پاکستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دنیا بھر سے مسلم اور مسیحی ادارے اور تنظیمیں امدادی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مسیحی اداروں کے ریلیف کے کاموں سے متاثر ہونے والوں میں عام آدمی سے لے کر پالیسی ساز افراد اور اہم ذمہ داریوں پر موجود شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان اداروں کو بے پناہ مادی وسائل میسر ہیں جن کا ایک اظہار ان کی مالی و فنی خود کفالت سے بھی ہوتا ہے اور تکنیکی صلاحیت بھی کسی طرح سے کم نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ادارہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسیحیت کے فروغ سے بھی وابستہ ہے۔ بعض ادارے تو اپنے نام سے پہچانے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی چرچ کی توسیعی شاخ کے طور پر دنیا بھر میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مشن اور سرگرمیوں کے بارے میں ان کی ویب سائٹس معلومات فراہم کرنے کا کھلا ذریعہ ہیں۔
ان کی مشنری سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو صرف انسانی ہمدردی کے عنوان سے میدان میں ہیں۔ ان اداروں میں بھی یہ تخصیص بہرحال موجود ہے کہ یہ سیکولر ادارے نہیں ہیں۔ اگر ہم ان تمام اداروں کے ناموں کو سامنے رکھیں اور سیکولر اداروں کو بھی پیش نظر رکھیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ انسانی ریلیف کا کام زیادہ تر مذہبی ادارے کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے زلزلہ زدہ علاقوں میں ان اداروں نے بلاشبہہ کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ پورے امدادی کینوس کو سامنے رکھیں تو تعلیم اور علاج کے شعبہ جات میں اور وہ بھی خصوصی طور پر بچوں اور خواتین میں کام زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ صوبہ سرحد میں بالاکوٹ کا علاقہ ان سرگرمیوں کا خصوصی مرکز ہے۔ آزاد کشمیر کے علاقوں میں باغ میں زیادہ اہم سرگرمیاں ہیں۔
ایک مشنری جب کام کرتا ہے تو اس کو مکمل تربیت حاصل ہوتی ہے‘ ایک لٹریچر اس کے کام میں اس کی معاونت کرتا ہے اور مغربی دنیا کے وسائل اس کی پشت پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ اس کے مشن کا حصہ ہے کہ وہ کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ وہ مسلسل کام کرتا ہے۔ اسی لیے مشنریوں کے کام کے نتائج ایک غیرمسیحی کی توقعات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قبل کمبوڈیا میں تعداد ۲۰۰ تھی جو اب بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ گویا ۱۰برسوں میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا۔ اس تیز رفتار تبدیلی مذہب کی وجہ زیر ہدف علاقے کا آفت زدہ یا مصیبت زدہ ہونا‘ وہاں کے مقامی مذہب کی گرفت کا ڈھیلا پڑ جانا‘ الہامی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہونا اور ان کے ساتھ ساتھ مشنری مسیحی اداروں کا مسلسل فلاحی سرگرمیوں‘ بہبود کے کاموں میں اور امدادی سرگرمیوں میں مقامی آبادی کا ساتھ دینا تھا۔ ان سرگرمیوں سے مشنری کو موقع ملتا ہے کہ وہ مقامی آبادی سے ربط پیدا کرے‘ ان کے ہاں آجا سکے‘ ان کی خوشی غمی میں شرکت کرسکے اور پھر انھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے سکے۔ ایک مشنری سے کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے اوقات کو ان سرگرمیوں کے لیے استعمال کرے۔ وہ سارا دن ریلیف اور امداد کرے گا اور شام کو تبشیری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
ایک مشنری کی تربیت میں شامل ہے کہ اسے افراد میں نفوذ کس طرح کرنا ہے‘ انھیں مشتعل کیے بغیر ان کے مذہب سے انھیں کس طرح الگ کرنا ہے‘ یسوع مسیحؑ سے انھیں کس طرح وابستہ کرنا ہے۔ آپ کو زلزلہ زدہ علاقوں میں بہت سے مسیحی کارکن‘ جو ان اداروں کے ساتھ آئے ہیں‘ روزے کی حالت میں ملے ہوں گے۔ رمضان المبارک میں زلزلہ آیا اور انھوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھے۔ وہ آپ کو بہت سے ایسے مقامات پر بھی باادب بیٹھے ملیں گے جہاں صرف مسلمان ہی جمع ہو سکتے ہیں۔
خاتون مشنری کی اہمیت مرد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ زیادہ با اثر ہے۔ اس کے ہر کام کی نگرانی ہوتی ہے۔ آپ کو مسیحی مشنری خاتون صفائی کرتی نظر آئے گی‘ کبھی کھانا طلب نہیں کرے گی‘ کبھی کوئی رعایت نہیں لے گی‘ سب کام کرے گی اور خاموشی سے چلے جائے گی لیکن اپنے پیچھے اَن گنت سوالات چھوڑ جائے گی۔ یہ اس کے کام کی کامیابی ہے۔ جاپان میں مشنری تجربات سے معلوم ہوا کہ ۷۰فی صد معاملات میں خاتون مشنری کامیاب رہی۔ جنوبی کوریا میں ایک سال میں ۳۶۵ خاندانوں کو تبدیلیِ مذہب پر آمادہ کرنے والی بھی ایک خاتون تھی۔ ایک جائزہ تیار کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ عورت کی یہ صلاحیت ایک مرد کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
مشنری ہمیشہ تعلیم یافتہ ہو گا۔ وہ اپنے مذہب کے بارے میں کیے جانے والے بیشتر سوالوں کا جواب جانتا ہو گا۔ وہ آپ کو آپ کے مذہب سے دور لے جانے کے سو نکات بیان کردے گا‘ وہ تبدیلی مذہب کے عمل کے بارے میں بالکل متانت اور سنجیدگی سے بات کرے گا‘ آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔ آپ کی خانگی الجھنوں کا حل پیش کرے گا‘ آپ کے بچوں کے مسائل پر بات کرے گا‘ آپ آفت زدہ ہیں تو اس آفت کے بارے میں خداوند کی بات کرے گا‘ توحید پر اشتراک کرے گا اگرچہ وہ تثلیت کا قائل ہو گا۔
مشنریوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تجربات بھی کئی ایک مقامات پر بیان کیے ہیں۔ ان تجربات کو وہ ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ ان راستوں اور طریقوں کی وضاحت ہو جن سے ایک مسلمان کو آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مشنری جولی وینزل نے نیومارک سٹی میں اگست ۲۰۰۳ء میں ایک خط میں ایک تجربہ بیان کیا۔ اس کے مطابق ایک مسلم عرب ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے گھر ڈنر میں یہ لوگ شریک ہوئے۔ جولی نے ایک حمدیہ نظم پڑھنا شروع کی جس میں نہایت پر سوز انداز میں توحید کا بیان تھا۔ جولی کا کہنا ہے کہ لبنان کے اس گھرانے کے افراد کی آنکھیں پر نم تھیں اور ان کی دو خواتین مسلمان ہونے کے باوجود سخت مضطرب تھیں اور وہ بعد میں اسلام سے مسیحیت کی جانب آ گئیں۔ اس طرح سے وہاں الجزائر کی ایک مسلم ایم بی بی ایس خاتون بھی مسیحی ہو گئی۔
مسیحیوں میں بالعموم اور مسیحی مشنریوں میں بالخصوص ریلیف سوسائٹیاں بنانے کا رواج عام ہے۔ ان سوسائٹیوں میں کام کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو مشتعل کیے بغیر انھیں تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ انھیں یہ شک بھی نہ ہونے دیا جائے کہ ان پر کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دوستی اور سماجی خدمت کے پردے میں ہوتا ہے اور غیر محسوس انداز میں لٹریچر کی جانب طلب پیدا کر دی جاتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو مسیح بنانے کے ایک ادارے کا نام دارالنجات ہے۔ اس ادارے کوGlobal Call of Hope کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ اسلام پر مختلف کورس کراتی ہے۔ اس منصوبے کو مسلم مسیحی فیلو شپ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک اور ادارہ ہیلپنگ ہینڈ انٹرنیشنل ہے۔ یہ پاکستان میں بھی کام کر ہا ہے۔ یہ سکول قائم کرتا ہے‘ چلڈرن ہوم‘ دستکاری مراکز‘ کرافٹ سنٹر‘ زرعی تربیت کے ادارے‘ ریلیف تنظیمات اور طبی امداد کے ادارے بناتا اور ان سے کام لیتا ہے۔ یہ تنظیم بھی یہاں زلزلہ زدگان کی امداد میں مصروف ہے۔ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں مسلمانوں میں تبدیلی مذہب پر کام کر رہی ہے۔
جب ایک مسلمان کو مسیحی بنایا جاتا ہے تو کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس سے تقریباً روزانہ نصف سے ایک گھنٹہ ملاقات کی جاتی ہے۔ اس کام کے لیے ایک لائبریری ’النور‘ کے نام سے کام کرتی رہتی ہے۔ یہ ادارہ‘ یعنی ہیلپنگ ہینڈ اس مقصد کے لیے ۱۸ کتب اور ۳۷ پمفلٹ اور ایک جامع خط و کتابت کورس تقسیم کرتا ہے۔ سونامی میں ان اداروں نے بہت کام کیا۔ امریکی اخبار نیوز ڈے نے ۸ جنوری ۲۰۰۵ء کو ایک رپورٹ میں ان کی تفصیلات بیان کیں۔ عراق ان اداروں کا ایک بنیادی ہدف ہے۔ ایوانجلیکل راہنمائوں نے ان سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی مدد بھی کرتے ہیں۔ ریورنڈفرینکلن گراہم نے اس کے دفاع میں کہا کہ امداد ایسی ہو جس سے یسوع مسیح کی محبت ہر دل میں پیدا ہو سکے۔ میری کوشش ہے کہ متاثرین میرے خداوند کو اپنے خداوند کے طو رپر پہچان لیں۔
مسیحی مشنری جب متاثرین میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو گود لے لیتے ہیں۔ ریلیف کے سامان میں پمفلٹ رکھ دیتے ہیں‘ مستقل رابطوں کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ایوانجلیکل مشن نامی میگزین کے ایڈیٹر سکاٹ مورائو کا کہنا ہے کہ مسیحیت کا پرچار کسی صورت بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے امداد دی جائے پھر اس اعتماد کی مدد سے رابطے قائم کیے جائیں تاکہ لوگوں کو تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ کرسچین ریلیف ایجنسی‘ ورلڈ وژن اور کیتھولک ریلیف سروس کا بھی یہی طریقہ ہے۔
٭ Brother' Brother Foundation پاکستان میں طبی سامان بالخصوص ادویات دے رہی ہے۔ www.brothersbrother.org
(تفصیلی معلومات کے لیے ماہنامہ آئین کی نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت دیکھیے)