اگست ۲۰۱۷

فہرست مضامین

تعلیم و تحقیق: بہت کچھ پایا، بہت کچھ کھویا

ڈاکٹر معین الدین عقیل | اگست ۲۰۱۷ | قلمی مذاکرہ

Responsive image Responsive image

پاکستان اپنے قیام ہی سے اپنے قائدین کے جوش و جذبے اور عزم و ارادوں سے سرشار تھا۔ چنانچہ معاشی و فنی وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود، چند ہی برسوں میںنہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور زندگی کے متعدد شعبوں اور میدانوں میں ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے اس نوزائیدہ مملکت نے متعدد ایسی کامیابیاں بھی حاصل کیں جوتوقع سے بھی بڑھ کر تھیں۔تعلیمی اور  علمی میدانوں میںبھی صورت حال مایوس کن نہ تھی۔قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں قائم پنجاب یونی ورسٹی اور بالخصوص اس سے ملحق اورینٹل کالج علوم و ادبیات کی تدریس و مطالعات میں ایک  شان دار علمی شہرت و مقام پر فائز تھے۔ اور یہاں کے علمی و تحقیقی منصوبے اور ان کی عالمانہ و محققانہ تصانیف ہرایک کے لیے قابلِ رشک تھیں۔ یہاں کے گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج نے بھی علمی و تعلیمی سرگرمیوں کی ایک شان دار روایت قائم کررکھی تھی۔ان تینوں اداروں سے منسلک اساتذہ و طلبہ نے دل چسپی کے اپنے اپنے شعبوں میں اپنی تخلیقی و تصنیفی سرگرمیوں سے زبان و ادب، تاریخ اور علوم کے دیگر متنوع شعبوں میں قابل قدر خدمات کی ایک مستحکم روایت قائم کردی تھی کہ جو بعد کی نسلوں کے لیے بھی پُرکشش اور قابل تقلید رہی۔ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، پنجاب پبلک لائبریری اور لاہور ریکارڈ آفس کے ذخائر نے معلّمین و محققین کے لیے ممکنہ وسائل فراہم کرنے میں اپنا مفید کردار ادا کیا۔پشاور آرکائیوز بھی اپنی ایک حیثیت کا حامل تھا۔

کراچی کے قومی عجائب گھر کے نادر ذخائراور پھرچند ہی برسوں میں کراچی اور حیدرآباد میں جامعات کے قیام نے ان شہروں اور خصوصا ً کراچی کو ایک علمی و تہذیبی مرکز بنادیا۔جس میں کراچی یونی ورسٹی نے اپنے لائق وقابل سربراہوں اور اساتذہ کی حددرجہ مخلصانہ انتظامی کاوشوں اور جدید سائنسی علوم کے شعبوں کے قیام اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کے سبب بہت جلد ملک کی ممتاز ترین جامعہ کی حیثیت حاصل کرلی۔

’انجمن ترقی اُردو‘ کے وقیع کتب خانے کی دہلی سے کراچی منتقلی نے بھی کراچی میں علمی تحقیقات کو حددرجہ مہمیز دی اور ادبی تحقیقات و مطالعات کا ایک قابلِ رشک آغاز ہوا۔

علمی و تحقیقی ادارے

جامعات کے ساتھ ساتھ ،حکومت نے اپنے قلیل وسائل کے باوجود، علمی ادارے قائم کیے اور نجی کوششوں کی سرپرستی بھی کی۔لاہور میں:’ مجلس ترقی ادب‘؛’ اقبال اکیڈمی‘؛ ’ادارۂ ثقافت اسلامیہ‘؛’مرکزی اُردو بورڈ‘، بعد میں’ اُردو سائنس بورڈ‘؛’ادارۂ تحقیقات پاکستان‘؛’اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘؛کراچی میں:’انجمن ترقی اُردو‘؛ ’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘؛ ’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘؛ ’ترقی اُردو بورڈ‘ اب’ اُردو لغت بورڈ‘؛ اسلام آباد میں:’ادارۂ تحقیقات اسلامی‘؛ ’قومی کمیشن براے تحقیق، تاریخ و ثقافت‘؛کچھ عرصے بعد مقتدرہ قومی زبان بھی کراچی سے یہیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ہر صوبے میں قائم کردہ علاقائی زبانوں کی اکادمیوں:’ پنجابی ادبی اکادمی‘؛ ’بلوچی اکیڈمی‘؛ ’سندھی ادبی بورڈ‘؛ ’پشتو اکیڈمی‘ ان سب نے اپنے اپنے دائرے میں مفید علمی و مطالعاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوششیں کیں جن میں سے خاص طور پر’ سندھی ادبی بورڈ‘ اور’پنجابی ادبی اکادمی‘ نے زیادہ سرگرمی دکھائی اور کلاسیکی ادب اور تاریخ ا ور تاریخی متون کو ترتیب و تدوین کے بعد شائع کیا۔ پھر ان کی کارکردگی یا تو ماندپڑگئی یا منقطع بھی ہوگئی۔ اداروں کے سربراہوں کے انتخاب و تقرر میں سیاسی فیصلے در آئے تھے، چنانچہ اقربا پروری ، سفارشوں اور جانب داری نے اپنے اثرات قائم کرنے شروع کیے۔ سربراہوں میں اہلیت، خلوص، دیانت داری اور مستعدی کی صفات رفتہ رفتہ عنقاہوگئیں اور اب اکثر اداروں میں بالائی سطح پر کم ہی کہیں اہلیت و مستعدی دیکھی جاسکتی ہے۔

متعدد قابل تحسین ادارے اپنی ابتدا یا ماضی میں اپنی ہی جس مستحسن روایت پر کاربند تھے اور عمدہ علمی و تصنیفی منصوبوں میں سرگرمِ عمل ہونے کے بجاے اپنے سربراہوں کی ذاتی اغراض، خود نمائی یا اقربا پروری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اُن میں کسی بڑے منصوبے کی تشکیل یا اس میں پیش رفت کا شعور اور صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ صورتِ حال اداروں میں سیاست کے عمل دخل کا نتیجہ ہے، مگر خرابی کی ایک اور وجہ قحط الرجال بھی ہے۔ جو اکابر اداروں سے منسلک تھے وہ رفتہ رفتہ اس دنیاسے رخصت ہوتے رہے تو ان کی جگہ لینے والے اہل اور مخلص افراد نا پید تھے۔

جامعات کاکردار

 آج علمی و تحقیقی اور ادبی اداروں کی بے عملی اور کج روی کے باوجود علمی و تحقیقی سرگرمیاں بھی کہیں مرکوز نظر آتی ہیں، مگر جامعات کے ادارے یا شعبہ جات ایسے کم ہیں جو اپنے طورپر اجتماعی اور گروہی تحقیقی و مطالعاتی منصوبے تشکیل دیں اور مثالی صورت میں انھیں مکمل کریں۔ جامعات میں تحقیقات و مطالعات بالعموم اساتذہ یا منسلک مصنّفین و محققین کی ذاتی دل چسپیوں اور ان کے اپنے ذوق و شوق کے تحت رہنے کی ایک طویل اور دیرینہ روایت رہی ہے اور بہت مستحکم بھی رہی ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے منسلک محققین نے، جن میں بعض عالمی شہرت رکھتے تھے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی اپنی اعلیٰ معیار تحقیقات اور مطالعات کے باوصف بہت نمایاںاور نہایت قابلِ قدر خدمات کی ایک درخشاںمثال قائم کی تھی۔ یہاں سے نکلنے والاتحقیقی مجلّہ اورینٹل کالج میگزین، اپنے معیار کے سبب ایک عالمی وقار اور امتیاز کا حامل تھا۔ کچھ برسوں کے بعد یہاں سے مجلہ تحقیق  اور دیگر مجلّوںکے کامیاب اجرا نے اس روایت کو مزید فروغ اور استحسان عطا کیا۔ بعض اساتذہ کے تحقیقی مطالعات نے بھی عمدہ علمی و سماجی اور ادبی موضوعات پر لائقِ تحسین مثالیں پیش کیں۔

جامعہ کراچی سے ایسے اکابر محققین اور مصنّفین منسلک رہے ہیں، جن میں سے کچھ نے قیامِ پاکستان اور کراچی میں آباد ہونے سے قبل ہی علمی اور تعلیمی دنیا میں اپنے مؤقر کارناموں کے باوصف شہرت و امتیاز حاصل کیاتھا اور جامعہ کراچی سے منسلک ہوکر اپنے تجربے اور اپنی لیاقت سے اس جامعہ کو ملک کی ممتاز ترین جامعہ کے درجے تک پہنچادیا ۔ پھر اس شہر کو قوم پرستانہ سیاست کی نظر لگ گئی۔ اب جامعہ کراچی کا نظم و نسق اور معیار بھی حسب سابق برقرار نہیں رہا اور مطالعات اور تحقیقات کا معیار بھی مزید زوال پذیر ہے۔اس کا ایک بڑا سبب جامعہ کا شہرکے سیاسی نظام کے تابع ہوجانا یا کردیا جانا ہے۔چنانچہ اساتذہ کے تقرر اور ان کی ترقیوں کا انحصار اب سفارشوں اور سیاسی وابستگیوں پر زیادہ ہوکر رہ گیاہے اور مطالعہ و تحقیق کی جو شرائط اور پابندیاں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) کی جانب سے جائز طور پر جامعات اور ان کے اساتذہ پر عائد ہیں، یہ جامعہ اور اس کے اساتذہ بڑی حد تک ان سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً جامعہ کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں اب زوال پذیر ہیں۔

یہی صورت اب ملک کی دیگر متعدد سرکاری جامعات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ تقرر اور ترقیوں کے لیے ایچ ای سی کی جانب سے عائد شرائط میں سے عالمی سطح کے معیاری مجلّوں میںتحقیقی مقالات کی اشاعت کے بارے میں غلط بیانیاں عام ہیں اور سطحی اور سرسری مضامین کو تحقیقی مقالہ قرار دینا اور اسے انتظامیہ کی جانب سے تسلیم کرلیاجانا ایسا عمل ہے جس نے اساتذہ میں اہلیت پیدا کرنے کے بجاے انھیں جرم پر آمادہ کرنے کی آزادی دے دی ہے۔

اس ضمن میں خود ہایر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اپنے ہی قواعد و ضوابط کا لحاظ نہ رکھا اور ان پر عمل درآمد کے جائزے کا کوئی مستحکم اور مؤثر نظام تشکیل نہیںدیا کہ بدعنوانیوں اور غلط بیانیوں کی روک تھام ہوسکتی۔بعض اساتذہ کی اپنی کاوشوں کے تحت جو معیاری تحقیقی و مطالعاتی سرگرمیاں ہیں وہ اس صورت حال سے ماورا ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت قابلِ اطمینان نہیں۔

جامعات میں مطالعات و تحقیق کی یہ صورتِ حال حد درجے افسوس ناک ہے۔اس میں اساتذہ اور جامعات کے ساتھ خود ایچ ای سی بھی اس کی بڑی ذمے دار ہے کہ اس کے نظام میں اساتذہ کی تحقیقات و مطالعات کو خود جانچنے اور اس کے اپنے فیصلوں کے معیار کو پرکھنے اور ساتھ ہی اس کی اپنی عائد پابندیوں کو نظر انداز کرکے غلط بیانیوں اور دھوکا دہی کے ذمے دار اساتذہ کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جامعات بھی اپنی داخلی علمی بدعنوانیوں کی روک تھام کا کوئی مؤثر نظام نہیں کرسکیں۔

تعلیمی معیار رُوبہ زوال و تدارک

تحقیقات و مطالعات سے قطع نظر سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار بھی گذشتہ دہائیوں میں متاثر ہوا ہے۔ معیار کی بہتری کے لیے جو کوششیں خود جامعات اور ان کی سرپرست ایچ ای سی کو  کرنی چاہییں تھیں، وہ بھی ہر سطح کے تعلیمی نصاب کی بہتری کے باب میں مجموعی طور پر بے نیاز اور لاپروا ہیں۔ برسوں بلکہ عشروں تک بھی نہ نصابات پر نظر ثانی کی جاتی ہے نہ ان کی تجدید کے بارے میں کوئی عمل ہوتاہے اور نہ نصابات کو قومی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی مخلصانہ اور شعوری کوشش ہوتی ہے۔ بالعموم ہمارے سارے ہی قومی اور صوبائی نصابات ازکارِرفتہ، فرسودہ اور طلبہ کے لیے بے فیض ہیں اوروہ ان میں کسی طرح بھی قومی اور اجتماعی سو چ پیدا کرنے کے لائق نہیں۔ایک مقصدی اور تعمیری نصاب کی عدم موجودگی ہمارے اکثر قومی اور سیاسی و سماجی مسائل اور مشکلات کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم اب تک نہ بن سکے۔

صدرجنرل یحییٰ خاںکے دور میں ائیر مارشل نورخان کی تعلیمی تجاویز، اپنے چند اسقام کے باوجود، ملک میںتعلیمی نظام کی اصلاح وبہتری کاایک فکر انگیز اور مخلصانہ اقدام تھا، لیکن افسوس صد افسوس کہ  پھر کبھی اس طرح کی کوئی مخلصانہ اور سنجیدہ و مؤثر کوشش نہ ہوسکی۔

نظامِ تعلیم اورنصاب کی طرح ہم نے جامعات میں اپنے مطالعات اور تحقیقات کو بھی قومی تقاضوں اور عہد حاضر کی معاشرتی اور علمی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی جانب بھی کبھی نہیں سوچا۔ سائنسی شعبوں کے تحقیقی موضوعات سے قطع نظر،سماجی علوم اور زبان و ادبیات کے شعبوں میں تحقیق کے لیے بالعموم ایسے موضوعات کی بھرمار رہتی ہے جو سطحی، سرسری اور فرسودہ و از کار رفتہ ہوتے ہیں،جن سے نہ متعلقہ علم کوکوئی فائدہ پہنچتاہے ، نہ ان سے کوئی علمی و تحقیقی خلا پُر ہوتا ہے۔ جامعات میںسندی سطح کے امیدواروں میں اگرموزوں و مفید یا تعمیری موضوعات کے انتخاب کا شعور نہیں تو ان کے نگران اساتذہ بھی اس شعور سے بمشکل ہی کہیں بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جامعات میں ایچ ای سی کی ہدایت پر حالیہ کچھ عرصے سے بظاہر ایک ’صیغۂ فروغِ تحقیق ‘ (Research Enhancement Cell)کاقیام عمل میں آیاہے، جس پر تحقیق کے معیار کی بہتری اور اس کے فروغ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اسے موضوعات کی افادیت کے نقطۂ نظر سے اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ  ایشیا کی پانچ سو جامعات میں ہمارے ملک کی کوئی جامعہ بھی کبھی شمار میں نہیں آتی ، عالمی سطح کی جامعات کا تو کیا ذکر!

میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی معیارکی بہتری اور طلبہ میں قومی سوچ کو عام کرنے کے لیے جہاں ایک قومی سطح کی منصوبہ بندی، بمثل نورخان تجاویز، اشد ضروری ہے ،وہیں ایچ ای سی کو ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنے فرائض میںتعلیمی معیار کی بہتری،جامعات میں نظم و نسق کے قیام کی نگرانی، جامعات اوراساتذہ کو اس کے اپنے ہدایت کردہ قواعد و ضوابط کا پابند کرنا اور اساتذہ اور سربراہوں میں اہلیت، فرض شناسی اور دیانت داری کی صفات کے جانچنے اور اس کے اپنے عائدکردہ ضوابط سے انحراف پرمناسب سزا کا اہتمام کرنابھی شامل ہونا چاہیے۔ آج ہمارا تعلیمی معیار بڑی حد تک اساتذہ کی نااہلی،بدعنوانی اور اپنے فرائض سے غفلت کے سبب برباد ہوا ہے۔میں یہ بارہا لکھتا رہاہوں کہ آج ہمارے معاشرے کی تعمیر اور تخریب تین افرادکی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے: ایک استاد، دوسرا صحافی اور تیسرا منصف(جج)،جب کہ صحافی اور منصف بھی استاد ہی بناتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں اور بالخصوص جامعات میں سیاست کے عمل دخل نے تعلیمی نظم و نسق اور معیار کو بری طرح متاثر کیاہے۔سیاست اور اقربا پروری کے پروردہ نااہل اور بدعنوان اساتذہ نے سارے ماحول کو برباد کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ایچ ای سی کی غفلت اور اپنے بنیادی فرائض میں روورعایت اور بے نیازی کی اس کی حالیہ کیفیت بدعنوان اساتذہ پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتی، جس کے سبب تعلیم و تدریس کا معیار پست ہوتاجارہاہے اور تحقیق و مطالعات زوال پذیر ہوگئے ہیں۔اور یہی ایچ ای سی تدریس اور تحقیق کے لیے ایسے رہنما اصول و ضوابط بھی تجویز نہیں کرتی کہ اساتذہ کی تدریسی کارکردگی کا محاسبہ ہوسکے اور تحقیق کامعیار حقیقی معنوں میں بلند ہوسکے۔ اگرچہ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ تحقیقی مقالات ایچ ای سی کے منظورشدہ مجلّوں میں چھپوائیں، لیکن ایچ ای سی نے کبھی نہیں سوچاکہ وہ اساتذہ کے لیے، ترقی یافتہ ملکوں کی جامعات کی طرح لازم کریں کہ وہ اپنے موضوعات کی دل چسپی کے پیش نظر سال میں ایک یا دو سیمی نار پیش کرنے کا اہتمام کریں، جو ان کی ترقی کے لیے شمار میں آئیں۔

پاکستان اور پاکستانی قوم کا یہ المیہ ہے کہ تعلیم اور تدریس اب اپنا جیسا تیساسابقہ معیار و امتیاز بھی بتدریج کھوتے جارہے ہیں اور یہ دونوں ہی آئے دن زوال پذیر ہیں۔یقیناً ہماری قوم کے نابغہ افراد نے انفرادی طور پران ہی جامعات سے تحصیل علم کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں بڑے نام کمائے ہیں، اور عالمی سطح پر بھی ایسے کارنامے انجام دیے ہیںکہ اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیاہے۔ ایسے اعزازات و عزت کا حصول ہر فرد کا حق ہے، جب کہ اس کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی اور ایک عمومی حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنا ہماری جامعات کا کام ہے لیکن آج جامعات میں جو حوصلہ شکن فضا عام نظر آتی ہے اس سے کیا توقعات باندھی جاسکتی ہیں؟