حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اُٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مر مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج (الفتح ۴۸:۱۰) اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸)
اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔
دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___ اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے ؎
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:
’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔
اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے، حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا ؎
دست از طلب ندارم تاکار من برآید
یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید
[میں نے کام میں ہاتھ اس لیے نہیں ڈالا کہ میری غرض پوری ہو بلکہ یہ کام اس عزم کے ساتھ کر رہا ہوں کہ مَیں محبوب تک پہنچ جائوں یا اسی کام میں اپنی جان ہار دوں۔]
عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___ اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!
اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___
یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔
وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:
اے قریش! میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے ___ پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن ہشام ، ص ۴۵۱)
قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔
دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___ وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___ یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔
اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔
مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ:
۱- دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔
۲- اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳- قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔
۴- محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___
دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___ لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟
حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا گیا۔ یہ تھی نبیِؐ برحق کی حکمت عملی ___ !
باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔ وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___ ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔
ابھی صلح نامے پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___ یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:
’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔
یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔
ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟
ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘
ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :
عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟
حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔
عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟
فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔
عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟
فرمایا : میںخدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔
عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟
فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)
معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیںبلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___ اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___ ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا ؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔
یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___ توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___ اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔
ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامے پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!
جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !
مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔
پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَئُوْھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵) اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔
حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلدبازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___ وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔
مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:
وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) زمین اور آسمان کے سب لشکر اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔
پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___ یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔
ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ ط وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے)تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔
سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___ اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے، اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے ع
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔
اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___ اور نادانو! تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:
فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___ اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔
خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:
وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳)
یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔
اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔
یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ!کیا یہی فتح ہے ‘‘۔
ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)
یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!
اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔
بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___ ایک نہیں، متعدد فتوحات کا !
کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔
مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا ___ اور یہ چھٹی فتح تھی!
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
o
میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتحِ ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟
اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں___ طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___ افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔
منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___ خوش ہو رہے تھے___ چلو قصہ ختم ہوا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔ فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے اُنھیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائو گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔
یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔
o
میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوکر رہے گا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔
حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ان شاء اللہ اس سلسلے کی ایک کامیابی ہے ___ لیکن سب سے بڑی اور اصولی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !
غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
تصحیح: ’جدید فرعون کی جیل میں‘ (جولائی ۲۰۱۷ء) محمد حامد ابوالنصر کی تحریر کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا تھا۔ ان کا نام درست شائع نہ ہوسکا جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔ ادارہ