حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابومنذرؓ! جانتے ہو تمھارے پاس جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کی کون سی آیت سب سے بڑی (عظیم) ہے؟ میںنے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولؐ کو زیادہ معلوم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: اے ابومنذرؓ !کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی جو کتاب ہے اس کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ میں نے عرض کیا: اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الِاَّ ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ (یعنی آیت الکرسی)۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا‘ اور فرمایا: اے ابومنذرؓ! یہ علم تمھیں مبارک ہو۔(مسلم)
حضرت اُبی بن کعبؓ کی کنیت ابومنذر ہے۔ آپؐ کے ان صحابیوں میں سے تھے جو قرآن کے سب سے زیادہ جاننے والے اور قرآن مجید کے فاضل تھے اور صحابہ کرامؓ میں سے بہترین فہمِ قرآن کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ (تفہیم الاحادیث ،سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلدہشتم‘ ص ۱۳)
اسی بڑی اور عظیم آیت‘ آیت الکرسی کے سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ زندگی نو کے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ایک مضمون کے مطالعے کے دوران خیال آیا کہ کلامِ پاک کی وہ آیات جمع کی جائیں جن کا آیت الکرسی کی طرح اسمِ ذات ’اللہ‘ سے آغاز ہوتا ہو۔ ایسی ۲۷آیات کی نشان دہی زندگیِ نو کے مذکورہ مضمون میں کی گئی تھی مگر باربار تلاوت کے نتیجے میں یہ ۳۴ نظر آئیں (اللہ تعالیٰ بھول چوک معاف فرمائے)۔ آیات کی ترتیب قرآن پاک کی ترتیب کے مطابق ہے۔ بہت معمولی رد و بدل کے ساتھ ترجمہ تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے۔ بعض آیات میں ان سے قبل یا بعد کی آیات مل کر ہی مضمون مکمل ہو رہا تھا وہاں قوسین میں اسے بھی درج کر دیا ہے۔ عربی متن کسی بھی نسخے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان آیات کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب آیت الکرسی کے مضامین ہی کو بار بار تازہ اور واضح کر رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کی کچھ کوشش کرتے ہیں۔
آغاز میں درج حدیث کی تشریح کے ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول: ’’آیت الکرسی کی یہ عظمت اور اہمیت اس بنا پر ہے کہ یہ قرآن مجید کی ان چند آیتوں میں سے ہے‘ جن میں توحید کی مکمل تعریف بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور دلانے ہی کے لیے آیا ہے‘ اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور حاصل نہ ہو تو باقی ساری تعلیم بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ توحید آدمی کی سمجھ میں آجانے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی بنیاد قائم ہوگئی۔ اس بنا پر قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت وہ ہے جس میں توحید کے مضمون کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے‘‘۔ (تفہیم الاحادیث، جلد ہشتم‘ص ۱۳)
تفہیم القرآنمیں مولاناؒ نے لکھا ہے کہ ’’انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں بہرحال حقیقت نفس الامری جس پر ذہن و ایمان کا نظام قائم ہے یہ ہے‘ جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا مگر اللہ کا منشا یہ نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔ جو اس کو مان لے گا‘ وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ آپ نقصان اٹھائے گا‘‘۔ (جلداوّل‘ص ۱۹۶)
ایک نئی کتاب کلیدِالبقرہ میں محترم خرم مرادؒ نے سورۂ بقرہ کو مضامین کے اعتبار سے آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے آخری حصے ’اُمت مسلمہ کے مشن کی تکمیل کے ذرائع ،جہاد اور انفاق‘ کے درمیان اس آیت کو جواہر اور موتیوں کے ہار کے وسط میں نمایاں نگینہ قراردیا ہے‘ اور لکھا ہے کہ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جس کی اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضرورت ہے‘ اور جو جہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی۔ اس لیے کہ اللہ حی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے ‘ زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔ (ص ۳۹)
سید قطب شہیدؒ آیت الکرسی کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وہ صفات بیان کرتی ہے جن سے توحید کا عمیق ترین اور وسیع ترین مفہوم سامنے آتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک عظیم الشان آیت ہے‘ جس کا مفہوم عمیق اور وسیع ہے۔
اللہ‘ اس کے سواکوئی الٰہ نہیں‘ زندئہ جاوید‘ (کائنات کو سنبھالنے اور) قائم رکھنے والا‘ اُسے نہ اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘ اس کی ہیں وہ سب چیزیں‘ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں‘ کون ہے جو اس کے حضور سفارش کرسکے الا یہ کہ اس کا اذن ہو۔ وہ جانتا ہے ان سب چیزوں کو جو ان (کی نظروں) کے سامنے ہیں اور انھیں بھی جو ان کے پیچھے ہیں‘ وہ اس کے علم میں سے کسی بھی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے بجز اس کے جو وہ چاہے‘ اس کی کرسی (اقتدار) آسمانوں اور زمین (سب) پر چھائی ہوئی ہے‘ اور وہ ان کی نگہبانی سے تھکتا نہیں۔ اور وہی بلندوبالا اور صاحبِ عظمت و جلال ہے۔
مذکورہ بالا صفات میں سے ہر صفت اسلامی تصور کے کُلی اور بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول پر مشتمل ہے۔ مکی قرآن بالعموم اسلامی تصور کی تعمیر کے گرد گردش کرتا ہے۔ (اس لیے اس میں صفاتِ الٰہی کا عام طور سے ذکر ہے) مگر مدنی قرآن میں بھی (جس میں زیادہ تر احکام کی تفصیل ہے)۔ مختلف مناسبتوں کے تحت ہم اس بنیادی اور اہم موضوع کو پاتے ہیں کیوں کہ اس کی بنیاد پر پورا اسلامی نظام استوار ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام دل و دماغ میں اسی وقت صحیح طور سے جاگزیں ہوسکتا ہے‘ جب کہ یہ بنیاد دل میں صحیح طور سے پیوست اور پوری طرح واضح و منقح ہوکر ایسے مسلّم حقائق میں تبدیل ہوجائے‘ جو واضح بھی ہوں اور یقین سے بھرپور بھی…
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کے دل و دماغ میں پوری طرح واضح و منقح ہونے کی غیرمعمولی اہمیت ہے کیوں کہ جاہلی تصورات سے قلبِ انسانی پر جو تہ بہ تہ پردے پڑ جاتے ہیں‘ وہ اکثروبیش تر صفاتِ الٰہی کے پوری طرح واضح نہ ہونے‘ خرافات واساطیر کے دلوں پر چھا جانے اور تاریکیوں کے--- جو عظیم فلسفیوں کے فلسفے تک میں موجود ہیں--- عام ہونے کے باعث پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آیا۔ اور اس نے خدائی صفات کو منقح کر کے پوری وضاحت سے بیان کیا‘ قلوب و اذہان سے ان بھاری اور بوجھل پردوں کو ہٹایا اور انھیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور بھٹکتے پھرنے سے نجات دلائی‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ:سیدحامد علی‘ج ۱‘ ص۶۷۶- ۶۷۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدۂ توحید کے عملی تقاضے کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا‘ نمازوں میں اضافہ ہوجاتا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے اور خوف بہت غالب ہوجاتا۔
ایک حدیث میں ہے کہ ’خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعائوں پر آمین کہو‘۔ (آدابِ زندگی‘ ص ۱۰۱)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ دار جو دعا مانگے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے‘ رد نہیں کی جاتی۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۳)
نیکیوں کا موسم بہار‘ ماہِ رمضان المبارک ایک مرتبہ پھر ہماری زندگی میں خوش قسمتی سے رحمتوں‘ مغفرتوں اور جہنم سے نجات کا مژدہ لیے آپہنچا ہے۔
دعا کی ضرورت‘ اہمیت اور افادیت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی دعائوں پر مشتمل ایک کتاب مُناجاتِ مقبول جس کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے کیا ہے‘ زیرِمطالعہ رہی۔ اس میں سے کچھ چھوٹی چھوٹی دعائیں جو بہت اچھی لگیں‘ پیشِ خدمت ہیں۔ ان کا یاد کرنا اور یاد رکھنا اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا آسان ہے‘ نیز اپنے الفاظ اور مضمون میں بہت تاثیر کی حامل ہیں۔
۱- اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَالَّذِیْ تَـقُوْلُ وَخَیْرًا مِّمَّا نَقُولُ ، ’اے اللہ ! تیرے واسطے سب تعریف ہے جیسی کہ تو خود فرماتا ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر جو ہم بیان کرتے ہیں‘۔ (عن علیؓ)
۲- اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنِی لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ وَالْفِعْلِ وَالنِّیَّۃِ وَالْھُدٰی اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ، ’اے اللہ مجھے اس چیز کی توفیق دے جسے تو پسند کرے‘ اچھاسمجھے‘ خواہ وہ قول ہو یا عمل یا فعل یا نیت یا طریق‘ بے شک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ (عن ابن عمرؓ)
۳- اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّـنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ، ’اے اللہ ‘ میری مدد کر علم دے کر اور مجھے آراستہ کر وقار دے کر اور مجھے بزرگی دے تقویٰ سے اور مجھے جمال دے امن و چین دے کر‘۔(عن ابن عمرؓ)
۴- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَحْسَنُوْا اِسْتَبْشَرُوا وَاِذَا اَسَآئُ وْا اِسْتَغْفَرُوْا، ’اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے جو جب کوئی نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی برائی کرتے ہیں تو مغفرت چاہنے لگتے ہیں۔ (عن عائشہؓ)
۵- اَللّٰھُمَّ خِرْلِیْ وَاخْتَرْلِیْ، ’اے اللہ تو ہی میرے لیے (چیزوں کو) چھانٹ لے اور پسند کرلے‘۔ (عن ابوبکر صدیقؓ)
۶- اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن، ’اے اللہ مجھے خاکسار بناکر زندہ رکھ اور خاکساری ہی کی حالت میں موت لا اور خاکساروں ہی میں مجھے اُٹھا‘۔(عن ابن عمرؓ)
۷- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ مِنْ فُجْئَۃِ الْخَیْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فُجْئَۃِِ الشَّرِّ، ’اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں غیرمتوقع بھلائی اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناگہانی برائی سے‘۔(عن انسؓ)
۸- اَللّٰھُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ وَارْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ وَطَاعَۃَ رَسُولِکَ وَعَمَلًا بِکِتَابِکَ ، ’اے اللہ میرے دل کے کان اپنے ذکر کے لیے کھول دے اور مجھے نصیب کر اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی فرماں برداری اور اپنی کتاب پر عمل‘۔ (عن علیؓ)
۹- اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ قُلُوبًا اَوَّاھَۃً مُّنِیْبَۃً فِی سَبِیْـلِکَ، ’اے اللہ ہم تجھ سے ایسے دل مانگتے ہیں جو تیری راہ میں بہت تاثر قبول کرنے والے‘ بہت عاجزی کرنے والے اور بہت رجوع کرنے والے ہوں‘۔(عن ابن مسعودؓ)
۱۰- اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ، ’اے اللہ مجھے اپنا حلال رزق دے کر حرام روزی سے بچالے اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا ہر چیزسے بے نیاز کر دے۔ (عن علیؓ)
۱۱- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَعِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَـبَّلًا، ’اے اللہ میں تجھ سے پاکیزہ رزق‘ کارآمد علم اور مقبول عمل طلب کرتا ہوں‘۔ (عن اُم سلمہؓ)
۱۲- اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یَـومَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ ، ’اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا مجھے اپنے عذاب سے بچا دینا‘۔(عن حفصہؓ)
۱۳- یَاحَیُّ یَاقَـیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِی اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ، ’اے حی‘ اے قیوم! تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں کہ میرے سارے حالات کو درست کر دے اور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر‘۔(عن انسؓ)
۱۴- اَللّٰھُمَّ اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنْ خُلُقِیْ وَاذْھَبْ غَیْظَ قَلْبِیْ وَاَجِرْنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ مَا اَحْیَـیْتَنَا ، ’اے اللہ تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میری سیرت بھی اچھی کر دے اور میرے دل کی کھولن (غصہ) دُور کر دے اور جب تک زندہ رکھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے مجھے بچائے رکھ‘۔ (عن اُم سلمہؓ)
۱۵- اَللّٰھُمَّ لَقِّنِی حُجَّۃَ الْاِیْمَانِ عِنْدَ الْمَمَاتِ ، ’اے اللہ موت کے وقت مجھے حجتِ ایمان کی تلقین فرما دے‘۔ (عن عائشہؓ)
۱۶- اَللّٰھُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَاَکْرِمْنَا وَلَا تُھِنَّا وَاَعْطِنَـآ وَلَا تَحْرِمْنَا وَاٰثِرْنَا وَلَا تُـؤْثِرْ عَلَیْنَا وَاَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا، ’اے اللہ ہم میں اضافہ کر اور کمی نہ کر‘ ہمیں عزت و آبرو دے اور خوار نہ کر۔ ہمیں عطا فرما اور محروم نہ رکھ‘ ہمیں دوسروں پر بالا رکھ اور دوسروں کو ہم پر مؤثر نہ بنا اور ہمیں خوش رکھ اور ہم سے خوش رہ‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۱۷- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ الْاَعْلٰی، ’اے اللہ مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیقِ اعلیٰ کے ساتھ جا ملا‘۔(عن عائشہؓ)
۱۸- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الصِّحَۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الخُلُقِ وَالرِّضٰی بِالْقَدْرِ ، ’اے اللہ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تندرستی کی‘ پاک بازی کی‘ امانت کی‘ حسنِ خلق کی اور تقدیر پر راضی رہنے کی‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۱۹- اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لَنَا اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَسَھِّلْ لَّنَا اَبْوَابَ رِزْقِکَ، ’اے اللہ ہم پر رحمت کے دروازے کھول دے اور اپنے رزق کے دروازے ہمارے لیے آسان کردے‘۔(عن ابی حمیدؓ)
۲۰- اَللّٰھُمَّ اعْصِمْنِیْ مِنَ الشَّیْطَانِ ، ’اے اللہ مجھے شیطان سے محفوظ رکھ‘۔ (عن ابی ہریرہؓ)
۲۱- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِکَ ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے‘ مجھے ہدایت دے‘ مجھے رزق دے‘ مجھے عافیت دے اور جس چیز کے حق ہونے میں اختلاف ہو اس میں مجھے راہِ صواب دکھا دے‘۔(عن عائشہؓ)
۲۲- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوَّلَ ھٰذَا النَّھَارِ صَلَاحًا وَاَوْسَطَہٗ فَلَاحًا ، وَاٰخِرَہٗ نَجَاحًا اَسْأَلُکَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ، ’اے اللہ میرے آج کے دن کے اول حصے کو بہتر‘ درمیانی حصے کو باعثِ فلاح اورآخری حصے کو باعثِ کامیابی بنادے۔ اے سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان‘ میں تجھ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہوں‘۔ (عن عبدالرحمن بن ابی عوفؓ)
۲۳- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ اِیْمَانًا دَائِمًا وَھُدًی قَیِّمًا وَعِلْمًا نَافِعًا ، ’اے اللہ میں تجھ سے ایمانِ دائم ‘ہدایتِ محکم اور علمِ نافع کا طلب گار ہوں‘۔(عن انسؓ)
۲۴- اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مُسْلِمًا وَاَمِتْنِیْ مُسْلِمًا ، ’اے اللہ مجھے مسلمان ہی زندہ رکھ اور مسلمان ہی (رکھ کر) وفات دے‘۔ (عن سمرہؓ)
۲۵- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی ذَنْبِی وَوَسِّعْ لِی فِی دَارِی وَبَارِکْ لِی فِی رِزْقِی، ’اے اللہ میرے گناہ بخش دے‘ میرے گھر میں وسعت دے اور میرے رزق میں برکت دے‘۔(عن ابی موسیٰ اشعریؓ)
۲۶- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِـبَرِ سِنِّی وَانْقِطَاعِ عُمْرِیْ، ’اے اللہ میرے بڑھاپے میں اور عمر کے ختم ہونے کے وقت میرے لیے اپنا رزق خوب فراخ کر دینا‘۔ (عن عائشہؓ)
۲۷- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِی اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَواتِیْمَہُ وَخَیْرَ اَیَّامِیْ یَومَ اَلْقَاکَ فِیْہِ ، ’اے اللہ میری عمر کا بہترین حصہ اس کا آخری حصہ کرنا اور میرا بہترین عمل میرا آخری عمل کرنا اور میرا بہترین دن تجھ سے ملاقات والا دن ہو‘۔ (عن انسؓ)
۲۸- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَاَدْخِلْنَا الجَنَّۃَ وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ وَاَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہٗ ، ’اے اللہ ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم کر‘ ہم سے راضی ہوجا‘ ہمیں بہشت میں داخل کر‘ ہمیں دوزخ سے بچا دے اور ہمارے سب حالات درست کر دے‘۔(عن ابی امامہؓ)
۲۹- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی خَطِٓیئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ ، ’اے اللہ بخش دے میری خطا‘ میری نادانی اور اپنے کاموں میں میری زیادتی اور وہ بھی جو مجھ سے بڑھ کر تو خود جانتا ہے‘۔(عن ابوموسیٰ اشعریؓ)
۳۰- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَـتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَـتِیْ صَالِحَۃً ، ’اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر کر دے اور میرے ظاہر کو صالح بنادے‘۔(عن ابن عمرؓ)
۳۱- اَللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَآ اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰـھَآ اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْلَاھَا ، ’اے اللہ میرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطا کر اور اسے پاک کر دے تو ہی اس کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے اور تو ہی اس کا مالک اور آقا ہے‘۔(عن زید بن ارقمؓ)
۳۲- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالغِنٰی ، ’اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ پرہیزگاری‘ پارسائی اور سیرچشمی مانگتا ہوں۔ (عن عبداللہ بن عمرو بن العاص)
۳۳- اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِی ، ’اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور مجھے استوار رکھ‘ (عن علی)
۳۴- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا اور جو کچھ میں نے پوشیدہ کیا اور کچھ علانیہ کیا اور اس کو بھی جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۳۵- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ المَائِ البَارِدِ، ’اے اللہ! اپنی محبت مجھے پیاری کر دے‘ میری جان سے اور میرے گھر والوں سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر‘۔ (عن ابی الدرداء و عن معاذ)
۳۶- یَا مُقَّلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْـنِکَ ، ’اے دلوں کو پلٹنے والے‘ میرا دل اپنے دین پر مضبوط رکھ‘۔ (عن انس)
۳۷- اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ، ’اے اللہ! اپنے ذکر اور اپنے شکر اور اپنی اچھی سے اچھی عبادت کے باب میں ہماری مدد فرما‘۔ (عن معاذ و عن ابی ہریرہؓ)
۳۸- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُورًا وَاجْعَلْنِیْ شَکُورًا وَاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا ، ’اے اللہ! مجھے بڑا صبر کرنے والا اور بڑا شکر ادا کرنے والا بنا دے اور مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا بنا دے‘۔ (عن بریدہ)
۳۹- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم کر اور میری توبہ قبول کر‘ بے شک تو ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم فرمانے والا ہے‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۴۰- اَللّٰھُمَّ اَعْطِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَاجْعَلْ فِیْ الْمُصْطَفَیْنَ مَحَبَّتَہٗ وَفِیْ الْاَعْلَیْنَ دَرَجَتَہٗ وَفِیْ الْمُقَرَّبِیْنَ ذِکْرَہٗ ، ’اے اللہ‘ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مقامِ وسیلہ عطا فرما‘ آپؐ کو برگزیدہ لوگوں کا محبوب بنا دے‘ آپؐ کا مرتبہ عالی مقام لوگوں میں کر دے اور آپؐ کا ذکر اہلِ تقرب میں ہو‘۔ (عن ابی امامہؓ)