جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

جنوبی کوریا : اشاعتِ اسلام کے ۵۰ سال چند مشاہدات

شفیق الاسلام فاروقی | جنوری۲۰۰۶ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

جب ہمیں کہیں سے کسی ایک شخص کے بھی قبولِ اسلام کی خبر ملتی ہے تو بے حدخوشی ہوتی ہے‘ مگر جب ایک ایک‘ دو دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کریں تو کس قدر خوشی اور مسرت ہوگی! ایسی ہی ایک مثال جنوبی کوریا کی ہے۔ جنوبی کوریا میں ۵۰سال قبل حق کے متلاشی چند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اسلام قبول کرنا اور اس کے بعد اپنی زندگیاں اسلام کو پوری طرح سمجھنے اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کر دینا ایسی نادر مثال ہے کہ وہ ملک جہاں نصف صدی قبل کوئی ایک مسلمان یا کوئی مسجد تک نہ پائی جاتی تھی‘ اب وہاں ۵۰ ہزار کے قریب نومسلم آباد ہیں۔ سیول شہر میں ایک خوب صورت اور عالی شان مرکزی مسجد کے علاوہ مختلف شہروں میں مزید آٹھ عالی شان اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد ہیں۔ مزیدبرآں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک لاکھ کے قریب غیرملکی مسلمانوں کے وجود نے اس ملک میں اسلام کو ایک مؤثر قوت بنا دیا ہے۔

حال ہی میں (۲۵ تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ئ) کوریا مسلم فیڈریشن نے کوریا میں اشاعتِ اسلام کے ۵۰ سال مکمل ہونے پر ۵۰ سالہ تقریبات منعقد کیں۔ ان تقریبات میں ۳۰مسلم ممالک کے نمایاں اسکالر‘ اور کوریا میں مقیم اسلامی ممالک کے سفیروںنے شرکت کی۔ کوریا سے اپنے ۵۰ سالہ دعوتی تعلق کی بنا پر پاکستان سے راقم الحروف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی‘ جب کہ ڈاکٹر انیس احمد‘ وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اور الطاف حسن قریشی‘مدیر اُردو ڈائجسٹ بطور اسکالر مدعو تھے۔

تقریب کا آغاز ۲۵ نومبر۲۰۰۵ء کو جمعۃ المبارک کے دن ہوا ۔ نماز جمعہ سے قبل افتتاحی تقاریر اور سیول کی مرکزی مسجد میں اس ملک میں اسلام کی آمد کی ۵۰سالہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی‘ اور بعدازاں مرکزی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ تین دن کی اس تقریب میں مختلف ممالک کے معزز  شرکا نے اسلام‘ اشاعتِ اسلام اور دنیا میں خلوص و محبت کے ساتھ بقاے باہمی کے موضوعات پر تقاریر کیں جن کو فیڈریشن نے ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ چند موضوعات:

  • کوریا میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان باہمی تعلقات
  • ایشیا میں کثیرالثقافتی اور مذہبی مذاکرات
  • انڈونیشیا میں مذہبی رواداری
  • چین میں اسلام
  • اسلام اور عیسائیت کے درمیان باہمی مذاکرات کی ضرورت
  • ۲۱ویں صدی میں دعوت کا نیا طریقۂ کار
  • جاپان میں دعوتِ دین کا طریقۂ کار۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترک فوجی دستے کے امام زبیرقوج کو بھی اس شان دار تقریب میں شرکت کا اعزاز بخشا گیا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ مدعو تھے۔ آپ کے ہاتھوں پہلے اور دیگر ۲۰۰کے قریب کوریائی لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کابیج بویا گیا تھا‘ اب اُسے ایک تناور پھل دار درخت کی شکل میں آپ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک مختصر افتتاحی تقریر بھی کی۔ راقم الحروف کو بھی اس ترک امام کے ذریعے اس ملک میں مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کے ذریعے دعوت کے کام کے حوالے سے گفتگو کا اعزاز بخشا گیا۔

اس موقع پر کوریا میں اشاعتِ اسلام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اُس کورین نومسلم چونگ جِن‘ جس نے سب سے پہلے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی‘ ۱۹۵۶ء میں تُرک فوجی دستے کے کیمپ میں چونگ جِن مدرسے کی بنا ڈالی‘ جس میں بلاتفریق مذہب اسلام کی تعلیم کے ساتھ نادار اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سے بچوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ۱۹۵۷ء میں ترک فوجی دستے کی وطن واپسی کے بعد ایک دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ کورین نومسلم صابری سوہ جنگ کِل کی ہمراہی میں ۱۹۵۹ء میں ملایشیا‘پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور ایک سال ان ممالک میں رہ کر اسلام کا علم حاصل کرنے کے ساتھ بہت سے افراد کے ساتھ ملاقاتوںکے بعد اپنے وطن میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران حج کی سعادت حاصل کرکے پہلے کوریائی حاجی کہلائے۔ چنانچہ اس دورے کے نتیجے میں ۱۹۶۱ء میں ملایشیا کی سینیٹ کا ایک وفد کوریا میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لینے کے لیے کوریا آیا اور اپنے ہاں ۱۱مردوں اور تین خواتین کی اعلیٰ اسلامی تعلیم کا انتظام کیا‘ جوایک سال بعد واپس ہوئے۔

ملایشیا کی حکومت نے خاص طور پر اشاعتِ اسلام کے کام میں دل چسپی لی۔ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں نائب وزیراعظم جناب عبدالرزاق اور ۱۹۶۳ء میں اسپیکر پارلیمنٹ حاجی نوح کوریا آئے۔ اُن کی سفارش پر وزیراعظم ملایشیا تنکو عبدالرحمن نے مسجد کی تعمیر کے لیے ۳۳ہزار ڈالر کا عطیہ دیا جو مسجدکی تعمیر کے لیے ناکافی تھا‘ اس لیے مسجد تعمیر نہ ہوسکی۔

۱۹۶۵ء میں کورین اسلامک سوسائٹی کو تحلیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ اسے خاص عنایتِ خداوندی کہنا چاہیے کہ اس تنظیم میں اس ملک کا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے‘ جس نے امریکا کی معروف یونی ورسٹیوں میں مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام کو  اپنے دل کی آواز سمجھ کر قبول کیا‘ اور اپنے آپ کو روایتی مسلمان کہلانے کے بجاے اس ملک میں دعوتِ اسلام کے وسیع کام میں منہمک ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے اسلام کو مؤثر قوت بنادیا‘ جس کا مظاہرہ حالیہ تقریبات میں ہوا‘ جس کا اہتمام بڑے تزک و احتشام سے کیا گیا۔

جیساکہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت اس ملک میں ۵۰ ہزار نومسلم یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نومسلموں کی دوسری بلکہ تیسری نسل ہے‘اور فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں سے نہ صرف اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے بلکہ نصف صدی قبل جن عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں مقامی لوگوں کو عیسائی بنانے میں بڑے زوروں پر تھیں اور انھوں نے عیسائیت کو ایک زبردست مؤثر اقلیت بنا دیا تھا‘ اب اسلام کی آمد اور کوریا مسلم فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں اور روز افزوں قبولِ اسلام کی رفتار کی وجہ سے عوام میں تقریباً ختم ہوگئی ہیں‘ جس سے عوام میں قبولِ عیسائیت کا رجحان بھی قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔

بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا دنیا میں نہ صرف انتہائی پُرامن ملک ہے‘ بلکہ مثالی‘ ترقی یافتہ اور بہت پھیلا ہوا ہے۔ سیول شہر کی آبادی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ ہے اور کوئی شخص رہایش کے مسئلے سے دوچار نہیں۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے‘ اور جگہ جگہ سمندر کا ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کو جدا کرتا ہے‘جنھیں شان دار‘ مضبوط‘ خوب صورت پُل ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔ آٹومیٹک ٹریفک کا بہترین نظام ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ۱۸ ۱۸‘ ۲۰ ۲۰ منزلہ سیکڑوں رہایشی مضبوط اپارٹمنٹس ہیں‘ جنھیں آج سے ۴۰‘ ۵۰ سال قبل ملک کے مخلص دیانت دار حکمران طبقے نے قابلِ عمل منصوبے کی شکل دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا اور موجودہ اور آیندہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ سب سے بلند تعمیر ۶۳ منزلہ اپارٹمنٹ ہے جس کا نام بھی ۶۳منزلہ سٹوری ہے۔

یہاں چار دن کے قیام میں ہمیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ ہم کسی اجنبی غیراسلامی ملک میںمقیم ہیں۔ مرکزی مسجد اور اُس کے قریب کوریا مسلم فیڈریشن کے دفاتر میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ دوسری منزل پر خواتین کی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے وسیع قطعۂ زمین کوریا کی غیرمسلم حکومت نے ۱۹۶۹ء میں عطیہ دیا اور ۱۹۷۶ء میں کوریائی اور کوریا میں مقیم غیرملکی مسلمانوں کی     مالی امداد کے علاوہ بعض دوسرے ممالک کی مدد سے اس مرکزی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور مئی ۱۹۷۶ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس مسجد کے سینئر امام جناب سلیمان لِی ہیں‘ یہ کورین ہیں اور انھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ایک نائب تھائی لینڈ کے جناب عبدالرشید اور دوسرے نائب ترکی کے جناب فاروق زُمیل ہیں۔

۵۰ سالہ تقریبات کے موقع پر پوچیان (Pocheon) کے شہر میں نویں خوب صورت مسجد کا افتتاح کیا گیا‘ اور نمازظہرادا کی گئی۔ اس کی تعمیر میں کوریا میں مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے‘ جن کی ایک کثیرتعداد یہاں رہ رہی ہے‘ جب کہ کویت کے وزیر اوقاف جناب عبدالرزاق عبدالغنی سابق سفیر قطر مقیم کوریا‘ کویت کے جناب الشیخ عبداللہ علی المطوع‘سوڈان کے سفیرجناب ابابکرالخلیفہ اور کویت یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بدرالماسی کی مساعی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کا خیال ہے کہ اس شہر سے شمالی کوریا میں دعوتِ اسلام کے کام کو کافی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اور کوریا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک کے مسلمانوں کی ملی جلی آبادی شمالی کوریا میں دعوت کے کام کو پھیلا سکتی ہے۔

اس موقع پر مختلف اہم شخصیات سے ملاقات کاموقع بھی میسر آیا جن میں اسلامک سنٹر جاپان کے عرب سربراہ جناب ڈاکٹر محمد صالح السامرائی‘ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ سعید شامل ہیں۔ بیجنگ (چین) سے چائنا اسلامک ایسوسی ایشن کے جناب شمس الدین ین چانگ سے ملاقات رہی۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت بیجنگ میں ۱۸ مساجد ہیں۔ انھوں نے اس تقریب کو اہم قرار دیا کہ اس طرح عالمِ اسلام اور دنیا میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے پیش رفت جاننے کا اچھا موقع میسر آیا۔ سب سے زیادہ دل آویز شخصیت اسلامک سنٹر جاپان کے سربراہ جناب نعمت اللہ خلیل ابراہیم کی تھی جو باریش‘ معمر لیکن صحت مند اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور اُردو بھی سمجھتے ہیں۔ آپ نے خلافتِ عثمانیہ اور اُمت مسلمہ کا زوال انتہائی کرب سے بیان کیا۔

کوریا میں اشاعتِ اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے دو امور خاص طور پر   قابلِ توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی زندگی کو بدلا ہے اور وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام اور رسوخ رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعات کو تحریری شکل میں محفوظ نہیں کیا۔ ان ایمان افروز واقعات کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ اشاعتِ اسلام کے لیے بہت مفید ہوگا۔ دوسری کمی کوریا میں اسلامی اسکولوں کی محسوس ہوتی ہے۔ سیول کے علاوہ دو تین اہم شہروں میں اسلامی اسکول قائم کیے جانے چاہییں تاکہ نومسلموں اور مسلم سفارت کاروں اور دیگر مسلم تارکینِ وطن کے بچوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کا مستقل بنیادوں پر انتظام ہوسکے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کو ان پہلوئوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ایک چھوٹے سے غیرمسلم ملک میں ۳۰ سال سے بھی کم عرصے میں ۵۰ ہزار کوریائی باشندوں کا قبولِ اسلام اور تقریباً ایک لاکھ غیرملکی مسلمانوں کی موجودگی‘ آٹھ بڑی خوب صورت اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد کی تعمیر اور اشاعتِ اسلام کی تیزرفتاری یہ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں اسلام تیزی سے قبول کیا جانے والا دین ہے‘ اور اسلام کے خلاف جس صلیبی جنگ کا آغاز    امریکا کے حکمرانوں نے اپنے غرورِ طاقت کے نشے میں کیا ہے وہ بھی ان شاء اللہ جلد شکست سے دوچار ہوگی‘ بالآخر اسلام غالب آکر رہے گا!