شاہ نواز فاروقی


ایک عرصے سے پاکستان میں مختلف درجات میں، حکومتی سطح اور غیرحکومتی سطح پر اور ابلاغی اداروں پر، سیکولر جارحیت اور لبرل فسطائیت کے نقوش نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ۱۴جون ۲۰۲۰ء کو، پنجاب کے گورنر نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا کہ ’’ڈگری کے حصول کے لیے، طالب علم کوترجمے کےساتھ قرآن پڑھ کرسنانا ہوگا‘‘۔ اس اعلان کا قوم نے خیرمقدم کیا، لیکن ردعمل کے طورپر اخبارات میں اس اعلان کی مخالفت پرمبنی کالم تحریر کیےگئے۔ اس مناسبت سے دو تحریریں پیش کی جارہی ہیں۔ (ادارہ)

   اسلام پر براہِ راست حملے: دستور اور معاشرہ

مفتی منیب الرحمٰن

ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے مسلمانوں میں دین اور دینی شعائر کے بارے میں بجاطور پر حسّاسیت زیادہ تھی۔ اپنی تمام ترشخصی اور عملی کوتاہیوں کے باوجود دین اوردینی مقدّسات کی بے حُرمتی برداشت نہیں کرتے تھے۔فوراً توانا ردِعمل آتا اور ایسی مذموم حرکات شروع ہی میں دم توڑ دیتیں۔ مُلحدین اور دین بیزار طبقات ہردور میں رہے ہیں۔ ماضی میں جب وہ دین کے بارے میں بے زاری کا اظہارکرتے تو کسی ’مولوی‘ کو نشانہ بناتے، کبھی مسجد اور مدرسے کو ہدفِ تنقید بناتے، الغرض براہِ راست نشانہ بنانے کی جسارت نہیں کرپاتے تھے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں وجود میں آئی ہیں،قرآن، رسولؐ، اسلام اور مقدّساتِ دین پر براہِ راست حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ اگر حسّاس اداروں سے وابستہ شخصیات کے بارے سوشل میڈیا میں کوئی نازیبا بات کرے تو اُسے تلاش کرکے بھرپور گوشمالی کی جاتی ہے۔ لیکن یوں نظر آتا ہے کہ اب وطن عزیز کے ریاستی و حکومتی نظم میں دینی مقدّسات کا دفاع اور تحفظ شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اشارے کنایے میں شراب کی ترغیب و تشویق اخباروں کے ادارتی صفحات میں آئے دن دی جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حلال و حرام اور دینی و سماجی اخلاقیات کی مناسبت سے اخباروں کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے بے زاری کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا: ’’قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھے بغیریونی ورسٹیوں سے ڈگری نہیں ملے گی‘‘۔ حالانکہ تاحال یہ بات محض ایک اعلان ہے، اس کے پیچھے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہے۔ لیکن اُردو اور انگریزی اخبارات کے بعض کالم نگاروں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ’’کیا یہ لوگ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں؟‘‘

 اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے تو دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ میں لکھا ہے: ’’اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہوگا‘‘۔ آرٹیکل ۲-اے میں ہے: ’’قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قراردیا جاتا ہے اور وہ بِحَسْبِہٖ  مؤثر ہوں گے‘‘۔ قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے: ’’چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کُل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اُس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنےکا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔

پھر دستورِ پاکستان میں یہ بھی لکھا ہے: ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اوراجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے تقاضوںکے مطابق بسر کرسکیں، جیساکہ قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘‘۔

دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۳۱ کے تحت لکھا ہے:

۱- ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اورانھیں سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت یہ کوشش کرے گی:

(الف) قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، زکوٰۃ و عُشر، اوقاف اورمساجد کی باقاعدہ تنظیم کرنا‘‘۔

اس آرٹیکل میں قرآن و سنت کی تعلیمات، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی اور سہولتیں فراہم کرنے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جب کہ ہمارے سیکولر، لبرل اوردین بے زار دانش وروں کو قرآن کا ترجمہ پڑھانے کی بات اس طرح کھٹکی کہ جیسے قیامت نازل ہوگئی ہو۔

دستور کے آرٹیکل ۲۰۳(الف) میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کی تشکیل اور اس کےفرائض و اختیارات کے ذکر میں یہ درج ہے: ’’اس باب کے احکام دستور کے دیگر احکام پر غالب ہوں گے‘‘۔ یعنی اس امرکی تشریح کہ ملک میں پہلے سے نافذ العمل کوئی قانون یا نیا قانون جو منظوری کے مراحل میں ہے، آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ یہ طے کرنے کا اختیار ’وفاقی شرعی عدالت‘ کے پاس ہے اور ان فرائض کی ادایگی میں دستور کی کوئی دفعہ یا قانون، اس کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔

آرٹیکل ۲۲۷ کا عنوان ہے: ’قرآن و سنت کے بارے میں احکام‘ اور درج ہے: ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔

دستورِ پاکستان کے اس آرٹیکل میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں: (الف) گذشتہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنا (ب) تمام نئے قوانین اسلام کے مطابق بنانا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل قرآن و سنت کو پڑھے اور جانے بغیر تکمیل پاسکتا ہے؟ جب کہ دستور کی رُو سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہونی ہیں اور پارلیمنٹ کو بحث کے بعد ان کی منظوری دینی ہے۔ لیکن اب ہمارے ’آزاد خیال‘ دانش وروں کے نزدیک ریاست و حکومت کے اُمور اور نظامِ تعلیم میں قرآن کے ترجمے کی بات کرنا بھی قابلِ گردن زدنی اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، بلکہ قائداعظم کے پاکستان کی روح کو سلب کرنے کے ہم معنی ہے۔

گذشتہ صدی کے وسط سے ، اس کے اختتام تک سیاست اور سیاسی جماعتوں پر کسی حد تک نظریات کی ’تہمت‘ لگتی تھی۔ اُس دور کے عالمی سیاسی ماحول اور دو سوپر پاورز کی کش مکش کے تناظر میں رائٹسٹ اور لیفٹسٹ، یعنی دائیں بازو، بائیں بازو اور اسلام پسند کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں۔ کسی حد تک لوگ سیاسی نظریات کو جانتے بھی تھے اور نظریاتی وابستگیاں بھی رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ سب باتیں قصۂ ماضی بن گئی ہیں۔ اب سیاست صرف مفاداتی، گروہی اور شخصیت پرستی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاسی ’مزارعین‘ کو اپنے لیڈروں کی ناموس کے دفاع سے فرصت ملے تو دین کے دفاع کے لیے وہ وقت نکالیں۔ اس لیے اُن پر نظریاتی حساسیت کی ’تہمت‘ لگانا خود کو شرمسار کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن جب کوئی دستوری اساس، یعنی اسلام اورقرآن و سنت پرحملہ کرے تو دستورِ پاکستان کی رُو سے وفاقی و صوبائی کابینہ، پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ،سول اور مسلح اداروں کی اعلیٰ قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے آگے سدِراہ بنیں، کیوںکہ ان سب نے دستور سے وفاداری کا حلف اُٹھا رکھاہے۔

مگر یہی دکھائی دیتا ہے کہ دین اور دینی شعائر کے تحفظ کے فرض کی ادایگی کے لیے نہ وقت ہے اور نہ اس عہد کی کوئی اہمیت۔ ان سب کے سامنے اسلام کا جو حشر ہورہا ہے، کوئی دشمنِ اسلام بھی شاید ہی کرسکے۔ اس صورتِ حال کا مرثیہ ان الفاظ میں پڑھیے:

میں اگر سوختہ ساماں ہوں، تو یہ رُوزِ سیاہ

خود دکھایا ہے ، مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

یعنی اسلام کو اگر زبان عطا کی جائے تو وہ برملا یہ فریاد کرے گا: آج جو ناکامیاں میرے کھاتے میں ہیں، میرے وقار و افتخار کا سارااثاثہ جو جل کر راکھ ہوچکا، اس کا گلہ مجھے کسی دشمن سے نہیں ہے۔ یہ انجام میرے گھر کے چراغاں نے مجھے دکھایا ہے۔ میرے ماننے والوں نے ’گھرپھونک، تماشا دیکھ‘ کا یہ منظر خود تخلیق کیا ہے۔ اس پر کسی اور کو الزام دینے کے بجاے انھیں خود کو ملامت کرنا چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

یہی حال ہماری صحافت کاہے ۔ کبھی اس پر نظریے کی چھاپ تھی، مگر اب نظریے سے اس کا دامن ’صاف‘ ہے۔ کسی زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے ایک بڑے اخبار کے بارے میں کہا تھا: ’’وہ تو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے‘‘۔ مراد یہ کہ اُسے کسی نظریے سے کچھ بھی غرض نہیں ہے، ہرطرح کا مال اپنے شوروم میں سجارکھا ہے۔ گاہک آئےاور اپنی پسند کا مال اُٹھا لے۔ اسی طرح ہمارےہاں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی بہار تو آگئی ہے، لیکن نظریے سے عاری ہے۔ بس اتنا ہے کہ طاقت کے جس مرکز سے گرم ہوا آتی ہے، اس کے بارے میں یہ محتاط رہتے ہیں، باقی جس کے ساتھ جو کھلواڑ چاہے کریں، اور نان ایشو کو ہمالہ بناکر رونقیں لگائیں۔

یوں لگتا ہے کہ مذہبی،سیاسی ، سماجی، صحافتی، ادبی تنظیموں کے نزدیک قرآن و سنت کی ناموس کے تحفظ کا مسئلہ ثانوی ترجیح کے درجے میں چلا گیا ہے۔ آج تعلیم کو سیکولرائز کرنے کے لیے بھرپور کوششیں اور فیصلے کیے جارہے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی قابلِ ذکر علمی، احتجاجی یا سیاسی کاوش دکھائی نہیں دیتی!

   قرآن کی تعلیم اورسیکولر عناصر

شاہ نواز فاروقی

پاکستان کے سیکولر عناصر کا اسلام پر حملہ کرنے کو جی چاہ رہا ہوتا ہے، تو وہ اسلام پر براہِ راست حملے کی جرأت نہیں کرتے، بلکہ وہ علما، مولویوں، ملاؤں اور امریکی و بھارتی فوجیوں سے برسرِپیکار سرفروشوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی کچھ پرانی ہوچکی ہے۔ اب تو پاکستان میں سیکولر اور لبرل لکھنے والوں کی جرأت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ براہِ راست اسلام کو نشانہ بنانے کی ہمت کر رہے ہیں۔ اس سنگین حملے کا پس منظر یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے بطور چانسلر، پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں  قرآنِ مجید کو ترجمے سے پڑھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔ قرآن کو پنجاب کی یونی ورسٹیوں کے تعلیمی پروگرام کا لازمی حصہ بنانے کا عمل تین سیکولر کالم نگاروں کو اتنا بُرا لگا ہے کہ انھوں نے اس فیصلے پر اپنے اپنے انداز سے بھرپور وار کیا ہے۔

روزنامہ دنیا اور ’دنیا ٹیلی ویژن‘ سےوابستہ ایاز امیر کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:

’’شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ قائد اعظم نے بارایٹ لا ’لنکنز اِن ‘(برطانیہ) سے کیا۔ اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکر مسلمانانِ ہند اور نہ معمارِ پاکستان ہی پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں.... دونوں کی خوش قسمتی ہی سمجھی جانی چاہیے کہ وہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے عہد میں طالب علم نہ تھے۔ ورنہ ممکن ہے یوں کرنا پڑتا۔ شاعر مشرق کو تو شاید مشکل نہ پیش آتی، لیکن قائد اعظم، جن کی ساری تعلیم انگریزی میں تھی، کو تھوڑی بہت دِقّت ضرور ہوتی۔

’’قائد اعظم کے بغیر برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام ناممکن ہوتا، لیکن قائد اعظم نے اپنی درخشاں زندگی میں [ایسے] شوشوں کا سہارا کبھی نہ لیا.... اُن کی تمام تقاریر چھان ڈالیے، کوئی فضول کا نعرہ نہیں ملے گا۔ لیکن اُن کی وجہ سے بننے والے ملک کی جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے، اُس کی تو زندگی ہی فقط نعروں اور شعبدے بازی پہ مبنی ہے۔جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے، وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی، جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کرسکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے گا کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے، لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھے سات یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں [کے] اجلاس [میں] فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونی ورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی، جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے‘‘(روزنامہ دنیا،۲۰ جون ۲۰۲۰ء)۔کالم نگارنے قرآن کی تعلیم کا جس طرح خاکہ اُڑایا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

اسی طرح ’جنگ‘ اور ’جیو‘ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز کے کالم نویس غازی صلاح الدین صاحب نے اپنے کالم (۲۱ جون ۲۰۲۰ء) میں قرآن کی تعلیم کا خاکہ اُڑاتے ہوئے لکھا:

یقین کریں یا نہ کریں پنجاب کے گورنر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کو اُردو ترجمے کے ساتھ پڑھنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس کے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔

پھر روزنامہ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اور اب انسانی حقوق کی تنظیموں میں سرگرمِ کار  آئی اے رحمان صاحب نے انگریزی روزنامہ ڈان میں قرآن کی تعلیم پر حملے کے لیے جو کالم لکھا، اس کا متن تو رہا ایک طرف،خود عنوان ہی توہین آمیز ہے: Creeping Religiousity یعنی ’رینگتی ہوئی مذہبیت‘۔ موصوف نے لکھا:’’یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ضیاء الحق اور اس کی جگہ لینے والوں نے چالیس سال تک معاشرے میں اپنی طرز کا اسلام مسلط کرنے کے بعد ایک قانون بناڈالا ہے، جس کے تحت نوجوانوں کو قرآن پڑھنے پر مائل کیا جائے گا۔ اسلام ایک رضا کارانہ مذہب ہے۔ پنجاب کی حکومت کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ ان طلبہ کو سزا دی جائے گی جو قرآن نہیں پڑھیں گے۔ علما خود اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا پنجاب حکومت کا یہ اقدام ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘ کے مذہبی اصول کے مطابق ہے؟‘‘ (ڈان، کراچی، ۲۵جون ۲۰۰۲ء)

اسی طرح پرویز ہود بھائی نےروزنامہ ڈان  (۱۹جولائی ۲۰۲۰ء) میں یہ سنا دیا ہے کہ ’’ڈگری حاصل کرنے کے لیے قرآن سنانے کی پابندی تو انتہاپسند ضیاء الحق نے بھی نہیں لگائی تھی‘‘۔

ایازامیر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم جیسے جدید تعلیم یافتہ افراد کا قرآن یا اس کے علم سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ’’اقبال تو شاید قرآن پڑھ بھی لیتے مگر قائد اعظم کو تھوڑی بہت دقّت ضرور ہوتی‘‘۔ اطلاعاً عرض ہے کہ کالم نگار نے اقبال اور قائد اعظم کا جو تصور اپنے ذہن میں باندھا ہے، وہ ان کے ذہن کی پیداوار تو ہوسکتی ہے، مگرحقیقی زندگی میں ایسا نہیں تھا۔ دیکھیے، اقبال کو قرآن سے عشق تھا اور ان کی شاعری قرآن کی تعلیمات میں ڈوبی ہوئی شاعری ہے:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اُسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم

جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

علّامہ محمد اقبال کے یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک ’’مسلمانوں کا عروج قرآن کو اختیار کرنے کی وجہ سے تھا اور مسلمانوں کا زوال قرآن کو ترک کردینے کی وجہ سے ہے‘‘۔ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تمھیں جدتِ کردار درکار ہے، تو قرآن میں ڈوب کر ہی یہ متاع گراں مایہ ہاتھ آسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس اقبال کو قرآن سے اتنی محبت ہے وہ قرآن کو نہیں پڑھتا ہوگا؟

اقبال خود کو مولانا روم کا مرید کہتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’مولانا علم کا ایک سمندر ہیں اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ‘‘۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ مولانا روم کی شاعری کو فارسی میں قرآن کی تعلیمات کا مظہر کہا گیا ہے۔ جنھوں نے اقبال کی شاعری کو سرسری طور پر پڑھا ہے انھیں معلوم ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کی لغت مذہبی یا قرآنی ہے۔ ان حقائق کے باوجود یہ صاحب ’تاثر‘ دینا چاہتے ہیں کہ اقبال کی ساری دل چسپی جدید مغربی تعلیم سے تھی، قرآن سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ہرپڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ زندگی کے آخری زمانے میں اقبال کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور جب بھی انھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ رہنمائی کے لیے قرآن اُٹھالیتے تھے۔

روزنامہ دنیا کے کالم نگار نے اقبال کو تو کچھ نہ کچھ ’مسلمان‘ مان بھی لیا، مگر قائد اعظم کو تو انھوں نے تقریباً ’اس کے برعکس ‘ بنا کر کھڑا کردیا کہ ایک ایسا آدمی، جس کا قرآن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خمیر، ناقص معلومات، جہالت، اسلام دشمنی اور انھی چیزوں پر فخر سے اُٹھا ہے۔ چنانچہ قائد اعظم کے سلسلے میں ایاز صاحب لاعلمی اور جہالت کا شکار ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن میں سیکولر شیاطین سے قائد اعظم کے بارے میں سبق لیا ہوگا کہ وہ قرآن نہیں پڑھتے تھے، حالاں کہ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ وہ تواتر سے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا کرتے تھے۔

قرآن کے ساتھ قائداعظم کے گہرے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ہم مذہبی اسکالروں کی سند بھی لاسکتے ہیں، مگر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں برطانوی نژاد محقق خاتون سلینا کریم سے رجوع کیا جائے، جنھوں نے قائد اعظم پر ایک ضخیم کتابSecular Jinnah And Pakistan: What The Nation Doesn’t Know لکھی ہوئی ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے ایک پورے باب کا عنوان ہے: The Quran and Jinnah’s Speeches، یعنی قرآن اور جناح کی تقاریر۔ اس باب میں سلینا کریم صاحبہ نے سات موضوعات پر قائد اعظم کی تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں اور پھر وہ قرآنی آیات درج کی ہیں، جن سے قائد اعظم کے سات بیانات برآمد ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے: Secular Jinnah and Pakistan (ص ۲۳۵  تا ص ۲۵۲ )۔ اس باب کے اختتام پر سلینا کریم اس نتیجے پہ پہنچتی ہیں:

]ترجمہ]یہ مثالیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جناح کس پُرجوش طریقے سے قرآنی اصولوں کی لفظی اور معنوی اعتبار سے پاس داری کرتے تھے۔ وہ خاص طور پر قرآن کے اصول توحید کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔

مسٹر ایاز نے لکھا ہے کہ مغرب کی جن یونی ورسٹیوں سے اقبال اور قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی، ان میں اگر کسی طالب علم کو انجیل کی آیات پڑھنے کے لیے کہا جاتا تو وہاں قہقہہ بلند ہوتا۔ مغرب کے بے خدا، لامذہب، رسالت اور وحی بیزار معاشرے میں ایسا ممکن ہے، لیکن کیا پاکستانی معاشرہ بھی خدا کا انکار کرتے ہوئے، اس کے تذکرے کے لیے استہزا کا راستہ اپناچکا ہے اور مذہب سے لاتعلق ہوچکا ہے؟ رسالت اور وحی کا منکر ہوچکا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، تو پھر اخبارات اور ٹیلی ویژن کے یہ سیکولر اور لبرل عناصر پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کا مذاق کیوں اُڑا رہے ہیں؟

دی نیوز کے غازی صاحب نے قرآن کی تعلیم پر اپنا مذکورہ پیراگراف Believe it or not کے الفاظ سے اس طرح لکھا ہے، جیسے ’ویٹی کن سٹی‘ میں نفاذ اسلام کردیا گیا ہو۔ انھیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں تعلیمی اداروں میں قرآن نہیں تو کیا بائبل اور گیتا پڑھائی جائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کے عزم پر غازی صاحب کا رنگ فق ہوگیا ہے؟

آئی اے رحمٰن صاحب نے تو دیدہ دلیری کامظاہرہ کرتےہوئے سرے سے قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ ہی بنادیا۔ پھرموصوف نے کج فہمی کے عالم میں قرآن کی آیت ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ تک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر ڈالا ہے۔ حالانکہ ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسلام میں کسی غیر مسلم کو جبر کے تحت مشرف بہ اسلام نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن و سنت کی تعلیم کا نظم قائم کرنا جبر نہیں عین رحمت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سیکولر طبقے، سیکولر اور لبرل تعلیم کو ’جزا‘ اور قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ عناصر سرعام قرآن و سنت کے خلاف صف آرا ہیں، مگر نہ ریاست کو اس بات کی فکر ہے، اور نہ علما نے بڑے پیمانے پر اس کے مضمرات و نتائج پرغور فرمایا ہے۔

طبی ماہرین نے کراچی میں نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد پژمردگی (Depression) یا ذہنی دباؤ میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پژمردگی عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن کر نمایاں طور پر سامنے آچکی ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین، مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں، اور خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بے روزگاری، مایوسی، افسردگی، غصّہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں نمبروں کی کمی شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے اس امر کی بھی نشان دہی کی کہ کراچی میں ۵۰لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے بالخصوص ڈپریشن یا گہرے اضطراب میں مبتلا ہیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں، جس میں خود قومی رہنما اور ماہرین تعلیم و تربیت تک رہنمائی کے محتاج ہیں۔ مثلاً مذکورہ نیوز کانفرنس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ ماہرین نے یہ تو بتایا: ’’ملک میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ خودکشی کے رجحان میں اضافے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ آپ کہیں گے کہ انھوں نے بتایا تو ہے کہ:’’اضطراب، پژمردگی یا ڈپریشن، یاسیت، غصہ، غربت اور بے روزگاری خودکشی میں اضافے کا سبب ہیں‘‘۔ تاہم، اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ’اسباب‘ کو انھوں نے خودکشی کا سبب قرار دیا ہے، وہ تو خود ’نفسیاتی امراض‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر یاسیت یا اضطراب لوگوں کو خودکشی پر مائل کررہے ہیں، تو اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ ’’خود یاسیت یا اضطراب کیوں پیدا ہورہے ہیں؟‘‘ مذکورہ نیوز کانفرنس کی زیادہ بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس میں شریک تمام مسلمان ماہرین میں سے کسی نے بھی نفسیاتی امراض اور خودکشی میں اضافے کے رجحان کو دینی تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے کی رتّی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ ہمارے تمام نفسیاتی امراض کا ہماری بدلی ہوئی روحانی، اخلاقی اور عالمی ساخت سے بہت گہرا تعلق ہے۔اسے محض معاشی فساد اور ظلم تک محدود سمجھنا بھی ظلم ہوگا۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ: ’’۲۰ ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی‘‘۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ اس تناظر میں ۲۱ویں صدی کو ’اقتصادیات کی صدی‘ قرار دیا جارہا ہے اور لکھنے والے انسانی تقدیر کو معاشی یا اقتصادی اصطلاحوں میں تحریر کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اقتصادیات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خودکشی کے بارے میں بھی عام خیال یہ ہے کہ ’’یہ غربت اور بے روزگاری کا نتیجہ ہے‘‘۔ طبی ماہرین نے اپنی نیوز کانفرنس میں ’غربت اور بے روزگاری کو خودکشی کے اسباب‘ میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہہ بعض لوگوں کے لیے غربت اور بے روزگاری اتنا بڑا مسئلہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی ہی کا خاتمہ کرلیں۔ نبی اکرمؐ نے ایسی غربت سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔
انسان بسا اوقات جب ایسی غربت کا تجربہ کرتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی اور کائنات میں خدا موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں خودکشی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔(دنیا میں سالانہ آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد خودکشی کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تعداد ۱۵ سے ۲۰ برس کے درمیان افراد کی ہے۔ ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا کے ۴۵ فی صد خودکشی کرنے والوں کا تعلق بھارت اور چین سے تھا۔ اسی طرح ۲۰۱۲ء میں پاکستان میں ۱۳ہزار ۳سو۷۷ خودکشی کے واقعات ریکارڈ ہوئے، جن میں مرد ۶ہزار۲۱ اور عورتیں ۷ہزار ۸۳ تھیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۲ء تک پاکستان میں خودکشی کے واقعات میں ۲ء۶ فی صد اضافہ ہوا (پروفیسر صالحہ شیخانی ، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ، آغا خان یونی ورسٹی، کراچی، فروری ۲۰۱۸ء۔ادارہ)
 آئیے، اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کی رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۶ء میں مختلف ممالک میں ہر ایک لاکھ آبادی میں سالانہ خودکشی کی شرح یہ رہی: پاکستان میں ۲ء۹ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ء۶ فی صد، برطانیہ میں ۸ء۹ فی صد، جنوبی افریقا میں ۱۱ء۶ فی صد،کینیڈا، ڈنمارک میں ۱۲ء۸ فی صد، جرمنی میں ۱۳ء۶ فی صد،امریکا میں ۱۵ء۳ فی صد، فن لینڈ میں ۱۵ء۹ فی صد،بھارت میں ۱۶ء۳ فی صد، جاپان میں ۱۶ء۵ فی صد،  فرانس میں ۱۷ء۷ فی صد اور جنوبی کوریا میں ۲۶ء۹ فی صد(روزنامہ، ڈان،۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)۔
ان اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ جن ممالک میں غربت اور بے روزگاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، وہاں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غربت اور بے روزگاری خودکشی کا سبب نہیں بن سکتے مگر اس مسئلے کو ذرا گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک چیز ہے غربت، اور دوسری چیز ہے غربت کا احساس اور اس کا نفسیاتی اثر۔
غربت آج سے سو سال اور پانچ سو سال پہلے بھی موجود تھی، مگر اس وقت اس کا احساس اتنا شدید نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ دوسری بات یہ کہ پرانے زمانے میں معاشرہ غریبوں کو مکمل طور پر ’ترک‘ نہیں کرتا تھا۔ منشی پریم چند کے افسانے ’کفن‘ کے دونوں بنیادی کردار اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس اپنے گھر کی ایک عورت کو کفن مہیا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں، مگر انھیں معلوم ہے کہ معاشرہ ان کی مدد کو آئے گا اور معاشرہ فی الواقع ان کی مدد کو آتا ہے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست ہی نے نہیں معاشرے نے بھی فرد کو ’ترک‘ کرنا شروع کردیا ہے۔ چناں چہ غریب فرد کے لیے اس کی غربت کا احساس شدید بلکہ جان لیوا بننے لگا ہے۔

خودکشی کے رجحان کے حقیقی اسباب

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟
- اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دیا جائے تو کہا جائے گا: ’’خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ’معنی کے بحران‘ کا نتیجہ ہے‘‘۔ لیکن یہ بات وضاحت طلب ہے۔ آج سے تین سو سال پہلے کی دنیا اپنی اصل میں مذہبی دنیا تھی۔اُس دنیا میں جنگیں تھیں، تصادم تھا، آویزش تھی، غربت تھی، وبائیں اور ان سے ہونے والی ہلاکتیں تھیں، مگر اس دنیا میں شاذ ہی کوئی خودکشی کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دنیا میں معنی کا بحران نہیں تھا۔ خدا کی موجودگی کے شعور سے زندگی کے ہر پہلو کی توجیہہ ہوسکتی تھی۔
- اس توجیہہ کے دو پہلو تھے: یہ ’جامع‘ بھی تھی اور ’تسکین بخش‘ بھی، مگر مغرب نے خدا کے وجود کا انکار کردیا اور اس نے مادے کو اپنا خدا بنالیا۔ خدا کے انکار سے وحی کا انکار پیدا ہوا۔ وحی کے انکار سے ’عقل پرستی‘ بلکہ ’عقل کی خدائی‘ نمودار ہوئی۔ اس خدائی سے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ زندگی کی ایک توجیہہ اور ایک تعبیر ممکن نہ رہی۔ نتیجہ یہ کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ’تعبیروں کا جنگل‘ بن گئی۔ ان بھانت بھانت کی تعبیروں کے جنگل میں معنی کا بحران پیدا ہونا ہی تھا۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ’مذہبی مفہوم‘ جامع بھی تھا اور تسکین بخش بھی، مگر مغرب نے عقل کی خدائی کے زیر اثر زندگی کی جو تعبیریں وضع کیں، وہ نہ ’جامع‘ ہیں اور نہ تسکین بخش۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغرب کی معاشیات کہتی ہے: ’’انسان ایک معاشی حقیقت ہے‘‘۔ مغرب کی سیاسیات کہتی ہے: ’’انسان ایک سیاسی حیوان ہے‘‘۔ مغرب کی حیاتیات کہتی ہے: ’’انسان ایک ’حیاتیاتی حقیقت‘ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ اس فکری انتشار میں ’فکری وحدت‘ ممکن ہی نہیں۔ چوں کہ مغرب کے تمام فکری سانچے اپنی اصل میں بہ زعم خود عقلی سانچے ہیں، اس لیے مغرب کا کوئی فکری سانچا انسان کے جذباتی وجود کی تسکین کا سامان مہیا نہیں کرپاتا۔ چناں چہ مغرب کا انسان فکری سطح پر بھی جاں بہ لب ہے اور جذباتی سطح پر بھی پیاسا ہے۔ یہی پیاس اسے خودکشی کی طرف مائل کرتی ہے۔
- اسلام کی فکری کائنات میں انسان کی زندگی ’تقدیر‘ اور ’تدبیر‘ کے درمیان بسر ہوتی ہے۔ ایک باشعور مسلمان جانتا ہے کہ بہت سی چیزیں ’تقدیری امر‘ ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کرے، اسے خوش دلی سے قبول کرلے، کیوں کہ کاتبِ تقدیر کوئی اور نہیں خود خالقِ کائنات ربِ جلیل ہے۔ تقدیر کو تسلیم کرنے سے انسان میں صبر بھی پیدا ہوتا ہے اور شکر بھی۔ صبر انسان کو مصائب و آلام سے بلند ہو کر زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے، اور شکر سے زندگی میں ایک جمال پیدا ہوتا ہے، جو انسان کی طبیعت میں موجود بوجھل پن کو دُور کرکے اسے خوش گوار بناتا ہے۔ ’تدبیر‘ انسان کو بُرے حالات کی مزاحمت اور ان پر فکر و عمل کے ذریعے غالب آنا سکھاتی ہے۔ چنانچہ ’تقدیر‘ اور’ تدبیر‘ کی کائنات میں سانس لینے والا انسان خود کشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک مسلمان کے لیے زندگی کی معنویت اتنی اہم ہے کہ معنویت کا فرق ایک جگہ موت کو ’خودکشی‘ بنادیتا ہے اور دوسری جگہ موت کو ’شہادت‘ کے مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ خودکشی کرنے والا انسان ایک ’مایوس انسان‘ ہوتا ہے___ اپنے خالق و رازق، اپنی تقدیر اور اپنی تدبیر کی اہلیت سے مایوس انسان (Frustrated Person)۔ اس کے ہاتھ میں نہ تقدیر کی ڈھال ہوتی ہے نہ تدبیر کی تلوار۔
- اگرچہ پاکستان سمیت مختلف مسلم معاشروں میں اسلام کوئی ’علامت‘ (Label) یا آویزہ (Tag) نہیں ہے۔ بلاشبہہ اسلام ایک مربوط وجودی تجربے (Existential Experience)  کا نام ہے۔ بدقسمتی سے تمام مسلم معاشرے اس حد تک مغرب زدہ ہوچکے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا ’باطن‘ مغرب ہے اور ’ظاہر‘ اسلام۔ مغرب صرف ہماری سیاست اور ہماری معیشت نہیں بلکہ ہماری خواہش اور آرزو ہے۔ یہ ہماری تمنا اور خواب ہے۔ اصولی اعتبار سے دین ہماری ’محبت‘ ہے اور دنیا ہماری ’ضرورت‘۔ تاہم، مغرب کے زیر اثر ’عملی صورتِ حال‘ یہ ہے کہ دنیا ہماری ’محبت‘ ہے اور دین کو ہم نے ’بقدر ضرورت‘ اختیار کیا ہوا ہے۔ بلاشبہہ ایک سطح پر دین ہماری ’آرزو‘ ہے مگر ہماری ’جستجو‘ آرزو سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین ہماری ’آرزو‘ ہے اور دنیا ہماری ’جستجو‘۔
فکرونظر اور سوچ و عمل کے اس فساد کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کو ہم نے ’برکت‘ تک محدود کردیا ہے اور دنیا ہماری ’حرکت‘ بن گئی ہے۔ چناں چہ ہماری مادہ پرستی ہمیں انھی کیفیات سے دوچار کررہی ہے، جن کیفیات میں مغرب کے لوگ مبتلا پائے جارہے ہیں۔ اصولی طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’جسمانی خودکشی‘ وہی شخص کرتا ہے جو پہلے ’روحانی خودکشی‘ کرچکا ہو۔ جن لوگوں کی روحانی زندگی سلامت ہوتی ہے، انھیں خودکشی کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن جن لوگوں کا تعلق باللہ کمزور ہوجاتا ہے، ان کا انسانوں سے تعلق بھی سرسری اور سطحی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا، جو شخص نہ خدا کا دوست ہو اور نہ انسانوں کا، وہ نفسیاتی مریض نہیں بنے گا اور خودکشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟

پاکستانی قوم نے گذشتہ ۷۰ سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس بات کے تعین کے لیے خودپاکستان کی اہمیت کا تعین ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم جان ہی نہیں سکتے کہ ہم نے اپنے  سات عشروں کے سفر کے دوران کیا کیا ہے؟

انسانی تاریخ میں تین حوالوں سے پاکستان کی اہمیت غیرمعمولی ہے:

  •  پاکستان کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ عصر حاضر میں پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے، جس کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا۔ بعض لوگ اس سلسلے میں اسرائیل کا نام بھی لیتے ہیں، لیکن یہ ایک غلط بحث ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پاکستان حقیقی معنو ں میں ایک مذہبی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی بنیاد یہودیوں کی بدنام زمانہ نسل پرستی پر رکھی ہوئی ہے۔ عصر حاضر میں قوموں کے آئین کو قوموں کے تشخص کے تعین کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ریاست ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا موازنہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان ایک عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل عالمی طاقتوں کی ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اول وآخر حق ہے اور اسرائیل اول و آخر باطل ۔
  • پاکستان کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ایک بہت بڑے تہذیبی و تاریخی مطالبے کا اظہار ہے۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ جو پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا، ۲۰ ویں صدی میں برصغیر کی ملت اسلامیہ کو پیش آنے والی صورتِ حال کا حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دو قومی نظریہ ایک بہت پرانی چیز ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے یہ کہا ہے کہ پاکستان تو اس دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کے گہرے شعور کے بغیر کہی ہی نہیں جاسکتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کش مکش ہے۔  جہانگیر کے زمانے میں مسلمان سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے مغلوب نہیں تھے غالب تھے، لیکن مجدد الف ثانی ؒکے نزدیک سیاسی اور معاشی غلبے کی اہمیت نہیں تھی۔ ان کے نزدیک جو چیز اہم تھی وہ مسلمانوں کا جداگانہ مذہبی و تہذیبی تشخص تھا۔ اور مجدد الف ثانی کو اس تشخص کے تحفظ کی اتنی فکر تھی کہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی غلبے کے زمانے میں جہانگیر سے کہا کہ تم اکبر کی ان پالیسیوں کو ترک کرو جو مسلمانوں کے مذہبی و تہذیبی تشخص کو مجروح کررہی ہیں۔ غور کیا جائے تو مجدد الف ثانیؒ دراصل دو قومی نظریے پر ہی اصرار کررہے تھے۔ جہانگیر نے ابتدا میں مجدد الف ثانیؒ کی مزاحمت کی اور انھیں پابند سلاسل کیا مگر بالآخر اسے مجدد الف ثانی کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے ان کے مطالبے کے مطابق دربار میں سجدۂ تعظیم بھی منسوخ کیا اور گائے کے ذبیحے کی بھی اجازت دی، بلکہ اس نے محل میں گائیں ذبح کراکے ان کے گوشت سے کباب بنوائے۔

اس اعتبارسے دیکھا جائے تو برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی مجدد الف ثانی تھے لیکن دو قومی نظریہ صرف مجدد الف ثانی اور جہانگیر کی کش مکش میں ظاہر ہوکر نہیں رہ گیا۔اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کش مکش بھی اپنی اصل میں دو قومی نظریے کی کش مکش تھی۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ قرآن مجید اور گیتا کی تعلیمات کو آمیز کرکے ’ایک قومی‘ نظریہ ایجاد کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اکبر نے دین الٰہی کی صورت میں جو تجربہ نہایت بھونڈے انداز میں کیا تھا داراشکوہ وہی تجربہ انتہائی دانش ورانہ اور علمی سطح پر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اورنگ زیب کو اس ’خطرے‘ کا اندازہ تھا۔ اس لیے کہ وہ دو قومی نظریے کے معنی کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کش مکش میں اکابر علما اور صوفیہ اورنگ زیب کے ساتھ تھے۔

یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سرسیّداحمدخان کسی زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے، لیکن ہندی اُردو تنازعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا اور کہا کہ اگر مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انھیں اپنا پلیٹ فارم تخلیق کرنا چاہیے۔

اقبال بھی اپنے ابتدائی دو رمیں قوم پرست اور وطن پرست تھے اور انھیں خاکِ وطن کا ہرذرہ ’دیوتا‘ نظر آتا تھا اور وہ کہہ رہے تھے    ؎

سارے جہاں سے اچھا ہندُستاں ہمارا

ہم بُلبلیں ہیں اس کی ، یہ گُلستاں ہمارا

مگر اقبال کی فکر میں بھی تغیر رونما ہوا اور چند ہی برسوں میں وہ     ؎

چین و عرب ہمارا ، ہندُستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

کہتے نظر آئے۔ محمد علی جناح کا معاملہ بھی عیاں ہے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انھیں ہندو مسلم اتحاد کی سب سے بڑی علامت قرار دیتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت ایسی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح ؒقائداعظم بن کر ابھرے اور انھوں نے دو قومی نظریے کی وضاحت پر جتنا زورِ بیان صرف کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ۱۹۳۰ء یا ۱۹۴۰ء میں سامنے آنے والی حقیقت نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔

  •  پاکستان کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان عصر حاضر کا سب سے بڑا خواب ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے چنانچہ انسان کی تخلیقی قوت اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے ذریعے ہمیں ریاست مدینہ کے تجربے کو نیا قالب مہیا کرنا تھا۔ ایسا قالب جس کی روح قدیم اور جس کے اظہار یااسالیب کو نیا ہونا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ پاکستان کے جیسی کوئی ریاست تھی‘ نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مذہب کی بنیاد پر    الگ ریاست کے مطالبے کا حق ادا کرسکے، نہ ہم نے اپنی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت سے کوئی کام لیا، اور نہ ہم پاکستان ہی کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی صورت پیدا کرسکے۔

بلاشبہہ مذہبی جماعتوں اور علما کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان ’اسلامی جمہوریہ‘ تو  بن گیا مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ اسلام کو اس قیدخانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ حکومت و ریاست کے بندوبست پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، اور سود جنرل پرویز مشرف ہی کو نہیں میاں نواز شریف کو بھی اتنا عزیز ہے کہ انھوں نے اس کے خاتمے کے لیے دکھاوے کے لیے بھی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ہمارا نظام تعلیم صرف اتنا اسلامی ہے کہ اس میں اسلامیات ایک مضمون کے طور پر شامل ہے۔ ہمارے حکمران ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی آئین کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک عہد جدید میں منتخب نمایندوں کا امین و صادق ہونا ممکن ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو مذاق اڑانے والے دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق نہیں اڑاتے‘ اسلام کے تصور صداقت و امانت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ۱۹۷۱ء میں ہم پاکستان کی جغرافیائی وحدت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے اور ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے بھارت کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ اس نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ قوم کو دھوکے میں مبتلا کرنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان بیرونی طاقتوں کی سازش اور بھارت کی مداخلت کے باعث الگ ہوا لیکن اتنے بڑے سانحات بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ داخلی عوامل یا داخلی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ہماری سب سے بڑی داخلی کمزوری یہ تھی کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک پاکستان کی تخلیق کے محرک اسلام کو اجتماعی زندگی میں مؤثر یا Functional بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ اگر ہم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک کچھ اور نہیں تو اسلام کے تصور عدل ہی پر عمل کررہے ہوتے تو بیرونی طاقتیں اور بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔

  •  پاکستان کی گذشتہ ۷۰  سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ایٹم بم کی تخلیق ہے۔ ایٹم بم کی تخلیق پاکستان اور پاکستانی قوم کے ’امکانات‘ کو سمجھنے کے سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے جب ایٹم بم بنانے کا آغاز کیا تو اس وقت وطن عزیز میں بنیادی سائنسز کی تعلیم کا بھی کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں تھا۔ ہمارے پاس ’ماہرین‘ اور ’مالی وسائل‘ دونوں کی کمی تھی مگر اس کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنا کر دکھادیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اگر ہم ایک ہدف طے کرلیں اور حکمران طبقہ اس ہدف کے حصول کے سلسلے میں دس پندرہ سال تک پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھ لے تو بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔
  •  پاکستانی قوم تمام تر مخدوش معاشی حالات کے باوجود ہر سال ۳۰۰؍  ارب روپے سے زیادہ کی خیرات کرتی ہے اور ہم اس حوالے سے دنیا کی تین اہم ترین قوموں میں سے ایک ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قوم میں جذبۂ خیر اور جذبۂ تعمیر زندہ ہے جسے مہمیز دے کر قوم سے مزید بڑے بڑے کام کرائے جاسکتے ہیں۔
  •  ہماری قومی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر پانچ سات سال کے بعد ایک فوجی آمر ملک و قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اس آمر کو سیاست دانوں کی حماقتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ  عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے مگر پاکستانی قوم بالآخر آمروں کی مزاحمت کرتی ہے۔ چنانچہ قوم نے جنرل ایوب خان کی مزاحمت کی، جنرل محمد ضیاء الحق کی مزاحمت کی اور جنرل پرویز مشرف کی مزاحمت کی۔اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی آمر آٹھ دس سال سے زیادہ ٹک نہیں پایا۔ ورنہ عرب ممالک میں کرنل قذافی ۴۰سال سے قوم پر سوار تھے۔ مصر کا صدر حسنی مبارک ۳۰سال تک مصر پر قابض رہا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم میں جذبۂ حریت کافی مقدار میں موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس جذبٔہ حریت سے بھی ’نئی دنیا کی تعمیر‘ میں بڑی مدد لی جاسکتی ہے۔
  •  تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کی بیداری اور تعمیر میں ’تصور دشمن‘ کا بھی ایک کردار ہے۔ اتفاق سے ہمیں بھارت کی صورت میں ایک بڑا اور کم ظرف دشمن فراہم ہے۔ لیکن ہم نے اس دشمن کے تصور سے کوئی خاص ’کام‘ نہیں لیا۔ غور کیا جائے تو اس دشمن کا تصور ہمیں زیادہ نظریاتی بھی بناسکتا ہے اور زیادہ بیدار بھی کرسکتا ہے۔ زیادہ متحرک بھی کرسکتا ہے اور مادی معنوں میں زیادہ ترقی یافتہ بھی کرسکتا ہے___مگر اس کام کے لیے ’قیادت‘ کی ضرورت ہے۔
  •  پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظریے نے پاکستان کی تخلیق کی ہے، اس نظریے سے پاکستانی قوم کا ’جذباتی تعلق‘ ختم نہیں ہوا۔ آخر ایک قوم کی حیثیت سے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کے جونظریہ ہمیں پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرکے دے سکتا ہے‘ وہ نظریہ پاکستان کو علاقائی نہیں عالمی طاقت بھی بناسکتا ہے۔  لیکن اس کی دوشرائط ہیں: ایک یہ کہ نظریے کو قومی زندگی میں حقیقی معنوں میں مؤثر یا Functional بنایا جائے۔ تاہم، اس کام کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس میں دو فضیلتیں موجود ہوں۔ ایک تقویٰ کی فضیلت اور دوسری علم کی فضیلت ۔ تاریخ میں مسلمانوں کو جب بھی غلبہ ملا ہے انھی دوفضیلتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ تقویٰ اور علم میں کمال کے بغیر پاکستان کیا پوری امت مسلمہ کا کوئی مستقبل نہیں۔

عالم اسلام

اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی

شاہ نواز فاروقیo

مسلمانوں کی تاریخ مرکز جُو اور مرکز گریز قوتوں کا ایسا رزمیہ ہے جس نے تاریخ کے حالیہ سفر میں فکر و خیال سے عملی سیاسی جدوجہد تک کئی اسالیب پیدا کرلیے ہیں۔ ان اسالیب کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مرکز جُو قوت مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے جس سے مسلمانوںکے جہانِ معنی میں روشنی پھیلتی جارہی ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس تصور کو نظرانداز کرکے ہم مسلم دنیا میں رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کی معنویت کو نہیں    سمجھ سکتے۔
مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کامیابی کو شان دار قرار دینا درست نہیں۔ ان کے نزدیک ۴۰۰ سے زائد منتخب نمایندوں کے ایوان میں ۸۸ نشستوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ لیکن صورتِ حال کو دیکھنے کے لیے یہ تناظر کسی طرح بھی کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ گذشتہ پارلیمنٹ میں اخوان کے نمایندوں کی تعداد صرف ۱۶ تھی۔ لیکن یہ معاملہ گنتی سے بہت آگے جاتا ہے۔ مصرکے حالیہ انتخابات بھی ماضی کے انتخابات کی طرح بدترین دھاندلیوں سے آلودہ تھے۔ انتخابات سے قبل‘ یہاں تک کہ انتخابات کے روز بھی‘ اخوان کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری رہا اور درجنوں مقامات پر راے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ امتیازی انتخابی قوانین اس کے علاوہ تھے۔ پھر اخوان پر پابندی تھی اور انھوں نے اپنے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے حسب سابق آزاد امیدواروں کو میدان میںاتارا۔ اس منظرنامے میں اخوان کا واحد حزب اختلاف بن کر ابھرنا اور ۸۸ نشستوں پر کامیاب ہونا معمولی بات نہیں۔ مصر کی سیکولر قوتوں کی ناکامی اتنی نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ انھوں نے جھنجھلا کر اخوان کی کامیابی کو حسنی مبارک کے کھاتے میں ڈال دیا اور انھوں نے الزام لگایا کہ حسنی مبارک نے مصر کو آمریت اور مسجد کے درمیان معلق کر دیا ہے۔ اب مصری عوام یا تو آمریت کے آگے سجدہ گزاریں  یا مسجد کا رخ کریں۔ مصر کے سیاسی مکالمے یا discourse میں مسجد کا یہ حوالہ نیا نہیں لیکن اس بار یہ حوالہ صرف حوالہ نہیں ایک توانا علامت بن کر ابھرا ہے۔
مصر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا اس امر پراتفاق ہے کہ اخوان کو کام کرنے کی مزید آزادی فراہم ہوئی ہوتی‘ تو ان کی کامیابی شان دار سے آگے بڑھ کر حیرت انگیز ہوسکتی تھی۔ اس کے باوجود یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حسنی مبارک نے اس بار انتخابی قوانین اور سیاسی فضا کو پہلے سے زیادہ نرم کیوں کیا؟
اس سوال کاایک جواب یہ ہے کہ امریکا افغانستان اور عراق میں کروز میزائلوں اور بموں کے ذریعے جمہوریت ’کاشت‘ کر رہا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو مشرف بہ جمہوریت کرکے رہے گا۔ اس دعوے کے مضمرات کو سمجھنا دشوار نہیں اور مصر کے صدر حسنی مبارک صدارتی انتخابات کے بعد ۱۰۰ فی صد ڈھکوسلہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کرکے امریکا کے لیے رسوائی تخلیق نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ اخوان کو جو تھوڑی بہت آزادی اور سہولت فراہم ہوئی وہ   حسنی مبارک کی ’پسند‘ نہیں مجبوری تھی۔ تاہم‘ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
مسلم دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر مسلط حکمران اسلام اور امت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے تناظر میں تاریخی طور پر ازکار رفتہ نہ ہوگئے ہوں۔ مصر کا معاملہ اس سے الگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حسنی مبارک اپنے فرزندِ ارجمند جمال کے لیے حالات سازگار بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ لیبیا کا ہے جہاں کرنل معمر قذافی اپنی جگہ اپنے بیٹے سیف الاسلام کو اقتدار پرقابض دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اخوان کی شان دار کامیابی میں امریکا کے لیے یہ پیغام مضمر ہوسکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا باغ لگانے کے سلسلے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرے کیوں کہ اس صورت میں ’بنیاد پرست‘ پورے مشرق وسطیٰ پر چھا جائیں گے اور صرف امریکا ہی نہیں‘ پوری مغربی دنیا کے اساسی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اخوان کی کامیابی محض اس کی ایک جھلک ہے۔ مسلم دنیا کے آمروں کے علم الکلام کی اپنی لغت اور اس کی اپنی معنویت ہے اور یہ معنویت راز بھی نہیں۔
اخوان المسلمون پر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اخوان نے ابتلا و آزمایش کا ایک بہت طویل دور گزارا ہے۔ اس عرصے میں ایسا وقت بھی آیا جب کہنے والوں نے یہ کہا کہ اخوان ایک بڑی تحریک کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتے اور ان کی واپسی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی مزاحمتی روش کو بھی موردِ الزام ٹھیرایا گیا اور اس سے دنیا کے مختلف مسلم ملکوں میں سبق وغیرہ لینے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن اخوان کی اس کامیابی نے ثابت کر دیا کہ جو تحریکیں حق پر ہوں‘ مسلم تہذیب و تمدن کے مرکزی دھارے میں منسلک و مربوط ہوں اور ان کی جڑیں عوام میں ہوں‘ انھیں دو چار یا ۱۰سال کے لیے پارلیمنٹ یا سیاسی عمل سے باہر تو کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کے اجتماعی حافظے سے نہیں نکالا جاسکتا۔ مسلم تاریخ کی مرکز جُو حرکت انھیں بالآخر مسلم عوام کی دیرینہ آرزوئوں اور تمنائوں کا مرکز بنادے گی اور استبدادی قوتوں کا کوئی ہتھکنڈا کارگر ثابت نہیں ہوسکے گا۔
اسی حوالے سے کہیں مرکز جُو قوت و حرکت صورتِ حال سے منسلک نظر آئے گی اور کہیں تبدیلی ماوراے حالات بھی وقوع پزیر ہوگی۔ اس کی مثالیں اب جگہ جگہ سے دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی بے مثال کامیابی علاقائی یا بین الاقوامی حالات سے ماورا تھی۔ الجزائر سیکولرازم کی تجربہ گاہ اور فوجی آمریت کا گہوارا تھا مگر اسلامی فرنٹ کی نظریاتی جہت نے سیکولرازم کے قلعوں کو مسمار کر دیا۔ یہ انقلاب حقیقی نہ ہوتا تو فوجی آمریت کی جانب سے اسلامی فرنٹ کی   بے مثال کامیابی پر مارے گئے شب خون کی شاید ایسی مزاحمت نہ ہوتی جیسی کہ ہوئی۔
پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی میں زیادہ ہاتھ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال نے ادا کیا اور اگر مجلس عمل نے پنجاب میں بھی موثر مہم چلائی ہوتی تو اس کی کامیابی کا دائرہ زیادہ وسیع ہوسکتا تھا۔
اخوان المسلمون مصر کی سیاست میں ایک بڑی قوت بن کر ابھر چکے ہیں اور وہ ملک کی واحد حزب اختلاف ہوں گے۔ اس صورت حال نے ان پر امکانات کے در وا کر دیے ہیں مگر ان حالات میں ایک قوی اندیشہ بھی موجود ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی و غیر مذہبی اتحادی‘ اسلام کے ابھار اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ ہیں۔ چنانچہ جہاں ان سے بن پڑا ہے انھوں نے اسلامی تحریکوں کا براہ راست راستہ روکا ہے اور ممکن ہوا تو آیندہ بھی روکیں گے۔
مغربی دنیا کو جمہوریت واقعتاً عزیز ہوتی تو وہ اسلامی فرنٹ کے جمہوری انقلاب کو قبول کرلیتی اور الجزائر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہ دیتی‘ لیکن مغربی دنیا اس سبوتاژ پر آج تک اس طرح خاموش ہے کہ جیسے یہ سبوتاژ واقع ہی نہ ہوا ہو۔ تاہم‘ جہاںکہیں مغربی دنیا کے لیے اسلامی تحریکوں کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہ ہوگا وہاں کوشش کی جائے گی کہ انھیں سسٹم میں جذب کرکے ان کی نظریاتی جہت کو دھندلا دیا جائے اور انھیں اسلامی تحریکوں کے عظیم مقام سے ہٹاکر صرف سیاسی جماعت بنا کر کھڑا کردے۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کو اچھی سیاسی جماعتوں کی بھی ضرورت ہے مگر جو کام اسلامی تحریکیں کرسکتی ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی جماعتیں نظام میں اصلاح کرسکتی ہیں مگر اسے بدل نہیں سکتیں۔ یہ ان کی فکری اہلیت کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور مسلم دنیا پر بحیثیت مجموعی جو نظام مسلط ہے اس کی خرابیاں اتنی بڑی ہیں کہ انھیں اب اصلاح سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کو انقلاب کی ضرورت ہے اور انقلاب صرف تحریکیں لاسکتی ہیں۔ انقلاب کے لیے معروضی تناظر یا detached out look ضروری ہوتا ہے جو سسٹم میں جذب ہو کر حاصل نہیں کیا جاسکتا اور حاصل ہو تو سسٹم کا حصہ بنتے ہی زائل ہوجاتا ہے۔ اخوان المسلمون نہ کبھی صرف سیاسی جماعت تھی‘ نہ ہے اور نہ اسے ہونا چاہیے۔ عالم عرب میں مصر کی اہمیت اس کی آبادی‘ رقبے‘ جغرافیائی محل وقوع اور اس کے ثقافتی اثرات کی وجہ سے ویسے ہی مرکزی ہے۔ مصر منقلب ہوگیا تو اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔
مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ میں سسٹم سے مفاہمت کے کئی بڑے اور اہم تجربات ہوئے مگر ان میں سے کوئی تجربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ الجزائر میں تو خیر اسلامی فرنٹ کی کامیابی پر ڈاکا ڈال دیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں وہ کشت و خون ہوا کہ جس کی الجزائر کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کو قبول کیا گیا مگر چلنے نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے مثالی تجربہ سوڈان میں ہوا جہاں جنرل عمرالبشیرخود کو اسلامی تحریک کا کارکن اور حسن ترابی کا شاگرد کہتے تھے‘ لیکن    حسن ترابی بالآخر اسپیکر کے عہدے سے معزول کیے گئے اور جیل میں ڈالے گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک نہیں ہوا۔ مصر میں ایسے کسی تجربے کی فی الحال کوئی گنجایش نظر نہیں آتی لیکن سسٹم میں جذب ہونے کی صرف ایک صورت نہیں ہوتی‘ چنانچہ اخوان کو اس حوالے سے پوری مسلم تاریخ کے تناظر میں شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور خود کو سسٹم کا حصہ بننے سے روکنا ہوگا۔ مسلم دنیا کی تاریخ میں ویسے بھی کوڑوں سے زیادہ توڑوں کو خطرناک سمجھا گیا ہے۔
کہنے کو فلسطین کے مخصوص حالات اور جغرافیے اور آبادی کے اعتبار سے اس کا ماڈل چھوٹا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے سب سے اچھا ماڈل فلسطین میں تخلیق ہوا ہے۔ یہ ماڈل خدمت اور مزاحمت کے امتزاج پر مشتمل ہے۔ بلاشبہہ اس ماڈل کے تحت پوری مسلم دنیا میں خدمت کے معنی تو وہی رہیں گے لیکن مزاحمت کا مفہوم ہر ملک کے معروضی حالات کے مطابق  بدل جائے گا‘ تاہم مزاحمت کا وسیع تر مفہوم باقی رہے گا۔ امریکا میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ نہ ہوتا تو بھی فلسطین کا یہ ماڈل پوری مسلم دنیا کے لیے بہترین ہوتا لیکن۱۱ ستمبر کے بعد کے حالات نے اس ماڈل کو عالمِ اسلام کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں مغرب کی فکری یا اخلاقی برتری کا طلسم ٹوٹ چکا اور پوری مسلم دنیا چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر کے تجربے کا عالمی سطح پر مشاہدہ کررہی ہے۔ عراق کی بے مثال مزاحمت نے طاقت کے عدم توازن کے مضمرات کے خوف کو تحلیل کر دیاہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ جنگیں صرف بی ۵۲ طیاروں اور کروز میزائلوں سے نہیں      لڑی جاتیں۔ غاصبین کو بالآخر آسمان سے زمین پر آنا پڑتا ہے اور یہاں جذبے کی عمل داری ہے۔مسلم دنیا کی کم و بیش نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے صرف مزاحمتی روح سے متحرک اور منظم کیا جاسکتا ہے اور بروے کار لایا جاسکتا ہے۔ نیند میں چلنے والے لوگ ان نوجوانوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتے۔ اسلامی تحریکوں کو ان حقائق کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمران ان گندے انڈوں کی طرح ہیں جن سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکتا۔
_____________