طبی ماہرین نے کراچی میں نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد پژمردگی (Depression) یا ذہنی دباؤ میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پژمردگی عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن کر نمایاں طور پر سامنے آچکی ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین، مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں، اور خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بے روزگاری، مایوسی، افسردگی، غصّہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں نمبروں کی کمی شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے اس امر کی بھی نشان دہی کی کہ کراچی میں ۵۰لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے بالخصوص ڈپریشن یا گہرے اضطراب میں مبتلا ہیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں، جس میں خود قومی رہنما اور ماہرین تعلیم و تربیت تک رہنمائی کے محتاج ہیں۔ مثلاً مذکورہ نیوز کانفرنس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ ماہرین نے یہ تو بتایا: ’’ملک میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ خودکشی کے رجحان میں اضافے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ آپ کہیں گے کہ انھوں نے بتایا تو ہے کہ:’’اضطراب، پژمردگی یا ڈپریشن، یاسیت، غصہ، غربت اور بے روزگاری خودکشی میں اضافے کا سبب ہیں‘‘۔ تاہم، اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ’اسباب‘ کو انھوں نے خودکشی کا سبب قرار دیا ہے، وہ تو خود ’نفسیاتی امراض‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر یاسیت یا اضطراب لوگوں کو خودکشی پر مائل کررہے ہیں، تو اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ ’’خود یاسیت یا اضطراب کیوں پیدا ہورہے ہیں؟‘‘ مذکورہ نیوز کانفرنس کی زیادہ بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس میں شریک تمام مسلمان ماہرین میں سے کسی نے بھی نفسیاتی امراض اور خودکشی میں اضافے کے رجحان کو دینی تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے کی رتّی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ ہمارے تمام نفسیاتی امراض کا ہماری بدلی ہوئی روحانی، اخلاقی اور عالمی ساخت سے بہت گہرا تعلق ہے۔اسے محض معاشی فساد اور ظلم تک محدود سمجھنا بھی ظلم ہوگا۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ: ’’۲۰ ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی‘‘۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ اس تناظر میں ۲۱ویں صدی کو ’اقتصادیات کی صدی‘ قرار دیا جارہا ہے اور لکھنے والے انسانی تقدیر کو معاشی یا اقتصادی اصطلاحوں میں تحریر کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اقتصادیات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خودکشی کے بارے میں بھی عام خیال یہ ہے کہ ’’یہ غربت اور بے روزگاری کا نتیجہ ہے‘‘۔ طبی ماہرین نے اپنی نیوز کانفرنس میں ’غربت اور بے روزگاری کو خودکشی کے اسباب‘ میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہہ بعض لوگوں کے لیے غربت اور بے روزگاری اتنا بڑا مسئلہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی ہی کا خاتمہ کرلیں۔ نبی اکرمؐ نے ایسی غربت سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔
انسان بسا اوقات جب ایسی غربت کا تجربہ کرتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی اور کائنات میں خدا موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں خودکشی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔(دنیا میں سالانہ آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد خودکشی کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تعداد ۱۵ سے ۲۰ برس کے درمیان افراد کی ہے۔ ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا کے ۴۵ فی صد خودکشی کرنے والوں کا تعلق بھارت اور چین سے تھا۔ اسی طرح ۲۰۱۲ء میں پاکستان میں ۱۳ہزار ۳سو۷۷ خودکشی کے واقعات ریکارڈ ہوئے، جن میں مرد ۶ہزار۲۱ اور عورتیں ۷ہزار ۸۳ تھیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۲ء تک پاکستان میں خودکشی کے واقعات میں ۲ء۶ فی صد اضافہ ہوا (پروفیسر صالحہ شیخانی ، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ، آغا خان یونی ورسٹی، کراچی، فروری ۲۰۱۸ء۔ادارہ)
آئیے، اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کی رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۶ء میں مختلف ممالک میں ہر ایک لاکھ آبادی میں سالانہ خودکشی کی شرح یہ رہی: پاکستان میں ۲ء۹ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ء۶ فی صد، برطانیہ میں ۸ء۹ فی صد، جنوبی افریقا میں ۱۱ء۶ فی صد،کینیڈا، ڈنمارک میں ۱۲ء۸ فی صد، جرمنی میں ۱۳ء۶ فی صد،امریکا میں ۱۵ء۳ فی صد، فن لینڈ میں ۱۵ء۹ فی صد،بھارت میں ۱۶ء۳ فی صد، جاپان میں ۱۶ء۵ فی صد، فرانس میں ۱۷ء۷ فی صد اور جنوبی کوریا میں ۲۶ء۹ فی صد(روزنامہ، ڈان،۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)۔
ان اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ جن ممالک میں غربت اور بے روزگاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، وہاں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غربت اور بے روزگاری خودکشی کا سبب نہیں بن سکتے مگر اس مسئلے کو ذرا گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک چیز ہے غربت، اور دوسری چیز ہے غربت کا احساس اور اس کا نفسیاتی اثر۔
غربت آج سے سو سال اور پانچ سو سال پہلے بھی موجود تھی، مگر اس وقت اس کا احساس اتنا شدید نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ دوسری بات یہ کہ پرانے زمانے میں معاشرہ غریبوں کو مکمل طور پر ’ترک‘ نہیں کرتا تھا۔ منشی پریم چند کے افسانے ’کفن‘ کے دونوں بنیادی کردار اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس اپنے گھر کی ایک عورت کو کفن مہیا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں، مگر انھیں معلوم ہے کہ معاشرہ ان کی مدد کو آئے گا اور معاشرہ فی الواقع ان کی مدد کو آتا ہے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست ہی نے نہیں معاشرے نے بھی فرد کو ’ترک‘ کرنا شروع کردیا ہے۔ چناں چہ غریب فرد کے لیے اس کی غربت کا احساس شدید بلکہ جان لیوا بننے لگا ہے۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟
- اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دیا جائے تو کہا جائے گا: ’’خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ’معنی کے بحران‘ کا نتیجہ ہے‘‘۔ لیکن یہ بات وضاحت طلب ہے۔ آج سے تین سو سال پہلے کی دنیا اپنی اصل میں مذہبی دنیا تھی۔اُس دنیا میں جنگیں تھیں، تصادم تھا، آویزش تھی، غربت تھی، وبائیں اور ان سے ہونے والی ہلاکتیں تھیں، مگر اس دنیا میں شاذ ہی کوئی خودکشی کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دنیا میں معنی کا بحران نہیں تھا۔ خدا کی موجودگی کے شعور سے زندگی کے ہر پہلو کی توجیہہ ہوسکتی تھی۔
- اس توجیہہ کے دو پہلو تھے: یہ ’جامع‘ بھی تھی اور ’تسکین بخش‘ بھی، مگر مغرب نے خدا کے وجود کا انکار کردیا اور اس نے مادے کو اپنا خدا بنالیا۔ خدا کے انکار سے وحی کا انکار پیدا ہوا۔ وحی کے انکار سے ’عقل پرستی‘ بلکہ ’عقل کی خدائی‘ نمودار ہوئی۔ اس خدائی سے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ زندگی کی ایک توجیہہ اور ایک تعبیر ممکن نہ رہی۔ نتیجہ یہ کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ’تعبیروں کا جنگل‘ بن گئی۔ ان بھانت بھانت کی تعبیروں کے جنگل میں معنی کا بحران پیدا ہونا ہی تھا۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ’مذہبی مفہوم‘ جامع بھی تھا اور تسکین بخش بھی، مگر مغرب نے عقل کی خدائی کے زیر اثر زندگی کی جو تعبیریں وضع کیں، وہ نہ ’جامع‘ ہیں اور نہ تسکین بخش۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغرب کی معاشیات کہتی ہے: ’’انسان ایک معاشی حقیقت ہے‘‘۔ مغرب کی سیاسیات کہتی ہے: ’’انسان ایک سیاسی حیوان ہے‘‘۔ مغرب کی حیاتیات کہتی ہے: ’’انسان ایک ’حیاتیاتی حقیقت‘ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ اس فکری انتشار میں ’فکری وحدت‘ ممکن ہی نہیں۔ چوں کہ مغرب کے تمام فکری سانچے اپنی اصل میں بہ زعم خود عقلی سانچے ہیں، اس لیے مغرب کا کوئی فکری سانچا انسان کے جذباتی وجود کی تسکین کا سامان مہیا نہیں کرپاتا۔ چناں چہ مغرب کا انسان فکری سطح پر بھی جاں بہ لب ہے اور جذباتی سطح پر بھی پیاسا ہے۔ یہی پیاس اسے خودکشی کی طرف مائل کرتی ہے۔
- اسلام کی فکری کائنات میں انسان کی زندگی ’تقدیر‘ اور ’تدبیر‘ کے درمیان بسر ہوتی ہے۔ ایک باشعور مسلمان جانتا ہے کہ بہت سی چیزیں ’تقدیری امر‘ ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کرے، اسے خوش دلی سے قبول کرلے، کیوں کہ کاتبِ تقدیر کوئی اور نہیں خود خالقِ کائنات ربِ جلیل ہے۔ تقدیر کو تسلیم کرنے سے انسان میں صبر بھی پیدا ہوتا ہے اور شکر بھی۔ صبر انسان کو مصائب و آلام سے بلند ہو کر زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے، اور شکر سے زندگی میں ایک جمال پیدا ہوتا ہے، جو انسان کی طبیعت میں موجود بوجھل پن کو دُور کرکے اسے خوش گوار بناتا ہے۔ ’تدبیر‘ انسان کو بُرے حالات کی مزاحمت اور ان پر فکر و عمل کے ذریعے غالب آنا سکھاتی ہے۔ چنانچہ ’تقدیر‘ اور’ تدبیر‘ کی کائنات میں سانس لینے والا انسان خود کشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک مسلمان کے لیے زندگی کی معنویت اتنی اہم ہے کہ معنویت کا فرق ایک جگہ موت کو ’خودکشی‘ بنادیتا ہے اور دوسری جگہ موت کو ’شہادت‘ کے مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ خودکشی کرنے والا انسان ایک ’مایوس انسان‘ ہوتا ہے___ اپنے خالق و رازق، اپنی تقدیر اور اپنی تدبیر کی اہلیت سے مایوس انسان (Frustrated Person)۔ اس کے ہاتھ میں نہ تقدیر کی ڈھال ہوتی ہے نہ تدبیر کی تلوار۔
- اگرچہ پاکستان سمیت مختلف مسلم معاشروں میں اسلام کوئی ’علامت‘ (Label) یا آویزہ (Tag) نہیں ہے۔ بلاشبہہ اسلام ایک مربوط وجودی تجربے (Existential Experience) کا نام ہے۔ بدقسمتی سے تمام مسلم معاشرے اس حد تک مغرب زدہ ہوچکے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا ’باطن‘ مغرب ہے اور ’ظاہر‘ اسلام۔ مغرب صرف ہماری سیاست اور ہماری معیشت نہیں بلکہ ہماری خواہش اور آرزو ہے۔ یہ ہماری تمنا اور خواب ہے۔ اصولی اعتبار سے دین ہماری ’محبت‘ ہے اور دنیا ہماری ’ضرورت‘۔ تاہم، مغرب کے زیر اثر ’عملی صورتِ حال‘ یہ ہے کہ دنیا ہماری ’محبت‘ ہے اور دین کو ہم نے ’بقدر ضرورت‘ اختیار کیا ہوا ہے۔ بلاشبہہ ایک سطح پر دین ہماری ’آرزو‘ ہے مگر ہماری ’جستجو‘ آرزو سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین ہماری ’آرزو‘ ہے اور دنیا ہماری ’جستجو‘۔
فکرونظر اور سوچ و عمل کے اس فساد کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کو ہم نے ’برکت‘ تک محدود کردیا ہے اور دنیا ہماری ’حرکت‘ بن گئی ہے۔ چناں چہ ہماری مادہ پرستی ہمیں انھی کیفیات سے دوچار کررہی ہے، جن کیفیات میں مغرب کے لوگ مبتلا پائے جارہے ہیں۔ اصولی طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’جسمانی خودکشی‘ وہی شخص کرتا ہے جو پہلے ’روحانی خودکشی‘ کرچکا ہو۔ جن لوگوں کی روحانی زندگی سلامت ہوتی ہے، انھیں خودکشی کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن جن لوگوں کا تعلق باللہ کمزور ہوجاتا ہے، ان کا انسانوں سے تعلق بھی سرسری اور سطحی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا، جو شخص نہ خدا کا دوست ہو اور نہ انسانوں کا، وہ نفسیاتی مریض نہیں بنے گا اور خودکشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟