جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جنوری۲۰۰۶ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

دورانِ نماز متن یا ترجمۂ قرآن دیکھ کر پڑھنا

سوال: نماز میں خشوع اور توجہ کے لیے میں ایک الجھن کاشکار ہوں۔ رمضان میں نماز تراویح کے دوران ایک تجربے سے گزرا۔ جرمنی کے ایک اسلامک سنٹر میں تراویح کی نماز سے قبل‘ تراویح میں پڑھی جانے والی سورتوں کا مفہوم تفہیم القرآنسے دیکھ کر جاتا اور دورانِ نماز توجہ‘ انہماک اور خشوع وخضوع کے لیے قرآن کے ایک جیبی نسخے سے متن اور ترجمہ پر بھی نظر ڈالتا اور ساتھ ساتھ عربی قرأت سے بھی محظوظ ہوتا۔ اس دوران خشوع و خضوع کی جو کیفیت حاصل رہی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے ایک عالم دین سے بھی رجوع کیا کہ آیا یہ عمل درست ہے؟ مگر انھوں نے کہا کہ چاروں ائمہ کرام میں سے کسی کا مسلک اس طرح قرآن کا ترجمہ دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگرچہ وہ میری کسی بھی بات کا منطقی جواب نہ دے سکے‘ تاہم میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا کہ یہ بدعت ہے یا کوئی شرعی اقدام ہے۔ میں ان احکامات سے بھی آگاہ ہوں جن کے تحت نماز عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں ادا نہیں ہوسکتی اور قرآن کی قراء ت کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز میں اس کی اجازت نہیںلیکن نمازِ تراویح میں متن و ترجمۂ قرآن دیکھنے سے خشوع و خضوع کی جو کیفیت ہوتی ہے اور فہمِ قرآن کا جو موقع میسر آتا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب :صلوٰۃِ تراویح کے دوران قرآن کریم کے ترجمہ یا قرآن کریم کے متن کے پڑھنے کے بارے میں آپ نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ جب تک ہم اپنے اعمال کا احتساب کرتے رہیں گے ان شاء اللہ صراطِ مستقیم سے دُور نہیں جائیں گے۔

اس مسئلے کو نہ تو اس بنا پر حل کیا جا سکتا ہے کہ بعض خِطوں یا بعض ممالک کے ماننے والے کیا کرتے ہیں نہ اس کی بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ عربی دان حضرات کسی عمل کو کس طرح کرتے ہیں۔ پانچوں معروف اور دیگر غیر معروف فقہی مسالک کے بانی ائمہ عربی داں ہی تھے۔ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ ، امام جعفرؒ یا امام احمد بن حنبلؒ ان میں سے کسی نے بھی قرآن و حدیث کے ترجمے کی مدد سے دین کو نہیں سمجھا تھا۔ اس کے باوجود ان کی بعض تعبیرات و تشریحات اپنے ہم پلہ علما سے مختلف تھیں اور آج ان کے پیروکار اسی بنا پر ایک سے زائد تعبیرات پر عمل کرتے ہیں۔

آپ کے سوال میں بنیادی فکر یہ نظر آتی ہے کہ اگر محض قرآنی تلاوت سنی جائے تو غیرعربی داں کے لیے ذہن کے بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ جب کہ نماز میں قرآن کریم کو سننے کے ساتھ اس کے معانی پر غور کرنا صحیح معنی میں ایک شخص کو نماز کی حلاوت و خشیت سے زیادہ قریب کرسکتا ہے۔ گویا یہ راے قائم کرتے وقت ہم یہ تصور کر رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جو عربی زبان سے آگاہ ہوگا وہ شیطان کے ذہن کو بھٹکانے کی حکمتِ عملی کا شکار نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ عربی زبان سے واقف بے شمار افراد قرآن کی تلاوت سننے کے باوجود اس کے مفہوم سے غیرآگاہ رہ سکتے ہیں اور بہت سے افراد عربی زبان کے کماحقہ واقفیت کے بغیر بھی قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سن کر خشیت کی کیفیت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

بلاشبہہ قرآن کریم تقریباً ہر صفحے پر بار بار اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو غوروفکر‘ توجہ‘ تفقہ اور تدبر پر اُبھارتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک شخص قرآن کریم کے معانی و مفہوم سے آگاہ ہو۔ آپ کا تراویح کے لیے جانے سے قبل‘ تفہیم القرآنیا کسی اور تفسیر یا ترجمۂ قرآن کا مطالعہ کرنا ایک انتہائی مطلوب و مستحسن فعل ہے۔ جو حضرات براہِ راست قرآن کے معانی کو نہ سمجھ سکتے ہوں ان کے لیے ہی نہیں‘ بلکہ جو سمجھتے بھی ہوں ان کے لیے بھی‘ تراویح میں شرکت سے قبل متعلقہ اجزا کا مطالعہ پیشگی کرلینا بے حد فائدہ مند ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تراویح کے دوران یا پنج وقتہ نماز کے دوران جو حصہ تلاوت کیا جا رہا ہے اس سے مکمل طور پر آگاہ ہونے اور توجہ کو مرکوز رکھنے کے لیے ترجمہ کا ساتھ ساتھ پڑھنا کہاں تک قرآن و حدیث کی تعلیمات سے قریب ہے۔ اس سلسلے میں اصل بات تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اپنے بارے میں جہاں یہ بات کہی ہے کہ وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o  (الاعراف ۷:۲۰۴)، یعنی جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر رحمت ہوجائے۔ وہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ خاموش رہنے اور سننے کے ہیں‘ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتے کہ لوگ تلاوت سننے کے ساتھ ساتھ کتابِ عزیز کا مطالعہ بھی کرتے رہیں تو اس کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی تکلف نہ کیا جاتا۔ اب قرآن تو یہ کہے کہ مجھے سنو اور خاموش رہو اور میرا دل یہ چاہے کہ میں سنتے وقت پڑھتا رہوں‘ تو کیا جو دل چاہتا ہے وہی قرآن کا مدعا بھی ہے؟

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاموش رہنے میں خود بخود تفہیم کا پہلو یعنی سمجھنے کا عمل توجہ اور یکسوئی شامل ہیں اور سننے کے عمل میں کانوں کا استعمال واضح ہے‘ جب کہ ان دو اعمال کے ساتھ تیسرا عمل‘ یعنی بصارت کا استعمال غیرضروری اور اضافی ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ نہیں کیا ہے۔

اس اصولی اور قرآن کے حوالے سے وضاحت کے بعد دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یا دور خلافتِ راشدہؓ یا تابعین و تبع تابعین کے زمانے میں اُمتِ مسلمہ میں تمام مسلمان صرف وہ تھے جو براہِ راست قرآن کو سمجھتے تھے یا ایسے بھی تھے جن کی مقامی زبان عربی نہیں تھی۔ ان حضرات نے ۱۵۰۰ سال میں کیا طریقہ اختیار کیا اور کیا ان میں سے کسی کو شیطان نے وسوسے میں ڈال کر ذہنی طور پر بھٹکانے کی کوشش نہیں کی۔

بالکل واضح بات ہے کہ شیطان کوئی جزوقتی کارکن نہیں ہے کہ ویک اینڈ پر چھے سات گھنٹے کے لیے لوگوں کو ورغلا کر خود کو خوش کرلے کہ میں نے اپنا فریضۂ اقامتِ منکر ادا کردیا۔ وہ تو ہمہ وقتی کارکن ہے اور ہر دور میں ہر نمازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ وہ نہ صرف غیرعربی خواں بلکہ قرآن و حدیث کے عالم مفسر و فقیہہ کو بھی نہیں بخشتا بلکہ جو لوگ کتاب و سنت کا زیادہ گہرا علم رکھتے ہوں ان کی تاک میں زیادہ رہتا ہے کہ انھیں گمراہ کر کے وہ ایسے ہزاروں افراد کو گمراہ کر سکتا ہے جو شاید اس کی بات نہ سنیں لیکن ایک عالم و مفسر کے ایک قول کو معتبر مان کر فوراً قبول کرلیں۔

اس لیے توجہ کا ہٹنا‘ دل و دماغ میں وساوس کا آنا دو باتوں کی غمازی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ شیطان ایک اللہ کے بندے کے اچھے عمل سے‘ وہ نماز ہو یا کوئی اور عبادت‘ اتنا پریشان ہے کہ اس کی عبادت میں خلل ڈال کر اس کے اجر کو ضائع کرانا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسان خود اپنی پاسبانی نہیں کر سکتا چنانچہ اس کا حل یہ بتایا گیا کہ حالتِ نماز ہو یا کوئی اور حالت‘ فوری طور پر دل میں یا زبان سے ایک بندہ خود کو شیطان کے دائرہ اثر سے نکال کر تعوذ کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پناہ میں آجائے۔ گویا توجہ کی کنجی‘ محض ترجمہ کا پڑھنا نہیں بلکہ شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے میں ہے۔

جہاں تک سوال توجہ اور مفہوم سمجھ کر اپنے آپ کو محظوظ کرنے کا ہے تو اگر واقعی ترجمے کا  کوئی تعلق توجہ یا استحضار سے ہے تو پھر اسے تراویح تک کیوں محدود کیا جائے۔ پھر تو یہی ’حل‘    تمام نمازوں میں بھی ہونا چاہیے۔ مختصر یہ کہ تراویح سے قبل مطالعہ کرنے کے بعد اگر توجہ اور خاموشی سے امام کی قراء ت کو سنا جائے تو یہ عمل سنت اور قرآن سے زیادہ مناسبت رکھے گا اور ایک ایسے کام کا کرنا جو عبادت کا حصہ نہیں ہے بدعت ہی کہا جائے گا۔

البتہ کسی ایسے مقام پر جہاں کوئی حافظِ قرآن نہیں ہے‘ تراویح میں کسی ایسے امام کا امامت کرنا جسے مکمل قرآن یاد نہیںہے وہ جتنا قرآن اس کے حافظے میں محفوظ ہے اس کی تلاوت کرکے تراویح پڑھا سکتا ہے۔ جہاں یہ بھی ممکن نہیں ہے وقتی طور پر صرف اس وقت تک کے لیے کہ جب کوئی حافظِ قرآن مل جائے‘ امام دیکھ کر تلاوت کرے تو مجبوری کی بنا پر ایسا کرنا ایک اضطراری عمل ہوگا۔(ڈاکٹر انیس احمد)