عالم اسلام
اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی
شاہ نواز فاروقیo
مسلمانوں کی تاریخ مرکز جُو اور مرکز گریز قوتوں کا ایسا رزمیہ ہے جس نے تاریخ کے حالیہ سفر میں فکر و خیال سے عملی سیاسی جدوجہد تک کئی اسالیب پیدا کرلیے ہیں۔ ان اسالیب کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مرکز جُو قوت مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے جس سے مسلمانوںکے جہانِ معنی میں روشنی پھیلتی جارہی ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس تصور کو نظرانداز کرکے ہم مسلم دنیا میں رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کی معنویت کو نہیں سمجھ سکتے۔
مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کامیابی کو شان دار قرار دینا درست نہیں۔ ان کے نزدیک ۴۰۰ سے زائد منتخب نمایندوں کے ایوان میں ۸۸ نشستوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ لیکن صورتِ حال کو دیکھنے کے لیے یہ تناظر کسی طرح بھی کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ گذشتہ پارلیمنٹ میں اخوان کے نمایندوں کی تعداد صرف ۱۶ تھی۔ لیکن یہ معاملہ گنتی سے بہت آگے جاتا ہے۔ مصرکے حالیہ انتخابات بھی ماضی کے انتخابات کی طرح بدترین دھاندلیوں سے آلودہ تھے۔ انتخابات سے قبل‘ یہاں تک کہ انتخابات کے روز بھی‘ اخوان کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری رہا اور درجنوں مقامات پر راے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ امتیازی انتخابی قوانین اس کے علاوہ تھے۔ پھر اخوان پر پابندی تھی اور انھوں نے اپنے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے حسب سابق آزاد امیدواروں کو میدان میںاتارا۔ اس منظرنامے میں اخوان کا واحد حزب اختلاف بن کر ابھرنا اور ۸۸ نشستوں پر کامیاب ہونا معمولی بات نہیں۔ مصر کی سیکولر قوتوں کی ناکامی اتنی نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ انھوں نے جھنجھلا کر اخوان کی کامیابی کو حسنی مبارک کے کھاتے میں ڈال دیا اور انھوں نے الزام لگایا کہ حسنی مبارک نے مصر کو آمریت اور مسجد کے درمیان معلق کر دیا ہے۔ اب مصری عوام یا تو آمریت کے آگے سجدہ گزاریں یا مسجد کا رخ کریں۔ مصر کے سیاسی مکالمے یا discourse میں مسجد کا یہ حوالہ نیا نہیں لیکن اس بار یہ حوالہ صرف حوالہ نہیں ایک توانا علامت بن کر ابھرا ہے۔
مصر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا اس امر پراتفاق ہے کہ اخوان کو کام کرنے کی مزید آزادی فراہم ہوئی ہوتی‘ تو ان کی کامیابی شان دار سے آگے بڑھ کر حیرت انگیز ہوسکتی تھی۔ اس کے باوجود یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حسنی مبارک نے اس بار انتخابی قوانین اور سیاسی فضا کو پہلے سے زیادہ نرم کیوں کیا؟
اس سوال کاایک جواب یہ ہے کہ امریکا افغانستان اور عراق میں کروز میزائلوں اور بموں کے ذریعے جمہوریت ’کاشت‘ کر رہا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو مشرف بہ جمہوریت کرکے رہے گا۔ اس دعوے کے مضمرات کو سمجھنا دشوار نہیں اور مصر کے صدر حسنی مبارک صدارتی انتخابات کے بعد ۱۰۰ فی صد ڈھکوسلہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کرکے امریکا کے لیے رسوائی تخلیق نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ اخوان کو جو تھوڑی بہت آزادی اور سہولت فراہم ہوئی وہ حسنی مبارک کی ’پسند‘ نہیں مجبوری تھی۔ تاہم‘ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
مسلم دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر مسلط حکمران اسلام اور امت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے تناظر میں تاریخی طور پر ازکار رفتہ نہ ہوگئے ہوں۔ مصر کا معاملہ اس سے الگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حسنی مبارک اپنے فرزندِ ارجمند جمال کے لیے حالات سازگار بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ لیبیا کا ہے جہاں کرنل معمر قذافی اپنی جگہ اپنے بیٹے سیف الاسلام کو اقتدار پرقابض دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اخوان کی شان دار کامیابی میں امریکا کے لیے یہ پیغام مضمر ہوسکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا باغ لگانے کے سلسلے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرے کیوں کہ اس صورت میں ’بنیاد پرست‘ پورے مشرق وسطیٰ پر چھا جائیں گے اور صرف امریکا ہی نہیں‘ پوری مغربی دنیا کے اساسی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اخوان کی کامیابی محض اس کی ایک جھلک ہے۔ مسلم دنیا کے آمروں کے علم الکلام کی اپنی لغت اور اس کی اپنی معنویت ہے اور یہ معنویت راز بھی نہیں۔
اخوان المسلمون پر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اخوان نے ابتلا و آزمایش کا ایک بہت طویل دور گزارا ہے۔ اس عرصے میں ایسا وقت بھی آیا جب کہنے والوں نے یہ کہا کہ اخوان ایک بڑی تحریک کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتے اور ان کی واپسی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی مزاحمتی روش کو بھی موردِ الزام ٹھیرایا گیا اور اس سے دنیا کے مختلف مسلم ملکوں میں سبق وغیرہ لینے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن اخوان کی اس کامیابی نے ثابت کر دیا کہ جو تحریکیں حق پر ہوں‘ مسلم تہذیب و تمدن کے مرکزی دھارے میں منسلک و مربوط ہوں اور ان کی جڑیں عوام میں ہوں‘ انھیں دو چار یا ۱۰سال کے لیے پارلیمنٹ یا سیاسی عمل سے باہر تو کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کے اجتماعی حافظے سے نہیں نکالا جاسکتا۔ مسلم تاریخ کی مرکز جُو حرکت انھیں بالآخر مسلم عوام کی دیرینہ آرزوئوں اور تمنائوں کا مرکز بنادے گی اور استبدادی قوتوں کا کوئی ہتھکنڈا کارگر ثابت نہیں ہوسکے گا۔
اسی حوالے سے کہیں مرکز جُو قوت و حرکت صورتِ حال سے منسلک نظر آئے گی اور کہیں تبدیلی ماوراے حالات بھی وقوع پزیر ہوگی۔ اس کی مثالیں اب جگہ جگہ سے دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی بے مثال کامیابی علاقائی یا بین الاقوامی حالات سے ماورا تھی۔ الجزائر سیکولرازم کی تجربہ گاہ اور فوجی آمریت کا گہوارا تھا مگر اسلامی فرنٹ کی نظریاتی جہت نے سیکولرازم کے قلعوں کو مسمار کر دیا۔ یہ انقلاب حقیقی نہ ہوتا تو فوجی آمریت کی جانب سے اسلامی فرنٹ کی بے مثال کامیابی پر مارے گئے شب خون کی شاید ایسی مزاحمت نہ ہوتی جیسی کہ ہوئی۔
پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی میں زیادہ ہاتھ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال نے ادا کیا اور اگر مجلس عمل نے پنجاب میں بھی موثر مہم چلائی ہوتی تو اس کی کامیابی کا دائرہ زیادہ وسیع ہوسکتا تھا۔
اخوان المسلمون مصر کی سیاست میں ایک بڑی قوت بن کر ابھر چکے ہیں اور وہ ملک کی واحد حزب اختلاف ہوں گے۔ اس صورت حال نے ان پر امکانات کے در وا کر دیے ہیں مگر ان حالات میں ایک قوی اندیشہ بھی موجود ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی و غیر مذہبی اتحادی‘ اسلام کے ابھار اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ ہیں۔ چنانچہ جہاں ان سے بن پڑا ہے انھوں نے اسلامی تحریکوں کا براہ راست راستہ روکا ہے اور ممکن ہوا تو آیندہ بھی روکیں گے۔
مغربی دنیا کو جمہوریت واقعتاً عزیز ہوتی تو وہ اسلامی فرنٹ کے جمہوری انقلاب کو قبول کرلیتی اور الجزائر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہ دیتی‘ لیکن مغربی دنیا اس سبوتاژ پر آج تک اس طرح خاموش ہے کہ جیسے یہ سبوتاژ واقع ہی نہ ہوا ہو۔ تاہم‘ جہاںکہیں مغربی دنیا کے لیے اسلامی تحریکوں کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہ ہوگا وہاں کوشش کی جائے گی کہ انھیں سسٹم میں جذب کرکے ان کی نظریاتی جہت کو دھندلا دیا جائے اور انھیں اسلامی تحریکوں کے عظیم مقام سے ہٹاکر صرف سیاسی جماعت بنا کر کھڑا کردے۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کو اچھی سیاسی جماعتوں کی بھی ضرورت ہے مگر جو کام اسلامی تحریکیں کرسکتی ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی جماعتیں نظام میں اصلاح کرسکتی ہیں مگر اسے بدل نہیں سکتیں۔ یہ ان کی فکری اہلیت کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور مسلم دنیا پر بحیثیت مجموعی جو نظام مسلط ہے اس کی خرابیاں اتنی بڑی ہیں کہ انھیں اب اصلاح سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کو انقلاب کی ضرورت ہے اور انقلاب صرف تحریکیں لاسکتی ہیں۔ انقلاب کے لیے معروضی تناظر یا detached out look ضروری ہوتا ہے جو سسٹم میں جذب ہو کر حاصل نہیں کیا جاسکتا اور حاصل ہو تو سسٹم کا حصہ بنتے ہی زائل ہوجاتا ہے۔ اخوان المسلمون نہ کبھی صرف سیاسی جماعت تھی‘ نہ ہے اور نہ اسے ہونا چاہیے۔ عالم عرب میں مصر کی اہمیت اس کی آبادی‘ رقبے‘ جغرافیائی محل وقوع اور اس کے ثقافتی اثرات کی وجہ سے ویسے ہی مرکزی ہے۔ مصر منقلب ہوگیا تو اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔
مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ میں سسٹم سے مفاہمت کے کئی بڑے اور اہم تجربات ہوئے مگر ان میں سے کوئی تجربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ الجزائر میں تو خیر اسلامی فرنٹ کی کامیابی پر ڈاکا ڈال دیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں وہ کشت و خون ہوا کہ جس کی الجزائر کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کو قبول کیا گیا مگر چلنے نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے مثالی تجربہ سوڈان میں ہوا جہاں جنرل عمرالبشیرخود کو اسلامی تحریک کا کارکن اور حسن ترابی کا شاگرد کہتے تھے‘ لیکن حسن ترابی بالآخر اسپیکر کے عہدے سے معزول کیے گئے اور جیل میں ڈالے گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک نہیں ہوا۔ مصر میں ایسے کسی تجربے کی فی الحال کوئی گنجایش نظر نہیں آتی لیکن سسٹم میں جذب ہونے کی صرف ایک صورت نہیں ہوتی‘ چنانچہ اخوان کو اس حوالے سے پوری مسلم تاریخ کے تناظر میں شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور خود کو سسٹم کا حصہ بننے سے روکنا ہوگا۔ مسلم دنیا کی تاریخ میں ویسے بھی کوڑوں سے زیادہ توڑوں کو خطرناک سمجھا گیا ہے۔
کہنے کو فلسطین کے مخصوص حالات اور جغرافیے اور آبادی کے اعتبار سے اس کا ماڈل چھوٹا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے سب سے اچھا ماڈل فلسطین میں تخلیق ہوا ہے۔ یہ ماڈل خدمت اور مزاحمت کے امتزاج پر مشتمل ہے۔ بلاشبہہ اس ماڈل کے تحت پوری مسلم دنیا میں خدمت کے معنی تو وہی رہیں گے لیکن مزاحمت کا مفہوم ہر ملک کے معروضی حالات کے مطابق بدل جائے گا‘ تاہم مزاحمت کا وسیع تر مفہوم باقی رہے گا۔ امریکا میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ نہ ہوتا تو بھی فلسطین کا یہ ماڈل پوری مسلم دنیا کے لیے بہترین ہوتا لیکن۱۱ ستمبر کے بعد کے حالات نے اس ماڈل کو عالمِ اسلام کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں مغرب کی فکری یا اخلاقی برتری کا طلسم ٹوٹ چکا اور پوری مسلم دنیا چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر کے تجربے کا عالمی سطح پر مشاہدہ کررہی ہے۔ عراق کی بے مثال مزاحمت نے طاقت کے عدم توازن کے مضمرات کے خوف کو تحلیل کر دیاہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ جنگیں صرف بی ۵۲ طیاروں اور کروز میزائلوں سے نہیں لڑی جاتیں۔ غاصبین کو بالآخر آسمان سے زمین پر آنا پڑتا ہے اور یہاں جذبے کی عمل داری ہے۔مسلم دنیا کی کم و بیش نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے صرف مزاحمتی روح سے متحرک اور منظم کیا جاسکتا ہے اور بروے کار لایا جاسکتا ہے۔ نیند میں چلنے والے لوگ ان نوجوانوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتے۔ اسلامی تحریکوں کو ان حقائق کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمران ان گندے انڈوں کی طرح ہیں جن سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکتا۔
_____________