اس کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی‘ بقول معین الدین عقیل: ’اس کتاب کے موضوع پر ایک استناد کا درجہ رکھتے ہیں‘۔ کئی سال پہلے ان کی ایک فاضلانہ تصنیف شاہ ولی اللّٰہ اور ان کا خاندان شائع ہوئی تھی۔ کم و بیش اسی موضوع پر حکیم صاحب نے اپنے نئے پرانے مضامین یکجا کردیے ہیں۔ پرانے مضامین ترمیم وتصحیح اور اضافے کے بعد شامل کیے گئے ہیں۔
ابتدا میں شاہ ولی اللہ کا حیات نامہ (سنینِ حیات)‘شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے سلسلے میں چند مآخذ (کی فہرست)‘ شاہ صاحب کی ۵۳ تصانیف و تالیفات اور پھر ان کے تلامذہ و مسترشدین کے نام دیے گئے ہیں۔
’شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کی تحریرات میں تحریفات‘ میں وہ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کی وفات کے ۴۰ سال بعد ہی ان کی کتابوں میں ترمیم و تحریف و اضافے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس طرح ان کے بیٹوں کی تصانیف بھی تحریف اور غلط انتساب کا ہدف بنیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاہیر کی تحریروں کو الحاقات و اغلاط سے پاک رکھنا اور ان کے متن کی حفاظت کرنا کس قدر ضروری ہے۔
’تحریک ولی اللّہی: کیا وہ کامیاب رہی؟‘ ایک اور اہم تحقیقی و تجزیاتی مضمون ہے۔انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب کی تحریک قبولِ عام حاصل نہیں کرسکی کیونکہ ان کے اخلاف و تلامذہ میں سے کوئی بھی ان کا پورا پورا ہم زبان اور ہم نوا نہیں (حتیٰ کہ شاہ عبدالعزیز بھی نہیں) ۔ پھر شاہ صاحب احناف کے اصولِ فقہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا اندازِ فکر غیرجانب دارانہ اور ’غیرفرقہ وارانہ‘، غیر مقلدانہ اور مجتہدانہ تھا۔ اسی طرح وہ توافق و تطبیق کے قائل تھے۔ برکاتی صاحب کہتے ہیں: سو‘اُن جیسے اعتدال پسند‘ تطبیق کوش اور خود فکرِعالم کی تحریک ہم جیسے‘ عہدزوال کی تمام خصوصیات سے بہرہ ور‘ انتہا پسندوں میں کس طرح رسوخ و رواج پا سکتی تھی۔
حکیم محمود احمد برکاتی کے بقول: ’شاہ صاحب کی تالیفات کی طرف جب ان کے حلقے کے علما نے توجہ نہیں کی تو بدیگراں چہ رسد۔دیوبند جیسے ولی اللّٰہی مدرسے میں شاہ صاحب کی کوئی کتاب داخل نہیں کی گئی تو دوسرے مدارس کا کیا تذکرہ؟‘ (ص ۸۷)۔ ’مدرسہ رحیمیہ‘ اور ’مدرسہ رحیمیہ کا نصاب تعلیم‘ بھی عمدہ تحقیقی مضامین ہیں۔ اسی طرح شاہ صاحب کے ابنا و اخلاف کے حالات بھی نہایت کاوش و تدقیق سے مرتب کیے گئے ہیں۔اپنے موضوع پر عالمانہ تحقیق کا یہ ایک بلندپایہ نمونہ ہے جس سے حضرت شاہ ولی ؒاللہ کی شخصیت‘ ان کی تصانیف اور ان کے اصحاب کے بارے میں بہت سی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ سے مسلمانوں کی دل چسپی ہمیشہ گہری رہی ہے‘ کیوں کہ ہدایت و گمراہی کے حوالے سے قرآن مجید بار بار اقوامِ ماضی کا ذکر کرتا ہے۔ مسلم مؤرخین میں ابن خلدون یوں ممتاز ہیں کہ انھوں نے ماضی کے احوال اور اقوام کی سرگزشت ہی کو اپنی تاریخ کا موضوع نہیں بنایا‘ بلکہ مختلف قوموں کے طبائع‘ عادات اور خصوصیات سے متعلق بھی دل چسپ معلومات فراہم کی ہیں۔
زیرنظر کتاب محمد عبداللہ عنان کی عربی زبان کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ مصنف نے ابن خلدون کی سوانح بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ابن خلدون موجودہ تیونس میں پیدا ہوئے اور شمالی افریقہ کی ریاستوں میں مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اندلس پہنچے۔ شرقِ اوسط اور مصر کے نہ صرف سفر کیے بلکہ وہاں بھی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں انہماک کے ساتھ وسیع پیمانے پر تصنیف و تالیف میں ان کی مشغولیت حیرت انگیز ہے‘ کیوں کہ اسی وقیع کام کی بنیاد پرانھیں بقاے دوام حاصل ہوا۔
عام مؤرخین کے برعکس انھوں نے سیاسی اور غیرسیاسی اداروں کی تشکیل‘ ان کے ارتقا‘ اقتصاد‘ رسوم و رواج‘ صنعت و حرفت‘ علوم و فنون‘ قبائل اور ان کے آداب و اطوار سے متعلق اپنے مشاہدات پر مبنی وسیع معلومات کا ذخیرہ سات جلدوں میں مہیا کیا۔ لیکن ان کی اصل شہرت اور بقاے دوام اس ’مقدمۂ تاریخ‘ کی بنا پر ہے‘ جس میں وہ تاریخ کی حرکیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس فلسفۂ تاریخ میں انھوں نے سیاسی قوتوںاور اقوام کے عروج و زوال کی وجوہ‘ ان کے کردار کو تشکیل دینے اور متعین کرنے والے عوامل اور عمرانیات کے بنیادی اصول و قوانین سے بحث کی ہے۔یہ وہ میدان ہے‘ جس میں وہ ہیگل‘ مارکس‘ اسپنگلر اور ٹوائن بی کے پیش رو نظر آتے ہیں۔ البتہ ابن خلدون کے اسی اصل کارنامے کے بارے میں اس کتاب میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ کتابیات میں مصنف عنان نے جرمن اور فرانسیسی مصادر کی تفصیلی فہرست دی ہے‘ مگر انگریزی میں ابن خلدون سے متعلق جو وسیع ذخیرئہ معلومات ہے اس سے آگاہی نہیں ہوتی۔ تاہم‘ اُردو کے قارئین کے لیے ابن خلدون کی سوانح پر یہ ایک مفید معلوماتی کتاب ہے۔ (پروفیسرعبدالقدیرسلیم)
اسلام میں ہفتہ وار (جمعۃالمبارک) اور سالانہ (عیدین) تہوار بھی دراصل عبادات کی ایک اجتماعی شکل اور تذکیر کی ایک بازآید (بار بار آنے والی) صورت ہے۔ عید کا ایک لفظی مطلب بار بار لوٹ کر آنے والا دن بھی ہے۔ چنانچہ خطبۂ جمعہ اور خطبات عیدین بھی حالاتِ حاضرہ اور مقامی ثقافتی پس منظر میں عام مسلمانوں کی توجہ عصری مسائل اور سماجی برائیوں کی طرف دلانے کا ایک مناسب موقع ہوسکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ناظم دینیات ڈاکٹر محمدمسعود عالم قاسمی کے ۱۹خطبات عید پر مشتمل یہ کتاب عیدین کے فلسفے کے کئی پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر خطبہ خواہ وہ عیدالفطر کا یا عیدالاضحی کا‘ ایک اچھوتے موضوع پر محیط ہے۔
یہ خطبات بہت متنوع‘ برعظیم کی مسلم ثقافت کے لحاظ سے برمحل علمی اضافہ بھی ہیں اور ایک عام قاری کے لیے بہت اثرانگیز بھی۔ ان میں حالاتِ حاضرہ کے متعلق خوب صورت اور بلیغ اشارے اس انداز سے موجود ہیں کہ خطبہ‘ خطبہ ہی رہا ہے اور سیاسی تقریر سے بہت خوب صورتی سے پہلو بھی بچایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عام سماجی زندگی‘ اُن کی اقدار‘ تشخص‘ اسلام کا تصورِ اخوت و اجتماعیت‘ خوشی اور غم کا تصور اور عیدین کا پیغام انقلاب ان سب کے متعلق علمی حوالوں سے بات کی گئی ہے۔ غالب رنگ خطیبانہ ہے لیکن عیدین کے روحانی‘ سماجی اور اجتماعی پہلوئوں پر عام ڈگر سے ہٹ کر نئے اور مصدقہ لوازمے کی شمولیت نے اسے عیدین پر ایک اچھی حوالے کی کتاب بھی بنادیا ہے۔ اس کتاب کو خطیب حضرات کے نصابِ تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ (احمد جمیل تُرک)
آج کا مغرب محض ایک جغرافیائی وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اس کے دامن میں مشرق کے ہنود اور مسلم دنیا کی صفوں میں موجود مغرب کے ذہنی غلاموں کی بڑی وافر کھیپ بھی شامل ہے۔ سیاسی‘ مادی‘ ابلاغی اور افرادی قوت پر مشتمل ایک فوج بدمست ہاتھی کی طرح عدل‘ راستی‘ انسانیت اور انصاف کے پیمانوں کو توڑتی پھوڑتی نظر آتی ہے۔ مجلہ مغرب اور اسلام میں اسی یلغار کے مختلف پہلو (formations) پیش کیے جاتے ہیں۔ اس اشاعت خاص کا موضوع: ’انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور جہاد‘ ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون ’اندیشۂ جہاد‘ میں جہاد کے حوالے سے مغرب کے خدشات اور بہت سارے بنیادی سوالات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مسئلے کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں: ’قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں غیرمعذرت پسندانہ‘ شفاف‘عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘ امن‘ تحفظ‘ نجات‘ عدل و انصاف اور حقوق انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے‘۔(ص ۱۳)
انتہاپسند اسلام کا شجرۂ نسب‘ ازکوینٹان وکٹروز
آخری مضمون: ’مغرب اور اسلام: تہذیبوں کا تصادم‘ ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم کے ایک تجزیے پر مشتمل ہے‘ جس میں انھوں نے ڈاکٹر مراد ہوف مین کے خیالات پر نقد کیا ہے۔ مجلے کی مجلس ادارت کو مبارک باد پیش کی جانی چاہیے کہ اس نے مغرب کی سوچ کو کسی کم و کاست کے بغیر‘ اُردو خواں طبقے کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس طرح کا مجلہ ہر مجلس تحقیق اور ہر تحقیق کار کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زیرتبصرہ کتاب فاضل مصنف کے ان نو لیکچرز کے ابتدائی دو لیکچرز پر مشتمل ہے جو انھوں نے الفوز اکیڈمی کے زیراہتمام معرفت علمِ حدیث کے سلسلے میں دیے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تعلیم یافتہ افراد کو انتہائی سائنٹی فک طریقے سے نہایت سہل اور آسان انداز میں دین و شریعت کے اہم مآخذ سے متعارف کرانا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں چشتی صاحب کامیاب نظر آتے ہیں۔
اس کتاب میں انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘ سنت کاقانونی اور آئینی مقام‘ مختصر تاریخ روایت حدیث‘ قرآن وسنت کا باہمی تعلق‘ علم حدیث کی بنیادی اصطلاحات اور آخر میں منکرین حدیث کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ قرآن اور سنت (حدیث) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انھیں ایک دوسرے سے جدا اور الگ نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی۔ قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے سنت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کو یہ کتاب احسن طریقے سے پورا کرتی ہے۔ توقع ہے کہ یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ طبقے میں صحیح اور مستند احادیث پر اعتماد بحال کرنے‘ موضوع اور خودساختہ احادیث سے بچنے میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ارشادات پر بلاتردد ایمان لانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ اعراب اور الفاظ کی غلطیوں پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کتاب علمِ حدیث کا خزینہ ہے۔(عبدالوکیل علوی)
مصنف نے اس کتاب میں اسلام کے سیاسی نظام کا تعارفی اور تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ۱۹۷۵ء کے بعد یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا ہے۔ کل ۱۰ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اہم ترین موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ آٹھویں باب میں کمیونزم‘ سوشلزم‘ سرمایہ داری‘ سامراجیت‘ فسطائیت‘ نازیت کے اثرات‘ نقائص اور حقائق کو مختصراً پیش کر کے قارئین کو بہترین معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ساتویں باب میں دورحاضر کے سب سے زیادہ زیربحث موضوع جہاد کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی اور جہاد دو مختلف اور متضاد چیزیں ہیں اور کہا ہے کہ مستشرقین کا یہ تصور کہ ’’کلمہ پڑھو ورنہ قتل کردیے جائو گے‘‘ بہت ہی گمراہ کن اور اسلامی تعلیم کے منافی تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی نظام پر بحث تشنہ ہے‘ جب کہ یہی نکتہ آج سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امید ہے کہ مصنف اس کمی کو اگلے ایڈیشن میں پورا کردیں گے۔ آخری باب میں مسلمانوں کے ماضی‘ حال اور مستقبل کا خوب صورت‘ مختصر اور جامع خلاصہ موجود ہے جس میں مسلمانوں کو مایوسی کے بجاے روشن مستقبل کی امید دلائی گئی ہے۔ اگرچہ پروف خوانی توجہ طلب ہے‘ تاہم پیش کش عمدہ ہے۔ حوالہ جات کا مناسب اہتمام کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے جس کا خیال رکھا گیا ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
اسلام نے جس قدر تعلیم و تعلم پر زور دیا ہے اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں ملتی ہے اور نہ کسی دوسری تہذیب میں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
استاد کی حیثیت کورس اور نصابات سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ نبی کریمؐ کی بعثت اور آپؐ کا اس پیغامِ ربانی کو پہنچانے کا انداز استاد کی کامل اور اکمل ترین صورت ہے۔ زیرنظر کتاب میں مثالی استاد کی خوبیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ استاد کی شخصیت‘ اس کے علم‘ تجربہ‘ اخلاق اور انداز نشست و برخاست‘ غرض ہر چیز میں طلبہ کے لیے عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ جس سادہ انداز میں اس کتاب میں قرآن و حدیث اور اکابرین اُمت کی زندگی سے مثالیں دی گئی ہیں وہ نہ صرف قابلِ قدر ہیں بلکہ زندگیوں کے دھارے کو موڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کتاب معاشرے کو سنوارنے اور اس میں تعمیری سوچ کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف طلبہ و اساتذہ کے لیے مفید ہے بلکہ عام آدمی بھی اس سے علم و حکمت کے بیش قیمت جواہر ریزے اکٹھے کر سکتا ہے اور انھیں اپنی زندگی میں اپناکر مثالی انسان بن سکتا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)