غمِ آرزو کا حسرتؔ ، سبب اور کیا بتائوں
میری ہمتوں کی پستی ، مرے شوق کی بلندی
۱- سیاست اور سیاست دان: ۲۰ویں صدی کے ۴۰ کے عشرے میں، جب برصغیر ہند کے ۱۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کی اکثریت نہایت جذباتی انداز میں برصغیر کی تقسیم اور خلافت ِ راشدہ کے نمونے کی ایک مسلم ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے نہایت جوش و خروش سے حصہ لے رہی تھی، بعض گوشوں سے یہ ضعیف آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں کہ یہ تحریک درست نہیں۔ ان میں بعض مذہبی طبقے بھی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت اس نصب العین کو پورا کرنے کی اہل نہیں۔ لیکن اکثریت نے ان کے تحفظات کو رَد کر دیا اور ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو برصغیر تقسیم ہوگیا۔ ’پاکستان‘ کے نام سے ایک ’اسلامی‘ (مسلم) ریاست وجود میں آگئی۔
لیکن اس تحریک کے قائدین کی اکثریت، اسلامی اصول یا سیاست و ریاست سے کس قدر واقفیت رکھتی تھی؟ ان قائدین کی اپنی ذاتی زندگی میں اسلامی ثقافت اور سماجی اقدار کی کیفیت کیا تھی؟ فکری طور پر وہ اسلام کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اصولوں سے کس قدرواقفیت رکھتے تھے؟ یہ سوالات قابلِ توجہ ہیں۔
۲- سرزمینِ بـے آئین : اس میں شک نہیں کہ اس نوزائیدہ مملکت کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا، لیکن آئین سازی کے لیے ایک چھوٹی سی کمیٹی ہی کافی تھی۔ میری یادداشت کے مطابق اس کمیٹی میں مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر محمدحمیداللہ اور بعض دوسرے لوگ شامل تھے۔۱ ڈاکٹر حمیداللہ اس کی کارکردگی سے مایوس ہوکر یورپ لوٹ گئے۔ آخر ’قراردادِ مقاصد‘ منظور ہوئی، جس میں پاکستان کو اسلام کی راہ پر ڈالنے کا عزم تھا (پروفیسر خورشیداحمد کی کتاب: پارلیمنٹ، دستو ر اور عدلیہ کا مطالعہ اس سلسلے میں نہایت مفید ہوگا)۔
دنیا کے دساتیر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دستور سازی کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا: مقنّنہ ایک ایوانی ہو یا دو ایوانی، صدارتی /پارلیمانی (وزیراعظم)، ایوان کی مدتِ انتخاب، حلقے، حقوق اور ذمہ داریاں ___ ان سب معاملات پر دنیا کے دساتیر سے رہ نمائی مل سکتی تھی، مگر اس دستور سازی کے لیے جماعت اسلامی اور بعض جماعتوں کو ایک مہم چلانی پڑی (’اپنا مقصد اپنی منزل، اسلامی دستور‘)۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ایک سال میں دستور مرتب کر کے نافذ کرلیا،۲ مگر ہم ۹سال تک بلادستور ۱۹۳۵ء کے برطانوی قانون کے تحت حکومت چلاتے رہے۔ پہلا دستور ۱۹۵۶ء، پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۶۲ء اور پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۷۳ء میں نیا دستور بنا اور نافذہوا۔
۳- نظریاتی انحراف : کہا جاتا ہے کہ ۲۰ویں صدی کی نصف دہائی کے قریب دنیا کے نقشے پر دو’نظریاتی ریاستیں‘ وجود میں آئیں۔۳ ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل۔ پاکستان پورے برصغیر ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کی خواہش اور جدوجہد سے وجود میں آیا تھا۔ لیکن قائد کا یہ فرمان تاریخ کا حصہ ہے کہ: ہندستان میں مقیم مسلمان اب ہندستان کے وفادار شہری بن کر رہیں ۔ یہ ہندستان کے مسلم کُش ہندو مسلم فسادات کے دوران کہا گیا تھا۔ دہلی میں دی گئی اس ’اذان‘ کا مقابلہ اسرائیل کی قیادت کی اس پالیسی سے کیجیے، جس کے مطابق دنیا میں کہیں بھی آباد یہودی، ہر وقت ریاست ِ اسرائیل کا شہری بن سکتا ہے۔ اس پر اسرائیل کی شہریت اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔۴
۴- غلامی کا آغاز : قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دنیا کی دو بڑی طاقتوں اشتراکی روس اور امریکا کی طرف سے ہند اور پاکستان کے سربراہوں کودوستانہ دوروں کی دعوت دی گئی۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کی دعوت کو قبول کیا اور وہاں کا خاصا طویل دورہ کیا۔ کئی معاہدے ہوئے اور اس طرح دوستی کی جگہ جو طوقِ غلامی، امداد (US Aid) کی شکل میں امریکا سے آکر پاکستان کی زینت بنا، اس کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی گئی۔ اس کے اثرات و شواہد بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ روزمرہ کی خبروں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے (ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکا کو حوالگی، اسامہ بن لادن کو پاکستان میں دراندازی کرکے ہلاک کر دینا، افغانستان کی بربادی، ڈرون حملوں کا تسلسل، ریمنڈ ڈیوس کی ’فاتحانہ‘ رہائی، پاکستان کی اعلیٰ قیادت پر اس کی طعن و تشنیع)۔ امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جو وظائف دیے جاتےہیں ان میں تعلیم سے فارغ اکثریت امریکا ہی کے مفاد میں کام کرتی نظر آتی ہے۔
۵- مذہبی قیادت : چوں کہ پاکستان کا قیام ایک اسلامی ریاست کے قیام کے وعدے پر کیا گیا تھا، اس لیے فطری طور پر یہاں اسلامی جماعتوں کے اثرواقتدار کو فروغ ہونا چاہیے تھا۔ اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور متحرک جماعت اسلامی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری مذہبی و سیاسی جماعتیں جو میدان میں آئیں وہ جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی سیاست (انتخابی سیاست) میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کراچی اور پنجاب کے بعض حلقے اس کے زیراثر آئے، یہاں تک کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں ’شوکت ِ اسلام‘ کے مظاہروں سے یہ گمان ہوا کہ یہ اب اقتدار کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے، مگر نتیجہ اس کے برعکس تھا۔ کارکنان پُراُمید تھے کہ اگر انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے تو ایک دن جماعت اسلامی ضرور اقتدار سنبھال کر معاشرے کی اسلامی تشکیل و تعمیر کا فریضہ انجام دے گی، مگر اس کے بعد حالات زیادہ ہی نامساعد ہوتے گئے۔ دوسری طرف جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان کبھی قابلِ ذکر اراکین پارلیمان میں نہ بھیج سکیں۔
مذہبی جماعتوں کے انتخابی نتائج سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی جڑوں میں اسلام کا کتنا اثر موجود ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مذہبی قیادتیں اپنے وژن میں کس قدر معاشرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔
۶- ثقافت : کسی قوم کی قدر کی پیمایش کا ایک طریقہ اس کی ثقافت، رسوم و رواج ، رہن سہن اور آدابِ زندگی کی جانچ پڑتال بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مسلمانوں میں امیر، غریب اور متوسط طبقے موجود تھے، لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران میں اس تفاوت میں اضافہ ہی نظر آیا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات، آرایش، لباس اور خوراک اور طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ لباس، مکانات اور سواریوں میں اور طرزِ زندگی میں تکلف، نمایش اور دکھاوا عروج پر ہیں۔ اسلامی مساوات اور سادگی جیسی قدریں، جو دینِ اسلام کا طرئہ امتیاز تھی، بڑی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبوں میں صرف ’شادی ہال‘ کے کرائے لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ کھانوں کا اسراف اور ضیاع ایک الگ مسئلہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علما اور اَئمہ کرام ، خود بھی سادگی کو اپنائیں اور اس کی مؤثر تلقین بھی کریں۔
اعلیٰ قیادت کس طرح خود کو نچلے معاشی طبقے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کرشمے دکھا سکتی ہے، اس کی ایک مثال مشرقِ بعید کی ایک چھوٹی سی ریاست ویت نام میں نظر آئی۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی/ اقتصادی قوت امریکا نے جب ویت نام پر حملہ کیا تو امریکا کے پاس تو جدید جنگی ٹکنالوجی تھی، جس سے ویت نام محروم تھا، مگر اس کے سربراہ ہوچی منہ ، جو ٹائر کی تراشی ہوئی چپل اور سفید پاجامے میں ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارتے تھے، امریکا کے آگے سر نگوں نہ ہوئے۔ جنگ ہوئی اور آخر امریکا کو اپنی تاریخ کی پہلی (اب تک کی آخری) شکست کھاکر ویت نام سے ذلّت کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔
۷- تعلیم : انگریزوں کے زیرتسلط برصغیر میں ابتدائی تعلیم (چوتھی جماعت) تقریباً مفت تھی۔ متوسط اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی نہایت سادگی سے ارزاں تعلیمی نظام رائج تھا۔ یہ کیفیت پاکستان کے بننے کے بعد بھی جاری رہی۔ لیکن رفتہ رفتہ حکومت، تعلیم کی ذمہ داری سے دست کش ہوتی نظر آئی اور نجی تعلیمی اداروں کا فروغ شروع ہوا۔ آج پاکستان میں تعلیم باقاعدہ نفع بخش اور نقدآور کاروبار بن چکی ہے۔ ابتدائی (پرائمری) اسکولوں میں بچوں کے بستے، فضول، بے کار، نہایت گراں اسٹیشنری اور کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کا اُٹھانا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بیش تر علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے (اسکول /کالج) تقریباً خالی یا زبوں حالی کا شکار ہیں۔ مؤثر نظامِ معائنہ نہ ہونے سے اساتذہ، سرکاری اداروں سے مشاہرے تو وصول کرتے ہیں، لیکن اپنے نجی تعلیمی اداروں یا ٹیوشن سنٹرز میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف ’انگلش میڈیم‘ اور دوسرے نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ ابتدائی جماعتوں کے بچوں کی فیس ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے۔ غریب کے لیے اچھی/معیاری تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں درسی کتابیں زیادہ تر اوکسفرڈ یا ایسے ہی دوسرے اداروں کی شائع کردہ استعمال ہوتی ہیں۔ ان سے ثقافت، زبان اور ذہنیت کی ساخت کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، کم ہی لوگوں کی اس پر نظر ہے۔
وزارتِ تعلیم اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے: ایک عرصے سے گریجویشن کی سطح کے تعلیمی نصاب میں ’اسلامیات‘ ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل تھا (جامعہ کراچی نے اس کے لیے پروفیسر خورشیداحمد سے ایک نہایت عمدہ کتاب اسلامی نظریۂ حیات تالیف کروائی تھی)۔ اب ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) جو اعلیٰ تعلیمی نصاب اور طریقِ تدریس کی نگرانی کا ذمہ دار ہے، اسلامیات کے اس ’کانٹے‘ کو تو نہیں نکال سکا، تاہم اس کی جگہ ’اسلامیات اور پاکستانیات‘ (Islamic & Pakistan Studies) کے عنوان سے ایک مضمون رکھ دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کی تاریخ تو ہے، مگر اسلام کا کہیں نام و نشان نہیں۔
نئے تعلیمی نظام کے ذریعے نئی نسل اسلامی اور روایتی اعلیٰ ثقافتی اقدار اور اپنی قومی زبان سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ اُردو صرف بولنے کی زبان رہ گئی ہے۔ صرف انگریزی کو علم کی زبان تصور کرلیا گیا ہے۔ پوری قوم اُردو کے رسم الخط اور حروف تک سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے۔ اُردو بھی اب رومن حروف میں لکھنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے (خصوصاً اشتہاروں اور مختصر اعلانات میں)۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنی زبان کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ چین، جاپان، کوریا، نیز یورپی ممالک نے اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی نئی نسلوں کو علوم و فنون کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ انگریزی بے شک ایک عالمی زبان ہے، اس سے شناسائی (بلکہ عبور) میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ اُردو ہی ہے جس کے ذریعے ہم ملک کے گوشے گوشے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں،اور اسی کے ذریعے کم محنت سے علوم کو وسیع حلقوں میں پھیلا سکتے ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) نے اس سلسلے میں جو کام کیے، ان کی نظیر بھی سودمند ہوگی۔ تمام عصری و سائنسی علوم، طب، انجینیرنگ کی اعلیٰ تعلیم اُردو ہی میں دی جاتی تھی،اور وہاں کے طلبہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا۔
۸- پس چہ باید کرد : پاکستان کی مذہبی جماعتوں، بالخصوص جماعت اسلامی نے اپنے جتنے وسائل، روپیا، صلاحیتیں، افرادی قوت اور وقت انتخابات کے ذریعے کامیابی میں صرف کیا، اگر وہ نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتیں تو شاید اس ملک کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔۵ انتخابی سیاست کے نتیجے میں برسرِاقتدار آجانے کے بعد بھی کیا ہوسکتا ہے، اس کی ایک حالیہ مثال مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا استیصال اور بغاوت کرکے جنرل سیسی کا برسرِاقتدار آنا ہے۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت کی تعلیم و تربیت ایک مختلف انداز میں ہو، تو ایسی کسی سازش کا کامیاب ہونا ممکن نہیں، جو ہمارے ملک میں بار بار کی گئی اور اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔
نفسیات کے تجربوں میں ’آموزش بہ سعی وخطا (Learning by Trial and Error) ایک دل چسپ تجربہ ہے۔ ایک چوہے کو ’بھو ل بھلیوں‘ (maze) میں چھوڑ دیتے ہیں، جس کے دوسرے سرے پر پنیر کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ چند مرتبہ غلطی کرکے وہ اندھے راستوں سے واقف ہوجاتا ہے، اُدھر نہیں جاتا اور پھر سیدھا (بغیر غلطی کیے) پنیر کے ٹکڑے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس حقیرجانور نے صحیح راستہ دریافت کرلیا ہے۔ ہمارے قائدین صحیح راستہ کب دریافت کریں گے؟
ضرورت ہے کہ اہلِ دانش سر جوڑ کر بیٹھیں، حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں، اور ایک نئے طریق /نئے لائحۂ عمل کو تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہوں۔ بہرحال، ہمیں حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال (مفکرِ پاکستان) کہتے ہیں کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیے۔
۱- غالباًمقالہ نگار کی مراد ’تعلیماتِ اسلامی بورڈ‘ سے ہے ، جو قراردادِ مقاصد کی منظوری ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کے بعد ’دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (بیسک پرنسپلز کمیٹی: BPS )کے تحت قائم کیا گیا تھا، جس کے سربراہ سیّد سلیمان ندوی تھے، جب کہ ارکان میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا محمد اکرم خان، مولانا ظفراحمد انصاری، مفتی جعفرحسین، پروفیسر عبدالخالق اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ شامل تھے۔
۲- بھارت کا دستور ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور ، اور۲۴جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذالعمل ہوا۔
۳- یہ بات اصولی طور پر درست نہیں ہے کہ ’اسرائیل نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا‘۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے ۱۹۴۴ء میں وضاحت فرمائی تھی:’’میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے دو ہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اس معنی میں، جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لا بسایاجائے اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنادیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘(ترجمان القرآن، جولائی-اکتوبر ۱۹۴۴ء)۔ اسرائیل کا کسی طرح بھی پاکستان کے قیام سے موازنہ نہیں بنتا، کیوں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل اور کسی نسلی عصبیت کے بغیر وجود میں آیا، جب کہ اسرائیل،مغربی سامراج کی دھونس، دھاندلی، قدیم فلسطینی باشندوں کی بے دخلی اور قتل و غارت کے بل پر، اور سب سے بڑھ کر یہودی نسل پرستی کے اصول پر وجود میں آیا۔
۴- قائداعظم نے دہلی میں نہیں، بلکہ کراچی میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مسلح افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہندستان میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں، میرا انھیں یہ مشورہ ہے کہ وہ مملکت کے ساتھ بلاجھجک وفاداری (unflinching loyalty)کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو دوبارہ منظم کریں اور صحیح قسم کی قیادت پیدا کریں، جو اس خطرناک زمانے میں ان کی ٹھیک طور پر رہنمائی کرسکے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندستان کی حکومت ان لوگوں کی غیردانش مندانہ کارروائیوں کے باعث اپنا نام بدنام نہیں ہونے دے گی، جو ظالمانہ اور غیرانسانی طریقوں سے مسلمانوں کے انخلا یا انھیں فنا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر اقلیتوںکے مسئلے کا حتمی حل عوامی سطح پر تبادلہ آبادی کے ذریعے ہی ہونا ہے، تو پھر اس کا تصفیہ حکومتوں کی سطح پر ہونا چاہیے، اس معاملے کو خون خوار عناصر پر نہیں چھوڑنا چاہیے‘‘ (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam، جلد۴، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۲۸)۔ اس خطبے میں قائداعظم نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ ’’تم مت پاکستان آئو‘‘۔ یاد رہے، کم و بیش ۱۹۶۵ء تک بھارت سے مسلمان نقل مکانی کر کے پاکستان آتے رہے اور انھیں بجاطورپر شہریت دی جاتی رہی۔ پھر اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہےکہ ہرملک کے شہری کو، جب تک وہ متعلقہ وطن کا شہری ہے یا اس نے متعلقہ ملک کا شہری بننا قبول کرلیا ہے تو اسے اسی ملک کا وفادار رہنا چاہیے، جس طرح اہلِ پاکستان چاہتے ہیں، کہ پاکستانی ہندو برادری، پاکستان کی وفادار رہے۔
۵- جماعت اسلامی نے بہ حیثیت جماعت تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ذمہ داری اس لیے نہیں لی کہ وہ زیرتعلیم طلبہ اور ان کے مستقبل کو پاکستان کی مخصوص صورتِ حال میں سیاسی وابستگی کے رنگ سے متاثر نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم، اس کے حلقۂ اثر میں بہت سے افراد نے نجی سطح پر تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، جن کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں ہے۔