پاکستانی قوم نے گذشتہ ۷۰ سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس بات کے تعین کے لیے خودپاکستان کی اہمیت کا تعین ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم جان ہی نہیں سکتے کہ ہم نے اپنے سات عشروں کے سفر کے دوران کیا کیا ہے؟
انسانی تاریخ میں تین حوالوں سے پاکستان کی اہمیت غیرمعمولی ہے:
پاکستان کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ عصر حاضر میں پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے، جس کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا۔ بعض لوگ اس سلسلے میں اسرائیل کا نام بھی لیتے ہیں، لیکن یہ ایک غلط بحث ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پاکستان حقیقی معنو ں میں ایک مذہبی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی بنیاد یہودیوں کی بدنام زمانہ نسل پرستی پر رکھی ہوئی ہے۔ عصر حاضر میں قوموں کے آئین کو قوموں کے تشخص کے تعین کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ریاست ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا موازنہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان ایک عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل عالمی طاقتوں کی ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اول وآخر حق ہے اور اسرائیل اول و آخر باطل ۔
پاکستان کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ایک بہت بڑے تہذیبی و تاریخی مطالبے کا اظہار ہے۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ جو پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا، ۲۰ ویں صدی میں برصغیر کی ملت اسلامیہ کو پیش آنے والی صورتِ حال کا حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دو قومی نظریہ ایک بہت پرانی چیز ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے یہ کہا ہے کہ پاکستان تو اس دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کے گہرے شعور کے بغیر کہی ہی نہیں جاسکتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کش مکش ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں مسلمان سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے مغلوب نہیں تھے غالب تھے، لیکن مجدد الف ثانی ؒکے نزدیک سیاسی اور معاشی غلبے کی اہمیت نہیں تھی۔ ان کے نزدیک جو چیز اہم تھی وہ مسلمانوں کا جداگانہ مذہبی و تہذیبی تشخص تھا۔ اور مجدد الف ثانی کو اس تشخص کے تحفظ کی اتنی فکر تھی کہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی غلبے کے زمانے میں جہانگیر سے کہا کہ تم اکبر کی ان پالیسیوں کو ترک کرو جو مسلمانوں کے مذہبی و تہذیبی تشخص کو مجروح کررہی ہیں۔ غور کیا جائے تو مجدد الف ثانیؒ دراصل دو قومی نظریے پر ہی اصرار کررہے تھے۔ جہانگیر نے ابتدا میں مجدد الف ثانیؒ کی مزاحمت کی اور انھیں پابند سلاسل کیا مگر بالآخر اسے مجدد الف ثانی کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے ان کے مطالبے کے مطابق دربار میں سجدۂ تعظیم بھی منسوخ کیا اور گائے کے ذبیحے کی بھی اجازت دی، بلکہ اس نے محل میں گائیں ذبح کراکے ان کے گوشت سے کباب بنوائے۔
اس اعتبارسے دیکھا جائے تو برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی مجدد الف ثانی تھے لیکن دو قومی نظریہ صرف مجدد الف ثانی اور جہانگیر کی کش مکش میں ظاہر ہوکر نہیں رہ گیا۔اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کش مکش بھی اپنی اصل میں دو قومی نظریے کی کش مکش تھی۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ قرآن مجید اور گیتا کی تعلیمات کو آمیز کرکے ’ایک قومی‘ نظریہ ایجاد کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اکبر نے دین الٰہی کی صورت میں جو تجربہ نہایت بھونڈے انداز میں کیا تھا داراشکوہ وہی تجربہ انتہائی دانش ورانہ اور علمی سطح پر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اورنگ زیب کو اس ’خطرے‘ کا اندازہ تھا۔ اس لیے کہ وہ دو قومی نظریے کے معنی کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کش مکش میں اکابر علما اور صوفیہ اورنگ زیب کے ساتھ تھے۔
یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سرسیّداحمدخان کسی زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے، لیکن ہندی اُردو تنازعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا اور کہا کہ اگر مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انھیں اپنا پلیٹ فارم تخلیق کرنا چاہیے۔
اقبال بھی اپنے ابتدائی دو رمیں قوم پرست اور وطن پرست تھے اور انھیں خاکِ وطن کا ہرذرہ ’دیوتا‘ نظر آتا تھا اور وہ کہہ رہے تھے ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندُستاں ہمارا
ہم بُلبلیں ہیں اس کی ، یہ گُلستاں ہمارا
مگر اقبال کی فکر میں بھی تغیر رونما ہوا اور چند ہی برسوں میں وہ ؎
چین و عرب ہمارا ، ہندُستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
کہتے نظر آئے۔ محمد علی جناح کا معاملہ بھی عیاں ہے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انھیں ہندو مسلم اتحاد کی سب سے بڑی علامت قرار دیتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت ایسی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح ؒقائداعظم بن کر ابھرے اور انھوں نے دو قومی نظریے کی وضاحت پر جتنا زورِ بیان صرف کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ۱۹۳۰ء یا ۱۹۴۰ء میں سامنے آنے والی حقیقت نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
پاکستان کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان عصر حاضر کا سب سے بڑا خواب ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے چنانچہ انسان کی تخلیقی قوت اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے ذریعے ہمیں ریاست مدینہ کے تجربے کو نیا قالب مہیا کرنا تھا۔ ایسا قالب جس کی روح قدیم اور جس کے اظہار یااسالیب کو نیا ہونا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ پاکستان کے جیسی کوئی ریاست تھی‘ نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مذہب کی بنیاد پر الگ ریاست کے مطالبے کا حق ادا کرسکے، نہ ہم نے اپنی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت سے کوئی کام لیا، اور نہ ہم پاکستان ہی کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی صورت پیدا کرسکے۔
بلاشبہہ مذہبی جماعتوں اور علما کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان ’اسلامی جمہوریہ‘ تو بن گیا مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ اسلام کو اس قیدخانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ حکومت و ریاست کے بندوبست پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، اور سود جنرل پرویز مشرف ہی کو نہیں میاں نواز شریف کو بھی اتنا عزیز ہے کہ انھوں نے اس کے خاتمے کے لیے دکھاوے کے لیے بھی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ہمارا نظام تعلیم صرف اتنا اسلامی ہے کہ اس میں اسلامیات ایک مضمون کے طور پر شامل ہے۔ ہمارے حکمران ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی آئین کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک عہد جدید میں منتخب نمایندوں کا امین و صادق ہونا ممکن ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو مذاق اڑانے والے دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق نہیں اڑاتے‘ اسلام کے تصور صداقت و امانت کا مذاق اڑاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ۱۹۷۱ء میں ہم پاکستان کی جغرافیائی وحدت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے اور ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے بھارت کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ اس نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ قوم کو دھوکے میں مبتلا کرنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان بیرونی طاقتوں کی سازش اور بھارت کی مداخلت کے باعث الگ ہوا لیکن اتنے بڑے سانحات بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ داخلی عوامل یا داخلی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ہماری سب سے بڑی داخلی کمزوری یہ تھی کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک پاکستان کی تخلیق کے محرک اسلام کو اجتماعی زندگی میں مؤثر یا Functional بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ اگر ہم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک کچھ اور نہیں تو اسلام کے تصور عدل ہی پر عمل کررہے ہوتے تو بیرونی طاقتیں اور بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
پاکستان کی گذشتہ ۷۰ سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ایٹم بم کی تخلیق ہے۔ ایٹم بم کی تخلیق پاکستان اور پاکستانی قوم کے ’امکانات‘ کو سمجھنے کے سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے جب ایٹم بم بنانے کا آغاز کیا تو اس وقت وطن عزیز میں بنیادی سائنسز کی تعلیم کا بھی کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں تھا۔ ہمارے پاس ’ماہرین‘ اور ’مالی وسائل‘ دونوں کی کمی تھی مگر اس کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنا کر دکھادیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اگر ہم ایک ہدف طے کرلیں اور حکمران طبقہ اس ہدف کے حصول کے سلسلے میں دس پندرہ سال تک پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھ لے تو بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔
پاکستانی قوم تمام تر مخدوش معاشی حالات کے باوجود ہر سال ۳۰۰؍ ارب روپے سے زیادہ کی خیرات کرتی ہے اور ہم اس حوالے سے دنیا کی تین اہم ترین قوموں میں سے ایک ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قوم میں جذبۂ خیر اور جذبۂ تعمیر زندہ ہے جسے مہمیز دے کر قوم سے مزید بڑے بڑے کام کرائے جاسکتے ہیں۔
ہماری قومی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر پانچ سات سال کے بعد ایک فوجی آمر ملک و قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اس آمر کو سیاست دانوں کی حماقتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے مگر پاکستانی قوم بالآخر آمروں کی مزاحمت کرتی ہے۔ چنانچہ قوم نے جنرل ایوب خان کی مزاحمت کی، جنرل محمد ضیاء الحق کی مزاحمت کی اور جنرل پرویز مشرف کی مزاحمت کی۔اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی آمر آٹھ دس سال سے زیادہ ٹک نہیں پایا۔ ورنہ عرب ممالک میں کرنل قذافی ۴۰سال سے قوم پر سوار تھے۔ مصر کا صدر حسنی مبارک ۳۰سال تک مصر پر قابض رہا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم میں جذبۂ حریت کافی مقدار میں موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس جذبٔہ حریت سے بھی ’نئی دنیا کی تعمیر‘ میں بڑی مدد لی جاسکتی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کی بیداری اور تعمیر میں ’تصور دشمن‘ کا بھی ایک کردار ہے۔ اتفاق سے ہمیں بھارت کی صورت میں ایک بڑا اور کم ظرف دشمن فراہم ہے۔ لیکن ہم نے اس دشمن کے تصور سے کوئی خاص ’کام‘ نہیں لیا۔ غور کیا جائے تو اس دشمن کا تصور ہمیں زیادہ نظریاتی بھی بناسکتا ہے اور زیادہ بیدار بھی کرسکتا ہے۔ زیادہ متحرک بھی کرسکتا ہے اور مادی معنوں میں زیادہ ترقی یافتہ بھی کرسکتا ہے___مگر اس کام کے لیے ’قیادت‘ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظریے نے پاکستان کی تخلیق کی ہے، اس نظریے سے پاکستانی قوم کا ’جذباتی تعلق‘ ختم نہیں ہوا۔ آخر ایک قوم کی حیثیت سے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کے جونظریہ ہمیں پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرکے دے سکتا ہے‘ وہ نظریہ پاکستان کو علاقائی نہیں عالمی طاقت بھی بناسکتا ہے۔ لیکن اس کی دوشرائط ہیں: ایک یہ کہ نظریے کو قومی زندگی میں حقیقی معنوں میں مؤثر یا Functional بنایا جائے۔ تاہم، اس کام کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس میں دو فضیلتیں موجود ہوں۔ ایک تقویٰ کی فضیلت اور دوسری علم کی فضیلت ۔ تاریخ میں مسلمانوں کو جب بھی غلبہ ملا ہے انھی دوفضیلتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ تقویٰ اور علم میں کمال کے بغیر پاکستان کیا پوری امت مسلمہ کا کوئی مستقبل نہیں۔