اگست ۲۰۱۷

فہرست مضامین

مستقبل کی تعلیمی حکمت عملی :کیا اور کیسے؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | اگست ۲۰۱۷ | قلمی مذاکرہ

Responsive image Responsive image

قیامِ پاکستان کے ۷۰ سال ایک اہم سنگ ِ میل ہیں۔ جہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ سوچنا کہ کیا کھویا، کیا پایا؟ قوموں کی زندگی میں ایک فطری اور عقلی مطا لبہ ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ حَاسِبُوْا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا  [اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا حساب کیا جائے] لیکن احتساب نفس کا یہ عمل اس شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ نشانِ منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی قوت، صلاحیت اور کوشش کی ضرورت ہے، تاکہ یہ احتسابی عمل اُمید ، یقین اور حرکت میں اضافے کا باعث ہو ۔ کفِ افسوس ملتے رہنا زندہ قوموں کی صفت نہیں۔ اسی طرح ایک فرد کی ۷۰سالہ عمر کو ایک قوم کی عمر پر قیاس کرنا بھی تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں کہا جاسکتا۔ ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو آزادی کا سانس لینے والی اس پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام سے بہت پہلے قا ئد اعظم محمد علی جناح نے مملکت کے مقصد وجود کو ۱۲جون ۱۹۴۵ءکو سرحد مسلم اسٹوڈٹنس ایسوسی ایشن کے نام اپنے پیغام میں واضح الفاظ میں یوں کہا تھا:

Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope others will share with us (S.M. Zaman , Quaid -e-Azam and Education, National Institute of Historical and Cultural Research, Islamabad,  1995,  p384(.

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے، بلکہ ’مسلم نظریہ‘ بھی ہے، جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے، جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے، اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ ہیں۔

اسی پیغام اور عزم کی توثیق قائدنے پاکستان میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر۱۹۴۷ء ، کراچی کے نام اپنے پیغام میں ان الفاظ میں فرمائی :

In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honour, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honour to Pakistan.

الغرض ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ ان میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کر دیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اَتم موجود ہو، اور وہ اس طرح کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بن جائے۔(کتاب مذکورہ بالا، ص ۴۳۲)

تعلیمی پالیسی پر قائد کی اتنی واضح ہدایات کے بعد مستقبل کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے:

  •  اول :ہمارے تعلیمی نظام کو اسلامی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ یا اسلام کے نظامِ حیات ہونے کے بنیادی تصور کو علم کے ہر شعبے میں اختیار کرنا ہوگا۔ اسلام کو اسلامیات کے مضمون تک قید نہیں کیا جائے گابلکہ معاشرتی اور طبیعیاتی علوم میں بہ الفاظِ دیگر ہرہرشعبۂ علم میں اسلام کے تصورِ علم (وحی الٰہی اور سنت کی مرکزیت ) کی روشنی میں اسلامی اقدار کو مکمل طور پر سمو کر یا integrate کرکے نصاب، درسی کتب اور طریق تدریس میں اختیار کرنا ہو گا۔ یہ کام ۷۰سال گزرنے کے باوجود انجام نہیں دیا جاسکا۔ جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کریں اور ہرفرد کو بلاامتیاز علم و تحقیق اور صلاحیت ِ کار کے زیور سے آراستہ کریں، اور ہرشعبۂ علم میں قائدانہ حیثیت حاصل کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو مدنظر رکھیں، نیز تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی کو مساوی اہمیت دیں۔ یہ ہماری اوّلین قومی ضرورت اور خود قائداعظم کے تصورِ علم اور تصورِ پاکستان کا بھی مطالبہ ہے۔
  • دوم :اپنے پیغام میں قائد نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات (Muslim Ideology ) کو معیشت اور معاشرتی ترقی میں مکمل طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ مُسلم آئیڈیالوجی کی اصطلاح خود استعمال کر کے قائد نے ان تمام ممکنہ گمراہیوں کا خاتمہ کر دیا جو تعلیم کو اقدار سے بے نیاز ( Value Free) اور معیشت کو محض ایک مادی سرگرمی سمجھنے کی شکل میں ہو سکتی ہیں ۔ قائد کے دونوں پیغامات، ایک قیام مملکت سے قبل اور ایک اس کے فوری بعد سےقائد کی فکری ہم آہنگی اور مقصد کے واضح شعور کا پتا چلتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی عقل ، اور مشاہدہ اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کر ے تو وہ قائد اور اپنے اُوپر ظلم کرتا ہے ۔
  • سوم : تعلیمی پالیسی میں آزادی اور خود انحصاری کو بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ نہ تو لارڈ میکالے کی غلامانہ سامراجیت کو مستحکم کرے اور نہ آج کی جدید مغربی درس گاہوں میں مروجہ نظام اور ذخیرہ علم کو حق اور صداقت سمجھتے ہوئے اس کی غلام ہو۔ ہم اس وقت بلکہ ۷۰سال سے دوسروں کے علم کے صارف (Consumer) رہے ہیں ۔ ہم نے اپنی اقدار اور نظام حیات پر مبنی علم کے پیدا کرنے کو جو ایک اجتہادی عمل ہے ، جان بوجھ کر پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ پاکستان میں آج بھی ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو نصاب اور کتب کی تشکیل قائد کے تصور کی بنیاد پر کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک جو مطالبوں کی سیاست اختیار کی گئی ، اس کی جگہ آگے بڑھ کر اس تعلیمی مواد اور ان تعلیمی سفارشات کو یک جا کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے، جو آخر کار عوامی اور معاشرتی دباؤ کی شکل میں قانون سازی کرنے والے افراد کو اپنی فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر سکے ۔ یہ ایک تعمیری عمل ہے اور تحریک اسلامی اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم و عمل اس میں قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تعلیمی حکمت عملی اور تعلیم سے وابستہ شعبوں میں تحقیق پر مبنی مواد کی فراہمی تحریک کی اوّلیات میں سر فہرست ہونی چاہیے ۔ یہ طویل المیعاد لیکن یقینی تبدیلی کی طرف ایک مثبت اقدام ہو گا۔ اس میں اور عمومی سیاسی جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
  • چہارم: ملک گیر پیمانے پر اہل علم کو چاہے وہ کتنے ہی نظریاتی اختلاف رکھتے ہوں، اس بات پر دعوت فکر دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوریا ، چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، اپنی قومی زبان میں تعلیم و تحقیق کر سکتے ہیں تو ہم اپنی قومی زبان میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ زبان کسی خطے کے افراد کی مقامی بولی کا نام نہیں ہے ، یہ اقدار حیات ، تصور زمان و مکان ، قومی تشخص اور قومی ورثے کی امین ہوتی ہے ۔ یہ افراد میں خود اعتمادی اور مستقبل کی تعمیر میں اینٹ اور گارے کا کام کرتی ہے۔ یہ ملک کی یک جہتی کا ذریعہ اور صو بائیت اور قبائلی عصبیت کو ختم کرتی ہے ۔ یہ اُمت مُسلمہ کو جسدِ واحد میں جوڑ دیتی ہے ۔ اس لیے تعلیمی حکمت عملی میں اس کی بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ اگر ہم نے اس  طرف توجہ نہ کی جو نوجوان نسل آج موبائل فون کے ذریعے اردو رسم الخط کی جگہ رومن میں پیغامات بھیجنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، اس نسل اور اس کے بعد کی نسل کے لیے غالب، شبلی، حالی، اقبال اور مودودی ہی نہیں اُردو کاتمام ادبی سرمایہ ناقابل فہم بن جائے گا اور اسے محض میوزیم کی زینت بنادیا جائے گا ۔ جن قوموں کا ماضی نہیں ہوتا ان کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا ۔ زبان مستقبل کی تعمیر و بقا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔

اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہمارے ملک کے دستور کی نہ صرف شق 2-A بلکہ آرٹیکل نمبر۱اور ۲ (جس میں ریاست کے مذہب کو متعین کر دیا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہو گا)، باب دوم میں ان انسانی حقوق کا  ذکر جو اسلام دیتا ہے ، آرٹیکل۲۹ تا ۴۰ میں ریاست کے راہنما اُصولوں کی شکل میں جو واضح ہدایات ہیں ، ان سب کا مکمل اظہار تعلیمی پالیسی میں ہونا ایک دستوری تقاضا ہے ۔ اس کے خلاف پالیسی بنانا دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے، انھیں کون پیدا کرے گا ؟ اگر تعلیم اس کا ذریعہ نہیں ہو گی اور قائد کے قول، یعنی ’ تعمیر کردار‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا تو کیا سو سال بعد بھی آرٹیکل۶۲ اور ۶۳پر عمل ہو سکتا ہے؟

 مختصر یہ کہ دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قائداعظم دونوں کی واضح ہدایات کو تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنا لیا جائے، تو ہمارے ہاں کے وہ تضادات جو بیک وقت تین یا چار قسم کے انسان پیدا کررہے ہیں، ان کی جگہ یکساں نظام تعلیم ملکی وحدت ، اسلامی تشخص، پاکستانی ثقافت اور ایک باہمت، غیور ، آزاد ذہن رکھنے والی ، خود انحصاری پر عمل پیرا نوجوان نسل پیدا کرے گا جو وہ کام کرسکتی ہے، جس کو ۷۰ سال اس کے بزرگوں نے نظر انداز کیا ۔