’زلزلے کے بعد…!‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) محترم قاضی حسین احمد کی دردِ دل سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ ’زلزلے کے بعد بحالی اور جماعتِ اسلامی‘ سے ملک بھر میں جاری بحالی کے کام کا بخوبی اندازہ ہوا۔ ’حکمت مصائب‘ وقت کی ضرورت ہے مگر مصیبت کی اس گھڑی میں بھی بعض عاقبت نا اندیش غفلت کا شکار ہیں اور عبرت نہیں پکڑ رہے۔ ضرورت اجتماعی توبہ ‘منکرات کو دبانے اور معروف اور خیر کو غالب کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔
’زلزلے کے بعد…!‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) جہاں جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں اور دوسری دینی جماعتوں کی کارکردگی کا خوب صورت پیرائے میں بیان ہے‘ وہاں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح حکومتی میڈیا کو دینی جماعتوں کی خدمات کو نظرانداز کرکے حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر سامنے لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
’قیادت کا معیارِ مطلوب‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا‘ بار بار پڑھا۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اقتباسات اور مصنف کے تبصرے سے اندازہ ہوا کہ تحریکِ اسلامی میں قیادت کا حقیقی معیار اور تقاضے کیا ہیں۔
ترجمان القرآن میں پروف کی اغلاط وہ بھی ایک نہیں‘ کئی کئی دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ غیروں کے رسالوں میں ایک بھی غلطی برسوں میں نہیں دیکھی۔ ایسا کیوں ہے؟
دسمبر ۲۰۵ء کے شمارے میں پروف کی اغلاط اور درست املا ملاحظہ کیجیے: لڑلے / لڑکے (ص ۱۴)‘ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر… مصرعے کو شعر کی طرح لکھا گیا (ص ۲۳)‘ مستعبد/مستبد (ص ۵۲)‘ رجعت قہقری/رجعت قہقریٰ (ص ۵۹)‘ اشعار غلط لکھے گئے: نگہہ /نگہ (ص ۶۴)‘ کہ میرِکارواں…/کہ امیرِ کارواں (ص ۶۴)‘ Dairy/Diary (ص ۶۶)‘ مگس بانی (شہید)/شہد (ص ۸۴)‘ الیگزندر سولز نٹبین/ الیگزنڈر سولزنٹسین (ص ۸۷)‘ weak/week (ص ۸۸)‘ بدلہ/بدلا (ص ۱۰۰)‘ نظریئے/نظریے (ص ۱۰۰)‘ سینٹر/سنٹر (ص ۱۰۲)‘ صفحات: ۵۴/۵۴۰ (ص ۱۰۶)۔
’زلزلے کے بعد بحالی اور جماعت اسلامی‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں جمعیت طلبہ عربیہ کا تذکرہ تشنہ رہا۔ جمعیت نے الخدمت فائونڈیشن کے تحت کام کا آغاز کیا‘ افرادی قوت مہیاکی‘ جب کہ مانسہرہ کو مرکزی کیمپ بنایا۔ متاثرہ اضلاع میں بحالی و دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ آزاد کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں پانچ مساجد اور ان سے ملحق مدارس قائم کیے۔ سیکڑوں بچوں کی کفالت کی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر ۱۰ مدارس میں حفظ و ناظرہ کا اہتمام کیا گیا‘ جہاں پر ۶۵۰ بچے قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں طلبہ کو مدارس میں داخلہ دلوایا گیا۔ تعمیرمساجد منصوبے پر بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا مضمون ’علامہ اقبالؒ کا اصل کارنامہ‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) نظر سے گزرا۔ بلاشبہہ ہزاروں مضامین پر بھاری ہے۔
’رسائل و مسائل‘ کے تحت ’اسلامی نظام معاشرت کے بعض اہم بنیادی مسائل‘ (نومبر۲۰۰۵ئ) اور ’مشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں حقیقی خاندانی مسائل پر اسلامی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت اپنا جائزہ لینے اور اپنے رویوں میں اصلاح کی ہے۔
’رسائل و مسائل‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں ایک محترم بہن نے جو کسی گورنمنٹ کالج میں ملازم ہیں نہایت اہم معاملے کی طرف توجہ دلوائی ہے۔ ان اداروں کی جائز ضروریات کے لیے وسائل مہیا کرنا حکومت کا اولین فرض ہے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصاً طالبات کے اور مخلوط تعلیمی اداروں میں مختلف حیلوں بہانوں سے غیراسلامی تقریبات کا انعقاد ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی گردان اور مسلسل ترغیب قوم کو گمراہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ حال ہی میں آنے والے زلزلے کی تباہ کاریوں سے اگر ہم یہی سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرلیں تو یہ خوش قسمتی ہوگی۔
ابوالامتیاز ع س مسلم کی کتاب لمحہ بہ لمحہ پر جناب رفیع الدین ہاشمی کا تبصرہ (نومبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا۔ اس تبصرے کے آخر میں لکھا گیا ہے: ’ترقی پزیر اور تنزل پزیر‘ جیسی تراکیب میں پذیر کی جگہ پزیر لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ذال (ذ) سے ہونا چاہیے نہ کہ زے (ز) سے (ص۱۰۴)۔
میں نے گذشتہ ایک سال سے صرف ذال (ذ) پر تھوڑا سا مطالعہ کیا تومعلوم ہوا کہ ذ حرف اُردو‘ فارسی اور ہندی کا ہے ہی نہیں۔ یہ حرف صرف عربی زبان کا ہے۔ چنانچہ فوری طور پر دستیاب اُردو لغات میں سے نسیم اللغات دیکھا تو اس میں ذ سے بننے والے کل کلمات ۳۴ ہیں اور یہ سب کے سب عربی زبان سے ماخوذ ہیں۔ اس طرح میرے سامنے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سندھی لغات پانچ ضخیم جلدوں میں موجود ہے‘ اس میں ذ سے مرکب اتنے ہیں یا اس سے قدرے زیادہ اور سب عربی سے آمدہ ہیں۔
جو اہلِ علم گزشتہ‘ پزیر‘ گزرگاہ اور گزرا ہوا وغیرہ کلمات ذ سے لکھنے کا کہتے ہیں‘ انھیں ان کلمات کا اصل اور ان کی اصل اور ان کی اصلی زبان جس سے یہ نکلے ہیں وہ دیکھنی چاہیے اور وہ فارسی ہے جس میں ذال (ذ) کا حرف ہی نہیں ہے جس کے یہ کلمات‘ جیسے گزشتن‘ گزاشتن وغیرہ ہیں۔ اگرچہ یہ رسم الخط اتنا عام ہوگیا ہے اور رواج پا گیا ہے کہ شاید اس سے رجوع نہ کیا جا سکے‘ تاہم صحیح رسم الخط کو تسلیم کرنا تو چاہیے‘ محترم ابوالامتیاز ع س مسلم کو داد دیناچاہیے کہ انھوں نے ایک صحیح تلفظ اور رسم الخط کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔
ترجمان القرآن ماہ دسمبر ۲۰۰۵ء پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر رکھنے کو جی نہ چاہا۔ ’زلزلے کے بعد‘، ’حکمت الٰہی‘ اور دیگر مضامین بلاشبہہ آپ کی محنت و کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اختتام پر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ یہ ایک بہترین رسالہ ہے! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے تاکہ آپ اپنے نیک مقصد کے لیے ترجمان القرآن کی اشاعت جاری رکھیں۔ اس طرح مجھ سمیت بہت سے لوگ اس رسالے کے ذریعے آپ کے علم سے مستفید ہوسکیں گے۔