نومبر ۲۰۰۱

فہرست مضامین

امریکہ کا بلاجواز حملہ بین الاقوامی قانون اور یو این چارٹر کی کھلی خلاف ورزی

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

اگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون میں دہشت گردی کے سبب اکیسویں صدی کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا تو ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء افغانستان جیسے غریب‘ تباہ حال اور مظلوم ملک پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحانہ فوج کشی کے باعث ایک سیاہ تر دن بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا کی ہمدردیاں امریکہ اور ان معصوم انسانوں کے ساتھ تھیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور افغانستان کی طالبان حکومت سمیت دنیا بھر کے مسلمان‘ اہل امریکہ کے اس غم میں شریک ہوئے اور دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ غم و اندوہ کے یہ لمحات امریکی قیادت اور اس کی عسکری اور مالیاتی دراندازوں کے ستائے ہوئے مشرق و مغرب اور پس ماندہ و ترقی یافتہ سب ہی ممالک کے عوام ‘ اپنے رستے ہوئے زخموں کی کسک کو بھی بھول گئے۔ لیکن امریکہ کی قیادت پر رعونت‘ انتقام اور مخصوص مفادات کا غلبہ رہا اور اس نے بے لاگ‘ منصفانہ اور قانون کے نظام کے تحت ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین اور اس دہشت گردی کے محرکات اور اسباب کے معروضی جائزے کے بجائے اس حکمت عملی کے تحت جس کی کھچڑی برسوں سے پکائی جا رہی تھی‘ افغانستان کے عوام کو کھلی جارحیت کا نشانہ بنایا اور محض طاقت کے بل پر اپنی بالادستی قائم رکھنے اور وسط ایشیا کے وسائل سے مالا مال علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ریاستی دہشت گردی کے بدترین اور ظالمانہ منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

اس کے لیے دوسرے ممالک کو ترغیب اور ترہیب‘ رشوت اور دھونس اور دھمکی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایک نام نہاد عالمی الحاق (world coalition) کا ڈھونگ رچایا۔ برطانیہ تو پہلے دن ہی سے امریکہ کی جھولی میں گر گیا تھا۔ یہ ملک جسے کئی صدیوں تک ایک عالمی طاقت کی حیثیت حاصل رہی‘ اب امریکہ کا باج گزار بن چکا ہے۔ بش اور بلیر اِس عالمی غنڈا گردی کے سرخیل ہیں۔ نیٹو کے ۱۸ ممالک کو بھی خواہی نہ خواہی اس آپریشن میں شامل کرلیا گیا اور نیٹو کی دفعہ ۵ کو بھی متحرک کر لیا گیا کہ نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا بلالحاظ اس کے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اسے متعین کیا جائے کہ ’’جنگ‘‘ اور حملے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو خود ساختہ ملزموں کی طرف سے ’’اعلان جنگ‘‘ قرار دے کر ایک نام نہاد جنگ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا طبل بجا دیا گیا۔ باقی دنیا پر سیاسی دبائو اور بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

یہ فسطائی فلسفہ بڑی ڈھٹائی سے پیش کیا گیا کہ دنیا دو کیمپوں میں منقسم ہے: ایک مہذب دنیا اور دوسری دہشت پسند اقوام۔ اور دنیا کی تمام اقوام کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ (option)نہیں کہ وہ یا امریکہ کے ساتھ ہوں یا اس کے مخالف--- یا اتحادی ہوں اور یا دہشت پسندوں کی حلیف شمار کی جائیں۔ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کو سرخ اور سفید میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح اب دنیا کو سفید اور سیاہ میں تقسیم کردیا گیا۔ کمزور ملکوں پر بندوق تان کر ان سے پوچھا گیا کہ کس کے ساتھ ہو؟ گو دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں ہے (جیسا کہ خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۱۱ستمبر کے بعد کے اجلاس کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی) اور اس کی بڑی وجہ قوت کے جائز اور ناجائز استعمال اور متعلقہ اقدام کے پیچھے کارفرما محرکات اور مقاصد کا اختلاف اور ان کا معتبر اور غیرمعتبر ہونا ہے۔ مگر کم از کم اس حصے کے بارے میں سب متفق ہیں کہ دہشت گردی (terrorism)کی روح سیاسی مقاصد کے لیے تشدد یا قوت کے استعمال کی دھمکی ہے۔

دہشت گردی کا مطلب خصوصاً سیاسی مقاصد کی خاطر پرُتشدد اور دھمکی آمیز طریقے اختیار کرنا ہے۔  (آکسفورڈ ریفرنس ڈکشنری)

امریکہ نے اس اتحادمیں کمزور ممالک کی ایک خاص تعداد کو جس طرح شامل کیا ہے۔اس تعریف کی روشنی میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ وہ خود دہشت گردی کی ایک قبیح مثال ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک اس دھمکی کا نشانہ بنے ہیں اور جرأت اور بہادری کے بہت سے دعوے دار بش صاحب کی ایک ہی بھبکی پر سرنگوں ہو گئے‘ بقول غالب :

دھمکی میں مر گیا‘ جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

امریکہ اور جنرل مشرف کا موقف

افغانستان پر امریکہ کی جارحانہ فوج کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر کے واقعات سے نہیں۔ یہ اقدام سیاسی اخلاقیات ‘ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ صرف طاقت کی حکمرانی اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی سیاست کی ایک مکروہ مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ایک نئے سامراجی دَور کی تمہید ہے۔ بہ ظاہر دعویٰ یہ ہے کہ:

     ۱- ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القائدہ ہے۔

     ۲- افغانستان کی طالبان حکومت نے ان کو اور ان کے گروہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ اس لیے طالبان ان کو بے چون و چراں امریکہ کے حوالے کر دیں ورنہ امریکہ طالبان کو طاقت کے بل پر تباہ و برباد کر دے گا۔

     ۳-  دہشت گردی کے ان مراکز کو ختم کر کے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ ہوگی۔

     ۴-  یہ امریکہ ہی نہیں پوری ’’مہذب دنیا‘‘ کے اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے ان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے۔

     ۵-  یہ دہشت گردی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف جنگ ہے‘ اسلام  یا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کے بھی خلاف جنگ نہیں ہے۔

جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر کی تقریر میں اور اس کے بعد کے بیانات اور انٹرویوز میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کے دفاع میں جو باتیں کہی ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

الف- فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ب- ملک کے مفاد کو اولیت حاصل ہو‘ یعنی اس کی سالمیت‘ معاشی ترقی اور عزت و وقار کی بلندی۔

ج- پاکستان دنیا میں تنہا نہ ہو بلکہ عالمی برادری کے ساتھ رہے۔

  د- اسلام کے عین مطابق ہونی چاہیے۔

یہ تقریر ۱۹ ستمبر کو ہوئی ہے لیکن امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ ۱۵ ستمبر ہی کو ہو گیا تھا۔ صدربش نے ۱۳ستمبر کو ’’اکیسویں صدی کی پہلی جنگ‘‘ کا اعلان کیا‘ ۱۴ ستمبر کو امریکی سینٹ نے دہشت گردی کے خلاف ہرممکن اقدام کا اختیار بش صاحب کو دیا اور ان کے پہلے ہی ٹیلی فون پر صدر مشرف نے ان کی تائید اور اس جنگ میں ان کے حلیف بننے کے ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’دانش مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کر دیا۔ فیصلہ ایک فردِ واحد کا تھا جس کی بہ ظاہر تائید ان کی اپنی نامزد کردہ کابینہ‘ سلامتی کونسل اور کورکمانڈروں نے کیا (اسے بھول جایئے کہ خود فوج میں اس کے ساتھ کیا اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑی اور اس کی کیا کیا داستانیں ملکی ہی نہیں ساری دنیا کی اخبارات میں آرہی ہیں) ۔پھر صدر صاحب کے بقول انھوں نے قومی زندگی کے مختلف رہنمائں سے مشورہ کیا اور اس طرح ان کے اس فیصلے کو اکثریت کی تائید حاصل ہو گئی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل و برہان کی کسوٹی پر ان تمام دعووں اور خود امریکہ کے اہداف کا جائزہ لیا جائے اور حقائق اور صرف حقائق کی روشنی میں صحیح قومی اور ملی موقف کا تعین کیا جائے۔ ہمیں جنرل صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ قومی اُمور کا فیصلہ جذبات کی رَو میں بہہ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ  عقل و دانش‘ حکمت دین اور ملک و ملّت کے مفاد کو ہر چیز پر بالادستی ہونی چاہیے۔ البتہ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ بیرونی دبائو اور خود اپنے سابقہ تجربات کو بھی فیصلہ کن مقام حاصل ہونا چاہیے۔ حضور پاکؐ کا ارشاد ہے کہ مومن فراست سے کام لیتا ہے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

تفتیش سے گریز

۱۱ ستمبر کے واقعات سے امریکہ کی اَنا پر جو بھی چوٹ پڑی ہو لیکن دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک کے ۶ہزار سے زائد معصوم انسانوں کی اس پیمانے پر ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی ایک جرم ہے۔ جس طرح یہ اقدام امریکہ کے دستور اور بین الاقوامی قانون اور معاہدات کے تحت جرم ہے اسی طرح خود اسلامی قانون کے تحت بھی ایک جرم ہے۔ عالم اسلام کی تمام حکومتوں‘ تحریکوں اور علما نے شدید  اس کی مذمت کی۔ طالبان حکومت نے بھی اس کی اسی وقت مذمت کی اور خود اسامہ بن لادن نے اس سے لاتعلقی کا برملا اظہار کیا۔ اس کے باوجود اس حادثہ فاجعہ کے آدھ گھنٹے کے اندر سی این این نے اسامہ بن لادن کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور ایک گھنٹے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیراعظم باراک نے لندن میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں ایک لکھی ہوئی تقریر میں اسامہ بن لادن اور عربوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بعد سے کسی تحقیق‘ سائنسی تفتیش‘ قومی انکوائری یا جوڈیشیل کمیشن اور اس کی عدالتی کارروائی کے بغیر اُوپر سے نیچے تک سب نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس اقدام کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور القائدہ پر ہے اور افغانستان کی حکومت انھیں فی الفور غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کر دے۔

اس واقعے کو اب ۶ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن اس ایک دعوے کے سوا‘ تحقیق و تفتیش کا کوئی دوسرا اقدام سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ کینیڈی کی ہلاکت‘ اوکلاہاما کی تباہی‘ اور اسکول تک میں بچوں کے ہلاک کیے جانے کے واقعات کی باقاعدہ تفتیش ہوئی‘ کئی کئی کمیشن بنے ‘کھلی عدالتی کارروائی ہوئی‘ سینیٹ اور کانگرس کی کمیٹیوں نے اپنی اپنی تحقیقات کر کے ان کے نتائج پیش کیے لیکن ایک اتنے بڑے ‘ تباہ کن اور عالمی معیشت و سیاست کو متاثر کرنے والے واقعے کے اصل حقائق‘ اسباب و محرکات اور نتائج پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور سارا نزلہ اسامہ بن لادن پر گر رہا ہے جو اس سے اپنی برأت کا اظہار کر چکا ہے۔

اسامہ بن لادن اور اس کے رفقا پر دو مقدمے امریکی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ ۵ سال سے اس کے خلاف وہ امریکی سراغ رساں ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں جن پر ۵۰ بلین ڈالر سالانہ سرکاری خزانے سے خرچ کیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تیاری کم از کم دو سال سے ہو رہی تھی اور جہاز اغوا کرنے والوں (جو اب دنیا میں نہیں) کے علاوہ کم از کم ۵۰ مزید افراد اس میں شریک ہونے چاہییں مگر ان کا ابھی تک کوئی پتا نہیں۔ جن ۷۰۰ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان سے بھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جس مہارت‘ نظم و ضبط‘ اور ملک کے مختلف شہروں میں باہمی رابطے کے ذریعے یہ کام ہوا ہے وہ کسی باہر کے ادارے کے لیے کیسے ممکن ہے۔ خصوصیت سے ایسے ادارے کے لیے جو دس ہزار میل دُور ہو‘ جس کے لوگوں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر ہو‘ اور جس کی جڑیں اس ملک کے حساس اداروں میں نہ ہوں جہاں سے یہ کام ہوا ہے۔

انتھریکس کا الزام؟

حال ہی میں انتھریکس (Anthrax) کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اسے پہلے اسامہ بن لادن کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اب خود برطانوی حکومت کے کیبنٹ آفس سے حاصل کردہ ۱۶۰صفحات کی ایک رپورٹ  Deliberate Release of Chemical and Biological Agents سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ القائدہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

خود بش ایڈمنسٹریشن کا داخلی سلامتی کا نیا ڈائرکٹر تھامس ایج کہتا ہے:

ایف بی آئی نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ خطوط کہاں سے ڈاک میں ڈالے گئے تھے۔چونکہ انتھریکس کے لفافے ڈالنے کی کارروائی ۱۱ ستمبر کے قریب تھی‘ اس لیے شروع میں حکام نے یہ سمجھا کہ ان کا انتہاپسند مسلم بنیاد پرستوں غالباً اسامہ بن لادن اور اُن کی القائدہ تنظیم سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ تفتیش کار اس کے زیادہ قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ کوئی ایک فرد یا گروہ جو امریکہ میں رہایش پذیر ہے‘ سفید پوڈر کا ذمہ دار ہے جس نے ایک برطانوی ایڈیٹر کی جان لے لی اور امریکی میڈیا کی سیاست اور معیشت کی سرگرمیوں کو جامد کر دیا۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱ اکتوبر‘ ص ۱‘ ۳)

سوال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیق کیوں نہیں ہو رہی۔ جتنے بھی امکانات ہیں ان سب کا جائزہ کیوں نہیں لیا جا رہا۔ سارا ملبہ صرف ایک شخص پر گرایا جا رہا ہے حالانکہ جو بھی شواہد سامنے آ رہے ہیں وہ اصل واقعے کو اور بھی پرُاسرار بنا رہے ہیں۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس نہ وہ مہارت اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ ملک میں ان کے اثرات اور ایسے اصحاب و اعوان تھے جو یہ کام انجام دے سکیں۔ خود امریکہ سے کوئی واضح  رابطے (linkages) سامنے نہیں آ رہے ہیں اور تازہ ترین رپورٹوں کی روشنی میں خود یورپ کے رابطے بھی غیرثابت شدہ ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں تو ۲۳ اکتوبر کے گارجین نے واضح رپورٹ دی ہے کہ اس ملک میں القائدہ کا کوئی باضابطہ حلقہ یا گروہ موجود ہی نہیں۔ پھر جو سوالات مبینہ اغوا کنندگان کے بارے میں سامنے آئے ہیں اور جس طرح ان کی شناخت کو خود سعودی عرب کے سرکاری حلقوں نے چیلنج کیا ہے‘ نیز ان کے طرز بودوباش اور عیاشیوں اور بدکاریوں کے بارے میں جو شہادتیں سامنے آئی ہیں وہ القائدہ سے ان کے تعلق کے لیے کوئی جواز فراہم نہیں کرتیں۔ اسی طرح ایک نہیں کئی ماہرین نے جو سب امریکی ہیں چیلنج کیا ہے کہ چھوٹے سویلین جہازوں پر تربیت لینے والے شوقیہ پائلٹ ۷۵۷ جہازوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے اصل ہوابازوں کو مار کر یا ہٹا کر قابو نہیں کر سکتے اور نہ اتنے ٹھیک ٹھیک نشانے سے نیویارک جیسے شہر میں اتنے چھوٹے ‘ متعین اور ہزاروں فلک بوس عمارتوں کے جنگل میں گھری ہوئی بلڈنگ سے ٹکرا سکتے ہیں۔ وہ انجینیرجو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیر میں شریک تھے ان کے بیانات انٹرنیٹ پر آئے ہیں کہ صرف جہاز سے ٹکرائو اور جہاز کے تیل کی آگ سے ان عمارتوں کی تباہی ممکن نہیں۔ اس پورے معاملے کے پیچھے کچھ اور ہے جس کی پردہ کشائی کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ تمام متعلقہ ہوائی اڈوں کے واچ ٹاور سے اغوا شدہ جہازوں کی مانٹیرنگ اور پائلٹ سے کی جانے والی گفتگو بھی ایک معمّا ہے۔ بیشتر معلومات غائب ہیں۔ چار میں سے صرف ایک جہاز کا بلیک بکس ملا ہے ‘ باقی کے بلیک بکس غائب ہیں۔ ۶ ہزار افراد کے مرنے کی اطلاع ہے مگر لاشیں صرف ۶۰ کے قریب نکلی ہیں۔ بلڈنگ جس طرح تباہ ہوئی ہے یعنی اوپر سے نیچے اور ادھر ادھر نہیں گری‘ یہ بھی ایک معمّا بنا ہوا ہے۔ ملک میں کہرام ہے اور دنیا کو تہ و بالا کیا جا رہا ہے مگر ان معاملات کی کوئی تحقیق و تفیش نہیں کی جا رہی اور محض مفروضوں پر اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا جارہا ہے۔ صدربش صاحب پوری رعونت سے کہتے ہیں کہ کسی تفتیش‘ کسی عدالتی عمل‘ کسی شہادت اور مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسامہ مجرم ہے۔ ہم جانتے ہیں وہ guilty ہے۔ اسے ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم تم کو تہس نہس کر دیں گے۔

اسامہ کے خلاف شواہد کی حقیقت

برطانوی وزیراعظم نے جو شواہد نامہ (evidence) پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ ۲۳صفحات کی اس رپورٹ میں جو ۷۰ نکات پر مشتمل ہے پہلے ہی پیراگراف میں اعتراف ہے کہ

یہ دستاویز اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے کو کسی قانونی عدالت میں پیش کرنے کے لائق بناتی نظر نہیں آتی۔

رابرٹ فسک لکھتا ہے:

امریکیوں کو اسے مشرق وسطیٰ میں منوانے میں سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کی دستاویز‘ جس میں ۱۱ ستمبر کی ہلاکتوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ’’ثابت‘‘ کی گئی ہے‘ عرب دنیا کو مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مجتمع کر سکے۔ مذکورہ دستاویز میں ۷۰ میں سے صرف ۹ نکات عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملوں سے متعلق ہیں اور اس میں بھی ’’قیاس‘‘ پر انحصار کیا گیا ہے نہ کہ شواہد پر ۔ (دی انڈنٹ پنڈنٹ‘ ۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

روزنامہ گارجین ان شواہد کے بارے میں لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے بارے میں اسامہ بن لادن کے باقاعدہ مقدمے کا سامنا کرنے کا بعیداز امکان واقعہ اگر پیش آ بھی جائے تو اُس کے خلاف جو مقدمہ برطانوی حکومت نے گذشتہ دنوں شائع کیا ہے قانونی نقطہ نظر سے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے اس اعلان کو کہ وہ بن لادن کے خلاف ’شواہد‘ پیش کرے گی (۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)۔حقیقت یہ ہے کہ مسٹر بلیر کا مقدمہ دو لفظوں پر ختم ہو جاتا ہے: ’’مجھ پر اعتماد کرو‘‘۔

اور لطف یہ ہے کہ اب بش انتظامیہ اپنے دعوے سے اعلانیہ پھر گئی ہے۔ اب اس کا موقف ہے کہ کسی  شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں‘ حالانکہ خود کولن پاول نے وعدہ کیا تھا کہ شہادتیں عوام کو دکھائیں گے۔ اخبارات صاف لکھ رہے ہیں کہ کوئی شہادت موجود ہی نہیں‘ دکھائیں گے کیا؟

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۸- اکتوبر)نے نیویارک ٹائمز کا اداریہ نقل کیا ہے کہ گواہی تو موجود نہیں مگر پھر بھی یہ کیس قابل یقین ہے‘ عنوان ہے:  "A Believable Case"  لیکن اداریے میں جن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

یہ رپورٹ کوئی ۱۰۰ فی صد یقینی ثبوت فراہم نہیں کرتی۔ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس میں مسٹر بن لادن نے حکم دیا ہو کہ امریکی جہاز اغوا کر لیے جائیں… مسٹربلیر نے ساری دنیا کو دعوت دی کہ میری بات پر یقین کر لیں اور خفیہ اداروں سے حاصل کردہ رپورٹیں قابل اعتماد ہیں…یہ برطانوی رپورٹ امریکی برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے فراہم کردہ شواہد‘ مسٹر بن لادن کے پبلک اعلانات اور القائدہ کے ارکان کے خلاف ماضی کی عدالتی کارروائیوں سے مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ استغاثہ دائر کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔

امریکی ہفت روزہ ٹائم کا مضمون نگار The Case Against Evidence کے عنوان سے ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے بین السطور میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ فی الحقیقت کوئی ثبوت موجود نہیں:

برطانیہ کے انڈی پنڈنٹ کے مدیر اس امر کی فیصلہ کن شہادت کے منتظر ہیں کہ اسامہ بن لادن نیویارک اور واشنگٹن پر ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ آبزرور لکھتا ہے: ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے معمولی سا شبہہ‘ جسے کوئی وزن دیا جا سکتا ہے‘ اسامہ بن لادن کی طرف اشارہ کر رہا ہے  لیکن پھر فوراً ہی یہ لکھا ہے کہ ’’شبہہ اور ثبوت کی ذمہ داری بہت مشکل مسئلے ہیں‘‘۔ ایڈورڈ سعید نے لی مانڈے میں لکھا ہے: ’’آج کے دن تک کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں‘‘۔ واشنگٹن میں جرمنی کے سفیر نے گذشتہ ہفتے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اپنے اتحادیوں کے سامنے بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کرے۔ انھوں نے کہا: ’’تھوڑے سے ثبوت کی فراہمی بھی بہت زیادہ مفید ہوگی‘‘۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۹۸۰

جو ’’حقائق اور شواہد‘‘ برطانیہ کے وزیراعظم نے امریکہ کی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی ۵ کی چار ہفتے کی تحقیق کے بعد پیش کیے ہیں اس کو گارجین کے کالم نگار جارج مون بیوٹ  اور انڈی پنڈنٹ کے سینیر مضمون نگار رابرٹ فسک نے تار تار کر دیا ہے۔ جارج مون بیوٹ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ:

میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے اس کے خلاف پہلے ایک تھیوری جوڑ جاڑ کر بنائی اور پھر ان حقائق کو تلاش کیا جو اس میں فٹ ہونے کے لیے مطلوب ہیں--- میرا خیال ہے کہ بن لادن کے خلاف کچھ شبہہ پیدا کرنے والے نئے ثبوت طلب کرنے کا خاصا جواز ہے۔

مون بیوٹ صدر جارج بش کے عزائم کو صاف لفظوں میں یوں بے نقاب کرتا ہے کہ:

صدر بش نے عظیم الشان موت کا دستہ تیار کر کے روانہ کیا ہے تاکہ وہ ماوراے عدالت سزائے موت نافذ کر دے۔

ایک طرف تو یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف دیکھیے کیا منظر نامہ ہے۔

جنرل مشرف ایک فرد یا ایک جماعت نہیں‘ ایک پوری قوم کے سفاکانہ قتل میں جنرل مشرف نہ صرف شریک ہو گئے ہیں بلکہ یہ سرٹیفیکیٹ بھی عنایت فرما دیا ہے کہ وہی نام نہاد ثبوت جنھیں ساری دنیا کے غیر جانب دار قانون دان اور سیاسی مفکر اور مبصر ردّ کر رہے ہیں اور ثبوت کی جگہ محض شبہات قرار دے رہے ہیں وہ اسامہ بن لادن ہی نہیں طالبان کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون اپنے اداریے میں جنرل مشرف کے اس طرز عمل پر تعجب بھری خوشی کا اظہار کیے بغیر نہیںرہ سکا‘ جو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

مسلم دنیا کے لیے یہ مسئلہ خصوصی طور پر بہت حساس ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی پرزور ‘ کھلے عام توثیق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جمعرات کو مشرف حکومت برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئی اور اعلان کیا کہ جو ثبوت واشنگٹن نے دکھائے ہیں وہ کسی عدالت میں بن لادن کے خلاف مقدمہ چلانے کے جواز کے لیے کافی ہیں۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۲)

افسوس کا مقام ہے کہ ۱۰- اکتوبر کو اسلامی وزراے خارجہ کی کانفرنس میں قطر کے امیر شیخ محمدالثانی توبڑے ادب اور عجز سے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے ۱۱ ستمبر سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید ٹھوس ثبوت (more concrete evidence)ضرورت ہے جب کہ ہمارے جرنیل فرماتے ہیں کہ بس یہی ’’ثبوت‘‘ پڑھا دیا وہ ایک قوم کو سولی پر چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اکانومسٹ کا یہ تبصرہ پاکستان کی قیادت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔

اب تک ۱۹ مردہ ہائی جیکرز سے ملنے والے سراغوں پر ۵۴۰ تفتیشی انٹرویو کیے گئے ہیں‘ ۳۸۷---- ۴ ہزار ۴ سو عدالتی سمن جاری ہوئے ہیں اور ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور یہ وہ ہے جو امریکہ کی حدود کے اندر ہوا ہے۔ دیگر ۲۵ ملکوں میں مزید ۱۵۰ افراد گرفتار کیے گئے ہیں تاہم ہائی جیکروں اور اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی ٹھوس رابطہ ابھی عوام کے سامنے آنا باقی ہے۔ (۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵۲)

اب تک کی ساری گواہیوں اور قرائنی شہادتوں کا نتیجہ اکانومسٹ یہ بتاتا ہے کہ:

ان میں سے کوئی چیز بھی اسامہ بن لادن کو یقینی طور پر سب سے بڑا ولن نہیں بنا سکتی۔ ابھی تک کسی نے بھی کسی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

بھارت تو اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف پیش پیش ہے۔ اس کے اخبارات اور رسائل بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں اور امریکی ایف بی آئی کی ۴۰ ہزار تفتیشی سراغوں اور ایف بی اے کے ۴ ہزار ایجنٹوںکی دن رات کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ (still does not reveal much)

اسامہ کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات تو بہ افراط ہیں لیکن شواہد ناقابل ذکر حد تک شاذ ہیں۔ (اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۶ اکتوبر ‘ ص ۳۸۰۸)

اسی اشکال کا اظہار بھارت کے وقیع مجلے فرنٹ لائن کے مضمون نگار نے کیا ہے بلکہ پردین سوامی نے لی مانڈے کے حوالے سے مشہور فرانسیسی محقق اور افغانستان کے اُمور پر چوٹی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف کی یہ رائے نقل کی ہے:

اسامہ بن لادن ساری دنیا کی انقلابی اسلامی تحریکوں کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے۔ اس کو ایسے جنگجوئوں کو ٹریننگ دینے والا سمجھنا چاہیے جو بعد میں خود اپنے عمل کا میدان منتخب کرتے ہیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

اور یہی تجزیہ ہے مشہور مصری سیاسی مبصر اور سابق وزیر محمد ہیکل کا جو روزنامہ گارجین میں اسٹیفن موس نے انٹرویو کی شکل میں شائع کیا ہے۔

اس نے یہ سوال بھی کیا کہ آیا اسامہ بن لادن اور اس کا القائدہ نیٹ ورک ۱۱ ستمبر کے حملوں کے واحد ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں‘ جب کہ جو کچھ ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ ’’بن لادن اس پائے کی کارروائی کے لیے صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب میں بش کو القائدہ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ جیسے یہ نازی جرمنی ہے‘ یا سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے‘ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ بن لادن کئی برس سے زیرنگرانی ہے۔ اس کی ہر ٹیلی فون کال مانٹیر کی جاتی ہے۔ القائدہ کے نیٹ ورک میں امریکی‘ پاکستانی‘ سعودی اور مصری خفیہ ایجنسیاں گھسی ہوئی ہیں۔ جس کارروائی میں اس درجے کے نظم اور باریک بینی کی ضرورت ہو‘ وہ اس کو راز نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔ ہیکل ان باتوں کو بہت کم وزن دیتا ہے کہ منصوبہ بندی میں زیادہ مرکزی کردار بن لادن کے نائب مصری اسلامی جہاد کے قائد ایمان الزہراوی نے انجام دیا ہو۔ ’’وہ خطرناک آدمی ہے اور سادات کے قتل میں شریک تھا لیکن وہ کوئی بڑا سوچنے والا یا منصوبہ ساز نہیں ہے۔ سادات کے قتل میں بھی اس نے مرکزی کردار ادا نہیں کیا۔ اس منصوبے میں بھی سطحی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ صرف خوش قسمتی کی وجہ سے کامیاب ہوا تھا۔ الجزیرہ سیٹلائٹ سے ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن اور زہراوی صرف اپنے وجدان پر انحصار کرتے ہیں‘‘۔ ہیکل کو یقین ہے کہ ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بارے میں ابھی تک کئی وضاحتیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کچھ بھی ہو اب تک جو اسباب بیان کیے گئے ہیں وہ جلدبازی اور غیرمعمولی سہل پسندی کا مظہر ہیں اور غیر فیصلہ کن ہیں۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کو امریکی عوام کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوراً ہی کوئی دشمن مطلوب تھا جس کو ہدف بنایا جا سکتا۔ مگر میری خواہش ہے کہ وہ واقعی کچھ حقیقی ثبوت لاتے۔ مسٹر بلیر نے دارالعوام میں جو کچھ کہا میں نے اسے بڑے غور سے پڑھا ہے۔ انھوں نے ایسی فضا بنائی کہ یہ محسوس ہو کہ وہ کوئی ثبوت پیش کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہے‘ کوئی نہیں۔ یہ سب اخذ کردہ نتائج ہیں۔ کولن پاول نے سب سے زیادہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اس نے دوسرے بہت سے ایسے جرائم کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اس چینی ضرب المثل کی طرح ہے کہ اپنی بیوی کو ہر روز مارو‘ اگر تم وجہ نہیں جانتے‘ وہ تو جانتی ہے۔ آپ اس طرح نہیں کرسکتے‘‘۔ (گارجین‘ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۶)

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کوئی حقیقی شہادت موجود ہی نہیں ہے۔ جو کچھ شہادت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے وہ صرف شبہات کا مجموعہ ہے اور اس کی جو مجموعی تصویر اُبھرتی ہے وہ پراگندہ‘ خام‘ تشنہ‘ مفروضوں پر مبنی‘ غیر مربوط‘ تضادات سے پرُ‘ ناقابل اعتماد اور محروم ثبوت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم ساری معلومات ظاہر نہیں کر سکتے لیکن یہ اصول انصاف‘ بنیادی حقوق اور نظام قضا کے خلاف ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مخدوش اور ناقابل چیلنج معلومات کی بنیاد پر‘ دفاع اور جرح و تعدیل کے حق کے بغیر کسی بھی شخص یا گروہ کو ملزم ہی نہیں مجرم قرار دے اور پھر خود ہی اسے سزا سنا کر اس سزا پر عمل بھی کر ڈالے۔ صرف اسی کو نہیں بلکہ یہ ظالمانہ دعویٰ بھی کرے کہ جو ممالک بھی اس کی نگاہ میں اس کے مطلوبہ افراد کو پناہ دیں گے۔ وہ ملک بھی گردن زدنی ہیں اور ان کے عوام بھی عمومی تباہی (mass destruction)کے ہتھیاروں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ سچی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ معلومات باہر لائی گئی ہیں اس کے علاوہ کوئی پیش کیے جانے کے لائق معلومات یا شہادتیں ہیں ہی نہیں اور محض اپنی اَنا اور جذبہ انتقام کی تسکین‘ اپنے سلامتی اور خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی اور اپنے عوام کے جذبات کو غلط رخ پر ڈالنے کے لیے کشت و خون کا یہ بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے کچھ دوسرے مقاصد ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے ورنہ معقول راستہ صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اگر اسامہ بن لادن اور ان کے القائدہ کے بارے میں کوئی مسکت معلومات اور شواہد تھے تو فوری طور پر ایک پارلیمانی یا عدالتی کمیشن بنایا جاتا جو آزاد تحقیق و تفتیش اور کھلی سماعت کے ذریعے کیس کا جائزہ لیتا اور اگر کوئی ٹھوس شہادت سامنے آتی تو عدالتی عمل کے ذریعے ملزموں کو یا امریکہ کی کسی اعلیٰ عدالت میں مقدمے کے لیے تحویل ملزمان کے معروف بین الاقوامی ضابطے کے تحت حاصل کیا جاتا یا متعلقہ حکومتوں کے ذریعے کسی عالمی عدالت اور غیر جانب دار کی عدالتی کمیشن کے سامنے مقدمہ چلایا جاتا۔ طالبان نے بار بار شواہد کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا کہ ہم غیر جانب دار مسلمان ممالک کی اعلیٰ عدالت یا اعلیٰ عدالتی کمیشن کے آگے اسامہ کو پیش کرنے کو تیار ہیں لیکن صدر بش کی ہٹ دھرمی‘ رعونت اور سامراجی عزائم نے انھیں کسی معقول راستے کی طرف آنے ہی نہیں دیا بلکہ ان کا ایک ہی جواب تھا:

جب میں کہتا ہوں: کوئی مذاکرات نہیں‘ میرا مطلب یہی ہوتا ہے: کوئی مذاکرات نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ مجرم ہے۔ اسے حوالے کر دو۔ جرم یا بے گناہی پر گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱)

حالانکہ خود برطانوی پارلیمنٹ کے سینیر ارکان (مثلاً: ٹیم ڈی لییل جو پارلیمنٹ کے سب سے معمر ممبر ہیں اور دارالعوام کے فادر کہلاتے ہیں) کہہ رہے ہیں:

۱۱ ستمبر کو نیویارک میں دہشت گرد حملوں کا برطانیہ میں ٹھیک وہی ردّعمل ہوا جو اسامہ بن لادن چاہتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اینگلوامریکی پیش قدمی ساری دنیا میں برطانوی امریکی شہریوںپر حملوں کی صورت میں منتج ہو سکتی ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اقوام متحدہ کو سامنے لایا جائے اور اسے ایک طرف نہ رکھا جائے۔ اب بھی کوشش ہونا چاہیے کہ طالبان کو پیش کش کی جائے کہ اسامہ بن لادن کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام کسی عدالت میں پیش کر دیں جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے جج ہوں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۹- اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵)

بھارتی رسالے فرنٹ لائن نے بھی ادارتی کالموں میں اسے امریکہ کی غیر منصفانہ جنگ (American's Unjust War) قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ:

اس خوف ناک جرم کا صحیح ردّعمل یہ ہو سکتا تھا کہ ارتکاب جرم کرنے والوں کو سخت انصاف کے حوالے کرنے لیے ہر طرح کی کوشش کی جاتی۔ دنیا کو قائل کرنے کے لیے سب ثبوت تلاش کر کے سامنے لا کر‘قانون کی حکمرانی کے تحت اور قانونی عدالتوں کے ذریعے سامنے لائے جاتے‘ اقوام متحدہ کے اجتماعی ادارے کے ذریعے کارروائی کی جاتی۔ مگر اس طرح کے منصفانہ ردّعمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ امریکہ جو کچھ ہے‘ جو کچھ وہ کرنے کا عادی ہے‘ واحد سوپر طاقت ہونے کا اسے جو غرہ ہے اور اس کے بین الاقوامی کردار کی وجہ سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ (۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

دسیوں اخبارات و رسائل اور ان کے سیاسی مبصر اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن صدر بش ‘ وزیراعظم بلیر اور ان کے شریک کار جنگ پر تلے ہوئے ہیں اور افغانستان پر آگ اور خون کی بارش برسا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کو جس میں نہ سڑکیں ہیں اور نہ ریلوے لائن‘ جہاں بجلی‘ پانی اور خوراک کی سہولتیں بھی میسر نہیں‘ جن کی کوئی فضائیہ نہیں‘ ان پر اپنی فضائی برتری قائم کرکے فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ محدود و متعین نشانوں پر حملے (targetted bombing) کے نام پر شہر اور دیہات ہی نہیں‘ مساجد‘ مدرسے‘ شفاخانے اور یواین او اور ریڈکراس کے ڈپو تباہ کیے جارہے ہیں۔ بمباری کے اڑھائی ہفتوں میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بے بس انسان شہید ہو چکے ہیں لیکن آتش انتقام ہے کہ سرد ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان کے جرنیل صدر اس خون ریزی میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے کہ جس حملے کو وہ مختصر اور بہ ہدف (short and targetted) کہہ رہے تھے اور جس کی ضمانتوں کے وہ مدعی تھے اس کا پول پہلے ہی دن کھل گیا جب بش صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا کہ صدر مشرف کو کس نے یہ ضمانت دی ہے۔ ہم جب تک چاہیں گے حملے کریں گے جو سردی‘ گرمی بلکہ کئی برسوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔ اس شاہی اعلان کے بعد ہمارے جرنیل  صدر ’’اسی تنخواہ پر‘‘ کام کرتے ہوئے بش صاحّ کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

افغانستان کا مبنی برحق موقف

دنیا کے ہر آزاد ملک کا حق ہے کہ اپنے کسی شہری کو یا جسے پناہ دے اسے مناسب عدالتی کارروائی کے بغیر کسی دوسرے ملک کے حوالے نہ کرے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے تو اس کا ایک ہی جائز طریقہ ہے کہ اخلاق اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے کے مطابق باقاعدہ عدالتی عمل کے ذریعے اسے طلب کیا جائے۔ اور اس صورت میں بھی جس ملک کے شہری کو طلب کیا جا رہا ہے اس کی عدالت فراہم کردہ شہادتوں کی بنیاد پر اپنا اطمینان کرنے کے بعدہی اسے منتقل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ برطانیہ جو اس مہم میں امریکہ کا شریک ہے خود اپنے قانون اور روایات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ چلّی کے سابق سربراہ جنرل پنوشے برطانیہ علاج کے لیے آئے تھے کہ اسپین نے ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ دو بار مقدمہ اعلیٰ عدالتوں سے گزر کر ہائوس آف لارڈز میں گیا اور بالآخر لارڈز نے طے کیا کہ ان کو چلّی واپس بھیج دیا جائے‘ اسپین کے حوالے نہ کیا جائے۔ لطف یہ ہے کہ بن لادن کے لیے تو برطانیہ نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنی فوج بھیج دی ہے اور پہلے ہی دن سے ہوائی حملوں میں شریک ہے جبکہ اپنے ملک میں آج بھی یہ کیفیت ہے کہ حقوق انسانی کے یورپین کنونشن کے تقاضوں کے پیش نظر ۱۱ ستمبر ہی کے ایک ملزم کو جو جہاز کے اغوا کے سلسلے میں مطلوب ہے اس لیے حوالے نہیں کر رہا کہ امریکہ میں موت کی سزا ہے جبکہ یورپی قانون کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں موت کی سزا ہو وہاں کسی ملزم کو تحویل میں نہ دیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ میں اس پر ردّ و کد ہو رہی ہے۔ یورپ کے ایک نمایندے کا کہنا ہے کہ:

ہم اس لڑائی میں مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ہم سزاے موت کے مخالف ہیں اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ (دی سنڈے ٹیلی گراف‘ ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یورپ کے ممالک ’’مہذب‘‘ ہیں اس لیے ان کو حق ہے کہ اپنے قانون کی بالادستی قائم رکھیں مگر افغانستان‘ پاکستان اور دوسرے مشرقی ممالک ’’غیر مہذب‘‘ ہیں‘ ان کے ملکی قانون‘ مذہب اور روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ امریکہ کو حق ہے کہ پاکستان ہو یا فلپائن اپنے مطلوبہ افراد کو زور و زبردستی کے ذریعے حاصل کر لیں بلکہ پانامہ کے صدر کو ۲۵ ہزار فوج بھیج کر اغوا کر لے اور پھر اپنے ملک میں مقدمہ چلائے مگر دوسرے ممالک کسی امریکی پر اپنے ملک میں کسی جرم کی پاداش میں بھی مقدمہ نہ چلا سکیں۔ اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم ہونے والی عدالت کے ہر فیصلے کے احترام کو چارٹر کے ذریعے ارکان ممالک پر لازم کیا جائے تو امریکہ جب چاہے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے کہ ہم اس معاملے میں کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ ۱۹۹۶ میں امریکہ نے نکاراگوا میں امریکی فوجی مداخلت کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صریح بین الاقوامی غنڈا گردی ہے۔ اسے کسی مہذب ملک کا طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

افغانستان اپنے اقتداراعلیٰ (sovereign)کے اس حق کے لیے سینہ سپر ہے کہ جس شخص کو اس نے پناہ دی ہے اسے کسی واضح ثبوت اور عدالتی عمل کے بغیر محض امریکہ کے مطالبے پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

افغانستان کے خلاف امریکہ کی موجودہ جنگ ایک صریح جارحانہ کارروائی ہے جس میں صرف طاقت کے بل پر وہ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی اقدار کوپامال کر رہا ہے۔ ہم نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ امریکہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف کوئی قابل قبول اور معتبر شہادت پیش نہیں کر سکا ہے اور صرف دھونس اور تشدد کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی

اس بہانے اس نے افغانستان پر جوفوج کشی کی ہے وہ صریح طور پر ریاستی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ریاست کو کسی اور کے جرم کی پاداش میں سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہو۔ جرم میں اعانت (abetment)اور کسی کو پناہ دینا دو بالکل مختلف اُمور ہیں‘ خصوصیت سے جب کہ جرم ثابت بھی نہ ہوا ہو اور نہ کوئی فیصلہ کن شہادت موجود ہو۔ محض ایک ایسے شخص کا کسی ملک میں ہونا جو کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے‘ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ ایک دوسرے ملک پر حملہ آور ہو جائے۔ انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہوئے ہیں جو دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ قبول کر چکے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱ کہتی ہے:

ایک فرد یا گروہ کا ایسا طرزعمل ‘ جو کسی ریاست کی جانب سے نہ ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔

اس طرح‘ اس کی دفعہ ۱۴ میں کہا گیا ہے:

کسی ایسی باغی تحریک کے کسی حصے کا عمل‘ جو کسی ریاست کی حدود میں‘ یا اس کے زیرانتظام کسی دوسرے خطے میں ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پر الزام نہیں سمجھا جائے گا۔

ہم نے نکاراگوا کی حکومت کے امریکہ کے خلاف جس مقدمے کا ذکر اُوپر کیا ہے‘ اس میں چند اقدامات کے بارے میں امریکہ کو مورد الزام اور ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مگر کچھ دوسرے معاملات میں عدالت نے امریکہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا اور وہ اسی اصول کے تحت تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ:

عدالت کی رائے ہے کہ امریکہ نے نکاراگوا کی کی کنٹرا (contra) افواج میں ایک ہدایت نامہ تیار کر کے تقسیم کر کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو انسان دوستی کے عمومی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن عدالت کوئی ایسی بنیاد نہیں پاتی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان اقدامات کو امریکہ کے اقدامات قرار دے سکے۔

ان اصولوں کی روشنی میں صاف ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں مقیم کسی فرد نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے یا کوئی ایسا اقدام اس سے منسوب کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے تب بھی اس کی ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر نہیںڈالی جا سکتی۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو اس لیے مرتب کیا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت‘ خصوصیت سے جن کے پاس طاقت ہے‘ ایسے اقدامات کا سہارا لے کر افراد کے جرائم کے لیے ریاست کو طاقت کے من مانے استعمال (arbitrary use) کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ اس راستے کو روکنے کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں لیکن امریکہ نے ان کو صریحاً نظرانداز کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تقاضے

اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی ریاستوں کی طرف سے یک طرفہ اور من مانی فوجی کارروائیوں کو روکنا تھا۔ چارٹر کی دفعہ ۵۱ میں خود حفاظتی (self defence) کا حق دیا گیا ہے لیکن اسے کسی بھی دلیل کے ذریعے دوسرے ممالک پر فوج کشی کے حق میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر حسب ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

۱- آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کے لیے۔

۲- مرد و زن اور بڑی یا چھوٹی اقوام کے مساوی حقوق۔

۳- بین الاقوامی قانون کے تحت معاہدات کے تفویض کردہ فرائض کا احترام (مقدمہ)۔

چارٹر کی دفعہ ۲۰ کی شق ۱‘۳ اور ۴ بہت واضح ہیں:

۱- ممبر ممالک کی خود مختار مساوات کا حصول (۲۰۱)

۲- تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تنازعے پرامن ذرائع سے اس طرح طے کریں گے کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔(۲۰۳)

۳- تمام ممبران بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی جغرافیائی وحدت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال‘ یا اس کی دھمکی سے‘ یا کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنے سے احتراز کریں گے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے مطابق نہ ہو۔

پھر دفعہ ۳۳ میں یہ ضابطہ بہت صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ:

کسی تنازعے کے فریق جس کے جاری رہنے سے عالمی امن و استحکام کے برقرار رہنے کو خطرہ ہو‘ حل تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے مذاکرات ‘ مصالحت‘ ثالثی‘ عدالتی تصفیے‘ علاقائی تنظیموں سے اپیل‘ یہ سب یا اپنی پسند کے دوسرے پرامن ذرائع کا راستہ اختیار کریں گے۔

نیز دفعہ ۳۶ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ دری قرار دی گئی ہے کہ دفعہ ۳۳ کے تحت جو معاملہ بھی اس کے سامنے آئے‘ اس میں تنازع کے حل کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرے۔ دفعہ ۳۷ کے تحت اگر ممبر ملک مذاکرات اور دوسرے پرامن ذرائع سے تنازع طے نہ کر سکیں تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ سلامتی کونسل کی طرف رجوع کریں جو دفعہ ۳۶ کے تحت ضروری کارروائی کرے گی۔

کسی ایک ملک کے خلاف کوئی دوسرا ملک ازخود کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ دفعہ ۳۳‘ دفعہ ۳۶ اور  دفعہ ۳۷ کے تحت اقدامات کی ناکامی کی صورت میں سلامتی کونسل دفعہ ۴۱ کے تحت معاشی پابندیاں اور دفعہ ۴۲ کے تحت فوجی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر ایسی فوجی کارروائی کوئی ملک خود نہیں کر سکتا اور نہ اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے کسی اتحاد (کولیشن) کے ذریعے کر سکتا ہے بلکہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی فوجوں کے ذریعے دفعہ ۴۶ اور ۴۷ کے تحت اقوام متحدہ کی ملٹری اسٹاف کمیٹی کے تحت ہی ہو سکتے ہیں اور یہ کمیٹی سلامتی کونسل کے مشورے اور اجازت سے کوئی اقدام کر سکتی ہے۔

یہ ہے وہ ضابطہ کار جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں مرقوم ہے۔امریکہ اور برطانیہ نے اس کی ہر ہر دفعہ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے دفعہ ۵۱ کا سہارا لیا ہے لیکن اس کا جواز صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی ملک پر کسی متعین ملک کی فوجوں نے عملاً حملہ کر دیاہو (armed attack) اور اس صورت میں بھی جو ملک خود دفاعی (self defence) کے اس حق کو استعمال کرے اس کا فرض ہے کہ فوری طور پر اس کی اطلاع سلامتی کونسل کو دے اور پھر وہ سلامتی کونسل کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو امن کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل کرے۔ چارٹر کی دفعہ ۹۴ کے تحت یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا فرض ہے کہ اگر کوئی ملک چارٹر کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا ازخود نوٹس لے اور سلامتی کونسل میں معاملے کو پیش کرے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں امریکہ اور برطانیہ کا رویہ مبنی برحق نہیں بلکہ صریحاً جارحانہ‘ ظالمانہ ‘ یک طرفہ‘ من مانا اور امن عالم کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اس بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے اپنی زمینی اور اپنے فضائی راستے فراہم کر کے جرم میں شرکت اور شر اور فساد میں تعاون کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ کے جرائم متعین طور پر یہ ہیں:

(الف) کسی حتمی ثبوت اور شہادت کے بغیر اور کسی مبنی برانصاف عدالتی عمل کے بغیر ایک فرد‘ ایک گروہ اور ایک ملک کو مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف راے عامہ اور ملکوں کی کولیشن قائم کی۔

(ب) بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی عدالتوں کے واضح فیصلوں کے علی الرغم‘ اس ملک‘ اس جماعت اور ان گروہوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جن کا قانون کے تحت کسی جرم میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔ اگر ان ممالک میں کچھ لوگ ایسے پناہ گزین تھے جن کا جرم عدالتی طریقے سے ثابت ہو تب قانون کے مطابق ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر کسی فوجی اقدام یا اغوا کی کوشش کا کوئی قانونی جواز نہیں اور جن افراد کا جرم ثابت نہ ہوا ہو ان کے بارے میں تو مطالبے کا بھی کسی کو اختیار نہیں۔

(ج) اگر کوئی تنازع فی الحقیقت تھا بھی اور کوئی دوسرا ملک ایک جائز مطالبے کو پورا کرنے میں مزاحم ہو تو مذاکرات (negotiations) کا راستہ اختیار کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۳۳ کے تحت لازمی ہے۔ امریکی صدر نے مذاکرات سے انکار کیا اور معاملات کے تصفیے کے پرامن راستے کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا اور اس طرح چارٹر کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تہ و بالا کیا۔

(د) فوجی کارروائی کے سلسلے میں بھی چارٹر میں طے کردہ راستے کو اختیار نہیں کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں بن لادن یا افغانستان کو مجرم قرار دیا گیا ہو یا ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہو۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو قرارداد سلامتی کونسل نے منظورکی ہے اس میں اول تو دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کی گئی اور نہ اس کا مخاطب کوئی ایک ملک ہے۔ اس میں تمام ممبر ممالک سے ۷ نکات کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں دہشت گردی کے مالیاتی وسائل کی روک تھام‘  دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کی ضبطی‘ کسی فرد یا تنظیم کو دہشت گردوں کی مالی اعانت سے روکنا‘ ایسی تنظیموں میں نئے حامیوں کی بھرتی یا ان کو اسلحہ کی فراہمی ‘ دہشت گردی کے مرتکب افراد یا تنظیموں کو پناہ دینے والوں سے تعاون پر پابندی‘ سرحدوں پر کنٹرول اور دہشت گردی کے سلسلے کے جرائم کی تحقیق و تفتیش میں تعاون اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس میں نہ کوئی ملک متعین کیا گیا ہے اور نہ کسی کے خلاف فوجی کارروائی کرنے اور اس کارروائی میں مدد دینے کی کوئی بات ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک کسی فوجی کارروائی کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ کی بلاواسطہ یا بالواسطہ تائید حاصل نہیں اور ایسا ہر قدم چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ فوج کشی کے دو ہفتے بعد بھی سلامتی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہ دینا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا متحرک نہ ہونا بھی چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ جو فوجی کارروائی عالمی برادری کے نام پر ہو رہی ہے‘ اسے نہ عالمی برادری کی تائید حاصل ہے اور نہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہے۔ اس کی حیثیت محض ایک سوپر پاور کی ریاستی دہشت گردی کی ہے اور جو بھی‘ اس میں جس درجے میں تعاون کر رہا ہے وہ اس حد تک دہشت گردی میں شریک اور ایک مظلوم ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ دنیا کے ۱۹۸ ملکوں میں سے بمشکل ۴۰ امریکی دبائو یا ’’دوستی‘‘ کے سبب اس میں شریک ہوئے ہیں اور جو بظاہر شریک ہیں ان میں بھی اختلاف‘ اضطراب‘ تحفظات اور بے زاری کے آثار ہیں۔ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ چند مسلمان ملک جن میں پاکستان‘ ترکی اور ازبکستان قابل ذکر ہیں اس جارحیت کے لیے اپنا کندھا پیش کیے ہوئے ہیں اور حق و انصاف ہی کا خون نہیں کر رہے بلکہ اُمت مسلمہ کے مظلوم انسانوں کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ یہ وہ جرم ہے جسے نہ خدا معاف کرے گا اور نہ ملّت اسلامیہ۔ جو جس درجے کے ظلم کا مرتکب ہے اسے ان شاء اللہ ایک دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا:

جو چپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا