برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں سیّد علی شاہ گیلانی (پیدایش: ۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء، بانڈی پورہ، کشمیر) ایک قابلِ رشک مجاہد آزادی اور شان دار زعیمِ ملّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی ۹۰برس کی زندگی میں انھوں نے ۲۷برس قیدوبند میں گزارے ہیں اور ہرحال میں، بہار ہو کہ خزاں، کلمۂ حق بلند کیا ہے۔ قلم، تقریر، دلیل اور عمل کے ہردائرے میں جہادِ زندگانی اور تحریک ِ آزادی کا مجسم نمونہ ہیں۔ اس اعتبار سے گیلانی صاحب، ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، حق و انصاف، قربانی و استقلال، ایمان و کردار، فکرو دانش اور پیہم رواں کا ایسا استعارہ ہیں کہ جن کے عہد میں ہمیں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
محترم گیلانی صاحب نے حسب ذیل کھلے خط میں جس دل سوزی سے، جموں و کشمیر کے مظلوموں اور پاکستان کے شہریوں اور مقتدر حلقوں کو مخاطب کیا ہے، اسے ہم ۵فروری کے یومِ یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے ترجمان القرآن کے ذریعے پیش کر رہے ہیں، اور اس عزم اور یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی یہ تاریخی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ان شاء اللہ کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مختصراً یہ ہے:
۱- بھارت سرکار کی طرف سے بدترین مخالفت اور ظلم و استبداد کے علی الرغم سرفروشانہ جدوجہد کا تسلسل اور اس میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت۔
۲- پاکستانی قوم اور حکومت کی پوری یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس جدوجہد کی مکمل تائید، عالمی دباؤ کے حصول کی بھرپور کوشش، اور بھارت کے ہرہتھکنڈے، منفی ابلاغی پروپیگنڈے اور جارحانہ اقدام سے نبٹنے کے لیے مکمل تیاری۔ اور اس میں عوامی شمولیت کا احساس بیدار کرنا۔
۳- بارباراور ہرمحاذ پراس امر کو واضح کرنا کہ مسئلہ کشمیر محض دو ملکوں کے درمیان کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کا اصل اور جوہری ایشو جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ خودارادیت کا حصول ہے، جسے اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ایک گونہ کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) بھی بڑااہم پہلو ہے، لیکن اس میں اوّلین حیثیت حقِ خودارادیت کو حاصل ہے۔ حقِ خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک مظلوم اور محکوم قوم کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر یہ جدوجہد بھارتی عسکریت کی وجہ سے جوابی عسکریت کی شکل اختیار کرتی ہے، تب بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا اوراس کی حیثیت جنگ ِ آزادی کی ہوگی۔
۴- یہ مسئلہ سیاسی جدوجہد اور عالمی اداروں کے کردار کے ذریعے طے ہونا چاہیے اور صرف وہی حل مسئلے کا یقینی حل ہوگا، جسے جموں و کشمیر کےعوام اپنی آزاد مرضی سے قبول کریں۔ عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل اور علاقے کے امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، اور جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں محکوم اقوام کے لیے حقِ خودارادیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اسی طرح جموں و کشمیر کے عوام کو یہ حق فراہم کیا جائے۔ یہ مسئلہ کسی ملک یا ادارہ کی ثالثی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کا مسئلہ ہے، جس سے بھارت صرف جبر کی قوت کے سہارے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیّد علی گیلانی پاکستان اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو اسی طرف متوجہ کر رہےہیں۔ (مدیر)
_____________
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائےگی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال ۸:۴۵-۴۶)
عزیز ہم وطنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمام تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لیے، جس نے ہمیں غاصب بھارت کے ریاست جموں و کشمیر پر قائم ناجائز قبضے کے خلاف خندہ پیشانی سے مزاحمت کرنے کی ہمت عطا کی، اور اس مکار قابض کے تمام تر ظلم وجور اور مکروفریب کے باوجود حق پر قائم وثابت قدم رہنے کی طاقت بخشی۔ اسی کی طرف رجوع لازم ہے، جس کی نصرت فتح کی نوید ہے اور جس کی رضا ہماری منتہاے نظر ہے۔
عزیز ہم وطنو!
جن حالات سے ریاست جموں و کشمیر گزر رہی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور تاریخ کے جس موڑ پرآج ہماری قوم کھڑی ہے، ایسے میں آپ سے مخاطب ہوکر آپ کے سامنے لائحہ عمل پیش کرنا میرافرضِ منصبی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ہرطرح کی قدغنیں نافذ کررکھی ہیں، لیکن خداے بزرگ و برتر اپنی غیبی تائید سے ہم محکوموں کی نصرت کرتا ہے۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بالآخر ہماری مزاحمت کےآگے گھٹنے ٹیک دے گا اور اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،ان شاء اللہ!
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہماری تحریک ِآزادی کٹھن مراحل سے گزری ہے۔ ہم نے ہر وہ راستہ اختیار کیاہے، جس سے ہم اپنے مبنی بر صداقت مطالبے کو منوا کر حقِ خود ارادیت کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ چاہے وہ جمہوری راستہ ہو یا کوئی اور طریقہ، ہم نے اپنی مزاحمت میں کوئی لچک نہیں آنے دی۔ تحریک ِ آزادی نے، ۱۹۸۷ء میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پس پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔ ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزارکا راستہ اختیار کیا اور تاریخ اسلام میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدرہے۔ عوامی تحاریک ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۶ء ، ۲۰۱۹ء کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبۂ آزادی کو دُہرا کر لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہوکر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیرقانونی اعلان کیا۔
ایسے حالات میں، جب کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف نفرت اور انتقام کی مہم جاری رکھی اور مقامی اخبارات بھی زمینی صورتِ حال پر پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس بین الاقوامی صحافتی ادارو ں نے کماحقہٗ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرکے ہندستانی مظالم اورسفاکیت کی داستان دُنیا تک پہنچانے کی منصبی ذمہ داری نبھائی۔
عزیزانِ ملّت!
پچھلے ۷۰برسوں کےدوران بھارتی حکومتوں کی فریب کارانہ سیاست اور بھارتی فوجی جبرومظالم سے یہاں کے عوام کو اپنے پیدایشی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوکر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایک نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کاغیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرجمہوری فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ ریاست کی جغرافیائی وحدت کو توڑ کراسےدوحصوں میں تقسیم کردیا،حالانکہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کی حیثیت محض ایک قابض اور جابر کی ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے بھارتی حکومت پورے خطے میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو کانفاذ عمل میں لائی۔ ۱۸ہزارسے زائد لوگوں کو حراست میں لےکر پولیس تھانوں اور جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کمسن بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھروں میں گھس کر پردہ دار خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ احتجاج کرنے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمت پامال کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ لوگوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صوبہ جموں اور لداخ کی مسلم آبادی پہلے سے ہی بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ہرطرح کی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کومعطل کیا گیا۔ پیلٹ گن کا بے تحاشا استعمال کرکے بچوں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان تمام مظالم اور جبر و زیادتیوں کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی ہے، اور دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد اور مطالبۂ آزادی سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔
عزیز ہم وطنو!
میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اورہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔ ۵؍اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیرمسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ لاکھوں کنال کی عوامی اراضی ، جس پر بھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے ، اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ان غیرریاستی باشندوں کو بھارتی افواج کی پشت پناہی حاصل ہوگی، جو یہاں کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے بھارت کے ہراول دستے کا کام انجام دیں گے۔
نام نہاد تعمیر و ترقی ، تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کےعلاوہ تجارت کے نام پر مزید اراضی بھارتی اداروں کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارےقدرتی وسائل بھی ہم سے چھین لیے جائیں گے۔ میوہ جات، باغات، سدابہار جنگلات اور آبی وسائل تک سے محروم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارے مسلم اکثریتی کردار کو ہرسطح پر نشانہ بنا کر ہم سے بحیثیت مسلمان زندہ رہنے کاحق چھینا جائے گا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری مساجد اور ہماری خانقاہوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو تاریخی بابری مسجد کے ساتھ عملاً کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بابری مسجد کو شہیدکرکے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلی جناح، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے۔
عزیز ہم وطنو!
مَیں یہاں ان ہندنواز سیاست دانوں کاذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میںدوام بخشنے کے لیے پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں۔ حالانکہ مَیں باربار یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال آلہ کاروں کی سی ہے۔ وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دست ِ راست ہیں اور اس مکروفریب میں وہ بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرکے بھارتی قبضے کو سند ِ جواز بخشتے رہے ہیں۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے، جس دلّی دربار کی خوش نودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختۂ مشق بناتارہا، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانۂ عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغا بازیوں سے توبہ کرکے حق و صداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجاے حق و انصاف کے حصول کا خاردار راستہ ہی سرخروئی، عزت اور وقار کی زندگی عطا کرسکتاہے۔
مَیں ایک بار پھر ان ہندنواز سیاست دانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے، جو شاید آخری ہو کہ عوامی جدوجہد ِ آزادی میں شامل ہوکر قومی جذبۂ حُریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
غیور ہم وطنو!
اس نازک مرحلے پرمَیں اپنی قوم کے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے سے متفکر ہوں۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی عزائم کی ہرسطح پرمزاحمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آج کی مزاحمت، کل کی آزادی کی نوید ہوگی۔ یہاںکاہرباشندہ اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرکے تحریک ِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور کسی بھی طرح کی غفلت، لاپروائی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتے:
٭ آپ کو کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر، کسی بھی غیرریاستی باشندے کو اپنی جایداد، بشمول اراضی، املاک، مکانات و دکانات وغیرہ فروخت نہیںکرنی ہے۔ غیرریاستی باشندوں کو کرایہ دار کی حیثیت سے بھی قبول کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔
٭ تاجروں کو اس بات پر متفق ہوجانا ہے کہ وہ تجارت کے نام پرکسی بھی غیرریاستی باشندے یا حکومت سے کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے کہ جس کے عوض انھیں اپنی املاک کو فروخت کرنا پڑے۔
٭ یادرکھیے، تعلیم، تجارت، طبی ادارہ جات اور ترقی کے نام پر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیےعوام کسی نعرے کے دامِ فریب میں نہ آئیں اور ایسی کسی پالیسی کے نام پر غیرریاستی اداروں اور افراد کو اپنی املاک فروخت نہ کریں۔
٭ اپنی مساجد، خانقاہوں اور دینی مدارس کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند رہیں۔
٭ بھارت ہم سے ہماری زبان مختلف طریقوں سے چھیننے کی کوشش کرے گا، لیکن نئی نسل اپنی زبان پہچانے اور اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
٭ اُردو جو کہ ہمارے لیے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ آپ کو اس کی بھی حفاظت کرنا ہے، تاکہ ہماری اسلامی،علمی اور تہذیبی شناخت برقرار رہے۔
٭ لداخ، جموں، پیرپنچال، وادیِ چناب کے مسلمانان نے ہمیشہ قلیل وسائل کےباوجود قابض قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہوکر جذبۂ آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مَیں انھیں ان کی استقامت و جرأت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وادیِ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ تحریک ِ مزاحمت کے ہرمرحلے پر ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، انھیں خراجِ تحسین پیش کریں اورانھیں اپنی ہرسعی میں شاملِ حال کریں۔
٭ تعلیمی اداروں کے ذریعے سے تاریخ کو ہندوانےاور مسخ کرنے کا قبیح کام کیا جائے گا۔ اس لیے اپنی ملّی تاریخ کو اپنی نسل تک پہنچانے کا انتظام آپ کو خود کرنا ہے۔ گھروں میں ایسی روایات کو جاری کرنا ہے کہ ہماری نئی نسل ریاست جموں و کشمیر کی اصل تاریخ سے باخبر رہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے مدمقابل حقیقی تاریخ کو مرتب اور منضبط کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
٭ نام نہاد انتخابات کی حقیقت آپ پرعیاں ہوچکی ہے۔ اس لیے آپ کو کسی بھی قسم کے بھارتی انتخابی ڈرامے بشمول پنچایت، میونسپل، اسمبلی اور ہندستانی پارلیمان میں کسی بھی سطح یا طریقے سے شامل نہیں ہونا ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت قومی غداری کے مترادف ہے۔
٭ تحریک ِ آزادی میں متاثرہ افراد خاص طور پر جوانوں، قیدیوں، بیواؤں، زخمیوں، جسمانی طور پر معذور افراد کی امداد آپ پر لازم ہے۔ میدانِ کارزار میں مصروف جوانوں کو ہردم اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے اور یہ بھی اَزبر کرلیجیے کہ ہم شہدا کے امین ہیں اور اس امانت کی آپ کو حفاظت کرنی ہے۔
٭ جموں و کشمیر پولیس جو کہ ۱۸۷۳ء سےہی ریاستی عوام پر ظلم و جبر ،قتل اوردرندگی کے پہاڑ ڈھانے کی مرتکب ہے ،جن کے ہاتھ کشمیریوں کے قتل عام، عصمت دری، آتش و آہن اور جوانوں کی بینائی چھیننے میں ملوث ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ روزِ اوّل سے ہی جموں و کشمیر کی پولیس نے ریاست پر ہرناجائز قابض کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج، جب کہ بھارت نے حد ِ فصیل کھینچ دی ہے ، ہمارے اور ہماری آزادی کے درمیان بھارتی فوج اورجموں و کشمیر پولیس کی بندوقیں حائل ہیں۔ مَیں جموں و کشمیر پولیس کو تاریخ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر خبردارکرتا ہوں: اس سے پہلے کہ عوامی جذبۂ حُریت انھیں پر ِکاہ کی مانند بہا لے جائے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور طے کریں، آیا کہ وہ مظلومانِ کشمیر کے ہمراہ کھڑے ہوں گے یا بھارتی قاتلوں اورسفاکوں پر مشتمل فورسز کے شانہ بشانہ ان کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔
عزیز ہم وطنو!
اس صبرآزما اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت، بالغ نظری اور حقیقت پسندی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہد ِ آزادی اور ہم پرروا رکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستایش ہے۔ ایسی توقع ایک مخلص دوست اور شفیق محسن سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان ہی کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۵۲سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زیربحث آیا۔ ہم حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرکے بھارت کو ایک غاصب اور قابض کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارہا ایسا ہواہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور ان کے بعد ہرپاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
اس دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے جس طرح اپنی تحریک ِ آزادی کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری جہاں بھی ہیں وہ تحریک ِ آزادی کے سفیر ہیں۔
غیور ہم وطنو!
آج ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی غلامی کو کبھی بھی سند ِ جواز نہیں بخشیں گے۔ ہم اتحاد واتفاق، نظم و ضبط، صبرواستقلال ، یکسوئی و یک جہتی اور باہمی ربط و اخوت کے زریں اصولوں پر عمل کرکے اپنی جہد مسلسل کو آزادی کی سحر تک جاری رکھیں گے۔
پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِواسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزرفرمائے اور مغفرت سے نوازے۔ بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دست ِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِقیامت مَیں ان عظیم ہستیوں کی معیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملّت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملّت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہد حسب ِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے ۷۰برسوں سے عموماً اور گذشتہ ۳۰،۳۵ برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طور پر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقدس اور احترام بخشا ہے، اس لیے انھی کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رکھیں کہ ربِّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُراُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اورہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے___ دوام فقط حق کو ہے۔