جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

کشمیر ___ خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں!

پروفیسر خورشید احمد | جنوری۲۰۰۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

۸ اکتوبر کے زلزلے نے کشمیر اور پاکستان کے شمالی اضلاع کو جس تباہی اور بربادی کا  نشانہ بنایا‘ اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ   اس آزمایش اور ابتلا کا مقابلہ ملت اسلامیہ کشمیر و پاکستان نے جس ہمت اور حوصلے سے کیا‘ اس نے غم و اندوہ کی تاریک رات میں ایمان‘ عزم اور اُمید کے ایسے چراغ جلا دیے جن سے تاریکیاں چھٹنے لگیں اور نئی زندگی کے چشمے اُبھرتے نظر آنے لگے۔ اس تباہی میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور تعمیرنو کی اس جدوجہد میں بھی بڑا حیات آفریں پیغام ہے۔ زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے کہ    ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

طبعی زلزلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والی قوم کو اب ایک دوسری نوعیت کے زلزلوں سے سابقہ درپیش ہے۔ طبعی زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر‘ اچانک ہی زمین اور اس کے باسیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن جو خوفناک سیاسی زلزلے اب پر تول رہے ہیں‘ ان کو آنے سے پہلے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اور ان کو روکنے کا وقت بھی ان زلزلوں کی گرفت سے پہلے پہلے ہے۔  طبعی زلزلوں کے نقصانات کی تلافی واقعے کے بعد ہوسکتی ہے مگر سیاسی زلزلوں کے جلو میں آنے  والی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ان زلزلوں سے پہلے پیش بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش مصیبت (calamity)کو امکانِ نو (opportunity) کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ دراصل عظیم تر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ طبعی زلزلوں کی لائی ہوئی تباہی کا مداوا ریلیف‘ بحالی اور تعمیرنو سے ممکن ہے مگر جو سیاسی زلزلے آج کشمیر پر منڈلا رہے ہیں‘ ان سے بچنے کا راستہ مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری میں مضمر ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سیاسی کھیل کواچھی طرح سمجھا جائے جو اس وقت اسلام آباد‘ دہلی اور واشنگٹن میں کھیلا جارہا ہے اور آنے والی تباہی سے ملک و ملّت کو بچانے کا بروقت اہتمام کیا جائے ورنہ خدانخواستہ گھر کی تباہی کے بعد واویلا کسی کام کا نہ ہوگا۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد تباہی کے جو طوفان اٹھے ہیں اور اُمت مسلمہ کو ایک کے بعد ایک چرکا لگا ہے‘ صرف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ کشمیر اور شیشان اور ان کے ساتھ اسلامی احیا کی تمام تحریکات اور خود اسلام کے بنیادی تصورات تک اسی طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن اس یلغار کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی موجودہ قیادت تو اس صلیبی جنگ کی اصل سرخیل ہے ہی‘ لیکن خود مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔    یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اس مسلم کُش جنگ میں جارج بش کا دست راست بن چکے ہیں اور جس طرح افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے بے وفائی کر کے انھوں نے افغانستان ہی نہیں عراق کو بھی امریکا کی محکومی کا شکار ہونے میں مدد دی‘ اسی طرح اب امریکا کے نقشۂ کار پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے دوستی اور کشمیر کے مسئلے سے گلوخلاصی کی تباہ کن پالیسی پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر کی  تحریکِ مزاحمت کے سینے میں خنجر گھونپنے اور بھارت کی بالادستی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا (demilitarization)‘ خودانتظامی (self governance)‘ اور ریاست ہاے متحدہ کشمیر (United States of Kashmir) کا سہ نکاتی فارمولا سامنے لایا گیا ہے جسے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ نئی ہے اور نہ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف کسی پیش رفت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

کشمیر پر پسپائی: چہے مھلک غلطیاں

مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف کی پسپائی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ہوگیا تھا۔ جیسے ہی وہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گرفت میں آئے اور ’مجبوری کے اتحاد‘ (coalition of the coerced) کا حصہ بنے کشمیر پر پسپائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلے دہشت گردی اور جنگِ آزادی میں فرق کیا جاتا تھا‘ اب وہ فرق پادر ہوا ہوگیا اور جنرل صاحب بھی ’سرحد پار دراندازی‘ کی بھارتی قیادت کی زبان استعمال کرنے لگے جسے بالآخر ۶جنوری ۲۰۰۴ء کے بھارت پاکستان اعلامیہ کے  دہشت گردی پروٹوکول کی شکل میں ایک مستقل زنجیر کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی دوران بڑی چابک دستی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات شروع ہوگئی اور متبادل تجاویز کے غبارے چھوڑے جانے لگے۔ یہ سب کچھ ایک فردِواحد کے فیصلے اور اشارے پر کیا گیا اور۵۸سالہ قومی اتفاق راے‘ دستورپاکستان کے واضح لوازم اور ایک بار نہیں بار بار پارلیمنٹ میں کیے گئے اعلانات اور قراردادوں کو بالاے طاق رکھ کر کسی قومی مشاورت کے بغیر  چھے ایسے اقدام کیے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تار تار ہوگئی اور بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے علاقے کے بارے میں جو نقشہ بنایا ہوا تھا اس کے لیے زمین ہموار کی جانے لگی۔

۱- خارجہ پالیسی میں کشمیر کی مرکزیت اور خصوصیت سے بھارت سے معاملات کو طے کرنے میں اس مسئلے کی اولیت کے اصول کو یک طرفہ ترک کر دیا گیا۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور کشمیر کے مرکزی ایشو (core issue)  ہونے کو عملاً ترک کردیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں‘ پاکستان سے تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوں میں تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے‘ اسے خود پاکستان کی موجودہ قیادت نے قبول کرلیا اور اعتمادسازی کے اقدامات (CBM's) کے نام پر اس راستے پر بگ ٹٹ سرگرم ہوگئی۔

۲- اقوام متحدہ کی قرارداد کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جو دراصل کشمیر سے دست کش ہوجانے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اصل بنیاد ___ قانونی‘سیاسی‘ اخلاقی‘اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم قرارداد …۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:

مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب راے منعقد کیا جائے۔

حق خود ارادیت ایک بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم کیاگیا ہے اور وقت کے گزرنے سے اس حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ویانا میں منعقد ہونے     والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سے لے کر ۱۹۹۴ء میں کوپن ہیگن میں Social Summit‘ پھر ۲۰۰۰ء میں منعقد ہونے والی Millenium Summit اور خود ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس نے اس حق کے ناقابل سمجھوتہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:

سب نے غیر ملکی قبضے اور بیرونی تسلط کی مذمت میں تمام انسانوں کے حق خودارادیت کی تصدیق کی۔

جموں و کشمیر کے عوام کے اس حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کے واضح اقرار سے دست کش ہونے کا اختیار کسی شخص کو نہیں تھا اور نہ ہے___ لیکن جنرل صاحب نے اہلِ کشمیر ہی نہیں‘ پوری مظلوم انسانیت کے اس حق پر ہاتھ صاف کرڈالا‘ جب کہ ان کے اس اعلان کی خبر وزیرخارجہ‘ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کو رائٹر کی خبر سے ملی اور کسی سے مشورہ کرنے کی زحمت کرنا انھوں نے گوارا نہ کی۔ ان کے اس اعلان کی کوئی قانونی‘ سیاسی یا اخلاقی حیثیت نہیں اور پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے عوام نے اسے رد کردیاہے لیکن جنرل صاحب نے پاکستان کی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا اور تحریکِ مزاحمت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

۳- بیرونی اقتدار کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور حقیقی دہشت گردی کے درمیان فرق کو نظرانداز کر کے اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی دی ہوئی لائن پر صاد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور غیروابستہ تحریک کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور خود عالمِ اسلام کے اہلِ علم و دانش کے اس اعلامیے کی ضد ہے جو ۱۱ستمبر کی نام نہاد امریکی جنگ کے بعد مکہ مکرمہ میں چھے روزہ اجتماع کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں صاف الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی عام انسانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو اور جس کا ارتکاب خواہ کوئی فرد کرے‘ یا گروہ یا ریاست۔ البتہ بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی ہر وہ کوشش جو افراد یا گروہ اپنی آزادی اور مسلط قوت یا سامراجی قبضہ کاروں (colonial settlers) سے اپنی اور اپنے وطن کی گلوخلاصی کے لیے کر رہے ہوں‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔

۴- یک طرفہ جنگ بندی کر کے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ حالانکہ یہ سوال ہی مہمل ہے کہ جنگ حل ہے یا نہیں۔ جنگ تو نام ہی سیاسی حل کی ناکامی کا ہے اور اس صورت میں بین الاقوامی قانون اور تعلقات کے تمام ہی مستند اہلِ علم جنگ کو خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر امن و امان‘ جان و مال کا تحفظ اور قانون‘ حقوق اور معاہدوں کے احترام کے لیے فوجداری قانون‘ پولیس اور نظامِ احتساب ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح عالمی امن اور ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے فوج کا وجود اور جنگ کا کردار ہے۔ اگر جنگ کا کوئی کردار نہیں تو پھر فوج کا کیا جواز ہے۔ سفارت کاری‘ سیاسی معاملہ بندی اور جنگ کا سدِّجارحیت (deterrent) کردار‘ سب کا عالمی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ بھارت کی جنگی تیاریوں اور فوجی عزائم کی موجودگی میں پاکستانی قیادت کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات   ذہنی شکست کی علامت ہیں اور دشمن کو شہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کی خاکساری کی تمام باتوں اور صلح اور دوستی کے لیے منتوں کے باوجود بھارتی قیادت کا رویہ تکبر‘ غرور اور مبارزت کا ہے۔ ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء کو بھارتی ایئرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے پونا یونی ورسٹی میں جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہماری قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے:

پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے نئے رشتے کے باوجود پاکستان بھارت کا دشمن اوّل رہے گا اور ہماری سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ رہے گا۔ ہم پاکستان کو دشمن اوّل سمجھتے ہیں لہٰذا ہم بھارتی فضائیہ کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔

پھر موصوف نے وہ تفصیلات بیان کیں جو بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر ہی نہیں‘ علاقے کے لیے  سب سے بڑی جارح قوت بنانے کے لیے کی جا رہی ہیںجس میں ملک میں جنگی طیاروں کی  تیاری‘ ایف-۱۶ طیاروں کی خریداری اور ٹکنالوجی کا حصول‘ جدید ہیلی کاپٹروں کی خرید‘ ایئرڈیفنس میزائل کی ترقی‘ مگ ۲۱ اور ۲۷ اور جیگوار طیاروں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے۔

۵-  پانچویں بڑی غلطی سفارت کاری کا وہ نادر طریقہ ہے جو جنرل صاحب نے شروع کر رکھا ہے‘ یعنی اپنی طرف سے نت نئی تجاویز (options) کی بارش اور پھر اپنی ہی تجویز سے ایک نئی پسپائی‘ جب کہ بھارت کی طرف سے بڑھ بڑھ کر یہ اعلان کہ زمین کے معاملے میں کوئی بات نہیں ہوسکتی‘ بھارتی دستور اور وہاں کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے ہٹ کر کوئی اور متبادل تجویز زیرغور نہیں لائی جاسکتی‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں ہوگی‘ اور خرابی کی ساری جڑ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات چیت ممکن نہیں وغیرہ۔ بھارت کی سیاسی قیادت ہی نہیں‘ ہر سطح کی قیادت کی یکسوئی‘ ہم آہنگی اور اپنے موقف پر استقامت کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری پسپائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

۶-  اس سلسلے کی چھٹی اور بڑی ہی مہلک غلطی جو جموں و کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی تقسیم ہے۔ کشمیری عوام کی اس معتمد علیہ قیادت سے جو ایک طرف تصور پاکستان کی امین ہے تو دوسری طرف جس کی قربانیاں بے مثال اور جس کا عزم و ہمت لازوال ہے‘ بے وفائی اور اپنی پسند کے چُھٹ بھیّوں کو پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے ذریعے لیڈری کی خلعت سے نوازنا بے حد شرمناک ہے۔ حکومت پاکستان کی ان قلابازیوں سے کشمیری مزاحمت کی اصل قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا جو سید علی شاہ گیلانی‘ حزب المجاہدین اور دوسری حقیقی سیاسی اور جہادی قوتوں سے عبارت ہے۔ وہ اسی طرح اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جس طرح پہلے تھیں لیکن حکومت پاکستان کی ساکھ اور کشمیر کے کاز سے اس کی وفاداری پر ایسے چرکے لگے ہیں کہ دوبارہ اعتماد کو بحال کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی حقیقی قیادت میں بڑا بُعدواقع ہوگیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ بُعد پاکستان کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔

ان غلطیوں کا فطری نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔  جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے اب اصل ایشو جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت نہیں بلکہ صرف خود انتظامیت (self governance) ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر کو پانچ یا سات علاقوں میں تقسیم کرکے‘ بھارت اور پاکستان کے تحت کچھ اختیارات دینے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میں چار چاند لگانے کے لیے اس امریکی اسکیم کو جسے ۲۰۰۰ء میں امریکا کے ایک کروڑپتی بھارتی کشمیری نے چند امریکی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا اور سب کشمیری گروپوں اور پاکستان کے اہلِ دانش نے اسے رد کر دیا تھا‘ دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسے ’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر‘ کے نام سے چند کشمیری رہنما اس طرح پیش کر رہے ہیں جس طرح کشمیر کی ’خودمختاری‘ (autonomy) کے خیالی نقشے خود شیخ عبداللہ نے ۱۹۵۳ء میں پیش کیے تھے اور ان کی پاداش میں وہ بیک بینی و دوگوش مسند وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرکے زنداں کی تاریکیوں کے حوالے کردیے گئے تھے جہاں سے ان کو ’راے شماری‘ کی روشنی دوبارہ نظر آنے لگی تھی۔

کشمیر سے دست برداری

صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کے حواری ذہنی طور پر شکست کھاچکے ہیں اور اب کشمیر کے مسئلے سے دست کش ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا کے روڈمیپ پر عمل کر رہے ہیں اور فضا سازگار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم مستقل شکل اختیار کرلے‘ وہ لائن آف کنٹرول کو    بین الاقوامی سرحد چاہے نہ بھی کہیں لیکن عملاً اسے مستقل سرحد ماننے پر تلے ہوئے ہیں اور نرم سرحدوں اور سرحدوں کو غیرمتعلق (irrelevant) کرنے کی طفل تسلیوں سے قوم کا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کی مستقل بالادستی اور دوسرے پر پاکستان کی‘ اس نقشے کا اصل حصہ ہیں جو اہل کشمیر کی پوری جدوجہد پر پانی پھیرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ جنرل صاحب کے وزیراعظم اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اب کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کی صورت بس فوجوں کی واپسی اور خودانتظامی میں مضمرہے:

منگل کو وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اپنے دیرینہ طویل مدت سے برقرار تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا اور خودانتظامی کی تائید کرتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ئ)

دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اس قیادت کی نگاہ میں اس دیرینہ مشکل مسئلے کا خاتمہ فوجوں کی واپسی اور خود انتظامی میں ہے۔ یہ کشمیر کے کاز کے ساتھ کھلی غداری اور جموں و کشمیر کے عوام کی قربانیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے جسے کشمیر کے عوام اور پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ جو بات جنرل مشرف‘ شوکت عزیزاور میرواعظ عمرفاروق فرما رہے ہیں‘ وہ صاف طور پر  حق خود ارادیت سے دست برداری اور بھارت اور پاکستان کے زیرتسلط منقسم کشمیر میں کسی قسم کی  خود انتظامی کے بھارتی اور امریکی منصوبے کے آگے سپرڈال دینے سے عبارت ہے۔ اس کا یہی وہ مفہوم ہے جو امریکا اور بھارت کے دانش ور اور پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں‘ البتہ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے بھارت ذرا تغافل‘ تجاہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ ورنہ تقسیمِ کشمیر اور نام نہاد خود انتظامی اس کا اصل مقصود ہے‘ اور پاکستانی قیادت کی زیادہ سے زیادہ پسپائی کے بعد وہ اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ ساری مزاحمت پاکستانیوں کے لیے اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمایشی طور پر کر رہا ہے۔

بھارتی روزنامہ سٹارنیوز کا سفارتی امور کا مدیر جیوتی ملہوترا ’سیلف گورننس‘کی اس پاکستانی تجویز پر اپنی خوشی کو چھپا نہیں پا رہا کہ دیکھو پاکستان کس طرح کشمیر کی آزادی کے اس ہدف سے دست بردار ہوگیا ہے جو چند سال پہلے پورا ہوتا نظر آرہا تھا:

یہ ’آزادی‘ سے کتنا بعید تصور ہے! ایک عشرے پہلے کا حقیقی پریشانی اور تراشیدہ سیاسی مکر کا مرکب‘ جب کہ بہت سے لوگ سوچنے لگے تھے کہ بھارتی قبضے کا اختتام قریب ہے۔

وہ کہتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی نرم سرحدوں کی بات اور جنرل پرویز مشرف کے خود انتظامی اور فوجوں کی واپسی کی تجویز ان خطوط کار کی نشان دہی کررہے ہیں جن کے مطابق معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں میرواعظ عمر فاروق کی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی تجویز سونے پر سہاگہ ہے۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں سوال کرتا ہے کہ:

سوال یہ ہے کہ آیا نرم سرحدیں اور خود انتظامی ایک ہی چیز ہیں؟

اور اپنا مضمون اس دل چسپ جملے پر ختم کرتا ہے کہ:

بالآخر آزادی کو تاریخ کے سپرد کر دینے کے بعد سیکڑوں نئے تصورات اُبھرے۔ اس بحث کا سب سے ہیجان انگیز (exciting) پہلو یہ ہے کہ بحث کا آغاز ہوگیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

امریکا کا مشہور کالم نگار جوناتھن پاور جس کا کالم ۵۰ اخبارات میں شائع ہوتا ہے‘ پاکستان کی طرف سے دی گئی رعایتوں کی طویل فہرست بیان کرکے کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس لیے کہ:

یہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے‘ جب کہ عسکری مردِ آہن مشرف پاکستان کو کچھ دے سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہونے والے مجوزہ انتخابات اس کا بھرم کھول سکتے ہیں۔

وہ اعتراف کرتا ہے کہ:

یہ پاکستان ہے جس نے حساس رعایات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جیساکہ اس پر تیار ہونا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کہ مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ کو ایک طرف ڈالنا اور یہ قبول کرنا کہ کشمیر کا بیشتر حصہ براہِ راست بھارتی حاکمیت کے ماتحت رہے۔

مزید یہ کہ مشرف نے فوج اور جہادیوں کے درمیان نال (umbilical cord)کو بالآخر کاٹ دیا ہے۔ شاید بھارت اپنے کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ انتظار کرے تو پاکستان مزید رعایتیں دے سکتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۱۶دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۳)

پاکستانی قیادت اپنے کو‘ اپنے عوام کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے کچھ بھی کہے‘    جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کشمیر سے دست برداری سے کم کوئی چیز نہیں ہے اور پاکستانی قوم کو اس کھیل کو سمجھ کر اپنا کردار بلاتاخیر اور مؤثر ترین انداز میں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔

خود انتظامی یا خود ارادیت

مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت کو پراگندا کرنے کی جو ناپاک کوشش ہو رہی ہے‘ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی تقسیمِ ملک کے بعد شروع نہیں ہوئی‘ اس سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) سے بھی ۱۰ سال پہلے کشمیر میں عوامی تحریک اور قربانیوں کا لازوال سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس پوری جدوجہد کا ایک ہی ہدف تھا___ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ظالمانہ ڈوگرہ راج اور اس کے سرپرست برطانوی سامراج سے آزادی اور ریاست کے اسلامی تشخص کی روشنی میں اس کے مستقبل کی تعمیروتشکیل۔ قرارداد پاکستان کے اختیار کیے جانے اور تحریکِ پاکستان کے شروع ہوجانے کے بعد فطری طور پر تحریک آزادی کشمیر اس وسیع تر تحریک کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ملک کے اعلان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے تحریک الحاق پاکستان کا آغاز کر دیا۔ آزاد کشمیر کا جو علاقہ آزاد ہوا ہے وہ کسی کی عنایت سے نہیں بلکہ مجاہدین کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے عوام کا اُٹھ کھڑا ہونا اور قربانیاں اس اسٹرے ٹیجک علاقے کی آزادی اور پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس حقیقت کو بھلایا جا رہا ہے کہ آزادی کی یہ تحریک ۱۹۳۰ء سے برسرِ جہاد ہے اور ۴۸-۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ۴ لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے اس علاقے کو آزاد کرایا ہے جو آج آزاد جموںو کشمیر کے نام سے تحریک آزادیِ کشمیر کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت اور جہاد کی تحریک رونما ہوئی وہ اسی کا تسلسل اور سیاسی اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے تمام دروازے بندکرنے کا نتیجہ ہے۔

پھر یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے آج خود انتظامی (self governance) کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء تک شیخ عبداللہ کے دور میں جو نقشۂ کار بنایا گیا تھا اس میں کم از کم نظری طور پر خودانتظامی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دستور میں ایک خاص دفعہ ۳۷۰ اس کے لیے رکھی گئی۔ گو بعد میں بھارت نے اس شق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پورے کشمیر پر بدترین مرکزی آمریت مسلط کی لیکن ’خود انتظامی‘ کا دلاسہ بار بار دیا گیا۔ پھر نرسیمارائو کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ (maximum) خودمختاری کی باتیں ہوئیں اور جموں و کشمیر کی اسمبلی نے جون ۲۰۰۲ء میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔ شیخ عبداللہ  اور اندرا گاندھی کے معاہدے کا مرکزی تصور بھی خودانتظامی ہی تھا اور آج بھی بھارت کی قیادت  یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کشمیر کو خود انتظامی دے چکی ہے اور اگر خود انتظامی کی کہیں کمی ہے تو وہ پاکستانی حصہ یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہے۔

روایت ہے کہ ڈھاکہ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستانی ہم منصب  شوکت عزیز صاحب سے کہا تھا:

جموں و کشمیر پہلے ہی بھارتی دستور کے تحت خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک مقبول منتخب حکومت قائم تھی۔ انھوں نے جناب عزیز کو بتایاکہ: ’’پاکستان کے زیرنگرانی کشمیر میں خودمختاری کا واضح فقدان ہے اور گلگت بلتستان میں عوام کی خواہشات اور تمنائوں کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے عوامی انتخابات نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ (دی ہندو‘ دی نیشن‘ ۱۰ دسمبر۲۰۰۵ئ)

پاکستان کی موجودہ قیادت نے خود انتظامی کی بات کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے کیس کو خود ہی تباہ کر ڈالا ہے۔ مسئلہ خود انتظامی کا نہیں‘ خود ارادیت کا ہے۔ اب ایشو ہی بدل گیا ہے اور ہم بھارت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور جیساکہ جوناتھن پاور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس موقف کی وجہ سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کی مستقل حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدرعمر عبداللہ نے میرواعظ اور جنرل مشرف کی اس تجویز کو ’پرانی بوتل پر نیا لیبل‘ قرار دیا ہے اور میرواعظ پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر ان کو ہمارا ایجنڈا ہی چرانا تھا تو ہزاروں افراد کو مروانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

بھارت تو دراصل کسی حقیقی ’خودانتظامی ‘ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۷۰ میں بار بار ترمیم کی گئی ہے اور صدارتی حکم ناموں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کی قرارداد جس میں خوداختیاری (autonomy) کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء ہی کو بھارتی کابینہ کے فیصلے کے ذریعے رد کر دیا گیا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کسی شکل میں بھی حقیقی خوداختیاری دینے کے لیے نہ کبھی تیار ہوااور نہ ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خود انتظامی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل ایشو ایک اور صرف ایک ہے اوروہ ہے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا۔ اس کے حصول کے لیے خواہ کتنی ہی مدت لگے‘ وہاں کے عوام اس سے کم پر کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ وہ ۴۸-۱۹۴۷ء میں ۴ لاکھ افراد کی قربانی دے چکے ہیں اور ۱۹۸۹ء سے اب تک ایک لاکھ افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور ان کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کو اگر کوئی مایوسی ہے تو وہ پاکستان کی قیادت سے اور اس کی روز روز کی قلابازیوں اور بے وفائیوں سے ہے۔ ورنہ ان کا حال تو یہ ہے کہ    ؎

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پُر دَم ہے اگر ُتو‘ تو نہیں خطرہ افتاد

گذشتہ دو سال میں پاکستان نے جو پے بہ پے غلطیاں کی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی ساری پسپائیوں کے جواب میں بھارت نے جس ہٹ دھرمی‘ضد اور اپنے اٹوٹ انگ موقف پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر اب خود جنرل مشرف اور وزیرخارجہ خورشید قصوری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے___ لیکن اس کے باوجود تاریخ سے نابلد اس قیادت کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں اور وہ امریکا کے بھروسے پر مزید پسپائیاں اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

امریکی منصوبہ

اس زمانے میں جو بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر گیا ہے‘ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اصولی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی آج پارہ پارہ ہوچکی ہے اور پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے‘ جب کہ بھارت کی کشمیر پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ پاکستان سے مزید رعایات کا اسی طرح مطالبہ کر رہا ہے جس طرح اسرائیل مجبور فلسطینیوں سے شب و روز کررہا ہے۔ امریکا اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک طرف پاکستان کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ نیز اس کا مفاد اس میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے مگر کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے امریکا کو اس علاقے میں مزید قدم جمانے‘ اپنی فوجوں کے قیام کے لیے کچھ اور علاقہ حاصل کرنے‘ اور پورے علاقے کی نگرانی کے لیے یہاں اپنی موجودگی کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز دراصل کشمیر فار یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا ایک جال ہے۔ امریکی دانش وروں کی کشمیر اسٹڈی کا ہدف اس کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک مزید پہلو مطلوب ہے اور وہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ‘ نیز بالآخر خود پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا اور پاکستان اور بھارت کو لسانی‘ معاشی‘ تہذیبی وحدت کی طرف لے جانا جو بالآخر تقسیم ہند کے تاریخی عمل کو الٹی سمت میں موڑ سکے اور پھر اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل وجود میں آسکے۔ اس ذہن کو سمجھنے کے لیے صرف دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

امریکی اسٹڈی گروپ کا ٹیپ کا بند یہ ہے:

نئے وجود کا اپنا سیکولر جمہوری دستور ہوگا‘ اپنی شہریت‘ جھنڈا اور مقننہ ہوگی جو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی کرے گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کے وجود کے دفاع کے ذمہ دار ہوںگے۔ امید کی جائے گی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے لیے مالی انتظامات کریں گے۔

کلدیپ نائر بھارت کے مشہور صحافی ہی نہیں سابق ہائی کمشنر بھی ہیں اور Track II میں ان کا بڑا کردار ہے۔ ان کے ارشادات بھی بہت ہی واضح ہیں:

بھارت کی مرکزی حکومت دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے رکھ سکتی ہے اور دوسرے تمام معاملات پر کشمیریوں کو خود اپنے اُوپر حکومت کی اجازت دی جائے گی۔  بے شک پاکستان کو بھی لائن آف کنٹرول کی اپنی طرف اسی طرح کی اجازت دینا ہوگی۔ (سیفما لیکچر‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

دی نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کلدیپ نائر کے دل کی بات زبان پر آگئی:

مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا عمل پورے جنوبی ایشیا پر پھیل سکتا ہے اور ایک واحد ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کی نرم سرحدیںاور معاشی خوش حالی ہو۔ (دی نیوز‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۸)

کلدیپ نائر نے ایک بار پھر بڑے شدومد سے یہ بات کہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسئلے کا کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ان کی تقریر کا سارا زور اس پر تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تصور درست تھا‘ بلکہ اپنے انٹرویو میں تو قائداعظم سے یہاں تک منسوب کرگئے کہ تقسیم کے بعد وہ اس شک میں مبتلا تھے کہ تقسیم صحیح ہوئی یا غلط۔ افسوس اس انٹرویو کے وقت کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس صریح دریدہ دہنی پر اس کی گرفت کرتا:

کراچی میں بحریہ کے ایک نوجوان افسرنے مسٹر جناح سے پوچھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول صحیح قدم تھا یا نہیں؟ نائر کے مطابق‘ قائداعظم کا جواب تھا: میں نہیں جانتا۔

قائداعظم پر اس سے بڑا الزام ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد ایک نہیں ان کی درجنوں تقاریر گواہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قیام کو اللہ کا کتنا بڑا انعام اور مسلمانوں کی کتنی عظیم کامیابی قرار دیا۔ لیکن بھارت اور اس کی قیادت کا جو ذہن تقسیم سے پہلے تھا‘ آج بھی وہی ہے اور اصل ہدف تقسیم کی نفی اور مذہب کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی صورت گری کے مقابلے میں سیکولرازم کو مسلط کرنے کا نصب العین ہے۔ سارا کھیل اسی کے لیے ہے۔ پنجاب میں لسانی وحدت اور تجارت اور تہذیب و ثقافت دونوں ہتھیاروں کا بے محابا استعمال قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاکستان کی جدوجہد سے حاصل شدہ اس آزاد اسلامی ملک کو ایک بار پھر کسی نہ کسی شکل میں بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے ہے۔ستم ہے کہ کچھ جواں سال دانش ور یہ مشورے دے رہے ہیں کہ تاریخ کو بھول جائو اور نئے بام و در تلاش کرو حالانکہ تاریخ کو نظرانداز کرنا ایسی سنگین غلطی ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاریخ بڑی ظالم نقاد ہے۔ یاد رکھیے‘ جو تاریخ سے خود سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ انھیں اپنے انداز میں بڑا سخت سبق سکھاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کا نقشۂ کار بالکل واضح ہے۔ اس سے وہی آنکھیں بند کرسکتا ہے جو آنکھوں دیکھتے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تلا ہوا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان خودکشی کی اس راہ پر قوم و ملک کو دھکیلنے کی کسی کوشش کو گوارا نہیں کرسکتی۔

اصل سبب ، اصل حل

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ فردِ واحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بے بسی اور قومی احتساب کی کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہمارا اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ قومی امور پر فیصلے کرنے کے لیے مؤثر اداراتی نظام (institutional set-up) یا موجود نہیں یا اسے غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ غلام محمد کے دَور سے لے کر جب وہ گورنرجنرل تھے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے تک‘ کسی نہ کسی شکل میں اداروں کے انہدام کا عمل جاری رہا ہے جو جنرل مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاملہ کشمیر کا ہو یا فوج کے سیاست میں کردار کا‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا قومی مالیاتی ایوارڈ کا‘ بھارت سے دوستی کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے سلسلہ جنبانی کا‘ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کی بات ہو یا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور ترجیحات کا معاملہ‘ ایک فردِواحد ہے جو محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند (sweet will)‘ ترجیحات اور تعصبات کی روشنی میں معاملات طے کر رہا ہے۔ باقی سب کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم! سینیٹ‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سب غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ہم بربناے علم یہ بھی ریکارڈ پر لے آنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ بیش تر سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ والے دانش ور غیرمطمئن ہیں بلکہ خود دفترخارجہ ایک مخمصے کا شکار ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے موجودہ پالیسی کے بنانے میں خود دفترخارجہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اداروں کے تباہ کیے جانے کا اس سے اندوہناک منظر کیا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک اداروں کو بااختیار اورمستحکم کرنے کا اہتمام نہیں ہوگا اور عوام اور سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اختیارات کو غاصبوں سے چھین کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے آتے‘ ہماری آزادی‘ سالمیت‘ نظریاتی تشخص‘ معاشی صلاحیت ہر چیز دائو پر لگی رہے گی۔ اس لیے خرابی کی اصلاح کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ قیادت کو قومی خودکشی کے راستے سے روکا جائے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسائل کے مستقل حل کے لیے فردِواحد کی حکمرانی کے نظام کو لگام دی جائے اور دستور اور قانون کی بالادستی‘ پارلیمنٹ کی حکمرانی اور عوام کے حقیقی اختیارات کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ خرابی کی جڑ کو دُور کیا جاسکے۔

مستقبل کے لیے حکمت عملی

کشمیر کے مسئلے پر جو بات سب سے زیادہ ضروری ہے‘ وہ اصولی موقف پر استقامت اور دنیا کے حالات کو دیکھ کر ایسی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصولی اور تاریخی اہداف کے حصول کاذریعہ بن سکے۔منزل تک پہنچنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنا تو مطلوب ہے لیکن بظاہر راستہ  نظر نہ آنے پر منزل ہی ترک کر دینا حماقت ہی نہیں قومی خودکشی بھی ہے۔

پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی کو نہایت نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاست ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اس کا وہی فیصلہ قبول کیا جائے گا جو وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے کریں گے۔ بعد میں پاکستان سے اس ریاست کے تعلقات وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے اور یہی اصول انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔

اس بنیادی پالیسی فریم ورک کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جلدبازی سے کوئی  اُلٹا سیدھا ’حل‘ تلاش کرنا ایک عاجلانہ اقدام ہوگا جو پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کے مفاد کے منافی ہے۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ صبروہمت اور حکمت کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تغیر آرہا ہے۔ امریکا کی     خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام تو امریکی پالیسیوں کے مخالف تھے ہی‘ اب خود امریکا میں بھی ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عراق میں امریکا کی شکست نوشتۂ دیوار بن گئی ہے۔ دنیا کے دانش ور چِلّا رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دنیا میں  دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور سب کا امن و سکون تہ وبالا ہوچکا ہے۔ اب یہ جنگ اور اس کے جلو میں بنائی جانے والی پالیسیاں انسانی آزادی اور جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان حالات میں سارا انحصار امریکا پر کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔

اس وقت مسئلے کو زندہ رکھنا وقت کی اصل ضرورت ہے اور اس کے لیے تحریک مزاحمت کے ساتھ ایسی یک جہتی کا اظہار ہونا چاہیے جو پاکستان پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اعتماد کو مزید پروان چڑھائے اور کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کے اعتماد کو مجروح کرنے والی ہو۔ اس سے مکمل احتراز کیا جائے۔ بھارت پر نپے تلے دبائو کو بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کی جارہی ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی تحریکِ مزاحمت کی ہرممکن اخلاقی‘ مادی اور سفارتی تائید کی جائے۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی قیمت پر اور کسی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و ہمت کا    شب و روز مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اسے نظرانداز کرکے محض چند مفاد پرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں دوام دینے کی کسی بھی کوشش کی کسی نوعیت کی بھی تائید کشمیری عوام سے غداری اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والی چیز ہوگی۔

آج یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت وہ ہے جو بھارت کے تمام مظالم اور پاکستان کی تمام پسپائیوں کے باوجود بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہے اور استصواب رائے کے بنیادی اصول سے ہٹ کر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر ہی کشمیری عوام کی اصل امنگوں کی ترجمان ہے اور تمام مجاہد قوتوں کا اعتماد بھی اسی انقلابی قیادت کو حاصل ہے۔ حزب المجاہدین تحریکِ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظرانداز کرکے کشمیر کے مستقبل کا کوئی حل ممکن نہیں۔

زمینی حقائق پر جن کی نظر ہے‘ وہ واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سرکاری میڈیا جن شخصیات اور گروہوں کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ حقیقی عوامی تائید سے محروم ہیں اور تمام مؤثر سیاسی اور جہادی قوتیں انھیں شبہے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ استعماری تسلط کے خلاف تحریکوں کا مطالعہ اس امر کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں وہی ہوتی ہیں جو استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد کرتی ہیں۔ کشمیر میں بھی فیصلہ کن قوت موروثی گدی نشینوں کی نہیں‘ مجاہدین اور ان سیاسی قائدین کی ہے جو بے خوف و خطر بھارتی سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی جن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں وہ یہی مزاحمت کی قوتیں ہیں‘ بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے والے نہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان کے عوام اور یہاں کی مؤثر سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اور راے عامہ کو متحرک و منظم کرکے موجودہ عاقبت نااندیش قیادت کو تباہی کے راستے سے روکنے اور بالآخر اسے اقتدار و اختیار سے ہٹاکر ایک ایسی سمجھ دار‘ معاملہ فہم اور صاحبِ بصیرت قیادت کو اختیارات کا امین بنانے کی جدوجہد کریں جو ملک و قوم کو اس کے اصل نصب العین اور اہداف کے حصول کے لیے سرگرم کرسکے‘ جو خود بھی ان مقاصد کی وفادار ہو اور قوم اور اس کے تمام وسائل کو بھی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کردے۔

کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ وجود (entities)نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کا حصہ اور تکملہ ہیں۔ ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے ایک اصولی مسئلہ ہے کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ کر ان کے قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ پھر کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مواصلاتی‘ تہذیبی اور دینی تعلق کچھ ایسا ہے کہ ان کے درمیان یہ یا وہ کا معاملہ نہیں بلکہ دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ جو پاکستان یا کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو بھی‘ اس لیے کہ کشمیر پر دوسروں کا غاصبانہ تسلط پاکستان پر تسلط کے ہم معنی ہے اور بالآخر اس کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ اسی لیے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر ہماری شہ رگ دوسروں کے قبضے میں ہے تو کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر پالیسی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو بات سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں وہی قاضی حسین احمد اور آغا شاہی اور سردار آصف احمد علی کہہ رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں۔

کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے اور پاکستانی قوم اور قیادت کا فرض ہے کہ ان کے اس حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے اور اس باب میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ گذشتہ چار پانچ سال میں جس کمزوری‘ بے اعتدالی اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اس سے فوری طور پر رجوع کیا جائے اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف پر سختی سے قائم رہنے اور قوم کو اس کے لیے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر پوری تیاری کے ساتھ ایک بھرپور مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ تاریخ میں آج تک کسی قوم کو محض جبر اور قوت کے ذریعے محکوم نہیں رکھا جا سکا۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہو ‘ پھر اسے کوئی غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیری عوام نے زندگی اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے اسی راستے کو اختیار کرلیاہے۔

اب پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے اور اس سلسلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ اب امتحان ان کا ہے جنھیں جرأت اور حوصلہ مندی کا دعویٰ ہے۔ جرأت نام ہے اپنے نصب العین اور مقاصد کے بارے میں استقامت اور جدوجہد کا۔ جو حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔


گذشتہ شمارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کی سہ ماہی میں رسالے کی توسیعِ اشاعت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی جائیں گی۔ ترجمان القرآن ایک پیغام کا علم بردار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے اس پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آج اس کی جو غیرمعمولی اشاعت ہے اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد ہمارے رفقا کی کوششیں ہی ہیں۔

اس سہ ماہی مہم میں ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے ہر باشعور شہری تک ایک دفعہ نمونے کا پرچہ پہنچا دیا جائے۔ اس حوالے سے اپیل کی گئی ہے اور مختلف سطح کے نظم اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری کے لیے ہمیںکافی بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہوچکے ہیں۔ فروری اور مارچ میں یقینا اضافہ ہوگا۔

مختلف پیشوں سے وابستہ ہمارے رفقا کی خصوصی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ رسالہ ملک کے ہراستاد‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘انجینیر‘ وکیل‘ اکائونٹنٹ‘ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے ماہر‘ سول اور فوجی افسر‘ تاجر‘  دکان دار‘ صنعت کار‘ کارپوریشنوں کے افسر اور عام پڑھے لکھے فرد تک پہنچے۔ نہ صرف مردوں تک بلکہ ان پیشوں سے وابستہ اور گھریلو امور میں مصروف تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھوں میںبھی ضرور جائے۔

دوسری طرف ہماری کوشش ہے کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور یہ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمل راہنما رسالہ ثابت ہو اور ہر ماہ انھیں فکری غذا ہی نہیں ‘بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے لیے جذبہ اور توانائی بھی دے تاکہ آخری فیصلے کے وقت وہ فوزِ عظیم سے ہمکنار ہوں۔

_____________(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)