ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۳۴ ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴) اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
انسان اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ بلاشبہہ دینِ برحق دونوں حقوق کی اد ایگی سے عبارت ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے اس آیت میں جس عہد یا وعدہ کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دونوں عہد کے پورا کرنے کی بار بار تاکید بھی ہے ۔ مذکورہ بالا آیت سے نامور سیرت نگار مولانا سید سلیمان ندویؒ کا اخذ کردہ یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ ’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی‘‘(سیرۃ النبیؐ، دارالمصنّفین، شبلی ا کیڈمی، اعظم گڑھ،ج۶،ص ۳۹۵)۔
یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن میں وعدہ کے لیے مختلف الفاظ (عہد، میثاق، وعد ، موعد) استعمال ہوئے ہیں، لیکن ان میں سب سے جامع لفظ ’ عہد ‘ ہے، جس میں دیگر الفاظ کے مفہوم شامل ہیں۔ قر آ ن کریم میں عہد یا وعدہ کو پورا کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس میں وہ عہد شامل ہے جو فطری طور پر اللہ اور انسان کے مابین قرار پاتا ہے۔ وہ عہد بھی شامل ہے، جو اللہ بندے سے لیتا ہے۔ وہ وعدہ بھی جو بندہ اللہ سے کرتا ہے اور وہ قول و قرار بھی اس میں آتے ہیں، جو اللہ کے بندوں کے مابین ہوتے ہیں۔ قرآن میں یہ سب وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔
l وعدہ کا جامع مفہوم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۱۵۲ۙ (الانعام۶:۱۵۲) ’’ اور اللہ کا وعدہ پورا کرو، اس نے اس کی تم سب کو نصیحت کی ہے تاکہ یاد کرلو‘‘۔ صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کی تشریح میں تحریر فرماتے ہے: ’’’اللہ کے عہد ‘ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے،اور وہ بھی جو انسان اور خدا اور انسان اور انسان کے درمیان ا سی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے‘‘ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۰۰ ) ۔
ان سب سے یہ واضح ہوا کہ قرآن کی رُو سے عہد یا وعدہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ عام طور پر لوگ عہد سے مراد صرف وہ قول و قرارلیتے ہیں جو معاملات طے کرتے ، بالخصوص مالی معاملہ کے وقت کیا جاتا ہے، جب کہ وسیع مفہوم میں اس کا اطلاق مذہب،اخلاق، معاشرت، معیشت اور عام معاملات کی ان تمام صورتوں پر ہوتا ہے جن کا پابند رہنا شرعی،اخلاقی اور قانونی اعتبار سے فرض کے برابر ہے۔
اللہ ربّ العزت سے کیے گئے وعدہ کی اہمیت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ قرآن وعدہ کرنے والوں کو اس سے متنبہ کرتا ہے کہ اسے بہرحال پورا کرنا ہے ،ورنہ اس سے متعلق بازپُرس سے بچ نہیں سکتے۔ منافقین کو دین کی خاطر قربانی کے لیے ان کے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے قرآن انھیں اس طور پر متنبہ کرتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۰ۭ وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۱۵ (الاحزاب۳۳:۵ا) اور اس سے قبل انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ[مخالفین سے جنگ میں] پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے کیے گئے عہد کے بارے میں باز پرس تو ہو نی ہی تھی۔
قرآن میں اُس عہد یا وعدے کو پورا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے جو انسان اللہ کا نام لے کر کر تا ہے اور اس پر قسمیں کھا کر اسے پختہ کرتا ہے۔ ایسے عہد کو نہ توڑنے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے ۔ ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا۰ۭ اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۹۱ (النحل ۱۶: ۹۱) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمھارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
لو گ آپس میں ایک دوسرے سے جو وعدے ( خاص طور سے مالی معاملات سے متعلق ) کر تے ہیں ان کی پابندی کی ہدایات کے ضمن میں عام طور پر اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ ( المائدۃ ۵:۱) ’’اے اہلِ ایمان قول و قرار پورا کرو‘‘۔ بعض مفسرین نے ’ عقود‘ میں روز مرّہ زندگی سے متعلق شریعت کے تمام اصول و ضوابط کو شامل کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ شریعتِ الٰہی کا ہر ضابطہ ( ا للہ پر ایمان لانے کے بعد) ایک طرح سے صاحبِ ایمان کا اللہ سے معاہدہ ہوتا ہے اس کو پورا کرنے اور اس کو کسی بھی حالت میں نہ توڑنے کا۔ اور آیت میں دراصل اسی قول و قرار کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے جو شریعت کو قبول کرنے والا اللہ سے کرتا ہے ( تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۳۷ )۔
ایفاے وعدہ اہلِ ایمان کی شناخت ہے۔ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنینِ صادقین یا اپنے مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں:
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ۲۰ۙ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ ( الرعد۱۳:۲۰-۲۱) اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑتے نہیں۔ اور ان کی یہ روش ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں جوڑتے ہیں۔
ان آیات کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ پہلے عہد کا تعلق اللہ سے کیے گئے وعدے سے ہے، جب کہ دوسرے کا ان وعدوں سے جو اہلِ قرابت آپس میں فطری طور پر کرتے ہیں ( سیرۃ النبیؐ،ج۶،ص ۲۹۸)۔ قرآن میں اللہ کے مومن بندوں کی شان یہ بتائی گئی ہے: وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) ’’اور جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں‘‘۔ اسی طرح اللہ کی بندگی بجا لانے میں سر گرم رہنے والوں کا ایک امتیاز یہ بھی بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲(المعارج ۷۰:۳۲) ’’اور جو اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے عہد کا پاس و لحاظ کرنے والے ہیں‘‘۔ مزید برآں مومنین صادقین کا ایک وصفِ خاص یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو سچ کر دکھاتے ہیں، جیسا کہ یہ آیت بتا رہی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ (الاحزاب۳۳:۳ ۲) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایاہے۔ ان میںکوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
l وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ قرآن و حدیث دونوں میں اہلِ ایمان کے مطلوبہ اوصاف میں ایفاے وعدہ اور امانت داری دونوں خوبیاں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس کے برخلاف عہد شکنی کرنے والوں کو مفسد قرار دیتے ہوئے ان کے انجامِ بد سے اس طور پر انھیں متنبہ کیا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ۰ۙاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۲۵ (الرعد ۱۳:۲۵) جو اللہ سے کیے گئے عہد کو اسے مضبوط باند ھ دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کواللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے [آخرت میں] بدترین گھر ہے۔
ان آیات سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنا انتہائی سنگین جرم ہے اور بار بار اس جرم کو کرنے والے خیر کی قبولیت کی صلاحیت سے محروم اور رحمتِ الٰہی سے دُور کردیے جاتے ہیں اور آخرت میں ان کا جو بدترین انجام ہو گا وہ علیحدہ ہے۔
قرآن سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وعدہ خلافی و کذب دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دونوں کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے۔ دونوں کو نفاق کی و ا ضح علامت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں منافقین کو کاذبین و مفسدین کہا گیا ہے (البقرۃ ۲:۱۱-۱۲، ۲۷، الرعد ۱۳:۲۵، المنافقون ۶۳:۱) اور اس سے بھی باخبر کیا گیا ہے کہ کاذب و عہد شکن کا وہی انجام ہوتا ہے جو منافقین کے لیے مقدر ہے (النساء ۴: ۱۴۰،۱۴۵)۔ مزید یہ کہ قرآن یہ بھی بتاتاہے کہ عہد شکنی و وعدہ خلافی سے دل میں نفاق کی پرورش ہوتی ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کے ذکر میں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کیا تھا کہ اگر اللہ کے فضل و کرم سے انھیں مال نصیب ہوا تو وہ صدقہ و خیرات کریں گے، لیکن مال ملنے کے بعد وہ اس وعدہ کو بھول گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۷۷ (التوبۃ۹:۷۷) نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جوبولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا جو اس کے حضور ان کی پیشی تک پیچھا نہ چھوڑے گا ۔
نفاق کی علامات کے بارے میں یہ حدیث بہت مشہور ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُریْرَۃَ انَّ رَسُوْلَ اللہَ قَالَ : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَاِذَا اوئْتُمِنَ خَانَ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔
دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو: لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ ، ’’اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۹ء،ج۶،ص ۴۷۱)۔
ایک حدیث کے مطابق ایفاے وعدہ ان خصوصی اوصاف میں شامل ہے جن سے مزین ہونے والوں کو جنت نصیب ہو نے کی ضمانت دی گئی ہے۔ حضرت عبادہ ابن صامتؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے چھے چیزوں (کے پورا کرنے) کا ذمہ لے لو تو میں تمھارے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں: اضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃ (مسنداحمد، سندالانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت، حدیث:۲۲۱۶۶) ان چھے باتوں میں سے اولین دو کا تعلق سچ بولنے اور وعدہ پورا کرنے سے ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کا نام لے کر عہد کرے اور پھر اسے توڑ دے تو وہ ایک حدیثِ قدسی میں مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان تین افراد میں شامل ہوگا جن کے خلاف روزِ قیامت خود اللہ تعالیٰ خصم (فریقِ مقدّمہ) بنیں گے۔ حدیث کا متعلقہ حصہ ملاحظہ ہو:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ ثَلَاثَۃٌ اَنَـا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، رَجَلٌ اَعْطیٰ بِیْ ثُمَّ غَدَرَ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔
حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔ غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کرلی، لیکن کفّارِ مکہ(جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکا رہے ( سیرۃ النبی ؐ،ج۲،ص ۲۷۷ ) ۔
بلا شبہہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے، جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ( سیرۃ النبیؐ، ج۲، ص ۲۷۶، ۲۷۷ ،ج۶،ص۳۹۹، ۴۰۰) ۔
l وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل : ان تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اللہ کے بندوں سے کیے گئے وعدے یا قول و قرار کی خلاف ورزی کا معاملہ اس پہلو سے بھی سنگین ہوجا تا ہے کہ یہ معاملہ حکمِ الٰہی کی سرتابی کے ساتھ اللہ کے بند وں کے لیے باعثِ زحمت و موجبِ تکلیف ہوتا ہے۔ قرآن کا یہ صاف اعلان ہے کہ اللہ ہر گز ایسے کام کو پسند نہیں فرماتا جس سے اس کے بندوں کو تکلیف پہنچتی ہے یا ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
ان سب ہدایات و تعلیمات کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرے میں جو خرابیاں در آئی ہیں ان میں وعدہ خلافی نے ایک عام برائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے برائی بھی نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے ذہنوں سے ایفاے وعدہ کی اہمیت نکلتی جارہی ہے۔ وعدہ خلافی کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے اور یہ احساس بھی نہیں ہو تا کہ اس کے لیے آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا، جب کہ قرآن میں بہت واضح طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ عہد اور وعدے کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلسل وعدہ خلافی کرنے والے اپنی کوتاہی کو چھپانے کے لیے ایسی ایسی ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ بلا شبہہ وعدہ خلافی ان لوگوں کے لیے بھی وبال کا باعث بنتی ہے جو اس بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جب بار بار کسی سے وعدہ خلافی ہوتی ہے تو ایسے شخص کا اعتبار اٹھ جاتا ہے یا وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور یہ یقیناً بہت بڑی دولت سے ہاتھ دھونا ہے۔ دوسرے کسی کام کے لیے وعدہ خلافی کرنے پر بعض اوقات اسی کام کے لیے بار بار دوڑنا پڑتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے ایک بار وہ کام ٹل گیا تو پھر دوبارہ ہو ہی نہیں پاتا جس کے لیے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں اصحابِ معاملہ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انھیں جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ علٰٰیحدہ ہے۔
وعدہ خلافی کی وجہ سے سامنے آنے والی ان تکلیف دہ باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وعدہ خوب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور کسی سے ایسا وعدہ نہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جاسکے یا جس کا پورا کرنا انتہائی مشکل ہو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے مروی آپؐ کایہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو ( وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِداً فَتُخْلِفَہٗ ، جامع ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء)۔وعدہ خلافی کی وجہ سے پیش آنے والی زحمتوں اور پریشانیوں سے بچنے بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ ہو سکے یا پورا نہ ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں صاحبِ معاملہ( یعنی جس سے کوئی وعدہ کیا گیا ہے) کو اس سے با خبر کردیا جائے اور اگر وقت ہے تو بہتر ہوگا کہ اس کی پیشگی اطلاع دی جائے ۔
♦ ایفاے عہد کی برکات :دوسری جانب اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پا جا تا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔
سورۃ المعارج کی آیت۳۲ کے حوالے سے اہلِ ایمان کے اوصاف میں ’ایفاے وعدہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے اس وصف کے فضائل وبرکات میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ (راہیں کھلتی ہیں، ۲۰۱۷ء،ص ۸۱) ۔
♦ وعدہ اور احساسِ جواب دہی: رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے و ا لوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔
مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرُضٰی، آمین ثمّ آمین!