‘ ممکنہ نتائج اور مختلف امکانات کا ذکر کر کے وہ بعض خدشات اور خطرات کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ وہ بار بار افغانستان گئے۔ انھوں نے مجاہدین کی مختلف جماعتوں اور ان کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے انٹرویو لیے۔ بہت سے محاذوں پر جا کرجنگ کی ہولناکیوں اور افغانستان کی بربادی کا بذات خود مشاہدہ کیا‘ اس لیے ان کی باتوں میں وزن ہے۔
ان تحریروں سے جہاد افغانستان کی پوری تاریخ اور اس کے مختلف مراحل کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ یہ تفصیل دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چشم کشا اور عبرت انگیز ہے۔ آج ہم جب افغان بحران کے ایک نازک ترین مرحلے سے دوچار ہیں تو اس تفصیل سے ‘چاہیں تو ‘ ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ان مضامین کو پڑھتے ہوئے ایک دو باتوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اول یہ کہ روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان کے بارے میںامریکیوں نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جہادی گروپوں کا باہمی انتشار و افتراق بھی بجا‘ لیکن امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم اور مستحکم نہ ہو جو افغانستان کے اسلامی تشخص کو پروان چڑھا سکے۔ اس لیے دخل اندازی کے ذریعے‘ ایسی سازشوں میں وہ برابر لگا رہا کہ اس کی من پسند حکومت بننے کی خواہش پوری ہو سکے--- اپنی فطرت کے لحاظ سے امریکہ کو ایسا ہی کرنا تھا مگر تعجب انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بعض کارپرداز‘ پالیسی ساز اور وزارت خارجہ کے بزرجمہرامریکی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کے آلہ کار بنتے رہے۔ مختارحسن نے جگہ جگہ یہ نشان دہی کی ہے کہ پاکستان کی سول اور خاکی بیوروکریسی اپنے طورپر ‘ بعض اوقات صدر مملکت یا وزیراعظم یا چیف آف آرمی سٹاف کے مشورے کے بغیر ہی اقدام کرتی رہی۔ بارہا ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ حرکت میں آئے اور سارے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ آج کے افغانستان میں فساد اور انتشار بنیادی طور پر امریکی ڈپلومیسی کی عیاری اور پاکستانی سفارت کی ناپختہ کاری کا نتیجہ ہے۔
مختارحسن بار بار بتاتے ہیں کہ مختلف مواقع پر حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی کہ انھوں نے ۱۸۰ درجے کا یو ٹرن لیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی مفادات اور افغان عوام کی جدوجہد آزادی امریکی انتظامیہ کی خواہش کی بھینٹ‘‘ چڑھتی رہی۔ کتاب کے مقدمے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمیدگل نے ’’دست شرانگیز ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’جس کی مدد کے لیے اس دوران ہمارے حکمرانوں نے بڑا افسوس ناک رول ادا کیا ہے‘‘۔ حمیدگل کا کہنا ہے کہ ہم کئی مواقع پر امریکی دبائو کی وجہ سے آزادانہ حیثیت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے اور آج تو یہ بات کسی ثبوت کی محتاج بھی نہیں رہی کہ ہم اس ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ اور ’’دست شرانگیز‘‘ کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔
مختارحسن نے ۱۹۹۲ء میں جو کچھ لکھا تھا ‘ ایک عشرے کے تجربات کے بعد آج حکومت پاکستان اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ’’افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت سے زیادہ کوئی معاملہ اہم نہیں‘‘۔ (ص ۱۷۳)
ہمارے خیال میں اردو تو کیا انگریزی میں بھی افغانستان پر ایسی معلومات افزا کتاب نہیں لکھی گئی۔ مختارحسن نے جو کچھ لکھا وہ نہ صرف امور افغانستان پر ان کی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ یہ تحریریں افغانستان ‘ پاکستان اور پورے عالم اسلام کے ملی جذبات اور دھڑکنوں کی ترجمان ہیں۔ اس کتاب کا مطالعے کیے بغیر مسئلہ افغانستان کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا آسان نہیں ہوگا۔ آخر میں چار اہم معاہدوں (معاہدہ جینیوا‘ معاہدہ پشاور‘ معاہدہ جلال آباد اور معاہدہ اسلام آباد) کا متن شامل ہے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے۔ نقشوں اور مفصل اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا مودودی نے حیدر آباد دکن سے ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے جس دعوت کا آغاز کیا ‘ علامہ اقبال کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں مرحوم کے تعاون سے اس سلسلے میں پہلا ادارہ دارالاسلام (نزد پٹھان کوٹ) کے نام سے قائم ہوا۔ (دو تین سال کے بعد اسی تسلسل میں اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا)۔
ریحانہ قریشی صاحبہ نے ادارہ دارالاسلام کی تاریخ کا ایک ’’تحقیقی مطالعہ‘‘ (سرورق) پیش کیا ہے۔ یہ مطالعہ ادارے کے بارے میں مطبوعہ اور منتشر لوازمے اور چند ایک مختصر مصاحبوں (انٹرویوز) کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔
مصنفہ نے اپنے تئیں خاص کاوش کی ہے جو اپنی جگہ لائق تحسین ہے‘ لیکن بعض باتیں کھٹکتی ہیں‘ مثلاًایک جگہ بتایا گیا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے آخری مہینوں میں چودھری نیاز علی خاں صاحب علامہ اقبال کے پاس جاوید منزل میں تشریف لائے (ص ۲۰)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ غالباً اگست ۱۹۳۵ء میں چودھری صاحب علامہ اقبال سے پہلی بار ملے--- اسی طرح ایک جگہ مولانا مودودی کے دارالاسلام پہنچنے کی تاریخ ۱۶ مارچ بتائی گئی ہے (ص۴ ۲)۔ لیکن دوسری جگہ ۱۸ مارچ ۔ص ۲۴پر کہا گیا ہے کہ مولانا: ’’۱۶ مارچ ۱۹۳۸ء کو بطور سربراہ دارالاسلام پہنچ گئے‘‘۔ ۱۶ مارچ کو تو ادارہ قائم ہی نہیں ہوا تھا (یہ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا‘ص ۳۶)۔ ادارے کے قیام سے پہلے ہی کوئی شخص اس کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟--- اس بات میں بھی مبالغہ ہے کہ ۱۹۳۸ء میں دارالاسلام کی کل آبادی چار پانچ افراد سے زیادہ نہ تھی (ص ۵۵)۔ اگلے ہی صفحات میں جن اصحاب اور ان کے اہل خانہ کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کی تعداد کم از کم ۵۰‘ ۶۰ بنتی ہے۔ صفحات ۵۶ تا ۶۰ کی تفصیل ۱۹۳۸ء کے ذیل میں دی گئی ہے‘ مگر ہمیں اس کی صحت پر شبہ ہے۔ یہ حالات ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیانی زمانے کے ہیں۔
ہمارے خیال میں ابھی اس موضوع پر کہیں زیادہ دقت نظر اور کاوش کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ (ر - ہ )
عبدالرشید ارشد صاحب ملت اسلامیہ کو دشمنوں کے منصوبوں ‘ تدبیروں ‘ چالوں اور کارگزاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے جس جہاد میں مصروف ہیں‘ یہ دونوں کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی دشمن ایک ہے: یہود‘ وہی اپنے حقائق (protocols)کے مطابق دنیا کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں اور ہمارے سب دشمنوں (ہنود و نصاریٰ و کمیونسٹ) کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ مصنف کی محنت اور نظررسا کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ انھوں نے اس ’آخری‘ صلیبی جنگ کے تمام ہی محاذوں کا جائزہ لیا ہے اور دشمن جو کچھ کر رہا ہے اسے شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہو‘ خاندانی منصوبہ بندی ہو‘ میڈیا خصوصاً ٹی وی میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنا ہو‘ تعلیم سے لاپروائی یا اسے سیکولر بنانا ہو‘ عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ ہو‘ اسلامی احکامات کا استہزا ہو‘ این جی اوز کا کردار ہو‘ غرض اُمت مسلمہ ‘خصوصاً پاکستان کے موجودہ منظر نامے پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی خوب مستند تصویر کشی کی گئی ہے اور دردمندوں کو جھنجھوڑا ہے۔ بعض این جی اوز کے رسالوں میں خواتین کے حوالے سے اسلامی احکامات کا جس طرح مضحکہ اڑایا جاتا ہے وہ تبصرہ نگار کے لیے ناقابل یقین ہوتیں اگر ان کی نقول نہ دی گئی ہوتیں۔ سراسر مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والا انداز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ للکارنے والے مسلمان ہیں۔ اس طرح کی کتابوں کی حقیقی افادیت یہ ہے کہ ان کی اشاعت عام ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں کہ اس نوعیت کی کتابیں تعلیمی اداروں کی اور پبلک لائبریریوں میں خرید لی جائیں۔
اچھا ہو کہ محترم مصنف اب تیسرا حصہ یہ لکھیں کہ اس جنگ میں اُمت مسلمہ کی طرف سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے یا کیا کچھ مطلوب ہے۔ (مسلم سجاد)
سالِ قائداعظم (۱۹۷۶ء) کے موقع پر شائع ہونے والی اس کتاب کو دوبارہ چھاپا گیا ہے۔ مصنف نے اسلام سے قائداعظم کی وابستگی اور تعلّق کو ۱۶ ابواب میں مختلف عنوانات (خانگی زندگی‘ عشق رسول ؐ، مذہبی مسلک‘ اسلامی تہذیب کے داعی‘ مسلم مفاد کے علم بردار‘ اتحاد اسلامی کے نقیب‘ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ‘ غازی علم الدین شہید کا مقدمہ‘ مسجد شہید گنج‘ قائداعظم علما کی نظر میں‘ قائداعظم اور عالم اسلام وغیرہ) کے تحت واضح کیا ہے۔ بہ کثرت تائیدی اور وضاحتی بیانات‘ بیش تر قائداعظم کی اپنی تحریروں یا تقریروں یا اُن کے قریبی حلقہ احباب کے بیانات سے لیے گئے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ قائداعظم ایک مخلص‘ سچّے اور کھرے مسلمان تھے۔ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ اور اسلامی نشات ثانیہ کے متمنی۔ نمازسنّی العقیدہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے تھے‘ مگر خود کوسنّی یا شیعہ کے بجائے مسلمان کہلانا پسند کرتے تھے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے‘ علما کا احترام کرتے تھے۔ مظہر سلیم مجوکہ نے کتاب کو ذوق و شوق اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر-ہ)