مالک بن نبی (یکم جنوری ۱۹۰۵ءقسطنطنیہ ،۳۱؍اکتوبر۱۹۷۳ء، الجزائر) نے ابتدائی تعلیم الجزائر، ثانوی تعلیم مصر میں اور اعلیٰ تعلیم پیرس میں حاصل کی اور انجینیرنگ کی ڈگری لی۔ آپ گذشتہ صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کی مؤثر آواز تھے۔ وہ جمال الدین افغانی اور ان کے شاگردوں کی طرح سامراج ہی کو ہمارے تمام امراض کا سبب نہیں تصور کرتے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ’دشمن تو دشمن ہے، لیکن مرض خود ہم میں ہے‘۔ اپنی کتاب شروط النھضۃ (نشاتِ ثانیہ کی شرائط) میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم میں سامراج کو قبول کرنے کا مرض نہ ہوتا تو سامراج نہ سیاسی و سماجی طور پر ہم پہ کبھی مسلط ہوتا اور نہ فکری اور تہذیبی اعتبار سے ہم پہ اثرانداز ہوتا۔ کسی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہم کو اپنے نفسیاتی، فکری اور اجتماعی امراض کا علاج کرنا ہوگا‘‘۔ مالک بن نبی، مغربی افکار کی بڑے پیمانے پر قبولیت اور اپنے ہاں متعارف کرانے کی بھیڑچال کے بھی خلاف ہیں اور مسلم دنیا پر مسلط ادبار کو ’تہذیبی افلاس‘ (Civilizational bankruptcy) سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’نشاتِ ثانیہ کے لیے عقیدے میں پختگی، تحریک اور مثبت قوت ضروری ہے‘‘۔(ادارہ)
سب سے پہلے ہمیں اصطلاح ’مستشرقین‘ (Orientalists)کا مفہوم متعین کرنا ہوگا۔ مستشرقین سے ہماری مراد وہ مغربی اہلِ قلم ہیں، جو اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب پر تحقیق و تالیف سے خود کو وابستہ کرتے ہیں۔ انھیں دو جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
الف: زمانے کے اعتبار سے، قدیم مستشرقین، مثلاً گربر ڈور بیک اور سینٹ تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] وغیرہ، اور جدید مستشرقین جیسے برنارڈ کارے ڈی فو [م: ۱۹۵۳ء] اور ایگناز گولڈزیہر [۱۸۵۰ء- ۱۹۲۱ء] وغیرہ۔
ب: اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی تحریروں کے عام انداز کے اعتبار سے ان میں سے ایک طبقہ اسلامی تہذیب کی مدح سرائی کرتا ہے اور دوسرے کا مقصد محض نکتہ چینی اور اس کی مقبولیت کو داغ دار کرنا ہے۔
استشراق (Orientalism)کا جامع مطالعہ اسی ترتیب سے کرنا چاہیے۔ مضمون کے اختصار کے سبب، ہم یہاں ایک خاص پہلو پر ہی گفتگو کریں گے۔
یہ واضح بات ہے کہ قدیم مستشرقین، مغربی دنیا کے فکری دھارے پر نہ صرف یہ کہ ماضی میں بلکہ اب تک اثرانداز ہورہے ہیں، جب کہ ہم مسلمانوں کے افکار پر ان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا۔ قدیم مستشرقین کی تحریریں یقینی طور پر ان افکار کا محور تھیں، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ (رینے ساں) کی بنیاد بنے۔ دوسری طرف آج جسے ہم اسلامی نشاتِ ثانیہ کہتے ہیں، اس پر ان قدیم مستشرقین کی تحریروں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے یہ مسئلہ ہم تواریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح سردست ہم اسلامی تہذیب پر نکتہ چینی کرنے والے مستشرقین کو بھی نظرانداز کردیں گے۔ خواہ ہمارے اہلِ قلم پر وہ کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوئے ہوں یا انھوں نے اپنے زمانے میں اپنے یہاں کچھ شہرت بھی حاصل کی ہو، جیسے فادر ہنری لامنس [۱۸۶۲ء- ۱۹۳۷ء] وغیرہ۔
درحقیقت یہاں یہ پہلو زیر بحث نہیں ہے، کیونکہ اس مفروضے کے باوجود کہ ان کی تحریروں کا ہماری ثقافت پر تو کسی حد تک اثر رہا ہے، لیکن وہ ہمارے مجموعی افکار پر مکمل طور پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم میں ان کے خطرات کا فوری مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی، کیونکہ قدرتی طور پر یہ ہمارے ثقافتی اور تہذیبی وجود کے دفاع کا مسئلہ تھا۔ اس کی ایک واضح مثال دورِ جاہلیت کی شاعری کے بارے میں طٰہٰ حسین [م: ۱۹۷۳ء] کی کتاب الشعر الجاھلی ہے۔اس کتاب کی اشاعت سے ایک سال قبل برطانوی مستشرق ڈیوڈ سموئیل مارگولیوتھ [۱۸۵۸ء-۱۹۴۰ء] نے شعر جاہلی کے بارے میں ایک مفروضہ پیش کیا تھا۔ طٰہٰ حسین کی مذکورہ کتاب کی اشاعت کے بعد مصر میں غم و غصے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور مصری شاعر مصطفےٰ صادق الرافعی [۱۸۸۰ء-۱۹۳۷ء] کے شعلہ بار قلم نے اسلامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی اس کتاب کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اس کے برعکس، ہم اسلامی تہذیب کی قصیدہ خوانی کرنے والے مستشرقین کے نمایاں اثر کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اس قسم کے مدح خواں استشراق کے سلسلے میں ہمارا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا، کیوںکہ بظاہر اس کے دفاع کی کوئی وجۂ جواز نہ تھی۔ گویا اس باب میں ہماری قوتِ مدافعت سلب ہوگئی۔
یہاں ہماراموضوع بحث یہ ہے کہ ہمارے ثقافتی وجود کے دفاعی نظام میں قصیدہ خواں مستشرقین کے بارے میں جو یہ خلل پایا جاتا ہے، اس کا ایک صدی قبل سے اور خصوصاً بیسویں صدی کے دوران اسلامی معاشرے کے بدلتے ہوئے افکار پر کیا اثر ہوا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تہذیب کی تعریف و توصیف کرنے والے مستشرقین ، مثلاً جوزف رینو [۱۷۹۵ء-۱۸۶۷ء]، جس نے انیسویں صدی کے وسط میں جغرافیے پر ابوالفدا دمشقی [۱۲۷۳ء- ۱۳۳۱ء] کی کتاب کا ترجمہ کیا، اور رین ہنٹ ڈوزی [۱۸۲۰ء-۱۸۸۳ء] جس کے قلم نے اسپین میں عربوں کی روشن صدیوں کو اُجاگر کیا، اور لویس سیڈیو[۱۸۰۸ء-۱۸۷۵ء] جو زندگی بھر اس کے لیے برسرِپیکار رہا، تاکہ عرب عالم فلکیات و انجینیرابوالوفا، البوزجانی [۱۹۴۰ء- ۱۹۹۸ء] کو ’چاند کی حرکت کے دوسرے قانون‘ کا موجد قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح آسین پلاتھیوس [۱۸۷۱ء-۱۹۴۴ء] جس نے ’الاھیاتی کا میڈیا‘ کے عرب مآخذ کا انکشاف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مغربی اہلِ قلم حضرات نے علمی حقائق کی برتری ثابت کرنے اور حقیقی تاریخ کو اُجاگر کرنے کے لیے لکھا، اور یہ سب انھوں نے اپنے مغربی معاشرے کے لیے کیا۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے دانش وَر طبقے پر یہ افکار زیادہ اثرانداز ہوئے ہیں۔
میں عمر کے اعتبار سے اس مسلم نسل سے تعلق رکھتا ہوں، جو ان مغربی مستشرقین کی اس معنی میں احسان مند ہے کہ ان کے توسط سے اسے وہ ذریعہ ہاتھ لگا، جس سے مغربی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر اسلامی ضمیر کا احساس کمتری دُور ہوسکتا تھا۔لیکن اگر ہم اس مسئلے کا اپنے حالیہ تجربات کی روشنی میں جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ اس طریقے کے نتائج ہماری فکروثقافت کی خوش آیند تبدیلی تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوئے۔ انھی اثرات کو ہم یہاں زیربحث لانا چاہتے ہیں۔
اسلامی معاشرے پر ان اثرات کی حقیقی شکل کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیں اس قسم کے استشراق کا جائزہ اس کے اصل تاریخی مآخذ کی روشنی میں لینا ہوگا۔
یورپ نے اپنی تاریخ کے دو مرحلوں میں اسلامی فکر کا انکشاف کیا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے مرحلے میں تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] سے پہلے اور بعد کے دور میں یورپ نے اس فکر کا انکشاف اور ترجمہ کرکے اپنی تہذیب اور ثقافت کو مالا مال کرلیا تھا، اور اسی سبب وہ پندرھویں صدی کے آخر سے اپنی نشاتِ ثانیہ کی جانب کامیابی سے گامزن ہوسکا۔
جدید سامراجی دور میں اس نے فکر اسلامی کا ایک بار پھر انکشاف کیا۔ اس بار ثقافتی ترمیم کے لیے نہیں بلکہ سیاسی ترمیم کے لیے، تاکہ وہ اپنے سیاسی منصوبوں کو مسلم ملکوں کے حالات کے مطابق جماسکے اور ان حالات کو مسلم ملکوں کے لیے اپنی طے شدہ پالیسیوں کے رُخ پر موڑ کر مغلوب اقوام پر اپنی گرفت مضبوط کرسکے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہلِ مغرب ان علمی کوششوں کے ذریعے انسانیت کے تمدنی سرمایے میں ان اقوام کی خدمت کی صرف ستایش کرنا چاہتے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لویس سیڈیو اور چارلس گستاولیبان [۱۸۴۱ء-۱۹۳۱ء] جیسے مستشرقین حقیقی علمی جذبے کے تحت تحقیق و تلاش کر رہے تھے۔ لیکن یہاں اس بات کو سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ تعارف ایسے تاریخی حالات میں ہوا، جب اسلامی علوم کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ ان کو اساتذہ کے لیکچرز اور ان کی جدید تالیفات سے حاصل کیا جاسکتا، بلکہ وہ ایک طرح سے آثارِ قدیمہ کی شکل اختیار کرچکے تھے، جن کا انکشاف مغربی اہلِ علم کے ہاتھوں محض اتفاقاً ہوتا تھا۔ وہ انھیں منتقل کرنے میں کبھی دیانت داری اور کبھی بددیانتی سے کام لیتے۔ یہ سائنسی دریافتیں کبھی مسلمان علما اور کبھی اہل یورپ کی طرف منسوب کر دی جاتی تھیں۔ اس طرح عظیم انکشاف کو اصل موجدوں کے بجاے دوسروں کی طرف منسوب کیا جاتا رہا۔ جیسے خون کی گردش کے نظام کا پتا لگانا برطانیہ کے ماہر حیاتیات اور معروف معالج ولیم ہاروے [۱۵۷۸ء-۱۶۵۷ء] سے منسوب کیا گیا، حالاںکہ دراصل مسلمان طبیب علاء الدین ابن النفیس [۱۲۱۳ء-۱۲۸۸ء] اس سے چارسو سال قبل اس کا انکشاف کرچکا تھا۔
مذکورہ رویوں سے عالمِ اسلام کو مغربی ثقافت سے سخت دھچکا لگا۔ اس کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوئے: ایک طرف تو اسے واضح احساسِ کمتری سے دوچار ہونا پڑا، اور دوسری طرف اس احساسِ کمتری کے ازالے کی کوشش میں وقت اور قوت کا ضیاع ہوا، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی رہی ہو۔
اس صدمے نے مسلم دانش وروں کی ایک جماعت کی ثقافتی قوتِ مدافعت کے نظام کو تقریباً مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس احساسِ کمتری کے نتیجے میں وہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے اور فکری جنگ شروع ہوتے ہی کسی شکست خوردہ فوج کی طرح میدان میں اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس قسم کے دانش وروں کو مغرب کی پوشاک، رہن سہن اور طور طریقے اپنانے ہی میں راہِ نجات نظر آئی، خواہ ان کے اس طرزِعمل کا مغرب کی حقیقی تہذیبی اقدار سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔
اس طرح اسلامی ثقافتی اُفق پر ایک نئی فکر نمودار ہونا شروع ہوئی، جو ایک طرف ہندستان کی پہلی جنگ ِ آزادی [۱۸۵۷ء] کے بعد سرسیّداحمد خان [م: ۱۸۹۸ء]کے ہاتھوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام کی شکل میں سامنے آئی۔ دوسری طرف اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی جمال الدین افغانی [م:۱۸۹۷ء] کے رُوپ میں جلوہ گر ہوئی۔ یوں اسلامی فکر دو کیمپوں میں بٹ گئی۔ ایک کیمپ مغربی علوم و فنون اور مادی اشیا یہاں تک کہ مغربی لباس تک اپنانے کی دعوت دیتا تھا، تو دوسرا احساس کمتری کے ازالے کے لیے فخر و انبساط کی خوراکیں کھاکھا کر اپنے دل کو بہلاتا رہا۔
پہلی لہر کے نتیجے میں ذہنی، سیاسی اور سماجی میدان میں دو طرح کے اثرات رُونما ہوئے: ایک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام اور دوسرا جمال الدین افغانی کی دعوت کی شکل میں اُبھر کر سامنے آیا۔ مقاصد میں اختلاف کے باوجود دونوں نے جو یکساں طریق کار اپنایا، وہ دونوں حالتوں میں عالمِ اسلام کو ترقی کی اس منزل تک لے گیا جو شیئیت اور تکدیس (مادی اشیا اور وسائل کو جمع کرنے) کی شکل میں ظاہر ہوا۔
دوسری لہر جو مستشرقین کی تحریروں کے تعلق سے ہمارا موضوعِ بحث ہے، اسے اپنے سفر کے لیے ہموار راستہ فخر اور اسلاف پرستی پر مبنی تاریخی اثاثے (لٹریچر) میں ملا، جو اسلامی تہذیب پر ڈوزی، جیسے مستشرقین کی تحریروں کے منظرعام پر آنے کے بعد انیسویں صدی ہی سے وجود میں آگئی تھی۔
بہرحال، ہم دونوں مکاتب ِ فکر کے درمیان کوئی قطعی حد مقرر نہیں کرسکتے، کیوں کہ دوسرا مکتب ِ فکر پہلے سے کوئی علیحدہ وجود نہیں رکھتا، بلکہ وہ فکر اسلامی میں عمومی طور پر سرایت کرچکا ہے۔ اس نے ایسی صورت اختیارکرلی ہے، جس میں مغربی ثقافت کی برتری کی ذلت کا اثر دُور کرنے کے لیے اسی طرح فخر کی دوا کی تلاش ہوتی ہے، جس طرح منشیات کا عادی اپنی وقتی تسکین کے لیے کسی نشہ آور انجکشن کا متلاشی رہتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فکری مدرسہ اور اس کی ادبیات نے اسلامی معاشرے کے مستقبل پر کوئی بہتر اثر مرتب نہیں کیا۔ یقینا اسلامی معاشرے کے تشخص کے تحفظ میں ان ادبیات نے قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں وہ اپنے اسلامی تشخص کی بقا کے لیے اس لٹریچر کی بہرحال احسان مند ہے۔ مثال کے طور پر مَیں نے پندرہ اور بیس سال کی عمر کے درمیان اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو جن کتابوں کے ذریعے دریافت کیا، ان میں ڈوسلان کا مقدمہ ابن خلدون کا فرانسیسی ترجمہ اور رین ہنٹ ڈوزی اور احمد رضا کی تحریریں بھی شامل ہیں۔
ان کتابوں نے میرے ذہن و فکر پر کیا اثرات مرتب کیے، ان کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ میں چالیس سال کے تجربے کے بعد نہ صرف یہ کہ ذاتی بلکہ اسلامی معاشرے کی سطح پر بھی اس علاج کی حقیقت کی نشان دہی کرسکتا ہوں۔ مختصراً اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میرے خیال میں متعدد اسباب کی بناپر اس علاج کی خرابیاں، اس کی خوبیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
پہلا واضح سبب ذہنی تشکیل اور اس کے نفسیاتی ردعمل میں نمایاں ہے، مثلاً: جب ہم غریب و مسکین سے (جو پیٹ بھر روٹی کا محتاج ہو) اس دولت و ثروت کا تذکرہ کریں، جو ماضی میں اس کے آبا و اجداد کے پاس تھی، تو گویا وقتی تسکین کے لیے ہم اسے کوئی نشہ آور چیز دے کر اس کے فکروضمیر کو مفلوج کردینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس طرح اس کے غم کا مداوا نہیں کریں گے۔
اسی طرح ماضی کی شان دار روایات کا تذکرہ کرکے ہم کسی معاشرے کی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موحدین{ FR 692 } کے بعد کے دور میں، فن قصہ گوئی کے ماہرین مسلمان نسلوں کو الف لیلہ کی کہانیاں سناسنا کر، ہرمحفل کے بعد ان پر ایسا سرور طاری کردیتے تھے کہ وہ ماضی کے سنہرے خواب سجانے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔لیکن عظمت رفتہ کے داستان گو حضرات کو اس بات کی کوئی فکر نہ تھی کہ دوسری صبح یہ عوام بیدار ہوکر پھر زندگی کے انھی زندہ اور تلخ حقائق کا سامنا کریں گے، جو کسی صورت قابلِ رشک نہیں۔
تواریخ پر مبنی وہ کتابی اثاثہ جس میں اسلامی تہذیب کے عہد زریں کا راگ الاپا گیا ہو، ان کے یہی دوکردار رہ جاتے ہیں: ان کے ذریعے ایک خاص مرحلے میں مغرب کے ثقافتی چیلنج کا جواب دیا گیا، اور دوسرے عوامل کے ساتھ وہ اسلامی تشخص کی بقا کے لیے بھی مفید ثابت ہوئیں۔ لیکن دوسری طرف اس لٹریچر نے اسلامی تشخص کو خودپرستی کے سانچے میں ڈھال دیا اور متحرک اور میکانیکی دور کے مطابق نہیں بنایا۔
اس خیال کو سرسری طور پر ایک عام بات سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ہمارے لیے بہت غوروفکر کا مقام ہے۔ معاشرتی اعتبار سے تو اس کی اہمیت ہے ہی، لیکن موجود دور میں عالمی سطح پر عوام عموماً اور اسلامی معاشرے کی سطح پر، خصوصاً افکارکی جو جنگ جاری ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس خیال کی اہمیت اور بھی زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
یہاں ہم عالمِ اسلام کی ’فکری کش مکش‘ کے بارے میں اپنے فہم کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ مسلّمہ امر ہے کہ جب کوئی ایک یا چند مسلمان، اپنے کسی سماجی مسئلے کو موضوعِ بحث بناتے ہیں، تو اس سے پہلے سامراج کی زیرسرپرستی ماہرین کی ایک جماعت اس مسئلے کا جائزہ لینا شروع کرچکی ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل میں جس قدر کامیابی حاصل ہوگی، اتنی ہی تیزی کے ساتھ ماہرین اس حل کا جائزہ لیں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کی غلطی کے دائرۂ اثر میں مزید اضافہ کردیں گے، اور اگر کچھ فائدہ مند نظر آیا تو وہ اس کی اہمیت کو گھٹانے اور اسے بے قیمت ثابت کرنے میں اپنا سارا زور صرف کردیں گے، تاکہ اس کا کوئی فائدہ ہی باقی نہ رہے۔
یہ اس فکری کش مکش کا عام اصول ہے جس کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ لازم آتاہے کہ عالمِ اسلام میں جب بھی کسی اہم پیش رفت کی جھلک دکھائی دے گی ، خواہ وہ ہماری انگلیوں کے دائرے میں ہی ہو، وہ تجزیے کے لیے فوراً ان ماہرین کی خوردبین (مائیکروسکوپ) کے نیچے پہنچ جائے گی۔ اگر اس میں انھیں عالمِ اسلام کی فکری تحریک سے ادنیٰ سا بھی ربط نظر آئے گا تو وہ نشترزنی کرکے اور تجرباتی عمل سے گزار کر، اس کے سماجی اثرات اور کارکردگی کی صلاحیت کو کم کریں گے اور اس کی راہ میں دشواریاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
درحقیقت کسی معاشرے کا صحیح رُخ معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے افکار کس رُخ کو جارہے ہیں؟ اِن کا رُخ ایک تعمیری اور صحت مند اور مطلوب مستقبل کی طرف ہے، یا ایک مرض کی شکل میں انھیں پیچھے مڑمڑ کر دیکھنے کی عادت ہے؟ فکری کش مکش کے ان گہرے اور اُلجھے ہوئے پہلوؤں کا مزید جائزہ لینے کے بجاے آیئے، یہ دیکھیں کہ مدح سرائی اور فخرومباہات پر مبنی یہ کتابی اثاثہ موجودہ مسلم معاشرے میں افکار کی رفتار اور سمت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟
ہمارے ملکوں میں فکری کش مکش کے تاروں کو حرکت دینے والے ماہرین جب ان کتب کے ذریعے اپنا شیطانی کھیل شروع کر دیتے ہیں، تو فوراً ہی ان ادبیات کا دوسرا رُخ بھی ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اس خطرناک عمل کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور اپنی فکری، سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر گوشے میں اس کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک میں جہاں ایک عام شہری اور ادیب و صحافی کی حیثیت سے میرے تجربات و مشاہدات پروان چڑھے ہیں۔ یہاں صرف ایک واقعے کی نشان دہی کر رہا ہوں:
گذشتہ دنوں پیرس میں یورپ کے الجزائری مزدوروں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے ذمہ داروں نے ہمارے کسی مسئلے کے بارے میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس مسئلے کا تعلق الجزائر سے تھا، جس کے آئین میں ملک کے نام کے ساتھ ’ڈیمو کریٹک‘ کی صفت کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ فکری کش مکش کے ماہرین نے اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ مذکورہ پمفلٹ میں شامل وہ افکار کہ جن میں سے بعض کانفرنس کے سامنے اُٹھائے جانے والے تھے، ان کا راستہ کیسے روکا جائے، اور کانفرنس کے شرکا پر ان کے اثرات کو امکانی حد تک کیسے کم کیا جائے؟
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شمس اللہ تشرق علی الغرب (مغرب پر عرب تہذیب کے احسانات) نامی کتاب کی مصنّفہ ڈاکٹر این میری شمل [۱۹۲۲ء-۲۰۰۳ء]کوکانفرنس کی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا۔ وہ اپنی کتاب کے ساتھ کانفرنس کے اجتماع میں شریک ہوئیں اور کانفرنس، دورِحاضر کے اہم مسائل پر بحث مباحثہ کرنے کے بجاے ماضی کی شان و شوکت کی طرف متوجہ ہوگئی۔ میرے دوستوں نے بتایا کہ آخر میں جب کانفرنس کے تمام شرکا کھڑے ہوکر مذکورہ جرمن خاتون کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے، تو انھیں خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اس واقعے کا آج کی فکری کش مکش کے مسئلے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟
درحقیقت اس واقعے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں: ایک یہ کہ مسلم عوام اپنے حال کو بہتر بنانے سے زیادہ اپنے ماضی کی عظمت کے بارے میں حد درجہ جذباتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ حالیہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلم عوام کی جذباتیت سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم اسی پہلو کو زیربحث لائیں گے، کیوں کہ یہ دنیا کو درپیش فکری کش مکش کی موجوں کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ بنیادی طور پر اس کا رُخ عالمِ اسلام کی طرف ہے۔ یہاں تک کہ بسااوقات مسلم ملکوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ درحقیقت فکری کش مکش کو اپنے حق میں پھیرنے والے یہ ماہرین اس تاک میں رہتے ہیں کہ مسلم عوام کو جب فکروعمل کی کوئی راہ دکھائی جائے، تو وہ اس موقعے پر بڑی چابک دستی سے ایسے خیالات پیش کردیں، جو زیادہ پُرکشش ہوں اور مسلم عوام کو خوابوں کے خوش گوار لمحات اور الف لیلہ کی رنگین دنیا میں کھینچ کر لے جاتے ہوں۔
ہمیں اس عام اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں جب کسی مسئلے کا سامنا ہوگا اور ہم اس کا حل تلاش کر رہے ہوں گے، تو فکری کش مکش کے ماہرین اس مسئلے سے ہماری توجہ ہٹانے اور اسے غلط رنگ میں پیش کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
سیاسی میدان میں ہماری مشکلات کا جو حل شام کی بعث پارٹی، یا الجزائر میں بربر قومیت، پان افریقن ازم یا اشتراکیت کی شکل میں پیش کیا گیا، اسی لٹریچر میں ہمارے شان دار ماضی کی مدح سرائی بھی کی گئی۔ وہ عصرِحاضر میں عالمِ اسلام کے اہم ترین فکری، تہذیبی، سماجی، سیاسی، معاشی مسائل سے توجہ ہٹاکر، اسے خیالی مسائل اور ان کے تصوراتی حل میں اُلجھا دینا چاہتے ہیں۔ ۵جون ۱۹۶۷ء کو عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست اس سنگین صورتِ حال کا ایک بھیانک اور فطری نتیجہ تھی۔
درحقیقت توجہ ہٹانے اور بہلاوے کی کارروائیوں کا مسئلہ پہلی جنگ ِ عظیم [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء] کے زمانے سے ہی باربار سامنے لایا جارہا ہے۔ تاہم، آج، عالمِ اسلام میں اس مسئلے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر عالمِ اسلام کی بعض ظاہری ترقیات کو نظرانداز کردیا جائے، تو آج سے چند عشرے قبل جب یہاں پر سامراج کا غلبہ تھا، وہ اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے درمیان روحانی یا نظریاتی اتحاد آج سے کہیں زیادہ پاے دار تھا۔ لیکن اب، جب کہ عالمِ اسلام مغربی سامراجی شکنجے سے آزاد ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے دُور ہوتا جارہا ہے۔ کیوںکہ اس آزادی کے حصول کے دوران چند عشرے قبل، تقسیم کے عمل جراحی نے اس کا یہ اتحاد پارہ پارہ کردیا ہے۔
بعض ظاہری ترقیات سے قطع نظر، یہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے اگر مجموعی طور پر تمام مسلم معاشروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر ترقی نہیں کرسکے، بلکہ مزید پیچھے چلے گئے ہیں تو ہماری اس بات کی سچائی سے انکار لازم نہیں آئے گا۔ یہاں ہماری بنیادی غلطی کا سبب یہ بھی ہے کہ تمام کے تمام مسائل کو سیاسی پیمانے سے ناپنا ہماری عادت ہے۔ کیوںکہ ہم مسلم مملکتوں کو تاریخ کے دو کناروں پر رکھ کر ان کی حالت کا موازنہ کرتے ہیں۔ یعنی دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے جب مسلم ممالک سامراج کے زیراثر تھے اور جنگ کے بعد جب ان میں سے اکثر سیاسی آزادی حاصل کرچکے تھے، حالانکہ موہوم آزادی کی اس حقیقت پر ہم نے غور نہیں کیا۔ ذرا سوچیے کہ یہ کیسی سیاسی آزادی ہے کہ جو ان ملکوں کو اسرائیل جیسی چھوٹی ریاست کی تباہ کاریوں سے بھی نہ بچاسکی۔ مسلم ملکوں کے حالات یا ترقیات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ اس عرصے میں اپنے حقیقی سرمایے سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔ اور اس میں یہ احساس مفقود ہوچکا ہے کہ تمام مسلم معاشرے ایک ہی مستقبل سے وابستہ ہیں اور ان سب کے مسائل کا ایک ہی حل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نقلی اشتراکیت، افریقیت، جدیدیت اور الف لیلہ کے خیالی قصے کہانیوں سے عالمِ اسلام کے غم کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ آج عالمِ اسلام کے لیے یہ مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔ آج مسئلہ ہماری بقایا عدم بقا کا ہے۔ وقت کی رفتار دوسرے امکان کی نشان دہی کر رہی ہے، خصوصاً جون ۱۹۶۷ء کے واقعات کے بعد سے سیاسی اور فوجی بے اعتباری و کمزوری کا احساس مزید شدت اختیار کرچکا ہے، کیوں کہ ان کی بنیاد ’شیئیت‘ یعنی صرف مادی اشیا تھیں، جو ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے بیس سال کے عرصے تک دفاع کے لیے جمع کی گئی تھیں۔ لیکن وہ تو اسرائیل کے پہلے ہی حملے میں ریت کے گھروندوں کی طرح بکھر گئیں۔ اب جان لینا چاہیے کہ محض مادی اشیا کی جدت کاری قابلِ قدر اقدام نہیں ہے بلکہ افکار کی بنیادی تجدید لازمی ہے، تاکہ اس اسلحے اور سامانِ حرب کے پیچھے کھڑے انسان کی فکری و شخصی تعمیر کے ذریعے وہ بنیادی کمی پوری ہوسکے، جو بھیانک اور شرمناک شکست کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ زندہ افکار ہی سے انسان بڑے بڑے معرکے سر کرتا ہے، اور اسلام کے حقیقی پیغام سے بڑھ کر کون سی فکر ہوسکتی ہے؟
ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کسی معاشرے کے مصائب کا سبب مادی اشیا کی کمی نہیں بلکہ اس کا فکری افلاس ہوتا ہے۔یہاں ہم اس سے ایک عبرت یہ حاصل کرسکتے ہیں کہ اسرائیل نے عربوں کے پاس موجود ناکارہ اشیا کے ڈھیر پر جو اچانک فتح حاصل کی تھی، اب [۱۹۶۷ء سے پہلے کی عرب ریاستوں کے مقابلے میں، ان حکمرانوں کے بجاے عوام کی سطح پر جنم لینے والے اُبھار سے] اسرائیل کو غیرمتوقع دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج اس کا ایسے اشخاص سے مقابلہ ہے جو نئے افکار کے تحت حرکت میں آچکے ہیں، بلکہ ان افکار نے ان افراد کی شخصیت کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسرائیل کے جنگی جہاز ’ایلات‘ پر گولہ باری اور اُردن کی سرحدوں پر فلسطینی چھاپہ ماروں کا سرفروشانہ موقف، اسرائیل سے شکست کے بعد مادی اشیا کی دنیا میں نہیں بلکہ عربوں کے افکار کی دنیا میں تبدیلی کا مظہر ہے۔
خلاصہ یہ کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی ضمیر کو جو دھچکا لگا، اسے افکار کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور سائنسی افکار کی دنیا میں اس کا اثر زیادہ نمایاں شکل میں سامنے آیا، یہاں تک کہ قرآن کی تفسیر بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس پس منظر میں مجھے کوئی شک نہیں کہ طنطاوی جوہری [۱۸۶۲ء-۱۹۴۰ء]کی ضخیم اور مفصل تفسیر کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یہ تفسیری کام ایک طرف ہمارے افکار پر سائنسی اثرات کی نشان دہی کرتا ہے تو دوسری طرف معلومات کا ڈھیر لگانے کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ دشوار گزار عمل، تفسیر قرآن سے زیادہ انسائی کلوپیڈیا بن کر رہ گیا ہے۔ فکر ِ اسلامی کے سلسلے میں اس بے فائدہ سائنسی رجحان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں جس میدان میں اپنی کمی کا زیادہ احساس پیدا ہوا، اسے دُور کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی۔
آسانی سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدح سرائی اور قصیدہ خوانی پر مبنی مستشرقین کے لٹریچر کو اس میدان میں اپنی منشیات کی کاشت کے لیے زرخیز زمین مل گئی۔ ہمارا موجودہ اسلامی معاشرہ اسے بڑے ذوق و شوق سے قبول کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کے ضمیر پر نشے کی کیفیت طاری کرکے اس کا غم غلط کردیتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ضمیر داخلی کش مکش کا شکار ہے، جسے کبھی طنطاوی جوہری، احمد رضا اور محمد فرید وجدی [۱۸۷۸ء-۱۹۵۴ء] جیسے مشرقی مؤلفین یا ڈوزی اور گستاو لیبان جیسے مستشرقین کی کتابیں پڑھ کر سکون ملتا ہے تو کبھی دیگر مشرقی مؤلفین اور مستشرقین کی تصنیفات اسے مشتعل کرتی ہیں۔ کیوں کہ مصنّفین کا آخر الذکر گروپ عربوں کے تمدنی عروج کے زمانے میں سائنسی ترقیات کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجاے یہ کہتا ہے کہ: ان کا کارنامہ صرف اتنا ہے کہ انھوں نے یونانی اور رومی تہذیب کو یورپ تک پہنچایا تھا۔
مغربی مستشرقین کے شاگرد، اور ان کے شاگرد مشرقی مؤلفین، سامراجی حلقوں کی کھلی شہ پر اسلام کے خلاف تخریبی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کھوکھلی ترقی پسندی کے نام پر عالمِ اسلام سے ہرتمدنی خوبی سلب کرکے اُلٹا ، اسلام ہی کو ان کی حالیہ پس ماندگی کا ذمہ دار ٹھیرانا چاہتے ہیں۔ الایدیدلو جیات العربیۃ فی محضر الغرب (عرب افکار پر مغربی اثرات)کے نام سے ایک کتاب فرانسیسی مستشرق میکسیم روڈنسن [۱۹۱۵ء-۲۰۰۴ء] کے مقدمے کے ساتھ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب مذکورہ مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے مراکشی مؤلف، روڈنسن کے شاگرد ہیں۔ اس مکتب ِ فکر میں ایسے سادہ لوح بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو بے سوچے سمجھے مغربی ثقافت بلکہ مغربی سیاست میں قدم رکھ دیتے ہیں اور ایسے غیراہم مسائل کا ناقص حل پیش کرتے ہیں، جن کو وہ عالمِ اسلام کے اہم ترین مسائل تصور کرتے ہیں۔ ایسے بے خبرلوگوں کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ تاہم، فکری کش مکش کے ماہرین کے آلۂ کار دوسرے دانش ور اپنے اسلوب اور طرزِ نگارش سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مستشرقین اساتذہ کی طرح فکر اسلامی کو بے قیمت ثابت کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر نام نہاد ترقی پسندی کی بے معنی باتوں سے اسلامی فکر کے مستقبل کو مشکوک اور مبہم بنانا چاہتے ہیں۔
اس طرح مسلم قائدین کا ضمیر داخلی کش مکش کا شکار رہتا ہے، جب کہ عوام میں کبھی قصیدہ خوانوں کی تحریریں باعث تسکین ہوتی ہیں اور کبھی نکتہ چینیوں کا قلم مشتعل کردیتا ہے۔ یہ کش مکش گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے مسلسل جاری ہے۔ جس میں عالمِ اسلام کی مفید فکری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ اس طرزِعمل نے اسلامی فکر کی ترقی میں کوئی حقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ صرف دل کش ادبی آتش بازیاں ہی کی ہیں۔ جس کی ایک مثال روحِ اسلام کے نام سے سیّد امیرعلی [م:۱۹۲۸ء] کی کتاب بھی ہے۔
ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسی کیسی اعلیٰ فکری صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یورپ کی تحریک اصلاح کے دوران مارٹن لوتھر [۱۴۸۳ء- ۱۵۴۶ء] اور بیدرو کالدرون [۱۶۰۰ء-۱۶۸۱ء] کی تحریروں نے فکری فرسودگی کے برعکس نیا رنگ پیدا کیا تھا۔ ڈیکارٹ کی تحریروں نے یورپ کو ٹکنالوجی میں ترقی کی راہ دکھائی۔ اور صنعتی دور میں داخل ہونے پر مارکس [م:۱۸۸۳ء]، اینجلز [م:۱۸۹۵ء]اور لینن [م:۱۹۲۴ء]نے ایک بالکل مختلف معاشرہ تشکیل دینا چاہا ۔(جاری)