نومبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر ۲۰۰۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

افغانستان: جارحیت ‘ جہاد‘ بحران‘ مختار حسن‘ مرتبین: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۶۴۱۔مجلدقیمت: ۲۸۰ روپے۔

مختار حسن (۱۹۴۰ء-۱۹۹۵ء) معروف صحافی اور امور افغانستان کے ماہر ترین افراد میں سے تھے۔ ایک طویل عرصے تک مسئلہ افغانستان سے وابستہ رہے بلکہ جہاد افغانستان کے ہراول دستے میں بھی شامل رہے۔ انھیں بجا طور پر ’’پاکستان کا نمایاں ترین مجاہد افغانستان‘‘ (حمیدگل) کہا گیا۔  وہ اردو اور انگریزی کے علاوہ پشتو اور فارسی زبانیں بھی بہ خوبی جانتے تھے۔ انھوں نے بارہا خود افغانستان جا کر بڑے خطرات مول لے کر مختلف محاذوں کی چشم دید رودادیں مرتب کیں‘ بلکہ بعض مواقع پر جنگ کے متحرک مناظر کو فلم بند کرکے بیرونی دنیا تک پہنچایا۔ اسی ضمن میں انھیں روس کی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں کابل میں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ بایں ہمہ انھوں نے ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ افغانستان ‘خصوصاً جہاد افغانستان اور مابعد کی صورت حال کے مختلف پہلوئوں پر تجزیاتی مضامین اور رپورٹیں لکھیں۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں میں تاریخ کا مطالعہ‘ ایک صحافی کے ذاتی مشاہدات اور ایک سیاسی مبصر کی بصیرت شامل ہے۔ بلاشبہ یہ اعزاز کم از کم پاکستان کے کسی اور صحافی کو حاصل نہیں۔

زیرنظر کتاب افغانستان پر ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے مرتبین نے بڑی کاوش و محنت اور محبت کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ کریملن‘ کابل اور افغان کے نام سے چھپ چکا ہے (تبصرہ:  ترجمان‘ جون ۲۰۰۰ء)۔ زیرنظر مضامین ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں لکھے گئے۔ ۱۹۷۲ء کے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مختارحسن مکمل کمٹ منٹ اور اپنی پوری شخصیت کے ساتھ افغانستان کے مسئلے اور جہاد میں شریک اور دخیل(involve) ہو چکے تھے اور یہ موضوع ان کے اندر رچا بسا تھا۔ افغانستان کی تاریخ پر گہری نظر کے ساتھ وہ افغانوں کے مزاج‘ ماحول اور قبائلی روایات سے بھی بخوبی واقف تھے۔

اپنے تبصروں اور تجزیوں میں وہ افغانوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ نقد و جرح کرتے ہوئے مجاہدین کی کمزوریوں اور پاکستان کی فاش غلطیوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ صورت احوال کی وجوہ‘ ممکنہ نتائج اور مختلف امکانات کا ذکر کر کے وہ بعض خدشات اور خطرات کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ وہ بار بار افغانستان گئے۔ انھوں نے مجاہدین کی مختلف جماعتوں اور ان کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے انٹرویو لیے۔ بہت سے محاذوں پر جا کرجنگ کی ہولناکیوں اور افغانستان کی بربادی کا بذات خود مشاہدہ کیا‘ اس لیے ان کی باتوں میں وزن ہے۔

ان تحریروں سے جہاد افغانستان کی پوری تاریخ اور اس کے مختلف مراحل کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ یہ تفصیل دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چشم کشا اور عبرت انگیز ہے۔ آج ہم جب افغان بحران کے ایک نازک ترین مرحلے سے دوچار ہیں تو اس تفصیل سے ‘چاہیں تو ‘ ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ان مضامین کو پڑھتے ہوئے ایک دو باتوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اول یہ کہ روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان کے بارے میںامریکیوں نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جہادی گروپوں کا باہمی انتشار و افتراق بھی بجا‘ لیکن امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم اور مستحکم نہ ہو جو افغانستان کے اسلامی تشخص کو پروان چڑھا سکے۔ اس لیے دخل اندازی کے ذریعے‘ ایسی سازشوں میں وہ برابر لگا رہا کہ اس کی من پسند حکومت بننے کی خواہش پوری ہو سکے--- اپنی فطرت کے لحاظ سے امریکہ کو ایسا ہی کرنا تھا مگر تعجب انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بعض کارپرداز‘ پالیسی ساز اور وزارت خارجہ کے بزرجمہرامریکی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کے آلہ کار بنتے رہے۔ مختارحسن نے جگہ جگہ یہ نشان دہی کی ہے کہ پاکستان کی سول اور خاکی بیوروکریسی اپنے طورپر ‘ بعض اوقات صدر مملکت یا وزیراعظم یا چیف آف آرمی سٹاف کے مشورے کے بغیر ہی اقدام کرتی رہی۔ بارہا ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ حرکت میں آئے اور سارے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ آج کے افغانستان میں فساد اور انتشار بنیادی طور پر امریکی ڈپلومیسی کی عیاری اور پاکستانی سفارت کی ناپختہ کاری کا نتیجہ ہے۔

مختارحسن بار بار بتاتے ہیں کہ مختلف مواقع پر حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی کہ انھوں نے ۱۸۰ درجے کا یو ٹرن لیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی مفادات اور افغان عوام کی جدوجہد آزادی امریکی انتظامیہ کی خواہش کی بھینٹ‘‘ چڑھتی رہی۔ کتاب کے مقدمے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمیدگل نے ’’دست شرانگیز ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’جس کی مدد کے لیے اس دوران ہمارے حکمرانوں نے بڑا افسوس ناک رول ادا کیا ہے‘‘۔ حمیدگل کا کہنا ہے کہ ہم کئی مواقع پر امریکی دبائو کی وجہ سے آزادانہ حیثیت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے اور آج تو یہ بات کسی ثبوت کی محتاج بھی نہیں رہی کہ ہم اس ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ اور ’’دست شرانگیز‘‘ کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔

مختارحسن نے ۱۹۹۲ء میں جو کچھ لکھا تھا ‘ ایک عشرے کے تجربات کے بعد آج حکومت پاکستان اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ’’افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت سے زیادہ کوئی معاملہ اہم نہیں‘‘۔ (ص ۱۷۳)

ہمارے خیال میں اردو تو کیا انگریزی میں بھی افغانستان پر ایسی معلومات افزا کتاب نہیں لکھی گئی۔ مختارحسن نے جو کچھ لکھا وہ نہ صرف امور افغانستان پر ان کی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ یہ تحریریں افغانستان ‘ پاکستان اور پورے عالم اسلام کے ملی جذبات اور دھڑکنوں کی ترجمان ہیں۔ اس کتاب کا مطالعے کیے بغیر مسئلہ افغانستان کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا آسان نہیں ہوگا۔ آخر میں چار اہم معاہدوں (معاہدہ جینیوا‘ معاہدہ پشاور‘ معاہدہ جلال آباد اور معاہدہ اسلام آباد) کا متن شامل ہے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے۔ نقشوں اور مفصل اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


دارالاسلام ‘ ایک تحقیقی مطالعہ‘ ریحانہ قریشی۔ ناشر: اعلیٰ پبلی کیشنز‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

مولانا مودودی نے حیدر آباد دکن سے ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے جس دعوت کا آغاز کیا ‘ علامہ اقبال کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں مرحوم کے تعاون سے اس سلسلے میں پہلا ادارہ دارالاسلام (نزد پٹھان کوٹ) کے نام سے قائم ہوا۔ (دو تین سال کے بعد اسی تسلسل میں اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا)۔

ریحانہ قریشی صاحبہ نے ادارہ دارالاسلام کی تاریخ کا ایک ’’تحقیقی مطالعہ‘‘ (سرورق) پیش کیا ہے۔ یہ مطالعہ ادارے کے بارے میں مطبوعہ اور منتشر لوازمے اور چند ایک مختصر مصاحبوں (انٹرویوز) کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔

مصنفہ نے اپنے تئیں خاص کاوش کی ہے جو اپنی جگہ لائق تحسین ہے‘ لیکن بعض باتیں کھٹکتی ہیں‘ مثلاًایک جگہ بتایا گیا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے آخری مہینوں میں چودھری نیاز علی خاں صاحب علامہ اقبال کے پاس جاوید منزل میں تشریف لائے (ص ۲۰)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ غالباً اگست ۱۹۳۵ء میں چودھری صاحب  علامہ اقبال سے پہلی بار ملے--- اسی طرح ایک جگہ مولانا مودودی کے دارالاسلام پہنچنے کی تاریخ ۱۶ مارچ بتائی گئی ہے (ص۴ ۲)۔ لیکن دوسری جگہ ۱۸ مارچ ۔ص ۲۴پر کہا گیا ہے کہ مولانا: ’’۱۶ مارچ ۱۹۳۸ء کو بطور سربراہ دارالاسلام پہنچ گئے‘‘۔ ۱۶ مارچ کو تو ادارہ قائم ہی نہیں ہوا تھا (یہ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا‘ص ۳۶)۔ ادارے کے قیام سے پہلے ہی کوئی شخص اس کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟--- اس بات میں بھی مبالغہ ہے کہ ۱۹۳۸ء میں دارالاسلام کی کل آبادی چار پانچ افراد سے زیادہ نہ تھی (ص ۵۵)۔ اگلے ہی صفحات میں جن اصحاب اور ان کے اہل خانہ کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کی تعداد کم از کم ۵۰‘ ۶۰ بنتی ہے۔ صفحات ۵۶ تا ۶۰ کی تفصیل ۱۹۳۸ء کے ذیل میں دی گئی ہے‘ مگر ہمیں اس کی صحت پر شبہ ہے۔ یہ حالات ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیانی زمانے کے ہیں۔

ہمارے خیال میں ابھی اس موضوع پر کہیں زیادہ دقت نظر اور کاوش کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ (ر - ہ )


آخری صلیبی جنگیں ‘ حصہ اوّل و دوم۔ عبدالرشید ارشد‘ النور ٹرسٹ ‘ جوہر آباد۔ صفحات: ۱۸۴‘ ۳۷۰۔ قیمت:۱۰۰‘ ۱۲۵روپے۔

عبدالرشید ارشد صاحب ملت اسلامیہ کو دشمنوں کے منصوبوں ‘ تدبیروں ‘ چالوں اور کارگزاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے جس جہاد میں مصروف ہیں‘ یہ دونوں کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی دشمن ایک ہے: یہود‘ وہی اپنے حقائق (protocols)کے مطابق دنیا کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں اور ہمارے سب دشمنوں (ہنود و نصاریٰ و کمیونسٹ) کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ مصنف کی محنت اور نظررسا کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ انھوں نے اس ’آخری‘ صلیبی جنگ کے تمام ہی محاذوں کا جائزہ لیا ہے اور دشمن جو کچھ کر رہا ہے اسے شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہو‘ خاندانی منصوبہ بندی ہو‘ میڈیا خصوصاً ٹی وی میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنا ہو‘ تعلیم سے لاپروائی یا اسے سیکولر بنانا ہو‘ عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ ہو‘ اسلامی احکامات کا استہزا ہو‘ این جی اوز کا کردار ہو‘ غرض اُمت مسلمہ ‘خصوصاً پاکستان کے موجودہ منظر نامے پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی خوب مستند تصویر کشی کی گئی ہے اور دردمندوں کو جھنجھوڑا ہے۔ بعض این جی اوز کے رسالوں میں خواتین کے حوالے سے اسلامی احکامات کا جس طرح مضحکہ اڑایا جاتا ہے وہ تبصرہ نگار کے لیے ناقابل یقین ہوتیں اگر ان کی نقول نہ دی گئی ہوتیں۔ سراسر مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والا انداز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ للکارنے والے مسلمان ہیں۔ اس طرح کی کتابوں کی حقیقی افادیت یہ ہے کہ ان کی اشاعت عام ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں کہ اس نوعیت کی کتابیں تعلیمی اداروں کی اور پبلک لائبریریوں میں خرید لی جائیں۔

اچھا ہو کہ محترم مصنف اب تیسرا حصہ یہ لکھیں کہ اس جنگ میں اُمت مسلمہ کی طرف سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے یا کیا کچھ مطلوب ہے۔ (مسلم سجاد)


قائداعظم اور اسلام ‘ محمد حنیف شاہد۔ ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلاگنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۴۰روپے۔

سالِ قائداعظم (۱۹۷۶ء) کے موقع پر شائع ہونے والی اس کتاب کو دوبارہ چھاپا گیا ہے۔ مصنف نے اسلام سے قائداعظم کی وابستگی اور تعلّق کو ۱۶ ابواب میں مختلف عنوانات (خانگی زندگی‘ عشق رسول ؐ، مذہبی مسلک‘ اسلامی تہذیب کے داعی‘ مسلم مفاد کے علم بردار‘ اتحاد اسلامی کے نقیب‘ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ‘ غازی علم الدین شہید کا مقدمہ‘ مسجد شہید گنج‘ قائداعظم علما کی نظر میں‘ قائداعظم اور عالم اسلام وغیرہ) کے تحت واضح کیا ہے۔ بہ کثرت تائیدی اور وضاحتی بیانات‘ بیش تر قائداعظم کی اپنی تحریروں یا تقریروں یا اُن کے قریبی حلقہ احباب کے بیانات سے لیے گئے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ قائداعظم ایک مخلص‘ سچّے اور کھرے مسلمان تھے۔ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ اور اسلامی نشات ثانیہ کے متمنی۔ نمازسنّی العقیدہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے تھے‘ مگر خود کوسنّی یا شیعہ کے بجائے مسلمان کہلانا پسند کرتے تھے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے‘ علما کا احترام کرتے تھے۔ مظہر سلیم مجوکہ نے کتاب کو ذوق و شوق اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے خطوط بنام فضل ربی ندوی‘ مرتب: فضل ربی ندوی۔ ناشر: مجلس نشریات اسلام‘ ۱-کے-۳‘ ناظم آباد مینشن‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۴۵ روپے۔]مولانا علی میاں کے خطوط (محررہ ۱۹۷۳ء تا ۱۹۹۶ء)۔ مکتوب الیہ پاکستان میں ان کی کتابوں کے ناشر ہیں۔ تمام تر خطوط‘ اشاعت کتب کے مسائل سے متعلق ہیں۔ ان میںکوئی علمی یا فکری مسئلہ زیربحث نہیں آیا‘ تاہم یہ خطوط مولانا علی میاں کے سوانح نگاروں اور ان پر تحقیق کاروں کے لیے معاون ہوں گے۔ طباعتی معیار‘ مولانا کی تصانیف سے بھی بہتر۔[
  •  جہاد ختم نبوت کے جاں نثار‘ مرتبہ: محمد طاہر رزاق۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ حضوری باغ‘ ملتان۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۹۰ روپے۔]تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں مضامین‘ تبصروںاور خبروں کا دل چسپ ‘ اہم اور اپنے موضوع پر نہایت مفید مجموعہ۔ ردّقادیانیت کے ضمن میںمولانا انور شاہ کاشمیری‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا عبداللطیف جہلمی‘ مولانا محمد علی جالندھری‘ خواجہ اللہ بخش تونسوی‘ مولانا محمد حیات‘ قاضی احسان احمد شجاع آبادی‘ اور بہت سے دوسرے اکابر کی خدمات اور کاوشوں کا تذکرہ۔[
  • سرمایۂ عزیز ‘ قاری عبدالعزیز اظہر۔ ناشر: بساط ادب‘ اے۱۳‘ انارکلی کمپلیکس‘ فیز ڈی‘ سیکٹر۱۱‘ ای‘ نارتھ کراچی‘ کراچی- ۷۵۸۵۰۔]طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم اظہر صاحب کا مجموعۂ کلام‘ حمد‘ نعت‘ آیات قرآنی کے آزاد ترجمے‘ غزلیں‘ نظمیں‘ قطعات و رباعیات‘ مرثیے اور چند طنزیہ اور مزاحیہ نظمیں۔ روایت کی پاس داری‘ تعمیری فکر ‘ مثبت جذبات۔[
  •  المصباح‘ حقوق طلبہ مدارس نمبر‘ مدیر: محمد احسن بھٹی۔ پتا: ۱‘ اے‘ ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۴۔ قیمت: ۱۵روپے۔]دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے‘ اسناد کی مساوی حیثیت ‘ رجسٹریشن پر پابندی اور مدارس میں بے جا مداخلت وغیرہ مطالبات کو مضامین اور مصاحبوں کے ذریعے نمایاں کیا گیا ہے۔ ہر مکتب فکر کے جیّد علما کی تحریریں ۔اپنے موضوع پر محنت سے مرتب شدہ ایک مفید دستاویز۔[
  •  Blochistan in Profile ‘ مصنف: ایم‘ انور رومان۔ ناشر: یونائٹیڈ پرنٹرز‘ زونکی رم روڈ‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۱۵۳۔قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ]مصنف اس سے پہلے بھی بلوچستان پر متعدد کتابیں شائع کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب ایک طرح سے بلوچستان کی تاریخ ہے جس میں وہاں کی بعض نامور شخصیات کا تفصیلی تذکرہ بھی شامل ہے۔[
  • روح الحدیث‘ مرتب:  سید قاسم محمود۔ ناشر: بک مین‘الشجربلڈنگ‘ نیلا گنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]مختلف عنوانات کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق صحاح ستّہ سے احادیث نبویؐ کا ایک انتخاب (اردو ترجمہ) ۔ ابتدا میں درودشریف کے متعلق ۴۰حدیثیں اور علم الحدیث کے تعارف پر مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری کا مضمون ۔[
  •  آنحضورؐ کی تعلیمی جدوجہد‘ پروفیسر رب نواز۔ ناشر: ادارہ تعلیمی تحقیق‘ ۳ بہاول شیر روڈ‘ مزنگ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۷۔ قیمت: ۴۵ روپے۔]آنحضورؐ کی تعلیمی جدوجہد کے مختلف پہلو: حصول علم کی فرضیت ‘ اس کے لیے ترغیب ‘ خواتین کے لیے تعلیم کی تاکید‘ تحریر و کتابت کے لیے آپؐ کی مساعی جمیلہ‘ توسیع تعلیم کے لیے وفود کی تشکیل--- قرآن و حدیث اور تاریخ کی مدد سے تحقیقی انداز میں موضوع کا احاطہ۔[
  •  سیرتِ صحابیاتؓ ، مولانا سعید انصاری۔ ناشر: ادارہ مطبوعات خواتین‘ کیمرہ مارکیٹ‘ ۴۲ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات:۱۸۹۔ قیمت: ۵۰ روپے۔]چھے سات عشرے قبل کی دارالمصنفین اعظم گڑھ کی ایک علمی کتاب کی اشاعت مکرر‘ صحابیات کے دینی‘ علمی‘ سیاسی اور عملی کارناموں کی تفصیل۔ نمونے کی مثالی شخصیات‘ تربیت و تزکیے کے لیے مفید ہے۔[
  •  اورنگ زیب کی داستان معاشقہ‘ ڈاکٹر اکبر رحمانی۔ ناشر: ایجوکیشنل اکادمی‘ اسلام پورہ‘ جل گائوں-۴۲۵۰۰۱۔ مہاراشٹر (بھارت)۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔]اورنگ زیب عالم گیر کو بدنام کرنے کے لیے بہت سے بے بنیاد افسانے تراشے گئے۔ انھی میں‘ ہیرابائی زین آبادی سے عالم شہزادگی میں اس کا معاشقہ ہے۔ خصوصاً مہاراشٹر میں‘ عالم گیر کے کردار کو مسخ کرنے کے لیے ناول تک لکھے گئے۔ اکبر رحمانی نے‘ نہایت کاوش و تحقیق سے اصل حقائق دریافت کیے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ ایام شہزادگی میں بھی اورنگ زیب ایک متقی اور پرہیزگار شخص تھا اور اس کا کردار بے داغ ہے۔[