جنوری۲۰۰۶

فہرست مضامین

اعلانِ مکہ یا اعلانِ واشنگٹن؟

پروفیسر خورشید احمد | جنوری۲۰۰۶ | شذرات

Responsive image Responsive image

دسمبر ۲۰۰۵ء میں مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کی سربراہی کانفرنس غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ اجلاس تنظیم کے قیام کے ۳۶ سال بعد اور نائن الیون کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کے چار سال بعد منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے بڑا بنیادی مسئلہ یہ تھاکہ آج کے حالات میں اُمت مسلمہ کے اصل مسائل اور چیلنجوں کی روشنی میں اُمت کی یہ مرکزی سیاسی تنظیم کہاں تک وقت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اور اس کے اہداف‘ مستقبل کے وژن اور خود تنظیم کے چارٹر‘ تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

اس اجلاس سے پہلے ۲۰۰۳ء میں ملایشیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں نئے نقشۂ کار کی تیاری کے لیے اہم شخصیات کا ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کے دو اجلاس ملایشیا اور پاکستان میں منعقد ہوئے اور پھر خود مکہ مکرمہ میں ستمبر ۲۰۰۵ء میں عالمِ اسلام کے اہم مفکرین اور علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا تاکہ اس سربراہی اجلاس میں ضروری تیاری (home work) کے بعد کوئی واضح نقشۂ عمل سامنے آسکے۔

اس سربراہی کانفرنس میں ترکی کے طیب اردگان‘ شام کے بشار الاسد‘ مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمرالقذافی نے شرکت نہیں کی۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ایران کے احمدی نژاد کی تقاریر بحیثیت مجموعی اچھی تھیں۔ سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوغلو کی تقریر بھی اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھی کہ اس میں ایک طرف وقت کی ضرورت کا ادراک تھا اور دوسری طرف خود احتسابی کی دعوت تھی۔ کانفرنس نے بہت دبے ہوئے فدویانہ لہجے میں یہ کہا کہ کسی رکن ملک پر حملے کو قبول نہیں کیا جائے گا‘ جب کہ یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا اور متحدہوکر مقابلہ کیا جائے گا۔

اس پس منظر میں اجلاس کی تین اہم دستاویزات‘ یعنی اعلانِ مکہ‘ کانفرنس کا اعلامیہ اور ۱۰سالہ منصوبۂ کار سامنے آئے ہیں۔ حسب معمول اجلاس میں سربراہوں کی دھواں دھار تقاریر بھی ہوئی ہیں لیکن ان تمام تقاریر اور تینوں دستاویزات کا تجزیہ کیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے اور  الحقُّ مُرٌّ(سچائی کڑوی ہوتی ہے) کے اصول کا احترام کرتے ہوئے ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ اس سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ ’اعلانِ مکہ‘ تھا یا ’اعلانِ واشنگٹن‘ کی ہی ایک شبیہہ!

کانفرنس کی ساری کارروائی اور اعلانات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ ہے اور اندرونی طور پر اصل مسئلہ    ’انتہا پسندی‘ ہے جس کا ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے ذریعے توڑ کے لیے حکمران ایک عالم گیر ’کروسیڈ‘ میں مشغول ہیں‘ اور اس کے لیے مسجد و منبر اور مدرسہ اور میڈیا سب کو وقف ہونا چاہیے۔ اس سربراہی کانفرنس نے بش اور کونڈو لیزا رائس کے ہم زبان ہوتے ہوئے مسلمان ممالک میں اس مقصد کے لیے نصابِ تعلیم کی تبدیلی کا حکم بھی صادر فرما دیا ہے۔ یہ اعلامیہ جہاں قیادت کے     ذہنی افلاس اور فکری غلامی کا غماز ہے‘ وہیں سیاسی بصیرت اور ایمانی جرأت کی کمی بھی اس کی سطرسطر سے ہویدا ہے___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ہم چند کلیدی مسائل کے حوالے سے اس اعلامیے کے مایوس کن پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جسے موجودہ امریکی قیادت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کر رہی ہے اور مسلمان ممالک کے سربراہ اپنے اپنے مفاد میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کوئی صاحبِ ایمان اور بالغ نظر دانش ور اور سیاسی کارکن حقیقی دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کرسکتا‘ لیکن آج اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں‘ وہ حالات ہیں جودہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی اور عدمِ تحفظ میں اضافہ ہی ہوگا ‘کمی نہیں۔ جب تک قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ستمبر۲۰۰۵ء میں مکہ میں علما اور دانش وروں کا جو اجتماع ہوا تھا اس نے سرکاری نمایندوں کی ناراضی کے باوجود کھل کر یہی بات کہی تھی‘ مگر سربراہوں کے اعلامیے میں اس حقیقت پسندانہ تجزیے کا کوئی پرتو نظرنہیں آتا۔ اُس دستاویز میں اہلِ علم نے صاف کہا تھا کہ:

۱- مسلم دنیا کے لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور اس کی بنیادی وجوہات کو دُور کرنا لازمی ہے۔

۲- اپنے دفاع کے بنیادی حق‘ نیزغیرملکی تسلط کے خلاف تحریکِ آزادی اور دہشت گردی میں امتیاز ہونا چاہیے۔

۳- دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سامنا کرنا چاہیے اور ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔

۴- او آئی سی کو دہشت گردی کی تعریف کرنے اور جارحیت اور غیرملکی تسلط کی مزاحمت کرنے میں‘ جس کی ضمانت بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں نے دی ہے‘ زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے ۲۰۰۲ء میں مکہ میں علما نے چھے دن دہشت گردی کے مسئلے پر غور کر کے جو مؤقف بیان کیا تھا‘ اس میں بھی جہاں حقیقی دہشت گردی کی موثر مذمت تھی‘ وہیں دفاع اور آزادی کی تحریکاتِ مزاحمت کو اس زمرے سے خارج کرنے کا واضح اعلان تھا۔ اسی طرح مصر (شرم الشیخ ) میں اگست ۲۰۰۵ء میں البرکۃ گروپ کے زیراہتمام علما اور فقہا کا جو اجتماع ہوا اس کی متفقہ قرارداد میں یہ موجود ہے کہ:

کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح میں اپنے دفاع‘ جارحیت کے خلاف اپنے تحفظ اور تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے کو شامل کرلیا جائے۔

زمین پر قبضہ کرنے والوں اور حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف مزاحمت ایک قانونی فریضہ ہے۔ اس صورت میں قتل ہونے کے لیے سامنے آنے کو خودکشی نہیں کہا جاسکتا خواہ کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ دہشت گردی اور لوگوں کے اپنے دفاع‘ خودارادیت اور قابضین کے خلاف مزاحمت کے حق میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی عالمی تنظیموں کے جاری کردہ معاہدے ضمانت دیتے ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ اس کانفرنس کے اعلامیے اور سربراہان کی تقاریر میںاس ریاستی تشدد اور ظلم کا کوئی ذکر نہیں جو امریکا‘ اسرائیل‘ روس اور بھارت اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں پر توڑ رہے ہیں اور نہ ان جارحانہ پالیسیوں پر کوئی گرفت ہے جن کے نتیجے میں عالمِ اسلام ہی نہیں‘ ساری دنیا کے عوام ان سامراجی قوتوں کے خلاف چِلّا رہے ہیں۔ ستم ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے سلسلے میں   حق خودارادیت کی بات تو کی گئی ہے لیکن اسرائیل اور بھارت کے مظالم کے خلاف کوئی لفظ ان اعلانات میں موجود نہیں۔ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں اور شہری آبادی پر جو وحشیانہ مظالم ہوتے رہے ہیں‘ ان کے لیے مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام اور حکمرانوں کے درمیان جو بُعد___ بلکہ بُعدالمشرقین ہے اس کی اس سے زیادہ اندوہناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟

دوسرا بنیادی مسئلہ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور تعلیمات بشمول جہاد کے سلسلے میں مغربی یلغار کا ہے۔ اس سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جیسے کمزوری مسلمانوں ہی کے مؤقف میں ہے اور وہ انتہاپسندی اور تنگ نظری میں مبتلا ہیں۔ مغرب کا ہدف نہ انتہاپسندی ہے اور نہ تنگ نظری___ اس کا اصل ہدف خود اسلام اور اسلام کے تحت رونما ہونے والا وہ ذہن ہے جو دوسروں کی غلامی اور محکومی کا باغی ہو اور اپنے ایمان‘ اقدار‘ اصول اور حقیقی مفادات کے مطابق خودانحصاری کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کے مطالبے پر اور بش کے تراشیدہ تصورات کو اگر مسلم ممالک کے سربراہ بھی پیش کریں گے تو اسے مسلمان اُمت کا ضمیر کبھی قبول نہیں کرسکتا۔

ہماری اصل ضرورت حالات کی صحیح تشخیص اور پھر دیانت داری سے اصلاحِ احوال کے  نقشۂ کار کی ترتیب کی ہے۔ یہ ان تینوں دستاویزات میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا حالانکہ ستمبر ۲۰۰۵ء کے مکہ کے اجتماع نے اس سلسلے میں بڑے کھلے انداز میں بات کہہ دی تھی۔ راقم الحروف نے خود اس اجتماع میں شرکت کی تھی۔ درج ذیل نکات شرکا کے متفقہ جذبات کی عکاسی کرتے ہیں:

۱- پہلی ضرورت صحیح وژن کی ہے اور وہ وژن اسلام اور مسلم تاریخ اور روایات پر مبنی ہونا چاہیے‘ مغرب کے مطالبات اور ترغیبات پر نہیں۔

۲- اصل چیز اُمت مسلمہ کا دینی‘ اخلاقی‘ تہذیبی تشخص (identity) ہے۔ جب تک اس تشخص کو تجدید اور ترقی کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا‘کامیابی ممکن نہیں۔ اس اجتماع میں تو یہ بات تک کہی گئی تھی کہ جب تک اس اُمت کو ہم اپنے فکروعمل کا ماخذ نہیں بناتے جو حرمِ کعبہ میںطواف و سعی میں مشغول ہے‘ محض سلطانی ضیافت کے دیوان میں بیٹھے ہوئے لوگ اُمت کے مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔

۳- تیسری بنیادی بات یہ کہی گئی تھی کہ اصل کمی مشوروں اور منصوبوں کی نہیں‘ عزم و ارادے (political will)کی ہے۔ جب تک یہ نہ ہو سب کارروائی کاغذی رہے گی۔

۴-  اس اجتماع میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ اصل مسئلہ حکمرانوں اور عوام میں بُعد اور خود  مسلم دنیا کے نظامِ حکومت میں اسلام کی کارفرمائی اور عوام کی شرکت اور مؤثر اختیار کی کمی ہے۔ اس رپورٹ کا سب سے پہلا نکتہ ہی یہ تھا کہ:

  • عوام اور حاکموں کی تمنائوں کے درمیان بُعد
  • مسلم دنیا میں خودانحصاری کا فقدان
  • شہری آزادیوں کا فقدان
  • فیصلوں اور ان کے نفاذ کے درمیان  دُوری کا خاتمہ کیا جانا چاہیے‘ نیز
  • اچھی حکمرانی کی بنیاد جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی‘ حقوق انسانی‘ حقوقِ نسواں‘ سماجی انصاف‘ شفافیت‘ جواب دہی‘ انٹی کرپشن اور سول سوسائٹی کے اداروں کی تعمیر پر ہونا چاہیے۔
  • مسلم دنیا میں سیاسی شراکت کو بڑھانے کے لیے عوام اور قیادت کے درمیان پُل تعمیر کرکے خلا کو پُر کرنا چاہیے
  • عوام کو بااختیار بنانا لازمی اقدام ہے جو اٹھایا جانا چاہیے۔

ان تجاویز اور سفارشات کا کوئی پرتو سربراہی کانفرنس کے اعلانات میں نظر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کانفرنس اس تبدیلی کے آغاز کے بارے میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکی جو وقت کی ضرورت اور اس تنظیم کے تن مُردہ میں جان ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

آخر میں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کی کمزوری اور سربراہوں کی ناکامی اُمت مسلمہ کی ناکامی نہیں‘ بلکہ یہ اُمت اور اس کے حکمرانوں کے درمیان بُعد کا آئینہ ہے اور یہ اُمت اسی وقت اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گی جب اس کی قیادت اُمت کے عزائم کی آئینہ دار ہو اور عوام اور حکمران یک زبان ہوکر  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا کی زندہ مثال بن جائیں۔