یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو بنگلہ دیش میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)‘ جماعت اسلامی‘ جاتیو پارٹی اور متحدہ اسلامی الائنس پر مشتمل چار جماعتی اتحاد اور عوامی لیگ کے درمیان اصل مقابلہ ہوا۔ چار جماعتی اتحاد کا تشخص یہ تھا کہ: یہ اسلامی رحجان کی حامل‘ پاکستان سے تعلقات کی حامی اور دو قومی نظریے کی طرف دار پارٹیاں ہیں۔ دوسری طرف عوامی لیگ واضح طور پر سیکولرزم کی علم بردار‘ ہندو اور بھارتی مفادات کی حلیف جماعت کے طور پر قوم کے سامنے تھی۔ عوامی لیگ کی پشت پر ماضی کے کمیونسٹوں اور حال کے این جی اوز مافیا کی بھرپور تائید کا آسرا اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہندوئوں کی طرف داری بھی شامل تھی۔
عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے سپرد تھی۔ اس انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈا عناصر نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی طلبہ تنظیم) کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بی این پی کے کارکنوں کو بھی مارا جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی کارکن شہید ہوگئے‘ تاہم چار جماعتی اتحاد نے تشدد کے واقعات کا تشدد سے جواب دینے کے بجائے سیاسی تعلیم اور انتخابی مہم پر زور دیا۔ جن دنوں انتخابی مہم زوروں پر تھی‘ انھی دنوں ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ بھی رونما ہو گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے چار جماعتی اتحاد کو: پاکستان کا دلال‘ طالبان کا ہراول دستہ اور اسلامی بنیادی پرستی کا قائم مقام گردانتے ہوئے بھرپور الزامی مہم شروع کر دی۔
یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب انتخابات ہوئے تو ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب ۷۳ فی صد سے زیادہ نکلا۔ ۲۸۲ میں سے عوامی لیگ کو ۶۲ اور چار جماعتی اتحاد کو ۲۰۲ نشستیں ملیں‘ جن میں سے جماعت اسلامی کے ۳۱نامزد امیدواروں میں سے ۱۷ ارکان نے‘ جماعت کے انتخابی نشان ترازو کے تحت کامیابی حاصل کی اور جماعت کو ۱۰ فی صد ووٹ ملے۔ ہارنے والے ۱۰ امیدوار ۵۰۰ سے ایک ہزار تک کے ووٹوں کے فرق سے ہارے (جماعت اسلامی اور اسلامی متحدہ محاذ کے مجموعی طور پر ۲۹ امیدوار کامیاب ہوئے)۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں میں: مولانا مطیع الرحمن نظامی (امیر جماعت)‘ مولانا عبدالسبحان‘ مولانا دلاور حسین سعیدی‘ مولانا فریدالدین‘ مولانا عبدالعزیز‘ مفتی عبدالستار‘ ڈاکٹر عبداللہ محمد طاہر‘ پروفیسر عبداللہ کافی‘ پروفیسر شہادت حسین‘ مولانا ریاست علی‘ پروفیسر محمد روح القدوس‘ پروفیسر عزیز الرحمن‘ محمدشاہ جہاں‘ میزان الرحمن‘ پروفیسر غلام پرواز‘ پروفیسر عبدالخلیق‘ اور غازی نذرالاسلام پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مطیع الرحمن نظامی نے عوامی لیگ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات ابوسعید کو شکست دی۔
یہ نتائج بھارت و مغرب نواز اور بنگلہ قوم پرستی کے حامی لوگوں کے لیے دھچکا ثابت ہوئے۔ اسی لیے متعدد بھارتی اور مغربی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ’’یہ نتائج اس اعتبار سے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرست انتخابی عمل کے ذریعے ایک بڑا مرحلہ طے کر کے آگے نکل آئے ہیں‘‘۔ سہ روزہ دعوت دہلی کے اداریے کے مطابق ’’ہندستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ تشویش جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ خالدہ ضیا کے اتحاد پر ظاہر کی جا رہی ہے--- کہا جا رہا ہے کہ خالدہ ضیا کی حکومت جماعت کے زیراثر رہے گی‘‘۔ بنگلہ دیش میں متعدد مبصرین نے ان نتائج کو دو قومی نظریے کی تجدید قرار دیتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں سلہٹ کے اس ریفرنڈم کا اعادہ قرار دیا ہے‘ جس میں وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ دیا تھا۔ یہ تبصرے کسی جذباتی ردعمل کا مظہر قرار دیے جائیں یا انھیں حقیقت سمجھا جائے‘ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک واضح ‘ مثبت‘ اسلامی اور مسلم قوم پرستانہ سوچ کی تائید میں یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
اگرچہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے عوامی لیگ کی شکست کو سیکولرزم کی شکست اور پاکستان نواز گروہ کی کامیابی قرار دیا ہے‘ لیکن خالدہ ضیا نے بھارتی حکومت کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ: ’’اسے بھارت کے خلاف کسی مہم جوئی سے سروکار نہیں‘‘۔ اس موقف کا سبب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نے جس درجے کا اثر و نفوذ حاصل کر رکھا ہے اور اس کی سرحدات جس قدر غیر محفوظ ہیں‘ اس پس منظر میں وہاں کی حکومت کا ایک بڑا مسئلہ ریاست کے اقتداراعلیٰ کا تحفظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ ۱۰ اخبارات چلا رہی ہے۔ ملک کے پانچ بڑے اخبارات میں سے تین اِن میں شامل ہیں۔
پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس مشکل چیلنج اور بے شمار عملی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا جو وہاں کی اسلام دوست اور تعمیری قوتوں کو درپیش ہیں۔ بنگلہ قوم پرستی‘ لادینیت‘ ہندو اور بھارت کا اتحاد تو تھا ہی‘ لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کو ان نام نہاد رضاکار تنظیموں (NGOs)کی بھی بڑی کمک میسر ہے جو اسٹرے ٹیجک مفادات کی حامل اور غیر ملکی امداد یافتہ پروپیگنڈا تنظیمیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ چار جماعتی اتحاد کی مدمقابل عوامی لیگ کی اصل قیادت انھی تنظیموں کے وفاق کے پاس تھی۔ یاد رہے ان مخصوص سیاسی مفادات کی حامل این جی اوز کی فیڈریشن ’’اداب‘‘ (دی ایسوسی ایشن آف ڈویلپمنٹ ایجنسیز بنگلہ دیش‘ADAB) کے نام سے منظم ہے جو عملاً ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کا عکس ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ‘ دی ایشیا فائونڈیشن‘ کاریتاس‘ وائی ایم سی اے‘ پروشیکا‘ براک وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء کو ’’اداب‘‘ نے اس قرارداد کے تحت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا کہ: ’’بنگالی قوم میں یہ بیداری پیدا کی جائے کہ وہ ان قوتوں کوووٹ نہیں دیں گے‘ جو ملک کی ترقی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں‘‘۔ ان تنظیموں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ان کے ہدف اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔
انتخابی نتائج اور عمل کی تکمیل پر تمام غیر جانب دار مبصرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش میں دستوری ترمیم کے بعد اب انتخابات غیر جانب دار عارضی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں (یہ پاکستان کے لیے بھی قابل تقلید ہے)۔ یاد رہے کہ دستور میں اس ترمیم کی تجویزاور مہم سابق امیر جماعت بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود‘ عوامی لیگ کی لیڈر نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی انتخاب ہارنے والی پارٹی کے لیے نتائج کو تسلیم کرنا سخت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ خالدہ ضیا نے الیکشن جیتا تو پورا عرصہ حسینہ واجد نے ان کے خلاف مہم جوئی کی‘ اور پھر جب ۱۹۹۶ء میں حسینہ واجد ۱۴۶ نشستوں پر کامیاب ہوئیں تو خالدہ ضیا نے تسلسل کے ساتھ احتجاجی عمل جاری رکھا‘ تاہم بنگلہ دیش میں جمہوریت کے وجود کو اس پیمانے پر خطرہ لاحق نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج اتنی مضبوط نہیں اور نہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کو وہ ’’احترام و مقام‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ بہرحال بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں‘ عبوری حکومت کے ساتھ بنگلہ دیشی فوج نے بھرپور معاونت کی۔
اس تناظر میں بنگلہ دیش کے انتخابات کے بعد یہ منظر اُبھرتا ہے کہ عوامی لیگ ان تمام عناصر کے تعاون کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر چلے گی۔ بھارت کے مفادات کی نگہبانی کو درپیش خطرہ بھی ان کے لیے باعث تکلیف امر ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ مخالف عنصردانش ور طبقے اور صحافت میں کارفرما لوگوں کو متحرک کر کے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنی مہم کو استوار کر رہا ہے‘ اور غالباً ان کا مرکزی ہدف بھی جماعت ہی ہوگی۔
یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ عوامی لیگ بے لوث کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھنے کے باوجود‘ اپنے کارکنوں کو نئی قیادت اور نئی پارلیمنٹ کے خلاف متحرک کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکنان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے ہیں (اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے روز عوامی لیگ کی ہڑتال کی اپیل بری طرح ناکام ہوئی۔ عوامی لیگ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۲۴ اکتوبر کو حلف اٹھایا ہے)۔ عوامی لیگ کے منجھے ہوئے صلاح کاروں نے بھی حسینہ واجد کی ردعمل کی پالیسی پر لبیک نہیں کہا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عوامی لیگ کے لیے آیندہ فتح کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
خالدہ ضیا کی ۶۰ رکنی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمن نظامی نے وزیر زراعت اور علی احسن محمد مجاہد نے وزیر سوشل ویلفیئر کا حلف اٹھایا ہے (امیر اور قیم دونوں کے وزیر بن جانے کے جماعت پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ الگ موضوع ہے) ۱۹۷۱ء کے ’غداروں‘ کو وزیر بنانے پر خالدہ ضیا کو بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح چارجماعتی اتحاد میں غلط فہمی کو پروان چڑھایا جائے۔اگر عوامی لیگ اپنے ان مقاصدمیں ناکام رہی اور چار جماعتی اتحاد یک جہتی کے ساتھ خدمت انجام دینے میں کامیاب رہا‘ تو بنگلہ دیش ہی کے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی مستقبل پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ لیکن دوسری جانب خود بی این پی اپنی بھرپور وسیع اکثریت کے زعم میں اپنے اتحادیوں کی آرا کو نظرانداز کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے ‘ جس کو اُبھار کر عوامی لیگ اور سیکولر حلقے کامیابی کے امکانات کی دنیا دیکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک تو اس اتحاد کو بچانے کے لیے خالدہ ضیا کا ذہن بالکل واضح ہے۔ وہ عوامی لیگ جیسی نظریاتی اور گہرے اثرات رکھنے والی قوت کا توڑ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ‘ پرعزم اور پرجوش کارکنوں کی معاونت کی اہمیت کو اشد ضروری سمجھتی ہیں کیونکہ بی این پی بہرحال ایسی ٹیم نہیں رکھتی‘ تاہم مستقبل کے پردے میں امکانات اور خدشات دونوں پائے جاتے ہیں۔
۳۰ برسوں پر پھیلے اس طویل عرصے نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا‘ آئین تبدیل ہو گیا‘ اور معاشرے کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت اور تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی ہے۔ جس میں بی این پی کو ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوامی لیگ کے منفی حربوں کا کیسے مقابلہ کرے اور کس طرح اچھی کارکردگی پیش کرکے اپنے رفقا کو کرپشن سے بچائے؟ دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ سیکولر لابی کے بالمقابل کیسے آئینی دستاویزات میں اسلامی شقوں کا اضافہ کرا سکے گی؟ اس کے علاوہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان امور پر پورا زور لگانے کے بجائے کابینہ کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بناکر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جائے۔ اگر اس حکومت میں جماعت اسلامی یہ نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودوسرے مقامات پر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اس تجربے سے استفادے کا راستہ کھل سکتا ہے۔