جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

آیت الکرسی کامطالعہ اُن قرآنی آیات کی روشنی میںجن کا آغاز ’اللہ‘ سے ہے

اُسامہ مراد | جنوری۲۰۰۶ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابومنذرؓ! جانتے ہو تمھارے پاس جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کی کون سی آیت سب سے بڑی (عظیم) ہے؟ میںنے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولؐ کو زیادہ معلوم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: اے ابومنذرؓ !کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی جو کتاب ہے اس کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ میں نے عرض کیا: اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الِاَّ ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ  (یعنی آیت الکرسی)۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا‘ اور فرمایا: اے ابومنذرؓ! یہ علم تمھیں مبارک ہو۔(مسلم)

حضرت اُبی بن کعبؓ کی کنیت ابومنذر ہے۔ آپؐ کے ان صحابیوں میں سے تھے جو قرآن کے سب سے زیادہ جاننے والے اور قرآن مجید کے فاضل تھے اور صحابہ کرامؓ میں سے بہترین    فہمِ قرآن کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ (تفہیم الاحادیث ،سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلدہشتم‘ ص ۱۳)

اسی بڑی اور عظیم آیت‘ آیت الکرسی کے سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے ترجمان  ماہنامہ زندگی نو کے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ایک مضمون کے مطالعے کے دوران خیال آیا کہ کلامِ پاک کی وہ آیات جمع کی جائیں جن کا آیت الکرسی کی طرح اسمِ ذات ’اللہ‘ سے آغاز   ہوتا ہو۔ ایسی ۲۷آیات کی نشان دہی زندگیِ نو کے مذکورہ مضمون میں کی گئی تھی مگر باربار  تلاوت کے نتیجے میں یہ ۳۴ نظر آئیں (اللہ تعالیٰ بھول چوک معاف فرمائے)۔ آیات کی ترتیب قرآن پاک کی ترتیب کے مطابق ہے۔ بہت معمولی رد و بدل کے ساتھ ترجمہ تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے۔ بعض آیات میں ان سے قبل یا بعد کی آیات مل کر ہی مضمون مکمل ہو رہا تھا وہاں قوسین میں اسے بھی درج کر دیا ہے۔ عربی متن کسی بھی نسخے سے دیکھا جاسکتا ہے۔

  • [جب یہ (منافقین) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں‘ اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں‘ تو کہتے ہیں کہ اصل میں ہم تمھارے ساتھ ہیںاور ان لوگوں (مومنوں) سے محض مذاق کر رہے ہیں۔ البقرہ ۲:۱۴]
  • ۱-            ش ان سے مذاق کر رہا ہے‘ وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے‘ اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ (۲: ۱۵)
  • ۲-            ش ، وہ زندۂ جاوید ہستی ‘ جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہ نہ سوتا ہے‘ نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے‘ اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے‘ اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ (۲: ۲۵۵)
  •  ۳-            ش حامی و مددگار ہے ان کا‘ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے‘ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں‘ ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں‘ وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ (۲: ۲۵۷)
  •  ۴-            ش ، وہ زندۂ جاوید ہستی‘ جو نظامِ کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ حقیقت میں اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ (اٰل عمرٰن۳:۲)
  •   ۵-            ش وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں‘ اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے۔ (النسائ۴: ۸۷)
  •  ۶-            شوہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں‘ پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا‘ اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہرچیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ (الرعد ۱۳: ۲)
  •  ۷-            شایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے‘ جو کچھ اس میں بنتا ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہرچیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔(۱۳: ۸)
  •  [وہ پوشیدہ اور ظاہر‘ ہرچیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ ۱۳: ۹]
  •   ۸-            ش جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں‘ حالاں کہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (۱۳: ۲۶)
  •  ۹-            ش وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے۔ (ابراھیم۱۴: ۲)
  • [جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں‘ جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہوجائے۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔۱۴: ۳]
  •   ۱۰-         ش وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیااور آسمان سے پانی برسایا‘ پھر اس کے ذریعے سے تمھاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمھارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریائوں کو تمھارے لیے مسخر کیا۔ (۱۴: ۳۲)
  •  [جس نے سورج اور چاند کو تمھارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمھارے لیے مسخر کیا‘ جس نے وہ سب کچھ تمھیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم   اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیںکرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ ۱۴: ۳۳-۳۴]
  • ۱۱-         ش وہ ہے‘ جس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔ (طٰہٰ ۲۰:۸)
  •   [اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے۔الحج ۲۲:۶۸]
  •   ۱۲-         ش قیامت کے روز تمھارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔(۲۲:۶۹)
  •   [کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔۲۲:۷۰]
  •   ۱۳-         ش (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سمیع اور بصیر ہے۔ (۲۲: ۷۵)
  •  [جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ‘اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ ۲۲: ۷۶]
  • ۱۴-         ش آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو‘ چراغ ایک فانوس میں ہو‘ فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا‘ اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی‘ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے‘ (اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں)‘ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے‘ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے‘ وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔ (النور۲۴: ۳۵)
  •    ۱۵-         ش کہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں‘ جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ (النمل۲۷: ۲۶)
  •  ۱۶-         ش ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے‘ یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (العنکبوت۲۹: ۶۲)
  • ۱۷-         ش ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے‘ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا‘ پھر اُسی کی طرف تم پلٹائے جائو گے۔ (الروم۳۰:۱۱)
  •  ۱۸-         ش ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا‘ پھر تمھیں رزق دیا‘ پھر وہ تمھیں موت دیتا ہے‘ پھر وہ تمھیں زندہ کرے گا۔ کیا تمھارے ٹھیراے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو اِن میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ (۳۰: ۴۰)
  •  ۱۹-         ش ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے اوروہ بادل اٹھاتی ہیں‘ پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انھیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے‘ پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادلوں میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔ (۳۰: ۴۸)
  •   [حالاں کہ اس کے نزول (برسنے) سے پہلے وہ مایوس ہورہے تھے۔ ۳۰: ۴۹]
  •  ۲۰-         ش ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی‘ پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی‘ پھر اس قوت کے بعد تمھیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جاننے والا‘ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۰: ۵۴)
  •  ۲۱-         ش وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اِن کے درمیان ہیں چھے دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوئہ فرما ہوا۔ اس کے سوا نہ تمھارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا‘ پھر کیا تم ہوش میں نہ آئو گے؟ (السجدہ۳۲: ۴)
  •    [وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔ ۳۲:۵]
  •   [کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو؟ الصّٰفّٰت۳۷:۱۲۵]
  •   ۲۲-         شکو جو تمھارا اور تمھارے اگلے پچھلے آباو اجداد کا رب ہے۔ ۳۷: ۱۲۶)
  •   ۲۳-         ش نے بہترین کلام اتارا ہے‘ ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں۔ اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں‘ اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ ہدایت پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔(الزمر ۳۹: ۲۳)
  •  ۲۴-         ش ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ (۳۹:۴۲)
  •  [کیا اس خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو: کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی نہ ہوں؟ کہو: شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔ پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔ ۳۹:۴۳-۴۴]
  • ۲۵-         ش ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (۳۹:۶۲)
  •  [زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ ۳۹:۶۳]
  •   ۲۶-         ش ہی تو ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو‘ اور دن کو روشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (المومن ۴۰: ۶۱)
  •  [وہی اللہ (جس نے تمھارے لیے یہ کچھ کیا ہے) تمھارا رب ہے‘ ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ۴۰:۶۲]
  •  ۲۷-         ش وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو جاے قرار بنایا اور اُوپر آسمان کا گنبد بنادیا۔ جس نے تمھاری صورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی۔ جس نے تمھیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔ وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمھارا رب ہے۔ بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا رب۔(۴۰:۶۴)
  •  [وہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کر کے۔ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ ۴۰:۶۵]
  •   ۲۸-         ش ہی نے تمھارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھائو۔(۴۰:۷۹)
  •  [ان کے اندر تمھارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمھارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو وہاں تم ان پر پہنچ سکو۔ ۴۰: ۸۰]
  •  ۲۹-         ش ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے۔ اور تمھیں کیا خبر‘ شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آلگی ہو۔ (الشورٰی ۴۲:۱۷)
  •   [جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں‘ مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقینا وہ آنے والی ہے۔ خوب سن لو‘ جو لوگ اس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میںبہت دُور نکل گئے ہیں۔ ۴۲: ۱۸]
  •  ۳۰-         ش اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے‘ اور وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ (۴۲: ۱۹)
  •  [جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں‘ اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں‘ مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ۴۲:۲۰]
  • ۲۱-         ش ہی تو ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکرگزار ہو۔ (الجاثیہ ۴۵: ۱۲)
  • [اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا‘ سب کچھ اپنے پاس سے___ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ ۴۵:۱۳]
  •  ۳۲-         ش وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ (التغابن ۶۴: ۱۳)
  •  ۳۳-         ش وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قَسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے‘ اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ (الطلاق۶۵: ۱۲)
  •     ۳۴-         ش سب سے بے نیاز ہے۔ (اخلاص ۱۱۲: ۲)

ان آیات کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب آیت الکرسی کے مضامین ہی کو بار بار تازہ اور واضح کر رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کی کچھ کوشش کرتے ہیں۔

آغاز میں درج حدیث کی تشریح کے ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول: ’’آیت الکرسی کی یہ عظمت اور اہمیت اس بنا پر ہے کہ یہ قرآن مجید کی ان چند آیتوں میں سے ہے‘ جن میں توحید کی مکمل تعریف بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور دلانے ہی کے لیے  آیا ہے‘ اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور حاصل نہ ہو تو باقی ساری تعلیم بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ توحید آدمی کی سمجھ میں آجانے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی بنیاد قائم ہوگئی۔ اس بنا پر قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت وہ ہے جس میں توحید کے مضمون کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے‘‘۔ (تفہیم الاحادیث، جلد ہشتم‘ص ۱۳)

تفہیم القرآنمیں مولاناؒ نے لکھا ہے کہ ’’انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں بہرحال حقیقت نفس الامری جس پر ذہن و ایمان کا نظام قائم ہے یہ ہے‘ جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق  نہیں آتا مگر اللہ کا منشا یہ نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔ جو اس کو مان لے گا‘ وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ آپ نقصان اٹھائے گا‘‘۔ (جلداوّل‘ص ۱۹۶)

ایک نئی کتاب کلیدِالبقرہ میں محترم خرم مرادؒ نے سورۂ بقرہ کو مضامین کے اعتبار سے آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے آخری حصے ’اُمت مسلمہ کے مشن کی تکمیل کے ذرائع ،جہاد اور انفاق‘ کے درمیان اس آیت کو جواہر اور موتیوں کے ہار کے وسط میں نمایاں نگینہ قراردیا ہے‘ اور لکھا ہے کہ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جس کی اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضرورت ہے‘ اور جو جہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی۔ اس لیے کہ اللہ حی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے ‘ زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔ (ص ۳۹)

سید قطب شہیدؒ آیت الکرسی کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وہ صفات بیان کرتی ہے جن سے توحید کا عمیق ترین اور وسیع ترین مفہوم سامنے آتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک عظیم الشان آیت ہے‘ جس کا مفہوم عمیق اور وسیع ہے۔

اللہ‘ اس کے سواکوئی الٰہ نہیں‘ زندئہ جاوید‘ (کائنات کو سنبھالنے اور) قائم رکھنے والا‘ اُسے نہ اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘ اس کی ہیں وہ سب چیزیں‘ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں‘ کون ہے جو اس کے حضور سفارش کرسکے الا یہ کہ اس کا اذن ہو۔ وہ جانتا ہے ان سب چیزوں کو جو ان (کی نظروں) کے سامنے ہیں اور انھیں بھی جو ان کے پیچھے ہیں‘ وہ اس کے علم میں سے کسی بھی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے بجز اس کے جو وہ چاہے‘ اس کی کرسی (اقتدار) آسمانوں اور زمین (سب) پر چھائی ہوئی ہے‘ اور وہ ان کی نگہبانی سے تھکتا نہیں۔ اور وہی بلندوبالا اور صاحبِ عظمت و جلال ہے۔

مذکورہ بالا صفات میں سے ہر صفت اسلامی تصور کے کُلی اور بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول پر مشتمل ہے۔ مکی قرآن بالعموم اسلامی تصور کی تعمیر کے گرد گردش کرتا ہے۔ (اس لیے اس میں صفاتِ الٰہی کا عام طور سے ذکر ہے) مگر مدنی قرآن میں بھی (جس میں زیادہ تر احکام کی تفصیل ہے)۔ مختلف مناسبتوں کے تحت ہم اس بنیادی اور اہم موضوع کو پاتے ہیں کیوں کہ اس کی بنیاد پر پورا اسلامی نظام استوار ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام دل و دماغ میں اسی وقت صحیح طور سے جاگزیں ہوسکتا ہے‘ جب کہ یہ بنیاد دل میں صحیح طور سے پیوست اور پوری طرح واضح و منقح ہوکر ایسے مسلّم حقائق میں تبدیل ہوجائے‘ جو واضح بھی ہوں اور یقین سے بھرپور بھی…

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کے دل و دماغ میں پوری طرح واضح و منقح ہونے کی غیرمعمولی اہمیت ہے کیوں کہ جاہلی تصورات سے قلبِ انسانی پر جو تہ بہ تہ پردے پڑ جاتے ہیں‘ وہ اکثروبیش تر صفاتِ الٰہی کے پوری طرح واضح نہ ہونے‘ خرافات واساطیر کے دلوں پر چھا جانے اور تاریکیوں کے--- جو عظیم فلسفیوں کے فلسفے تک میں موجود ہیں--- عام ہونے کے باعث پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آیا۔ اور اس نے خدائی صفات کو منقح کر کے پوری وضاحت سے بیان کیا‘  قلوب و اذہان سے ان بھاری اور بوجھل پردوں کو ہٹایا اور انھیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور بھٹکتے پھرنے سے نجات دلائی‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ:سیدحامد علی‘ج ۱‘ ص۶۷۶- ۶۷۷)

اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدۂ توحید کے عملی تقاضے کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!