تمام قیاسی فلسفوں کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے سامنے جو مسائل آتے ہیں ان کووہ محض تخیل اور منطق اور اٹکل سے کسی ایسے طور پر حل کرلینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کو اپنی حد تک اپنے پیشِ نظر مسائل کا اطمینان بخش اور دل کو لگتا ہوا جواب مل جائے‘ قطع نظر اس سے کہ علم‘ تجربہ‘ مشاہدہ اور آثارِ کائنات سے اس کی کوئی شہادت ملے یا نہ ملے۔ قیاسی فلسفی اِس شہادت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اُسے تو فقط اپنے پیش نظر سوالات کا ایسا جواب درکار ہوتا ہے جس پر وہ اور اس کے طرز پر سوچنے والے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ایسے قیاسات کا امرواقعی اور حقیقت نفس الامری کے مطابق ہونا کچھ ضروری نہیں ہے‘ بلکہ اس کی بہت کم توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ تو ایک تیر ہے جو اندھیرے میں اٹکل سے چلایا جاتا ہے‘ نشانے پر لگے یا نہ لگے۔ تیر چلانے والے کو خود بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتا کہ کسی جگہ اس کے لگنے سے ’کھٹ‘ کی آواز بھی آتی ہے یا نہیں۔ اس کو مطمئن کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اپنے قیاس سے اس نے جس کو نشانہ کا صحیح رخ سمجھا ہے اُدھر اس نے اپنی حد تک ٹھیک ٹھیک شست باندھ کر تیر چلا دیا۔ ایسی تیراندازی کا نشانہ پر لگنا جتنا کچھ متوقع ہوسکتا ہے اتنی ہی کچھ قیاسی فلسفوں کے مطابق حقیقت ہونے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ (’رسائل و مسائل‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۸‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۵ھ‘ جنوری ۱۹۴۶ئ‘ ص ۴۹)