شفیق الاسلام فاروقی


جب ہمیں کہیں سے کسی ایک شخص کے بھی قبولِ اسلام کی خبر ملتی ہے تو بے حدخوشی ہوتی ہے‘ مگر جب ایک ایک‘ دو دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کریں تو کس قدر خوشی اور مسرت ہوگی! ایسی ہی ایک مثال جنوبی کوریا کی ہے۔ جنوبی کوریا میں ۵۰سال قبل حق کے متلاشی چند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اسلام قبول کرنا اور اس کے بعد اپنی زندگیاں اسلام کو پوری طرح سمجھنے اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کر دینا ایسی نادر مثال ہے کہ وہ ملک جہاں نصف صدی قبل کوئی ایک مسلمان یا کوئی مسجد تک نہ پائی جاتی تھی‘ اب وہاں ۵۰ ہزار کے قریب نومسلم آباد ہیں۔ سیول شہر میں ایک خوب صورت اور عالی شان مرکزی مسجد کے علاوہ مختلف شہروں میں مزید آٹھ عالی شان اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد ہیں۔ مزیدبرآں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک لاکھ کے قریب غیرملکی مسلمانوں کے وجود نے اس ملک میں اسلام کو ایک مؤثر قوت بنا دیا ہے۔

حال ہی میں (۲۵ تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ئ) کوریا مسلم فیڈریشن نے کوریا میں اشاعتِ اسلام کے ۵۰ سال مکمل ہونے پر ۵۰ سالہ تقریبات منعقد کیں۔ ان تقریبات میں ۳۰مسلم ممالک کے نمایاں اسکالر‘ اور کوریا میں مقیم اسلامی ممالک کے سفیروںنے شرکت کی۔ کوریا سے اپنے ۵۰ سالہ دعوتی تعلق کی بنا پر پاکستان سے راقم الحروف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی‘ جب کہ ڈاکٹر انیس احمد‘ وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اور الطاف حسن قریشی‘مدیر اُردو ڈائجسٹ بطور اسکالر مدعو تھے۔

تقریب کا آغاز ۲۵ نومبر۲۰۰۵ء کو جمعۃ المبارک کے دن ہوا ۔ نماز جمعہ سے قبل افتتاحی تقاریر اور سیول کی مرکزی مسجد میں اس ملک میں اسلام کی آمد کی ۵۰سالہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی‘ اور بعدازاں مرکزی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ تین دن کی اس تقریب میں مختلف ممالک کے معزز  شرکا نے اسلام‘ اشاعتِ اسلام اور دنیا میں خلوص و محبت کے ساتھ بقاے باہمی کے موضوعات پر تقاریر کیں جن کو فیڈریشن نے ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ چند موضوعات:

  • کوریا میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان باہمی تعلقات
  • ایشیا میں کثیرالثقافتی اور مذہبی مذاکرات
  • انڈونیشیا میں مذہبی رواداری
  • چین میں اسلام
  • اسلام اور عیسائیت کے درمیان باہمی مذاکرات کی ضرورت
  • ۲۱ویں صدی میں دعوت کا نیا طریقۂ کار
  • جاپان میں دعوتِ دین کا طریقۂ کار۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترک فوجی دستے کے امام زبیرقوج کو بھی اس شان دار تقریب میں شرکت کا اعزاز بخشا گیا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ مدعو تھے۔ آپ کے ہاتھوں پہلے اور دیگر ۲۰۰کے قریب کوریائی لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کابیج بویا گیا تھا‘ اب اُسے ایک تناور پھل دار درخت کی شکل میں آپ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک مختصر افتتاحی تقریر بھی کی۔ راقم الحروف کو بھی اس ترک امام کے ذریعے اس ملک میں مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کے ذریعے دعوت کے کام کے حوالے سے گفتگو کا اعزاز بخشا گیا۔

اس موقع پر کوریا میں اشاعتِ اسلام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اُس کورین نومسلم چونگ جِن‘ جس نے سب سے پہلے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی‘ ۱۹۵۶ء میں تُرک فوجی دستے کے کیمپ میں چونگ جِن مدرسے کی بنا ڈالی‘ جس میں بلاتفریق مذہب اسلام کی تعلیم کے ساتھ نادار اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سے بچوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ۱۹۵۷ء میں ترک فوجی دستے کی وطن واپسی کے بعد ایک دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ کورین نومسلم صابری سوہ جنگ کِل کی ہمراہی میں ۱۹۵۹ء میں ملایشیا‘پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور ایک سال ان ممالک میں رہ کر اسلام کا علم حاصل کرنے کے ساتھ بہت سے افراد کے ساتھ ملاقاتوںکے بعد اپنے وطن میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران حج کی سعادت حاصل کرکے پہلے کوریائی حاجی کہلائے۔ چنانچہ اس دورے کے نتیجے میں ۱۹۶۱ء میں ملایشیا کی سینیٹ کا ایک وفد کوریا میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لینے کے لیے کوریا آیا اور اپنے ہاں ۱۱مردوں اور تین خواتین کی اعلیٰ اسلامی تعلیم کا انتظام کیا‘ جوایک سال بعد واپس ہوئے۔

ملایشیا کی حکومت نے خاص طور پر اشاعتِ اسلام کے کام میں دل چسپی لی۔ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں نائب وزیراعظم جناب عبدالرزاق اور ۱۹۶۳ء میں اسپیکر پارلیمنٹ حاجی نوح کوریا آئے۔ اُن کی سفارش پر وزیراعظم ملایشیا تنکو عبدالرحمن نے مسجد کی تعمیر کے لیے ۳۳ہزار ڈالر کا عطیہ دیا جو مسجدکی تعمیر کے لیے ناکافی تھا‘ اس لیے مسجد تعمیر نہ ہوسکی۔

۱۹۶۵ء میں کورین اسلامک سوسائٹی کو تحلیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ اسے خاص عنایتِ خداوندی کہنا چاہیے کہ اس تنظیم میں اس ملک کا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے‘ جس نے امریکا کی معروف یونی ورسٹیوں میں مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام کو  اپنے دل کی آواز سمجھ کر قبول کیا‘ اور اپنے آپ کو روایتی مسلمان کہلانے کے بجاے اس ملک میں دعوتِ اسلام کے وسیع کام میں منہمک ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے اسلام کو مؤثر قوت بنادیا‘ جس کا مظاہرہ حالیہ تقریبات میں ہوا‘ جس کا اہتمام بڑے تزک و احتشام سے کیا گیا۔

جیساکہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت اس ملک میں ۵۰ ہزار نومسلم یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نومسلموں کی دوسری بلکہ تیسری نسل ہے‘اور فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں سے نہ صرف اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے بلکہ نصف صدی قبل جن عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں مقامی لوگوں کو عیسائی بنانے میں بڑے زوروں پر تھیں اور انھوں نے عیسائیت کو ایک زبردست مؤثر اقلیت بنا دیا تھا‘ اب اسلام کی آمد اور کوریا مسلم فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں اور روز افزوں قبولِ اسلام کی رفتار کی وجہ سے عوام میں تقریباً ختم ہوگئی ہیں‘ جس سے عوام میں قبولِ عیسائیت کا رجحان بھی قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔

بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا دنیا میں نہ صرف انتہائی پُرامن ملک ہے‘ بلکہ مثالی‘ ترقی یافتہ اور بہت پھیلا ہوا ہے۔ سیول شہر کی آبادی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ ہے اور کوئی شخص رہایش کے مسئلے سے دوچار نہیں۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے‘ اور جگہ جگہ سمندر کا ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کو جدا کرتا ہے‘جنھیں شان دار‘ مضبوط‘ خوب صورت پُل ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔ آٹومیٹک ٹریفک کا بہترین نظام ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ۱۸ ۱۸‘ ۲۰ ۲۰ منزلہ سیکڑوں رہایشی مضبوط اپارٹمنٹس ہیں‘ جنھیں آج سے ۴۰‘ ۵۰ سال قبل ملک کے مخلص دیانت دار حکمران طبقے نے قابلِ عمل منصوبے کی شکل دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا اور موجودہ اور آیندہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ سب سے بلند تعمیر ۶۳ منزلہ اپارٹمنٹ ہے جس کا نام بھی ۶۳منزلہ سٹوری ہے۔

یہاں چار دن کے قیام میں ہمیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ ہم کسی اجنبی غیراسلامی ملک میںمقیم ہیں۔ مرکزی مسجد اور اُس کے قریب کوریا مسلم فیڈریشن کے دفاتر میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ دوسری منزل پر خواتین کی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے وسیع قطعۂ زمین کوریا کی غیرمسلم حکومت نے ۱۹۶۹ء میں عطیہ دیا اور ۱۹۷۶ء میں کوریائی اور کوریا میں مقیم غیرملکی مسلمانوں کی     مالی امداد کے علاوہ بعض دوسرے ممالک کی مدد سے اس مرکزی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور مئی ۱۹۷۶ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس مسجد کے سینئر امام جناب سلیمان لِی ہیں‘ یہ کورین ہیں اور انھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ایک نائب تھائی لینڈ کے جناب عبدالرشید اور دوسرے نائب ترکی کے جناب فاروق زُمیل ہیں۔

۵۰ سالہ تقریبات کے موقع پر پوچیان (Pocheon) کے شہر میں نویں خوب صورت مسجد کا افتتاح کیا گیا‘ اور نمازظہرادا کی گئی۔ اس کی تعمیر میں کوریا میں مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے‘ جن کی ایک کثیرتعداد یہاں رہ رہی ہے‘ جب کہ کویت کے وزیر اوقاف جناب عبدالرزاق عبدالغنی سابق سفیر قطر مقیم کوریا‘ کویت کے جناب الشیخ عبداللہ علی المطوع‘سوڈان کے سفیرجناب ابابکرالخلیفہ اور کویت یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بدرالماسی کی مساعی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کا خیال ہے کہ اس شہر سے شمالی کوریا میں دعوتِ اسلام کے کام کو کافی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اور کوریا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک کے مسلمانوں کی ملی جلی آبادی شمالی کوریا میں دعوت کے کام کو پھیلا سکتی ہے۔

اس موقع پر مختلف اہم شخصیات سے ملاقات کاموقع بھی میسر آیا جن میں اسلامک سنٹر جاپان کے عرب سربراہ جناب ڈاکٹر محمد صالح السامرائی‘ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ سعید شامل ہیں۔ بیجنگ (چین) سے چائنا اسلامک ایسوسی ایشن کے جناب شمس الدین ین چانگ سے ملاقات رہی۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت بیجنگ میں ۱۸ مساجد ہیں۔ انھوں نے اس تقریب کو اہم قرار دیا کہ اس طرح عالمِ اسلام اور دنیا میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے پیش رفت جاننے کا اچھا موقع میسر آیا۔ سب سے زیادہ دل آویز شخصیت اسلامک سنٹر جاپان کے سربراہ جناب نعمت اللہ خلیل ابراہیم کی تھی جو باریش‘ معمر لیکن صحت مند اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور اُردو بھی سمجھتے ہیں۔ آپ نے خلافتِ عثمانیہ اور اُمت مسلمہ کا زوال انتہائی کرب سے بیان کیا۔

کوریا میں اشاعتِ اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے دو امور خاص طور پر   قابلِ توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی زندگی کو بدلا ہے اور وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام اور رسوخ رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعات کو تحریری شکل میں محفوظ نہیں کیا۔ ان ایمان افروز واقعات کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ اشاعتِ اسلام کے لیے بہت مفید ہوگا۔ دوسری کمی کوریا میں اسلامی اسکولوں کی محسوس ہوتی ہے۔ سیول کے علاوہ دو تین اہم شہروں میں اسلامی اسکول قائم کیے جانے چاہییں تاکہ نومسلموں اور مسلم سفارت کاروں اور دیگر مسلم تارکینِ وطن کے بچوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کا مستقل بنیادوں پر انتظام ہوسکے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کو ان پہلوئوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ایک چھوٹے سے غیرمسلم ملک میں ۳۰ سال سے بھی کم عرصے میں ۵۰ ہزار کوریائی باشندوں کا قبولِ اسلام اور تقریباً ایک لاکھ غیرملکی مسلمانوں کی موجودگی‘ آٹھ بڑی خوب صورت اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد کی تعمیر اور اشاعتِ اسلام کی تیزرفتاری یہ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں اسلام تیزی سے قبول کیا جانے والا دین ہے‘ اور اسلام کے خلاف جس صلیبی جنگ کا آغاز    امریکا کے حکمرانوں نے اپنے غرورِ طاقت کے نشے میں کیا ہے وہ بھی ان شاء اللہ جلد شکست سے دوچار ہوگی‘ بالآخر اسلام غالب آکر رہے گا!

راقم کوتقریباً نصف صدی تک‘ ایک خاص دائرے میں دعوتی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس ضمن میں جو ذاتی تجربات پیش آئے‘ وہ ایک دل چسپ اور اپنی نوعیت میں منفرد داستان ہے جس کا آغاز ۱۹۵۵ء میں منڈی بہائوالدین میں ہوا۔ تب راقم وہاں روزنامہ تسنیم کا اعزازی نمایندہ بھی تھا‘ مصباح الاسلام فاروقی اس کے مدیر تھے۔ اختصار کے ساتھ اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔

بنیادی طور پر یہ دعوتی کام چار دائروں پر محیط ہے:

  • مغرب میں اشاعت اسلام
  • امریکی جیلوں میں دعوتی کام
  • بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت
  • انفرادی رابطہ اور کارکن سازی۔

مغرب میں اشاعت اسلام

مجھے ابتدا ہی سے اسلام‘ عالمِ اسلام اور بین الاقوامی امور سے دل چسپی رہی ہے۔ اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے ایک موقع پر ایک رسالے کی ورق گردانی کے دوران‘ جنوبی کوریا میں ترک بریگیڈ کے مسلمان فوجی دستے کے امام زبیرقوج کی طرف سے ایک اپیل نظر سے گزری کہ جنوبی کوریا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔ میں نے اس اپیل کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے Towards Understanding Islam(دینیاتکا انگریزی ترجمہ) کے چھے نسخے ارسال کر دیے جو اُنھیں موصول ہوگئے۔ دینیات کو مؤثر اور مفید پاکر انھوں نے لکھا کہ مزید چند نسخے ارسال کیے جائیں‘ چنانچہ میں نے مزید چھے نسخے بھجوا دیے۔ تین ماہ بعد ان کا خط آیاکہ اس کتابچے کا کوریائی زبان میں ترجمہ کرلیا گیا ہے جس سے تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بے پایاں ہے کہ شرمیں خیر کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ شمالی کوریا نے ۱۹۵۱ء میں جنوبی کوریا پر دونوں حصوں کو متحد کرنے کے لیے حملہ کیا۔ جنوبی کوریا پر امریکی فوج کی چند بٹالین قابض تھیں جو شمالی کوریا کا مقابلہ نہ کرسکتی تھیں‘ کیونکہ اُسے روس اور چین کی حمایت بھی حاصل تھی‘ چنانچہشمالی کوریا کا حملہ ہونے پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کو مدد کے لیے بلایا‘ جس پر ترکی نے بھی اپنا ایک بریگیڈ امریکی امداد کے لیے بھیج دیا۔ اس ترک بریگیڈ کے ذریعے ہی کوریا میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار ہوئی‘ جب کہ ترک بریگیڈ کے امام کی طرف سے ہی اسلامی لٹریچر ارسال کرنے کی اپیل شائع کی گئی تھی۔

غالباً ۱۹۶۲ء میں ترک بریگیڈ کی واپسی سے قبل‘ اُس نے سیول میں کوریا اسلامک سوسائٹی کے نام سے اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور مجھے مطلع کر دیا کہ میں آیندہ اس تنظیم سے مراسلت جاری رکھوں۔ مگر اس تنظیم کی طرف سے میرے خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا۔

اسلام نے اس سرزمین میں خاصی قبولیت حاصل کی۔ چند ہی سال بعد سیول کے ایک تعلیمی ادارے میانگ جی کالج میں مسلم طلبہ نے نہ صرف میانگ جی مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے نام سے‘ اس کالج کے مسلم طلبہ کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھ دی‘ بلکہ میانگ جی مسلم ہیرالڈ کے نام سے اپنا ایک خبرنامہ بھی شائع کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۶۷ء کے خبرنامے کے مطابق اس کالج میں مسلم طلبہ کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ بعدازاں کوریا اسلامک سوسائٹی نے اپنا نام تبدیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن رکھ لیا اور حاجی صابری سونگ کلی سُوہ پہلے صدر مقرر ہوئے۔

اس وقت میرے سامنے کوریا مسلم فیڈریشن کی فائل ہے۔ ذیل میں‘راقم کے نام فیڈریشن کے ۱۸ جون ۱۹۶۸ء کے ایک خط سے اقتباس پیش ہے:

۱۵ سال قبل کوریا میں کوئی مسلمان نہ تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ملک میں ۳ ہزار سے زائد کوریائی مسلمان ہیں۔ جن میں ایک صد سے زائد تعداد کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ہے‘ جب کہ بقیہ بیش تر پروفیسر‘ٹیچر‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘ تاجر‘  سرکاری افسران اور ایک ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔

آج کوریا میں مسلمان مرد و خواتین کی تعداد ۵۰ ہزار سے زائد ہے ‘ جس میں بیش تر ایسے باشعور تعلیم یافتہ افراد ہیں جنھوں نے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں قبولِ اسلام کا رجحان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

لوگوں کے تیز رفتاری سے قبولِ اسلام کا تقاضا تھا کہ جلد از جلد ایک مسجد تعمیر کرلی جائے۔ چنانچہ میرے نام ۱۹۶۲ء کے خط کے مطابق‘ دارالحکومت سیول میں مسجد کی تعمیر ایک باقاعدہ منصوبے اور ڈیزائن کے تحت شروع کر دی گئی اور مجھے زیرتعمیر مسجد کی چند تصاویر بھی بھیجی گئیں جس میں خود کوریا کے ہر طبقے کے مسلم افراد کے علاوہ‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں نے بھی دل کھول کر مالی تعاون کیا۔ میں نے بھی ۱۹۶۸ء میں مختلف سرکاری مراحل طے کر کے ۱۲ ڈالر کی رقم بنک ڈرافٹ کے ذریعے ارسال کی جس کی رسید کوریا مسلم فیڈریشن کے لیٹرہیڈ پر پریذیڈنٹ‘ سیکرٹری جنرل اور ڈائرکٹر جنرل کے دستخطوں کے ساتھ مجھے ملی جو میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان دنوں ایک امریکی ڈالر ساڑھے چار روپے کے برابر تھا۔ بہرحال سیول میں وسیع رقبے پر ایک خوب صورت اور عالیشان مسجد تعمیر ہوئی۔ ۱۹۹۵ء تک پانچ شہروں میں مزید پانچ خوب صورت مساجد تعمیر ہوچکی تھیں۔ اُن سب کی تصاویر میرے پاس موجود ہیں۔ یقینا اس کے بعد بھی مزید مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہوگا۔

یہ ہے ایک غیرمسلم ملک میں مضبوط بنیادوں پر‘ اشاعت اسلام کی تیزرفتاری کی ایک معمولی جھلک!

الحمدللہ‘ اس طرح سے مجھے بہت سے غیرملکی افراد اور اداروں سے مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کا موقع ملا۔ ان میں بحرالکاہل کے جزائر فجی‘ نیوزی لینڈ‘ براعظم آسٹریلیا‘ تائیوان اور بحراوقیانوس کے جزائرماریشس ‘ ویسٹ انڈیز اور افریقہ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ اگر کوئی فرد‘ مذکورہ ممالک میں اشاعتِ اسلام کے مختلف مراحل پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کے لیے وافر لوازمہ موجود ہے۔

امریکی جیلوں میں دعوتی کام

گذشتہ ۲۵ سال سے زائد عرصے سے بذریعہ مراسلت اور ترسیل اسلامی لٹریچر‘ میں انفرادی طور پر خالصتاً رضاے الٰہی کے جذبے سے‘ امریکی جیلوں میں دعوتِ دین کا کام بھی کررہا ہوں۔

امریکی جیلوں میں دراصل میرے کام کرنے کا سبب اسلامک پبلی کیشنز بنا۔ اس ادارے کی انگریزی مطبوعات کسی نہ کسی ذریعے سے نہ صرف امریکی جیلوں میں پہنچتی رہی ہیں‘ بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی۔ چنانچہ جس شخص کے پاس اس ادارے کی انگریزی زبان کی کوئی اسلامی کتاب پہنچی‘ اُس نے اس ادارے کو خط لکھا کہ وہ نومسلم ہے اور اُس نے جیل میں اسلام قبول کیا ہے اور وہ اسلام کو مزید سمجھناچاہتا ہے۔ اُسے جیل کے پتے پر کوئی اسلامی کتاب بھیجیں‘ یا وہ غیرمسلم ہے اور جیل کے ایک مسلمان ساتھی کے ذریعے آپ کے ادارے کی فلاں کتاب مطالعے میں آئی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ اسلام کو مزید سمجھ کر قبول کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا‘ اُس کے پتے پر کوئی موزوں کتاب بھیجی جائے‘ یا میں اس جیل میںکافی عرصے سے قید ہوں اور میں خود صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوں اور اس جیل میں بڑی تعداد میں اور بھی مسلمان قید ہیں۔ ضرورت ہے کہ اُنھیں اسلام کی زیادہ سے زیادہ تعلیمات سے آراستہ کیا جائے۔ لہٰذا‘ اس پتے پر اُسے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔

کوئی ۳۰ سال قبل میں وقتاً فوقتاً کتب کی خریداری کے لیے اسلامک پبلی کیشنز کے دفتر واقع شاہ عالم مارکیٹ لاہور آتا جاتا رہتا تھا۔ ابتدا ہی سے تجسس میرے مزاج کا حصہ رہا ہے‘ چنانچہ بیرون ممالک سے آئی ہوئی ڈاک بھی میرے لیے باعث دل چسپی تھی۔ میرے پوچھنے پر پتا چلتا کہ یہ کسی امریکی جیل سے آتی ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز والوں نے بتایا کہ وہ اِن خطوط کو ضائع کر دیتے ہیں کیونکہ ادارے کی پالیسی کے تحت وہ کوئی کتاب بلاقیمت کہیں ارسال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا‘ میں نے ان سے گزارش کی کہ ایسی ڈاک میرے لیے رکھ  لیا کریں۔ میں یہ خطوط ارسال کرنے والے قیدیوں سے خود رابطہ قائم کروں گا اور ادارے سے اسلامی لٹریچر خرید کر انھیں ارسال کروں گا۔ اس طرح امریکی جیلوں میں دعوت کے کام کا آغاز ہوا۔ اس عرصے میں جیلوں میں قید سیکڑوں امریکی قیدیوں سے میرا تعلق قائم ہوا‘ اور میں نے اُن کوخطوط لکھے اور اُن کو اسلامی لٹریچر بھیجا۔

بیش تر قیدی جو جیل سے باہر کی زندگی میں غیرمسلم تھے وہ اچھے پڑھے لکھے تھے‘ لیکن  بے مقصد زندگی کی وجہ سے وہ کسی جرم میں ملوث ہوگئے‘ بعدازاں جب جیل میں اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی کو دیکھا‘ تو اُن کے دل میں تحریک ہوئی کہ وہ اسلام کے بارے میں تحقیق کریں۔ چنانچہ اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی سے جب کسی غیرمسلم قیدی کو سادہ رہن سہن اور اسلام کی فطری تعلیمات میں معاشرتی زندگی کا ایک خوب صورت تصور نصیب ہوا‘ تو اب اُس نے یہ ضروری خیال کیا کہ کوئی شخص یا ادارہ اُس کی صحیح رہنمائی کرے۔ لہٰذا‘ جس قیدی کو کسی دوسرے قیدی کے ذریعے اسلامک پبلی کیشنز کی کوئی کتاب میسر آئی‘ اُس نے اُسے خط لکھ دیا کہ وہ نومسلم یا غیرمسلم ہے اور اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے‘ اس لیے اسے اسلامی لٹریچر بھیجا جائے۔

ایک بات جو ان قیدیوں کے خطوط میں مشاہدے میں آئی ہے وہ ہمارے ملک کی جیلوں کے قیدیوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ملک کی جیلوں کے اکثر قیدی بلاشبہہ کسی جرم کے مرتکب ہونے کے ساتھ معمولی تعلیم سے بھی عاری ہوتے ہیں‘ چہ جائیکہ اُن سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے ہوں‘ جب کہ امریکی قیدی جن کے ساتھ میرا تعلق قائم ہوا ہے بلااستثنا اچھی سوچ و فکر کے مالک اور اُن کا ہینڈ رائٹنگ بھی اچھا ہوتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ قارئین کو یہاں بعض قیدیوں کے کام سے متعارف کرائوں۔

میرا سب سے زیادہ تعلق ڈلاویر ریاست کی سمرنا(Smyrna) جیل سے اب تک چلا آرہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس جیل میں ہمیشہ مسلمان قیدیوں کی کافی تعداد موجود رہی ہے۔ جیل سے ملحق ایک مسجدالزمر کے نام سے موجود ہے جس کے امام عبدالرحمن ہیں۔ میرا ان سے تعلق قائم ہوا اورمراسلت رہی ہے اور میں اُنھیں اسلامی لٹریچر بھی بھیجتا رہا ہوں۔ امریکی جیلوں میں وارث دین محمد کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے پیروکار بھی ہوتے ہیں جو بعض مخصوص نظریات کی حامل نسلی تعصب کی بنیاد پر قائم کی گئی تنظیم ہے جس کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاہ فام امریکیوں میں اس کی دعوت اپنے اندر کافی کشش رکھتی ہے‘ جب کہ یہ خود بھی    سیاہ فام ہیں۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہاں دعوت کا کام کتنا مشکل ہوگا؟

محترم عبدالرحمن کے ایک خط سے‘ جو اُنھوں نے یکم مئی ۱۹۸۸ء مطابق ۱۵ رمضان ۱۴۰۸ھ کو تحریر کیا اور جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے میرا تعلق ۱۹۸۲ء میں قائم ہوا اور مجھ سے مراسلت سے قبل وہ عام قیدیوں ہی کی طرح تھے‘ لیکن خوب ذہین‘ تاہم یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے اسلام کب قبول کیا۔

عموماً وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور خوش خط عربی سے اپنے خطوط کا آغاز کرتے ہیں اور اپنے خطوط میں الحمدللہ‘ اللہ کا شکر کا بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کے ذریعے کئی غیرمسلم امریکیوں کو    قبولِ اسلام کی نہ صرف سعادت نصیب ہوئی‘ بلکہ صحیح اسلامی زندگی اپنانے کی بھی۔ بیش تر خطوط انھوں نے جمعہ کے روز اور خطبۂ جمعہ دینے کے بعد لکھے ہیں اور ان تمام خطوط سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کا علم و فہم دین صحیح ہے‘ جس کا کسی امریکی جیل کے ایک نومسلم قیدی سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے خطوط سے ہی میں معلوم کر سکا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے اُنھیں Towards Understanding Islam کے چھے نسخے بھیجے تھے جن سے انھوں نے نہ صرف خود استفادہ کیا‘ بلکہ نومسلم قیدیوں کو بھی صحیح اسلامی تعلیم سے متعارف کرایا۔ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمے کی جلد اول‘ سوم‘ ہفتم‘اور ہشتم بھی اُنھیں بھیجی تھیں جو اُنھیں موصول ہوئیں اور ان سے خوب استفادہ کیا گیا۔

امریکی جیل کا یہ قیدی مجھے ایک خط میں لکھتا ہے کہ:

مجھے اسلام میں پانچ فقہی مسالک کا علم ہے۔ لیکن اس جیل میں دعوت کے کام کے لیے میرے لیے Towards Unerstanding Islam بہترین کتاب ثابت ہوئی ہے اور میں اسے زیادہ سے زیادہ تقسیم کرتا رہتا ہوں۔

میرے پاس ان کے جتنے بھی خطوط ہیں‘ وہ ایمان تازہ کرنے والے ہیں‘ کیونکہ ہر خط میں انھوں نے ایک یا دو افراد کے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سزائوں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں۔ ایک قیدی کے بارے میں انھوںنے لکھا کہ اُسے ۴۵ سال کی سزا ہوئی ہے مگر میں اس کوشش میں ہوں کہ وہ کم ہوجائے اور مجھے امید ہے کہ وہ کم ہوکر صرف چھے سال رہ جائے گی۔

چونکہ امریکا میں قید کی سزائوں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں‘ جن میں جیل کے حکام کی طرف سے نیک چلنی کی وقتاً فوقتاً رپورٹوں کے باعث سزا میں تخفیف بھی ہوسکتی ہے۔ پھر ایک جیل سے کسی دوسری جیل میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ بعض قیدی جو سزا میں تخفیف کے باعث رہا ہوجاتے ہیں‘ رہائی کے بعد اُن سے مراسلت ختم ہوجاتی ہے۔

سمرنا جیل کے امام سے مراسلت اور ان کے ذریعے جیل میں دعوتِ دین اور قبولِ اسلام سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی جیلیں‘ جیلیں نہیں بلکہ متلاشیِ حق کے لیے قبولِ حق کی سعادت کا سرچشمہ ہیں۔ میرے سامنے اس عرب قیدی کی جیل کے ایک سفیدفام نومسلم قیدی عبداللہ کا خط ہے‘ جو اُس نے مجھے میرے خط مورخہ ۲۷ جون ۲۰۰۳ء کے جواب میں مورخہ ۹جولائی ۲۰۰۳ء کو لکھا۔ اپنے خط کے ساتھ اُس نے چند سیاہ فام قیدیوں کے ساتھ اپنی تصویر بھی بھیجی ہے جس میں اُس نے اپنے ہاتھ میں قرآن پاک کے انگریزی ترجمے کا نسخہ تھام رکھا ہے۔

اُس نے اپنے خط میں قبولِ اسلام کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ اُس نے اسلام کیسے قبول کیا‘ صرف اتنا لکھا ہے کہ ۱۹۹۴ء میں جیل میں ہی اُس نے اسلام قبول کیا۔ خط لکھتے وقت اُس نے اپنی عمر ۳۲ سال لکھی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے ۲۳ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ وہ کسی امریکی بنک پر ڈکیتی کے جرم میں گرفتار ہے‘ اور لکھتا ہے کہ اس کی جیل میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمان قیدی ہیں اور اُن میں اچھے اور برے دونوں طرح کے ہیں۔

اپنے خاندان کے بارے میں لکھتا ہے کہ اُس کا باپ کافر ہے‘ اس کے علاوہ اُس کا اور خاندان نہیں۔ دین سے اپنے شغف کے بارے میں اُس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس نے قرآن کریم کی ۳۸ سورتیں حفظ کرلی ہیں‘ جب کہ اپنے خطوط کی ابتدا بھی وہ عربی میں تحمید و صلوٰۃ سے کرتا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اُس نے نو سال کی قید کے دوران اسلام کا کتنا علم حاصل کیا ہے اور اپنی زندگی کو اسلام میں کتنا ڈھال لیا ہے‘ جو ہم آزاد زندگی میںبھی نہیں کرپاتے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس نے  احادیث‘ فقہ‘ تفسیر‘ علوم القرآن‘ اسلامی تاریخ اور تجوید پر وسیع مطالعہ کر رکھا ہے۔

اس وقت میرے سامنے ریاست اوہائیو کے ایک قیدی عبدالغفار کے ۱۹۹۷ء تا ۱۹۹۹ء کے پانچ خطوط ہیں جس نے جیل میں اسلام قبول کیا۔ ایک خط میں ‘ مَیں نے اُسے لکھا کہ جیل میں آنا اُس کے لیے باعث رحمت ہوا۔ اُس نے جواباً لکھا کہ واقعتا ایسا ہی ہے۔ کیونکہ مجھ سے مراسلت نے اُسے وارث دین محمد کی ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے بچا لیا۔ اُس کی تحریر بڑی عمدہ ہے اور عربی لکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اپنی والدہ اور اپنے چار بچوں‘ سب کو ان شاء اللہ اسلام میں داخل کرے گا۔ اس کے چار بچے جیل میں آنے سے قبل اور بغیر کسی باقاعدہ شادی کے ہیں‘ لیکن وہ اُن کو اپنی اولاد کہتا اور سمجھتا ہے۔ بڑی اولاد بیٹی ہے جس کی عمر ۱۸ سال ہے۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور جیل سے اُن کو دعوتِ دین دے رہا ہے۔

میری مراسلت کئی سو قیدیوں پر محیط ہے۔ ان میں بیش تر سیاہ فام ہیں اور چند ایک گورے امریکی اور ایک خاتون قیدی بھی ہے۔ اگرچہ امریکا میں جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن میرے رابطے میں آنے والے قیدیوں میں سے کوئی بھی جنسی جرائم میں ملوث نہیں۔ بیش تر ڈکیتی‘ قتل اور لڑائی جھگڑے اور دنگافساد کے الزامات کے تحت قید ہیں۔ مجھ سے مراسلت‘ فراہمی لٹریچر اور اس کے مطالعے نے ان پر مثبت اثرات مرتب کیے اور سبھی کو اسلام کا ایک اچھا مبلغ بنا دیا۔

شروع میں دینیات‘ اسلام و جاہلیت‘ شہادت حقکے انگریزی تراجم‘  انگریزی رسالے امپیکٹ  ‘برطانیہ اور ریڈیئنس ‘بھارت کے منتخب مضامین بڑے کارآمد رہے ہیں‘بعد میں ذہنی رجحان کے مطابق مذہبی اور سیاسی مواد بھی بھیجا جاتا رہا ہے۔ قیدیوں سے میرے رابطے کی ایک صورت اسلامک پبلی کیشنز تھی۔ پہلے اسلامک پبلی کیشنز کے ہاں خطوط کے ذریعے لٹریچر کی مانگ اور دعوتی کتب کی طلب ہوتی رہی ہے لیکن اب وہ بتاتے ہیں کہ کوئی خط نہیں آتا۔

افسوس ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد قیدیوں نے مراسلت کا سلسلہ بند کر دیا لیکن سیکڑوں کی تعداد میں جو قیدی رہا ہوئے وہ سبھی نومسلم تھے اور مجھ سے مراسلت نے اُن میں انقلاب برپا کر دیا‘ امید ہے کہ اب وہ امریکی معاشرے میں یقینا ایک عمدہ کردار کے مالک ہوں گے۔

امریکی جیلوں کے علاوہ افریقی ممالک میں بہت زیادہ دعوت کے کام کی ضرورت ہے۔ اس دائرے میں بھی میرا وسیع تجربہ ہے۔ ابھی زمبیا (Zambia) میں بھی مَیں نے ایک عیسائی نومسلم کے ذریعے دعوت کا کام شروع کیا ہے۔ جہاں تک اندرونِ ملک جیلوں میں دعوت کے کام کا سوال ہے‘ میری رائے میں تحریک اسلامی کے لیے وسیع میدان موجود ہے۔ مقامی جماعت کی یہ سوچ اور فکر ہونی چاہیے کہ جیلوں میں قید افراد سے مسلسل رابطہ رکھا جائے‘ اُن کے بارے میں یہ معلوم کیا جائے کہ اُن میں سے کون سا فرد کتنی تعلیم اور صلاحیت کا مالک ہے‘ لہٰذا اُس کی سوچ کو مثبت بناکر اُسے اسلام کے بنیادی تقاضوں سے قریب کر کے دعوت دی جائے۔ اس بارے میں دینیات‘خطبات‘ اسلام اور جاہلیت‘ شہادتِ حق‘ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں وغیرہ کتابیں مؤثر کام دے سکتی ہیں۔

میں نے اپنے محدود وسائل کی حد تک جیلوں میں دعوت کے کام کو جاری رکھا‘ مسائل و مشکلات کا سامنا بھی رہا‘ لیکن اللہ مسبب الاسباب نے کسی نہ کسی طور اس کام کو آگے ہی آگے بڑھایا۔ اگرچہ نائن الیون کے واقعے سے رابطے میں مسائل کا سامنا ہے‘ حکومت نے ڈاک خرچ میں بے تحاشا اضافہ کرکے یقینا امریکی و صہیونی عزائم کی تکمیل چاہی ہے کہ لٹریچر وغیرہ کی ترسیل عملاً ممکن نہ رہے‘ مگر ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جس رفتار سے امریکا میں اسلام اپنے قدم جما رہا ہے اور خود امریکی شہری صہیونیت کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے بندوں اظہار کرتے ہیں‘ اس سے یہ اُمید بندھتی ہے کہ صہیونیت کے خلاف امریکی عوام کی یہ ملک گیر نفرت بالآخر نہ صرف امریکا میں‘ بلکہ دنیا بھر میں سامراجی و صہیونی عزائم کے خاتمے کا باعث ہوگی‘ اور اسلام غالب آکر رہے گا۔ ان شاء اللہ!

بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت

دعوتی سرگرمیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میرے بعض احباب نے گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ برس میں  کم و بیش لندن کے تمام اخبارات میں سے بین الاقوامی اور عالمِ اسلام کے حالات اور اُن کے منتخب اداریوں کے اصل تراشے اتنی تعداد میں ارسال کیے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسا وافر ذخیرہ جمع ہوچکا ہے کہ اُس کی مدد سے مختلف موضوعات پر تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ بش اور بلیر کے خلاف برطانوی اخبارات نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ یہ دونوں نام برطانیہ میں گالی بن کر رہ گئے ہیں۔

ان اخبارات میں بعض کالم نویس اپنے کالموں میں اسلام کے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل معروف روزنامے ڈیلی میل میں اُس کے کیمبرج یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر جان کیسی کا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک فرضی تصویر کے ساتھ ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں ایک طرف نبی کریم ؐ کی ذاتِ مبارکؐ کو غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک‘ بروقت صحیح فیصلہ کرنے والا اور انتہائی دلیر اور جرأت مند پیش کیا گیا‘ وہاں نعوذ باللہ عورتوں کا عاشق اور قزاق کے لفظ بھی استعمال کیے گئے۔ میں نے اُس روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو خط لکھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرزہ سرائی پر ان کی گرفت کی وہاں یہ بھی لکھا کہ یہ عیسائیت ہی ہے جس نے حضرت عیسٰی ؑکی مختلف فرضی حالتوں میں بت بناکر ان کو خدا کا درجہ دیا‘ جب کہ آپ سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں پیغمبرؐ اسلام کی تصویر کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔

چیف ایڈیٹر نے میرے خط کا جواب دیا کہ روزنامے نے اگلے ہی روز معذرت شائع کردی تھی اور اُس نے معذرت کی نقل بھی ارسال کی۔میں نے ایڈیٹر سے متعلقہ کالم نویس کا پتا بھی طلب کیا ‘ جو اُس نے مجھے ارسال کیا۔ چنانچہ میں نے کیمبرج یونی ورسٹی کے اس پروفیسر کو خط تحریر کیا اور اُس کی نقل روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو بھی ارسال کی۔ اگرچہ اُس نے میرے خط کا کوئی جواب تو نہ دیا لیکن میرا ایک مقصد اُسے قائل کرنا تھا کہ اُس نے پیغمبراسلامؐ کی ذاتِ مبارک کو اپنی تنقید کا جو نشانہ بنایا ہے‘ وہ اُس جیسے اسکالر کی علمیت اور مقام سے گری ہوئی بات تھی۔

اس طرح وقتاً فوقتاً برطانوی اخبارات میں بعض مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن کا میں نے جواب دیا ہے۔ بعض امریکی اور برطانوی اسکالروں سے بھی صہیونیت کے خلاف میری مراسلت رہی ہے۔

اس میدان میں بھی مجھ سے جو بن پڑا ہے‘ میں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں برتی۔ کوئی دو ڈھائی سال قبل اسی اخبار میں Pakistan today is the most dangerous place on Earth کے عنوان سے پاکستان کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس کا نہ     ہماری امریکا نواز حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیااور نہ ہمارے انگریزی یا اُردو اخبارات نے ہی کوئی نوٹس لیا‘ البتہ میں نے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر (ایڈیٹوریل) Fred Hiattکو کئی حوالہ جات کے ساتھ ۲۰ صفحات کا خط لکھا جس کا عنوان تھا:

1. USA & U.K's Governments under Zionism control are the only enemies of world peace. 2. Bush, Blair and Sharon are war criminals.

 میں نے اس خط کی نقول اسلام آباد میں تمام غیرملکی سفیروں‘ پاکستانی وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور لندن کے بعض اخبارات کے چیف ایڈیٹر اور بعض مغربی دانش وروں کو بھی بھیجیں۔ اس کے جواب میں مشہور صہیونیت مخالف امریکی دانش ور اور مصنف پال فنڈے کا خط میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اسی طرح لندن کے لارڈمیئر کا میرے نام ذاتی خط بھی میرے لیے ایک یادگار ہے کہ میں نے قومِ یہود اور ہنود کے خلاف عیسائیت اور اسلام دشمنی جنگ کے بارے میں اُسے اپنا ۱۶صفحات کے اس مضمون کی جو نقل بھیجی تھی‘ اُس نے یورپین سوشل فورم کے ۲۰ہزار یورپی اسکالروں اور دیگر شعبوں کے اجتماع میں‘ میرے اس مضمون کو بطور ایک ایشو پیش کیا۔ اس طرح سے بیرون ممالک کے رسائل و جرائد سے مراسلت کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے تدارک اور اسلام کی حقیقی تصویر اور پیغام کو پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش جاری رکھی اور یہ سلسلہ الحمدللہ ابھی تک جاری ہے۔

انفرادی رابطہ و کارکن سازی

اپنی دعوتی ذمہ داریوں کی ادایگی کے پیش نظر میرا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ میرے رابطے میں جو بھی فرد آیا‘ دفتر میں‘ دوران سفر‘ یا کہیں بھی‘ میری کوشش رہی ہے کہ اس اتفاقی تعارف کو ایک مستقل رابطے میں بدل دوں اور ایک فرد کے اندر اس کی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُبھارا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ مستقبل میں تحریک کو اچھے کارکن میسر آسکیں۔ میںتعارف حاصل کرتا‘ پتااپنی ڈائری میں درج کرتا اور پھر باہمی گفتگو کے بعد اپنے بیگ سے لٹریچر یا پمفلٹ وغیرہ تحفتاً دیتا اور پھر مراسلت جاری رکھتا۔ میری کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو خاص طور پر آگے بڑھایا جائے اور خاص طور پر عبدالحمیدصدیقی کی کتاب انسانیت کی تلاش بہت سے لوگوں کو تحفتاً دی۔ میں نے اپنی کتاب کارکن کی یادداشتیں میں اپنے تجربات کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اندرون ملک مراسلت کا ایک بڑا ریکارڈ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو کارکن سازی‘ تربیت افراد‘ دعوتی مسائل اور رہنمائی وغیرہ کے موضوعات پر ایک اچھا لوازمہ ہے۔

اشاعتِ اسلام کے لیے بیرون ملک مراسلت و ترسیلِ لٹریچر‘ امریکی جیلوں میں قیدیوں میں دعوت کا کام‘ ملکی و غیرملکی جرائد میں اسلام کے خلاف چھپنے والی تحریروں پر ردعمل‘ گرفت اور ترسیل لٹریچر اور اس کے ساتھ ساتھ اندرون ملک افراد سے بڑے پیمانے پر مستقل رابطہ‘ اور کارکن سازی کے لیے مساعی--- اس پر خدا کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اہلِ خانہ کی ذمہ داریوں اور حصول رزق کی سرگرمیوں کے ساتھ یہ ہمہ جہت اور عالم گیر نوعیت کا کام‘ بغیر کسی معاونت اور مالی تعاون کے کیسے انجام پاگیا ہے ۔ یہی خیال آتا ہے کہ   ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشند خداے بخشندہ