ارشادِاِلٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ ( الصفّ ۶۱: ۲- ۳) اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے)۔
اس آیت میں اہلِ ایمان کو قول و فعل میں تضاد جیسی انتہائی ناپسندیدہ حرکت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ رب العزت کی سخت ناراضی کا موجب بنے اس کے انجام کے اعتبار سے مہلک ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ اس میں بری روش پر تنبیہ کے ساتھ اس سے باز آجانے کی ہدایت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل میں مطابقت انسان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ رہے اہلِ ایمان تو یہ مطابقت ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ صدقِ ایمان کی علامت ہے ،اسی سے ایمان کی پختگی ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں مومنین صادقین کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے،پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن اہلِ ایمان کو ’ صادقون‘ کے خطاب سے نوازا ہے، جو زبانی طور پر ایمان کے اظہار کے بعد اسے پورے یقین کے ساتھ دل میں جمائے ر کھیں اور عملی طور پر دین کی خاطر جانی و مالی قربانی کے لیے ہر آن تیار رہیں۔ مومن صادق وہ ہے جو زبان سے کلمۂ طیّبہ کی ادائیگی کے ساتھ اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرے اور زبانی اقرار کو سچ کر دکھائے۔ اس آیت کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’ یہ سچے اس لیے ٹھیرے کہ ان کا یہ عمل ان کی دلی کیفیت کا سچا ترجمان ہوا۔ زبان ا ور دل سے جس ایمان کا اقرار کیا تھا ،عمل سے اس کی تصدیق کردی‘‘ (سیرۃالنبیؐ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، ج۶، ص ۲۳۸)۔
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ تشریح کرتے ہیں :’’ ان کے دلوں میں ایمان کی جو حقیقی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے زبان سے کیا، اور اپنے عمل سے برابر اس کی تصدیق کرتے رہے۔ دراصل زبان، دل اور عمل کی کامل ہم آہنگی کا نام ہی سچائی ہے اور اسی ہم آہنگی پر تمام اخلاق و معاملات کی درستی کا مدار ہے‘‘( قرآنی تعلیمات، مکتبۂ ذکریٰ،نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۳۱۱)۔
ان توضیحات کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنینِ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اللہ و رسولؐ پر ایمان لا کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت بجا لائیں گے اور پھر انھوں نے و اقعتاً اپنے اعمال سے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قول و عمل میں مطابقت کے بڑے فیوض و برکات ہوتے ہیں ، جن کے دیرپا و خوش گوار اثرات سب سے پہلے صاحبِ صفت پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا فیض یہ ہے کہ اس خوبی والے کی باتیں اپنا وزن رکھتی ہیں جو دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کی تقریر و تحریر میں ایسا گہرا اثر ہوتا ہے کہ سننے والے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں نقش کرجاتی ہے۔ اس ضمن میں ممتاز عالمِ دین اور ایک طویل عرصہ تک ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمت انجام دینے والے مولانا شہباز اصلاحیؒ (م:۸ نومبر ۲۰۰۲ء) نے اپنے ایک قریبی عزیز کے نام خط میں جو ناصحانہ کلمات رقم فرمائے تھے ان کا ذ کر بہت اہم معلوم ہو تا ہے : ’’ عزیزم! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقریروں اور خطبوں کا حقیقی اثر الفاظ کی جادو گری اور لہجہ کے زیر و بم میں نہیں پوشیدہ ہے....زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ زبان سکھاتی ہے،لیکن دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جاتی ہے اور سیرت و کردار تبدیل کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ بات صرف زبان سے نکل رہی ہے یا دل بھی اس میں شامل ہے؟ اس کے معلوم کرنے کی آسان کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ جس بات کی تلقین ہم دوسروں کو کر رہے ہیں اس پر خود ہمارا کتنا عمل ہے۔اگر ہماری بات خود ہم پر اثر نہ ڈال سکے تو دوسروں پر کیا اثر ڈالے گی؟‘‘ ( مکتو با تِ شہباز، مرتبہ: محمد ناصر سعید اکرمی، معہد الامام حسن البنّا،بھٹکل،۲۰۲۲ء،ص۱۰۵۔۱۰۶) ۔
یعنی فارسی قول ’ از دل خیزد بر دل ریزد‘ [ جو دل سے اٹھتا ہے وہ(دوسروں کے) دل میں سرایت کرجاتا ہے] اسی وقت صادق ہو گا جب کسی کو کسی خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا یا نصیحت کرنے والا خوداس پر عمل کر چکا ہو،اور اس پر پوری طرح کاربند ہو۔ قول و عمل میں مطابقت یا اپنی کہی ہوئی بات پر عمل آوری ایسی پسندیدہ و با برکت صفت ہے کہ یہ خود صاحبِ صفت کے لیے موجب سکون و طمانیت بنتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی راحت و مسرت کا باعث ہو تی ہے، اس لیے کہ سچائی و اخلاص کے بڑے فیوض و برکات ہیں جن کے اثرات بہت دُور دُور تک پہنچتے ہیں۔
اس کے برخلاف قول و فعل میں تضاد سے لوگوں کو بڑی اذیت پہنچتی ہے اور اس کی وجہ سے انھیں طرح طرح کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات اس کی تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔ اس بری روش کے وبال سے تو اسے اختیار کرنے والا ،یعنی دوسروں کے ساتھ فریب و دھوکے کا معاملہ کرنے والا بچ ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑے خسار ے کی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے ، اور جس سے مالک الملک ناراض ہو جائے، اس کے لیے پھر سکون و اطمینان کہاں ؟
قول و فعل میں عدم مطابقت نفاق کا مظہر یا منافقین کا خاصّہ ہے،اس لیے کہ منافقین زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے عمل سے کچھ اور ظاہر ہو تا ہے، و ہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اللہ علیم و خبیر کے نزدیک ان کا دعویٰ نا قابلِ قبول قرار پاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اقرار محض زبانی ہوتا ہے، ا ن کے اعمال زبانی اقرار کی سچائی کی تردید کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر منافقین کے قول وفعل میں تضاد کی واضح مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی طور پر یہ گواہی دیتے تھے کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، اس پر قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ارشادِربّانی ہے:
اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۰ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۱ۚ (المنافقون۶۳ :۱) جب منافقین آپؐ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ آپؐ ضرور اس کے رسولؐ ہیں، مگر اللہ گواہی دے رہا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔
لاریب اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی گواہی سچّی ہو سکتی ہے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ وہ زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا اظہار کر رہے تھے ا ور دل میں کفر و انکار کو چھپائے ہوئے تھے۔ دراصل یہی نفاق کی خاصیت ہے کہ دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور قرآن و حدیث دونوں سے نفاق اور سچائی اور نفاق و اخلاص کا ایک دوسرے کی ضدہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ قرآن نے منا فقین کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی ہے:
يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۱۶۷ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۷) اوروہ[منافقین ] اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے،اللہ خوب جانتا ہے اس بات کو جسے وہ چھپا رہے ہیں۔
یعنی نفاق والے اصلیت کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، ان کی زبان ان کے دل کی کیفیت کے خلاف بولتی ہے اور اسی کا نام کذب یا جھوٹ ہے۔ قول وفعل کی دُوئی اسی کو کہتے ہیں، اور یہ رویہ اللہ رب العزت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس بدترین خصلت وا لا شخص معاشرے میں اپنا وقار و اعتماد کھو بیٹھتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
اس میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں کہ نفاق اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے ، دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نفاق کی جڑ سے جھوٹ کا پودا اُگتا ہے اور اگر اس کی جڑ کو کاٹا نہیں گیا تو یہ پودا سرسبز وشاداب ہوتا رہتا ہے ۔ اور جھوٹ، نفاق کا لازمہ اورمنا فق کی علامت ہے۔ وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں منافق کی پہلی خاص علامت یہ بتائی گئے ہے کہ وہ جھوٹ کا عادی ہوتا ہے:
عَن اَبِیْ ھُرَیْرَہ انَّ رَسُوْلَ اللہِ قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ ، اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ( صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
دوسری حدیث (مروی از حضرت عبداللہ ابن عمروؓ ) کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چوتھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو فحش کلای پر اُتر آتا ہے [وَاِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ] (صحیح مسلم،کتاب ا لایمان، باب بیان خصال المنافق)۔
اس حدیث کی تشریح میں محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ نفاق کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ظاہر اور باطن میں موافقت اور یگانگت نہ پائی جائے۔آدمی گفتگو تو ایسی کرے کہ محسوس ہو کہ وہ سچ بول رہا ہے،لیکن وہ کذبِ بیانی سے کام لے۔ وعدہ کر کے وہ یقین تو یہ دلائے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرے گا،لیکن وہ اپنے وعدہ کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہ رکھے۔ اسی طرح اسے اپنے عہد وپیمان کو توڑنے میں بھی کوئی باک نہ ہو اور اگر اس کا کسی سے جھگڑا ہو تو وہ[اخلاقی] حدود کا احترام نہ کرے ،نازیبا حرکتیں کرنے لگے اورغصّہ میں ایسا بے قابو ہوجائے کہ فحش کلامی اور بد زبانی سے بھی اسے کوئی عار نہ ہو۔ یہ خصائل اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ایسا شخص قابل اعتماد اور بھروسے کے لائق نہیں ہے‘‘( محمد فاروق خاں،کلامِ نبوت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ، ۲۰۱۲ء،جلددوم،ص ۴۱۷- ۴۱۸)۔
مزید برآں ایمان اور نفاق یا ایمان اور جھوٹ میں تضاد اُ س ارشادِ نبویؐ سے مزید کھل کر سامنے آتا ہے، جس کی اردو ترجمانی یہ ہے کہ مومن میں دوسری بُری خصلتیں ہوسکتی ہیں،لیکن اس میں جھوٹ کی خصلت نہیں سکتی( موطّا امام مالک،کتاب الجامع، باب ماجاء فی الصدق و الکذب)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منافق کی تینوں بنیادی خصلتوں: جھوٹ بولنا،وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیا نت کرنا کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت سے ہوتا ہے۔ ان تینوں کی عملی مثالوں: بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنے ، کسی سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرنے، کسی کی سپرد کردہ امانت میں خیانت کرنے پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو ان سب میں قول و فعل میں صاف تضاد نظرآ ئے گا۔
ایک حدیث سے یہ نکتہ منکشف ہو تا ہے کہ کیسے ایک شخص بات چیت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ خیانت دھوکے بازی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے( بنا سنوار کر) ایسی بات کہو جس کو وہ سچ سمجھے اور تم اس سے جھوٹ کہو (سنن ابو داؤد، کتاب الادب،باب فی المعاریض )۔
اس حدیث کی تشریح میں مؤلفِ کلامِ نبوت تحریر فرما تے ہیں :’’ معلوم ہوا کہ خیانت کا تعلق صرف مال و دولت اور امانتوں ہی سے نہیں ہے،اپنے غلط طرزِ عمل سےآدمی کسی بھی معاملے میں اپنے خا ئن ہونے کا ثبوت بہم پہنچاسکتا ہے۔ اس حدیث میں ایک مثال گفتگو کی دی گئی ہے۔ اپنی بات چیت میں کوئی شخص خیانت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔خیانت در حقیقت ایک طرح کی دھوکے بازی ہے۔آدمی بات چیت ایسے انداز سے کرے کہ سننے والا اسے سچ سمجھے، حالانکہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو تو یہ بھی خیانت ہے اور بڑی خیانت ہے۔اپنے بھائی کو کسی فریب میں مبتلا کرنا کسی صورت میں روا نہیں ہے‘‘( کلامِ نبوت ،جلددوم،ص ۴۲۳- ۴۲۴)۔
اسی طرح ’دل میں کچھ،زبان پر کچھ‘ کا رویہ اختیار کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے(یا اس خام خیالی میں مبتلا رہتا ہے) کہ اس طرح وہ دوسروں کو بے وقوف بنا کر یا دھوکا دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرلے گا یا اپنا مطلب حاصل کرلے گا، لیکن واقعہ یہ کہ یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے یا وہ خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے مکّاروں و دھوکے بازوں کو بہت ہی صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں،گرچہ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ارشادِربّانی ہے:
وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقرہ۲:۹) اور دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ا سے محسوس نہیں کرپاتے۔
اس لیے کہ ان کی فریب دہی یا دوسروں کو بے وقوف بنانے یا سمجھنے کی خصلت بہت دنوں تک چھپی نہیں رہ پاتی، ان کے دل کا یہ روگ کسی نہ کسی طرح باہر آہی جاتا ہے۔ کردار میں نفاق کی آمیزش یا دُہری پالیسی ایسا خطر ناک مرض ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور اس کے کردار و اعمال کو داغدار بنا دیتا ہے، جسے دوسرا دیکھ کر یا محسوس کر کے ہی گھن کھاتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس پر بھی اس کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کا سایہ نہ پڑ جائے۔
یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ نفاق کے مرض میں مبتلا یا قول وفعل میں تضاد کے عادی لوگ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے خوب مگن رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خفیہ تدبیریں یا’’ دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ اور‘‘ کی پالیسی کار گر ہو رہی ہے، حالانکہ اللہ کی جانب سے انھیں سنبھلنے کی مہلت ملتی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے،آخر کار ان کے اس مرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ اسی حقیقت کی ترجمان ہے:
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ۲: ۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری[ نفاق کی کھوٹ ]ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ،اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے ان کے جھوٹ کی پاداش میں۔
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے،اور اللہ کے ا س بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا،بلکہ انھیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں‘‘ ( تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۵۳)۔
لوگوں کو اپنے مکر و فریب کا شکار بنا نے والے یا دھوکا دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ علیم و خبیر ہے، سب کا باطن و ظاہر اس کے سامنے کھلا رہتا ہے ۔ پھر یہ نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسا انتظام فرما رکھا ہے کہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور عمل ریکارڈ میں آجاتا ہے۔ بد کار و غلط کار لوگ کہاں تک اپنی بری حرکتوں کو چھپائیں گے یا اپنے سینے کے راز وہ کیسے مخفی رکھ سکتے ہیں،جب کہ قرآن کریم نے قادرِ مطلق کا یہ نظم بھی بیان کردیا ہے :
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۵۲ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۵۳ (القمر۵۴: ۵۲-۵۳) اور جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں محفوظ ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی موجود ہے۔
یہی حقیقت سورۂ یونس کی آیت ۶۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔اس کے مخاطب اصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن پوری امت،بلکہ جملہ انسانیت سے خطاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:’’ اور جس حالت میں بھی تم رہتے ہو،جس قدر بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہو،اور جو کام بھی تم لوگ کرتے ہو،اس وقت ہم تمھارے پاس ہی موجود رہتے ہیں جب تم لوگ اس میںلگے رہتے ہو۔اور [یہ بھی یقین کرلو کہ] تیرے رب سے کوئی ذر ّ ہ برابر چیز بھی زمین میں یا آسمان میں پوشیدہ نہیں [رہ سکتی] ہے،نہ چھوٹی اور نہ بڑی،مگر وہ صاف کھلی ہوئی کتاب میںدرج ہے‘‘ ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۂ یونس اور سورۃ القمر کی مذکورہ آیات کے بعد کی آیت میں ایمان و نیک عمل کی پونجی والوں کو یہ مژ دہ سناکر انھیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ عالم الغیب کا یہ نظام ( ہر چھوٹی بڑی چیز کا ریکارڈ میں درج یا محفوظ ہوجانا) سب کے لیے ہے، لیکن اللہ کے فرماں بردار بندے ( جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور گناہوں سے اپنے کو بچاتے ہیں) مطمئن رہیں، ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں ان کے لیے چین ہی چین ہے،وہاںانھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی غم سے دوچار ہوں گے۔ وہ اللہ کے محبوب و مقرب بندے ہیں، وہ راحت و سکون سے مشرف ہوں گے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ۚۖ (یونس ۱۰:۶۲ ) اللہ کے مطیع و محبوب بندوں کو نہ کسی چیز کا خوف ہوگا اور نہ انھیں کسی رنج وغم سے سابقہ ہوگا (یعنی وہ ہر طرح سے مامون و محفوظ ہوںگے)۔
رہا یہ معاملہ کہ اللہ کے محبوب بندے کون ہیں،یا رب العالمین کن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ؟ اسے اس کے بعد والی آیت میں واضح کردیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ’’ جو ایمان سے مشرف ہوئے اور اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی یا گناہ کے کاموں سے بچاتےرہے‘‘۔ مزید یہ کہ سورۃ القمر کی مذکورہ بالا آیات ( جس میں ہر چھوٹے بڑے عمل کے ریکارڈ میں آجانے کا ذکر ہے) کے بعد کی آیات میں بھی اللہ کے محبوب بندوں کو’الْمُتَّقِیْنَ‘ ( اپنے خالق و مالک کی اطاعت و بندگی بجا لانے میں سرگرم رہنے والوں اور گناہوں سے پرہیز کرنے والوں) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور انھیں یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ وہ دائمی ز ندگی میں گھنیرے و لہلہاتے باغات میں ہوں گے،ایک سچی عزت والی مجلس میں ہوں گے، جہاں خوشیاں و مسرتیں ہوں گی،انعام و اکرام کی بارش ہوگی ، اور ( اس سے بڑی نعمت یہ کہ) وہ با اختیار و بااقتدار بادشاہ کے پاس ہوں گے جو اپنے بندوں پر بہت شفیق و مہربان ہے (آسان تفسیرِ قرآن، عائض القرنی؍اردو ترجمانی:محمدطارق ایوبی ندوی،ہدایت پبلشرز ،۲۰۲۲ء،ص۱۰۱۵)۔ حقیقت یہ کہ یہ کتنا بڑا رتبہ اور اعزاز و اکرام ہے جس سے ایمان و یقین کو اپنے اعمال سے سچ کر دکھانے والے، یعنی قلب کی سچی آواز پر لبّیک کہنے والے اور قول و فعل میں مطابقت کا عملی ثبوت دینے والے نوازے جائیں گے۔
دوسری جانب قرآن کریم میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت یعنی نفاق کی بیماری میں مبتلا رہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ورنہ وہ بڑے خسارے میں ہوں گے، اور اس کی وجہ سے سب سے بڑا خسارہ اللہ رب العزت کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں ابدی زندگی میں ناکامی ودرد ناک عذاب سے دوچار ہو نا ہے۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ:۲:۱۰)’’ان کے لیے(آخرت میں) بڑا درد ناک عذاب (تیار رکھا ہے ) ان کے جھوٹ (یا دوغلے پن) کی سزا میں‘‘۔
سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص ربِّ کریم کی نا راضی مول لے لے، کیا وہ چین وسکون سے شب وروز بسر کرسکتا ہے؟، جو پاک پروردگار کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ و مبغوض قرار پائے کیا وہ اس کے بندوں کی نظر میں محبوب قرار پا سکتا ہے؟ ، جو انسان اپنے دل کی بھلی سوچ یا خیر کے ارادہ کے مطابق اپنے عمل کو نہ ڈھال سکے کیا وہ حقیقی فلاح سے شاد کام ہوسکتا ہے؟، جس فریبی و مکّار بندہ سے ربِّ رحیم کی رحمت رُوٹھ جائے کیا ا سے دنیا و آخرت میں کہیں آرام کا ٹھکانا مل سکتا ہے؟
نیکی یا بھلی بات کی دعوت دینے والے اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے دنیا میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار ہوں گے، وہ اپنی جگہ ہے۔ بعض احادیث میں ایسے لوگوں کو آخرت میں انتہائی تکلیف دہ و ذلت آمیز عذاب دیئے جانے کا جو عبرت ناک منظر بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں مروی اس حدیث کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا تو اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی، وہ اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا اپنی چکّی کو لے کر گھومتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے :اے فلاں! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہیں دیتا تھا اور بُری باتوں سے ہمیں روکتا نہیں تھا؟ وہ کہے گا کہ میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا، مگر خود ان پر عمل نہ کرتا تھا، اور تمھیں بُری باتوں سے روکتا تھا، مگر خود ان میں مبتلا رہتا تھا‘‘ ( صحیح مسلم ، کتاب الزہد، باب عقوبۃ من یامر بالمعروف ولا یفعلہ وینھیٰ عن المنکرِ و یفعلہ)۔
اس حدیث کا عربی متن اوراردو ترجمہ ’’ قول و عمل میں تضاد‘‘ کی سرخی کے تحت نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر کر تے ہیں: ’’خود را فضیحت، دیگراں را نصیحت کا انجام کتنا عبرت ناک ہوگا۔ قول و عمل کا تضاد آدمی کو قیامت میں بر سرِعام رسوا کرے گا۔جہنم کا الم ناک عذاب الگ اس کے حصے میں آئے گا‘‘ (کلامِ نبوت، جلددوم، ص ۴۲۲، حاشیہ۱ )۔
مختصر یہ کہ جس کا قول خود اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکے یا جس کی نصیحت آمیز باتیں خود اس کے عمل کی دنیا کو نہ بدل سکیں ،دوسروں پر یہ باتیں کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ یا جس کی دعوت الی الخیر خود اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے، اس کی دعوت پر دوسرے کیسے لبّیک کہیں گے؟ قرآن نے استفہامیہ پیرایہ میں اس نکتے پر غور وفکر کی دعوت خاص طور سے ا ن لوگوںکو د ی ہے، جو دوسروں کو نیک باتیں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خود ان پر عمل کرنے میں پیچھے رہتے ہیں یااور و ں کو خیر کی دعوت دیتے پھرتے ہیں، لیکن اپنی عملی زندگی میں اسے جاری و ساری کرنے سے غافل رہتے ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے :
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۴۴ (البقرہ ۲:۴۴) کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۔
یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ خیر کی جس بات کو تم خود اپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، تو پھر کیسے توقع رکھتے ہو کہ دوسرے اسے دل وجان سے قبول کریں گے یا تمھاری باتوں پر دھیان دیں گے؟ کیا تم لوگوں نے اللہ کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ہدایات اس میں دی گئی ہیں وہ عمل کے لیے ہیں ؟ کیا اللہ کی کتاب میں بار بار لوگوں کو ا س حقیقت کی جانب متوجہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات اسی صورت میں ان کے لیے موجبِ برکت و باعثِ رحمت ثابت ہوں گی، جب ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں خطاب اصلاً بنی اسرائیل سے ہے، تاہم اس میں ہر دور کی اُمتِ مسلمہ ( جس کا ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق اپنی جگہ دین کا داعی ہے) کے لیے بھی بڑا قیمتی سبق ہے۔
لہٰذا ضرورت،بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جوکچھ اچھی و بھلی باتیں اور قیمتی و کارگر نصیحتیں ہمیں یاد ہوں اور دوسروں کو بتا نا چاہیں تو پہلے خود ان پر سنجیدگی و پابندی سے عمل کر کے ان کے فیوض و برکات کا اپنے کو مستحق بنالیں، پھر دوسروں کو انھیں بتا کر یاان کی راہ دکھا کر انھیں بھی مستفیض کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ، انھیں دلوں میں اتارنے اور دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی توفیق نصیب ہو، آمین ثمّ آمین۔
پیشِ نظر تحریر کو درج ذیل دعائے مسنونہ پر ختم کرنا زیادہ بر محل معلوم ہوتا ہے:
اللّٰھُمَ طَھِّر قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَالْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ (احمدابن الحسین البیہقی، الدعوات الکبیر، الکویت،۲۰۰۹ء،۱؍۳۵۰ ؛محمد منظور نعمانی، معارف الحدیث، کتب خانہ الفرقان، لکھنؤ، ۱۹۶۹ء، ۵؍۲۷۱) اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔بے شک تو آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور دل میں چھپے ہوئے رازوں سے بھی با خبر ہے۔
ارشادِ الٰہی ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔
اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔
جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔
اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔
مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔
یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔
در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:
ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۱۰ (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔
یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔ مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔
آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ وَلَا یَکْذِبُہٗ وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔
درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ فَاِذَا خَانَہٗ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!
يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔
اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی ا ہم ہدایت ( جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳: ۱۸۵) جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا۔
ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ اطاعت پر ۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے حالات سدھاریں ، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر ابن خطابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا ( کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دُور رہیں )، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو ،اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا (روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے (تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰، حاشیہ ۱۶ ) ۔
مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں ، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے ‘‘( قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۶)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔
جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا (صحیح بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے ،لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
گھر کے لوگوں کی اصلاح کی خاطر ہر گھر میں وقتاًفوقتاً دینی یا تذکیری مجلس کے انعقاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں یہ وقت کا ایک اہم تقاضا بن چکا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کے دوران محلّہ کی مساجد میں یا دوسرے کسی مقام پر اجتماعی طور پر دعوتی و تذکیری پروگرام موقوف ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کو گھر میں درسِ قرآن کے توسط سے گھر والوں کے سامنے ہفتہ وار کچھ کہنے کا موقع ملا تو ان مجالس کے تجربات نے گھر میں دینی یا تذکیر ی مجالس کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کو دل ودماغ میں نقش کردیا۔ یہ احساس غالب ہوگیا کہ اس سلسلے میں اب تک بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔
گھر میں تذکیری مجلسیں منعقد کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ روزمرہ زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کی عام ہدایات و تعلیمات کی طرٖف متوجہ کرنے کے علاوہ بعض اوقات گھر کے کسی فرد کو دین کی کسی خاص بات یا روز مرّہ زندگی کے کسی خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا گھر کے لوگوں یا کسی فرد میں خلافِ شریعت معاملات نظر آنے پر انھیں متنبہ کر نا ضروری ہوجا تاہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے جب تذکیری مجلس میں سب کے سامنے یہ باتیں واضح کی جاتی ہیں تو گھر کے تمام لوگوں کو ان سے واقفیت ہوجاتی ہے اور متعلقہ امر یا معاملہ سے متعلق قانونِ شریعت سے عمومی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دوسرے اس طرح کی مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غلطی یا کوتاہی پراجتماعی طور پر متنبہ کر دینے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کو انفرادی طور پر نکیر کرنے یا خطاکار /غلطی کرنے والے سے براہ راست کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ خود سمجھ جاتا ہے کہ اس تنبیہ کا اصل مخاطب کون ہے، اس طرح وہ شرم ساری سے بچ جاتا ہے اور متنبہ کرنے والا انفرادی نکیر کے کسی منفی ردِِّ عمل سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی کوئی غلط بات یا برائی کی خبر ہوتی اور آ پؐ اس کی اصلاح کرنا چاہتے تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ،ایسا کہتا ہے، بلکہ یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا،ایسا کہتے ہیں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، بَابٌ فِیْ حُسْنِ العِشْرَۃِ)، یعنی آپؐ مجلس میں خطا کار کا نام لیے بغیریا اسے براہِ راست مخاطب کیے بغیر غلطی پر متنبہ کر تے اور اصلاح فرماتے۔
حضرت اسماعیلؑ کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اہتمام ا ور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا۵۵ (مریم۱۹: ۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں پسندیدہ تھے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے اجتناب اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کے فوراً بعد اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید کی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے: يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ (لقمان ۳۱:۱۷) ’’اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی حکم فرمایا: وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۰ۭ (طٰہٰ۲۰:۱۳۲) ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود اس پر جمے رہیے‘‘۔
آیت کا آخری حصہ اس لحاظ سے بڑا اہم و سبق آموز ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر والوں کو نماز کی تاکید کرتے رہنے کے ساتھ خود بھی اس پر کار بند رہیں۔ اس سے یہ قیمتی نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی راہ میں سرگرم رہنے والوں اور انھیں نیک کاموں کی دعوت دینے والوں کو پہلے اپنے آپ کو ان کا خوگر بنا نا نہایت ضروری ہے،ورنہ دعوت و تذکیر بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔سچ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سرگرم رہنے والا کون ہوسکتا ہے۔
یہاں نماز کے اہتمام کے باب میں اسوۂ مبارکہ سے متعلق صرف ایک حدیث کا حوالہ کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں لگے رہتے تھے، جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا (یا ایک دوسری روایت کے مطابق اذان ہوجاتی) تو آپؐ بلاکسی تاخیر کے اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب کَیْفَ یَکُوْنُ الرَّجُلُ فِیْ اَھْلِہٖ، صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی اھلہ)۔
سچ بات یہ کہ ’ نہی عن المنکر‘ کے بغیر ’امربالمعروف‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں کام ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے ساتھ ساتھ ذکر کے اہتمام سے واضح ہوتا ہے، اور اہلِ ایمان کے امتیازی اوصاف میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رو کنے کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس صورتِ حال میں جہاں ہر طرف برائیوں کا زور ہو اور لوگ گناہ کے کاموں کے عادی ہوگئے ہوں، وہاں نہی عن المنکر کی ضرورت و ا ہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی کے ہرپہلو سے متعلق گھر کے لوگوں کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا تذکیر و فہمایش کی ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے:اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟۔ امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘ (احیاء علوم الدین)۔
مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔
خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵(الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے‘‘ ۔
اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۱۲۸ۧ (النحل۱۶:۱۲۸) بے شک اللہ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۴ (التوبۃ۹:۴،۷) بے شک اللہ پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔
وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۱۹ ( الجاثیہ ۴۵:۱۹) اللہ تقویٰ والوں کا کارساز ہے۔
یہ آیات اس حقیقت کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ گناہ سے اجتناب سے انسان کو اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہیں اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں، ا للہ ربُّ العزت انھیں پسند فرماتا ہے، اور جسے اللہ پسند فرمائے اور جسے مالک الملک اپنی نصرت کا یقین دلائے ،اس کی سرخروئی و کامیابی میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے ۔
ان آیات سے اللہ کی نگاہ میں تقویٰ والوں کا محبوب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تقویٰ ،جیسا کہ بخوبی معروف ہے، ایک ایسی باطنی صفت یا اندرونی خوبی کا نام ہے جو انسان میں گناہ سے نفرت اور نیکی کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ اس صفت سے متصف یا متقی ہونے کا مطلب ہی ہے اللہ کی عظمت و کبریائی کے احساس، اس کے خوف اور روزِ جزا باز پرس کے ڈر سے گناہوں سے بچنے والا اور خیر کی راہ میں آگے بڑھنے والا۔ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری و باز پرس کا احساس ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے۔ گناہ سے اپنے کو دُور رکھنا (جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے) بہت بڑی نیکی ہے۔ اسے دیگر متعدد آیات میں ’احسان‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ان آیات سے بھی منکشف ہوتا ہے، جن میں اللہ کے سامنے حاضری و جواب دہی کے خوف سے اپنے کو ہوا وہوس، یعنی گناہ کے کاموں سے بچنے والوں کو جنّت کی بشارت دی گئی ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۴۱ (النٰزعٰت: ۷۹ :۴۰-۴۱) اور جو بھی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو بے جا خواہشات سے دور رکھا تو جنّت اس کا ٹھکانا ہے۔
یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ گناہ سے اجتناب اللہ کی نگاہ میں اس وجہ سے محبوب ہے کہ اس میں نفس کے خلاف مجاہدہ ،خواہشات کی قربانی اور رضائے الٰہی کی خاطر لذائذ و مرغوبات کو تیاگ دینا ہے۔ ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کرنے والے کو اصل مجاہد کہا گیا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
المُجَاھِدُ مَن جَاھَدَ نَفسَہٗ ،مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (جامع ترمذی، ابواب فضائل الجہاد،باب ماجاء فی فضل فی من مات مرابطاً ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: سید سلیمان ندوی ،سیرۃ النبیؐ ، محولہ بالا، ۵؍ ۲۷۶ )
قرآن کریم میں انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کو قرار دیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶ (الذاریٰت۵۱:۵۶) ’’اور میں نے جن وانسان کو اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے‘‘ ۔ حقیقت یہ کہ ممنوعات یا گناہوں سے بچنا اللہ کی عبادت و بندگی کا تقاضا ہے۔بلاشبہہ اللہ کی عبادت کا تقاضا اسی وقت پورا ہوسکتا ہے،جب عبادت بجا لانے والا اپنے کو اللہ ربُّ العزت کی مرضیات کے حوالے کردے ، ہر معاملہ میں اس کی اتباع کرے اور ان تمام کاموں سے اپنے کو دُور رکھے جو اللہ کی ناراضی کا موجب بنتے ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ منہیات سے قریب جانا اللہ کی ناراضی مول لینا ہے اور ان سے کُلّی اجتناب کرنا خوشنودیِ الٰہی کا مستحق بننا ہے۔ اس لیے کہ گناہ سے اجتناب میں بڑی آزمایشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں سب سے سخت آزمایش اندرونی و بیرونی دشمن ( نفس و شیطان) سے جنگ ہے۔ اہم بات یہ کہ حدیث میں اس شخص کو سب سے بڑا عبادت گزار(أَعْبَدَ النَّاسِ) بتایا گیا ہے جو ’ محارم‘ ( حرام چیزوں) سے بچے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث ِ نبویؐ کا پہلا حصہ ملا حظہ ہو: اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ(جامع ترمذی،ابواب الزہد عن رسولؐ اللہ،باب من اتّقٰی المحارم اعبد الناس )۔ حرام کاموں سے بچو تو سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے۔اس حدیث کے حوالے سے نامور فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی یہ وضاحت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔خود انھی کے الفاظ میں:’’ پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ ،یعنی تم حرام کاموں سے بچو تو تم تمام لوگوںمیں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤ گے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعے یہ حقیقت واضح فرما دی کہ فرائض وواجبات کی تعمیل کے بعد سب سے زیادہ اہم چیز مومن کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناجائز وحرام کاموں سے بچائے،نفلی عبادتوں کا معاملہ اس کے بعد آتا ہے۔اگر کوئی شخص اس دنیا میں اپنے کو گناہوں سے بچالے تو ایسا شخص سب سے زیادہ عبادت گزار ہے،چاہے وہ نفل زیادہ نہ پڑھتا ہو۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کے ذریعے ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ فر مایا ہے، وہ یہ کہ ہم لوگ بسااوقات نفلی عبادتوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں،مثلاً نوافل پڑھنا، تسبیح، مناجات،تلاوت وغیرہ،حالانکہ ان میں سے کوئی ایک کام ایسا نہیں ہے جو فرض ہو۔ چاہے نفلی نمازیں ہوں،یا نفلی روزے ہوں یا نفلی صدقات ہوں،ان کوتو ہم نے بڑی اہمیت دی ہوئی ہے، لیکن گناہوں سے بچنے کا اور ان کو ترک کرنے کا اہتمام نہیں۔یاد رکھیں کہ یہ نفلی عبادات انسان کو نجات نہیں دلا سکتیں،جب تک انسان گناہوں کو نہ چھوڑے‘‘۔(اصلاحی خطبات، کتب خانہ نعیمیہ،دیوبند،۲۰۰۷ء، جلد۱۶،ص ۹۰-۹۱)
انسان کے جسمانی نظام میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی صحت و درستی پر نہ صرف جسمانی نظام کی بہتری و عمدہ کارکردگی منحصر ہوتی ہے، بلکہ فکر ی و عملی نظام کی اصلاح و پاکیزگی بھی اسی پر موقوف ہے۔ اللہ کی نگاہ میں محبوب بننے اور اس کی قربت سے مشرف ہونے کے لیے قلب کی تطہیر،نفس کا تزکیہ، یعنی بُرے خیالات کی آلودگی و گناہ کی آلایشوں سے دل کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر دل اللہ کی محبت کے لائق نہیں بن سکتا۔ یہ حقائق ان آیات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں جن میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اللہ ربّ العزت کن لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور کن کو ناپسند ۔ قرآن کے مطابق اللہ ان لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے جو کفر و انکارِ حق، ظلم و زیادتی، فتنہ و فساد، کبر و غرور،خیانت و بد دیانتی،اسراف و فضول خرچی اور ناشکری یا کسی بھی گناہ کے کام میں مبتلا ہیں ( آل عمران ۳: ۳۲ ؛ ا لروم۳۰:۴۵؛ البقرۃ۲:۱۹۰؛ آل عمران ۳:۵۷،۱۴۰؛ المائدۃ ۵:۸۷؛ الشوریٰ۴۲:۴۰ ؛ البقرۃ ۲:۲۰۵؛ المائدۃ۵:۶۴؛ القصص ۲۸: ۷۷؛ النساء ۴:۳۶؛ النحل ۱۶:۲۳؛ الحدید۵۷:۲۳ ؛ القصص ۲۸:۶ ۷ ؛ النساء۴:۱۰۷؛ الانفال۸: ۵۸؛ الحج۲۲: ۳۸ ؛ الاعراف ۷:۳۱ ؛ البقرۃ ۲:۲۷۶ )۔
l آفات و مصائب کاسبب:اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اسے ناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وضاحت ایک حدیث قدسی سے ملتی ہے۔ حضرت ابو درداءؓ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ میں اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہوں کا مالک ہوں، بادشاہوں کا بادشاہ ہوں… لہٰذا اے میرے بندو! [ایسی حالت میں ] ان بادشاہوں کو کوسنے اور انھیں بد دُعا دینے کے بجائے میری یاد میں لگ جاؤ اور [حالات میں تبدیلی کے لیے] ذکر اورتضرع ( رو نے اور گڑگڑانے ) میں مصروف ہوجاؤ۔ میں ان بادشاہوں ( کے شر سے حفاظت کے) لیے تمھاری کفایت کروں گا،یعنی تمھیں اپنی نصرت سے نوازوں گا (محمدابن عبداللہ الخطیب تبریزی، تحقیق : محمد ناصر الدین الالبانی)، مشکوٰۃ المصابیح [کتاب الامارۃ والقضا، الفصل الثالث]، منشورات المکتب الاسلامی، دمشق، ۱۳۸۱ھ؍ ۱۹۶۱ء ، ۲؍ ۳۲۸۔۳۲۹)۔
بلاشبہہ گنا ہ کا ارتکاب،چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ، اللہ کی نافرمانی ہے۔ ( اگر اس کی معافی نہیں ہوئی تو ) ا نسان دنیا میں بھی اس کے وبال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں اسے بھگتنا پڑتا ہے یا پڑے گا ۔ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برے اعمال یا گناہ کے کام اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا وبال پریشانیوں و مصیبتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱( الروم۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں ہر طرف فساد برپا ہوگیا لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے،تاکہ وہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید وہ اللہ سے رجوع کر لیں[ اور بُرے اعمال سے باز آجائیں ] ۔
صاحبِ معارف القرآن تفسیر روح المعانی کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا،نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہو جا نا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسان کے گناہ اوراعمالِ بد ہوتے ہیں،اور یہی مضمون ایک دوسری آیت میں اس طرح آیا ہے: وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۳۰ ) تمھیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارےہاتھوں کی کمائی کے سبب ہے،یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوںکو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔گرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہےاور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے،بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔بعض گناہ پر ہی گرفت ہوتی ہے اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پرزندہ نہ رہتا،مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو حق تعالیٰ معاف ہی فرمادیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا،بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایاجاتا ہے، جیساکہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا: لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِىْ عَمِلُوْا (الروم ۳۰:۴۱)،یعنی تاکہ چکھا دے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے بُرے اعمال کا‘‘ (معارف القرآن، مکتبہ مصطفائیہ،دیوبند، ۶؍ ۷۵۲-۷۵۳) ۔
مذکورہ بالا آیت کی اس ترجمانی کے حوالے سے یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ انبیا کرامؑ اور اللہ کے نیک و متقی بندے بھی مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اس کا جواب مفسرین نے اس طور پر دیا ہے کہ آیت میں گناہوں کو مصائب کا سبب ضرور بتایا گیا ہے ،لیکن اسے علتِ تامّہ یا سببِ واحد کے طور پر نہیں ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت آپڑے اس کا گنہگار ہونا لازمی ہے۔بعض اوقات مصائب و مشکلات آزمایش و امتحان اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کی صورت میںرفعِ درجات کے لیے ہوتی ہیں۔انبیا کرامؑ کے تعلق سے مصائب و پریشانیوں سے یہی مقصود رہا ہے اور کسی بھی دور میں نیک لوگوں کے مصائب و پریشانی سے دوچار ہونے پر ان کی یہی علّت یا حکمت سمجھنی چاہیے(معارف القرآن، ۶؍۷۵۴-۷۵۵)۔
ا وپر کی باتوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ ربِّ کریم کو راضی کر لے ،یعنی اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھے جنھیں اللہ تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے ۔ بلاشبہہ گناہوں سے بچنے سے اللہ کی خوش نودی نصیب ہو تی ہے اور یہ بالآخر موجبِ رحمت و قربتِ الٰہی بنتی ہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ البقرۃ میں اوامر یا نواہی کے ذکرکے بعد نو مقامات پر فرمانِ الٰہی ہے: وَاتَّقُوْااللہَ۔اس آیت کا ترجمہ مختلف طور پر (اللہ سے ڈرو، اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرو، اللہ کی ناراضی سے بچو،اللہ کے غضب سے بچو) کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ یہ اللہ کا خوف ہی ہے جو انسان کو اللہ رب العزت کی نافرمانی،اس کی ناراضی کے کاموں یا اس کے غضب سے بچنے پر اُبھارتا ہے۔
اسی ضمن میں اس جانب متوجہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گنا ہ کا ایک دنیوی وبال یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نیک عمل کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے، اور گناہ سے بچنے کا ایک فیض یہ ہے کہ اس سے نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔ یہ نکتہ خود قرآن کریم کی بعض آیات سے سامنے آتا ہے۔ سورۃ المومنون کی آیت:۵۱ يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۵۱ۭ ’’ اے رسولوؑ! پاک چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو،بے شک میں اس سے با خبر ہوں جو تم کرتے رہتے ہو‘‘کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’علما نے فرمایا کہ ان دونوں( پاک روزی و عملِ صالح) کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عملِ صالح میں بڑا دخل ہے۔جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں ‘‘ (معارف القرآن، ۶؍ ۳۱۶)۔ بلا شبہہ حرام مال کمانا اور اسے استعمال کرنا سخت گنا ہ ہے۔ اس کے بہت نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ آمدنی یا مال سے برکت اُٹھ جاتی ہے، جسمانی، ذہنی و فکری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اور حرام مال سے اولاد کی پرورش پر بھی اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔
ایک جدید عربی تفسیر’ نظرات فی کتاب اللہ کی مؤلفہ محترمہ زینب الغزالی نے بھی مذکورہ آیت کے حوالے سے حلال روزی کی برکات کو بڑے اچھے انداز میں واضح کیا ہے۔ متعلقہ حصہ کا اردو ترجمہ ملا حظہ ہو: ’’ پھر اللہ نے اپنے رسولوں اور تمام مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ حلال اور پاکیزہ کما ئی کھائیں اور نیک اعمال کریں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حلال عملِ صالح میں معاون بنتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ ظاہراو ر باطن ہر چیز سے واقف ہے۔حلال کی تلاش برکت کا سبب ہے۔اسی طرح حلال کی تلا ش سے انسان کو عمل صالح میں تعاون ملتا ہے۔حلال کھانے کا نفس پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے،جس کے نتیجے میں نفس خیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور برائی سے باز رہتا ہے،کیوں کہ بدن کی غذا اگر حرام ہے تو بدن پر تاریکی چھا جاتی ہے ،اگر حلال ہے تو جسم میں نور اور صالح قوت پیدا ہوتی ہے جو ہدایت کا سبب بنتی ہے‘‘ (زینب الغزالی، اردومترجم:عبد الحمید اطہر ندوی،نظرات فی کتاب اللہ، المنار پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۲۰ء،۲؍۴۹۸)
l دُعا کی قبولیت:مزید یہ کہ گناہوں سے اجتناب کی ایک بہت بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے دعاؤں کی قبولیت کی راہ ہموار ہوتی ہے،یعنی رزقِ حلال استجابتِ دعا کا مستحق بنا تا ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ حرام کمائی دعاؤں کی قبولیت میں حارج بنتی ہے۔ ہادیِ برحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکلِ حلال کی تعلیم دیتے ہوئے ایک دفعہ مذکورہ بالا آیت اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۸ (يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِـمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا)کی تلاوت فرمائی اور پھر صاف لفظوں میں واضح کیا کہ حرام روزی کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، خواہ وہ بار باردونوں ہاتھ پھیلا کر رب سے دعا کیوں نہ کرتے رہیں۔ اس حدیث میں بڑی عبرت و نصیحت ہے:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک چیزہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے جس کا م کا حکم پیغمبروں کو دیا تھا اسی کا حکم مومنوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے فرمایا ’’تم سب پاک چیز کھاؤ اور تم جوکچھ کروگے میں اس سے با خبر ہوں‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے مو منین سے فرمایا ’’مومنو! ہم نے جو چیزیں تم کو عطا کی ہیں ان میں سے پاک چیزیں کھاؤ‘‘۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر اختیار کیا اور جس کے بال پریشاں و گرد آلود ہورہے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہا ہے: اے پروردگار، اے پروردگار (یعنی دعا مانگ رہا ہے) [ لیکن حالت یہ ہے کہ ] اس کا کھانا بھی حرام، پینا بھی حرام ہے، لباس بھی حرام ہے اور غذا بھی حرام۔ پھر کیوں کر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے] ۔ (صحیح مسلم )
مزید اہم بات یہ کہ روزانہ صبح کو جن دعاؤں کا مانگنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے، ان میں یہ دُعا بھی شامل تھی:
اللّٰھُمَّ اَنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَ رِزْقًا طَیَّبًا وَ عَمَلًا متقبّلًا (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب یقالُ بعد التسلیم) اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم ، پاک روزی او ر ( تیری بارگاہ میں ) مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کی توفیق طلب فرماتے تھے ان کے موجبِ خیر و برکت ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتاہے۔
مختصر یہ کہ گناہ کے ارتکاب کے دنیوی و اخروی نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان اللہ ربّ العزت کی ناراضی ہے۔ سچ یہ کہ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اسے کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ بلاشبہہ ہر انسان ہر حال میں اللہ کی مدد کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک اس کی نصرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ قرآن کا بہت ہی صاف صاف اعلان ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۱۵ (فاطر۳۵ :۱۵) اے لوگو! تم سب ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اوراللہ( ہر حال میں) لائقِ حمد و ستایش ہے۔
موجودہ حالات میں ، جب کہ طرح طرح کے مصائب و مسائل کا سامنا ہے،اللہ سے رجوع اور اس کی نصرت طلب کرنے کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے یہ ہمارے لیے انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، گناہ سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔ بلا شبہہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بڑا مؤثر ذریعہ ہے ۔ حقیقت یہ کہ ربِ کریم کو راضی کیے بغیر ہمارا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اور نہ مصائب و مشکلات ہی سے نجات ملنے والی ہے۔ اللہ کرے یہ حقیقت اچھی طرح ہم سب کے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔
ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۳۴ ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴) اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
انسان اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ بلاشبہہ دینِ برحق دونوں حقوق کی اد ایگی سے عبارت ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے اس آیت میں جس عہد یا وعدہ کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دونوں عہد کے پورا کرنے کی بار بار تاکید بھی ہے ۔ مذکورہ بالا آیت سے نامور سیرت نگار مولانا سید سلیمان ندویؒ کا اخذ کردہ یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ ’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی‘‘(سیرۃ النبیؐ، دارالمصنّفین، شبلی ا کیڈمی، اعظم گڑھ،ج۶،ص ۳۹۵)۔
یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن میں وعدہ کے لیے مختلف الفاظ (عہد، میثاق، وعد ، موعد) استعمال ہوئے ہیں، لیکن ان میں سب سے جامع لفظ ’ عہد ‘ ہے، جس میں دیگر الفاظ کے مفہوم شامل ہیں۔ قر آ ن کریم میں عہد یا وعدہ کو پورا کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس میں وہ عہد شامل ہے جو فطری طور پر اللہ اور انسان کے مابین قرار پاتا ہے۔ وہ عہد بھی شامل ہے، جو اللہ بندے سے لیتا ہے۔ وہ وعدہ بھی جو بندہ اللہ سے کرتا ہے اور وہ قول و قرار بھی اس میں آتے ہیں، جو اللہ کے بندوں کے مابین ہوتے ہیں۔ قرآن میں یہ سب وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔
l وعدہ کا جامع مفہوم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۱۵۲ۙ (الانعام۶:۱۵۲) ’’ اور اللہ کا وعدہ پورا کرو، اس نے اس کی تم سب کو نصیحت کی ہے تاکہ یاد کرلو‘‘۔ صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کی تشریح میں تحریر فرماتے ہے: ’’’اللہ کے عہد ‘ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے،اور وہ بھی جو انسان اور خدا اور انسان اور انسان کے درمیان ا سی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے‘‘ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۰۰ ) ۔
ان سب سے یہ واضح ہوا کہ قرآن کی رُو سے عہد یا وعدہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ عام طور پر لوگ عہد سے مراد صرف وہ قول و قرارلیتے ہیں جو معاملات طے کرتے ، بالخصوص مالی معاملہ کے وقت کیا جاتا ہے، جب کہ وسیع مفہوم میں اس کا اطلاق مذہب،اخلاق، معاشرت، معیشت اور عام معاملات کی ان تمام صورتوں پر ہوتا ہے جن کا پابند رہنا شرعی،اخلاقی اور قانونی اعتبار سے فرض کے برابر ہے۔
اللہ ربّ العزت سے کیے گئے وعدہ کی اہمیت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ قرآن وعدہ کرنے والوں کو اس سے متنبہ کرتا ہے کہ اسے بہرحال پورا کرنا ہے ،ورنہ اس سے متعلق بازپُرس سے بچ نہیں سکتے۔ منافقین کو دین کی خاطر قربانی کے لیے ان کے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے قرآن انھیں اس طور پر متنبہ کرتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۰ۭ وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۱۵ (الاحزاب۳۳:۵ا) اور اس سے قبل انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ[مخالفین سے جنگ میں] پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے کیے گئے عہد کے بارے میں باز پرس تو ہو نی ہی تھی۔
قرآن میں اُس عہد یا وعدے کو پورا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے جو انسان اللہ کا نام لے کر کر تا ہے اور اس پر قسمیں کھا کر اسے پختہ کرتا ہے۔ ایسے عہد کو نہ توڑنے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے ۔ ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا۰ۭ اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۹۱ (النحل ۱۶: ۹۱) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمھارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
لو گ آپس میں ایک دوسرے سے جو وعدے ( خاص طور سے مالی معاملات سے متعلق ) کر تے ہیں ان کی پابندی کی ہدایات کے ضمن میں عام طور پر اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ ( المائدۃ ۵:۱) ’’اے اہلِ ایمان قول و قرار پورا کرو‘‘۔ بعض مفسرین نے ’ عقود‘ میں روز مرّہ زندگی سے متعلق شریعت کے تمام اصول و ضوابط کو شامل کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ شریعتِ الٰہی کا ہر ضابطہ ( ا للہ پر ایمان لانے کے بعد) ایک طرح سے صاحبِ ایمان کا اللہ سے معاہدہ ہوتا ہے اس کو پورا کرنے اور اس کو کسی بھی حالت میں نہ توڑنے کا۔ اور آیت میں دراصل اسی قول و قرار کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے جو شریعت کو قبول کرنے والا اللہ سے کرتا ہے ( تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۳۷ )۔
ایفاے وعدہ اہلِ ایمان کی شناخت ہے۔ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنینِ صادقین یا اپنے مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں:
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ۲۰ۙ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ ( الرعد۱۳:۲۰-۲۱) اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑتے نہیں۔ اور ان کی یہ روش ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں جوڑتے ہیں۔
ان آیات کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ پہلے عہد کا تعلق اللہ سے کیے گئے وعدے سے ہے، جب کہ دوسرے کا ان وعدوں سے جو اہلِ قرابت آپس میں فطری طور پر کرتے ہیں ( سیرۃ النبیؐ،ج۶،ص ۲۹۸)۔ قرآن میں اللہ کے مومن بندوں کی شان یہ بتائی گئی ہے: وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) ’’اور جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں‘‘۔ اسی طرح اللہ کی بندگی بجا لانے میں سر گرم رہنے والوں کا ایک امتیاز یہ بھی بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲(المعارج ۷۰:۳۲) ’’اور جو اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے عہد کا پاس و لحاظ کرنے والے ہیں‘‘۔ مزید برآں مومنین صادقین کا ایک وصفِ خاص یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو سچ کر دکھاتے ہیں، جیسا کہ یہ آیت بتا رہی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ (الاحزاب۳۳:۳ ۲) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایاہے۔ ان میںکوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
l وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ قرآن و حدیث دونوں میں اہلِ ایمان کے مطلوبہ اوصاف میں ایفاے وعدہ اور امانت داری دونوں خوبیاں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس کے برخلاف عہد شکنی کرنے والوں کو مفسد قرار دیتے ہوئے ان کے انجامِ بد سے اس طور پر انھیں متنبہ کیا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ۰ۙاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۲۵ (الرعد ۱۳:۲۵) جو اللہ سے کیے گئے عہد کو اسے مضبوط باند ھ دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کواللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے [آخرت میں] بدترین گھر ہے۔
ان آیات سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنا انتہائی سنگین جرم ہے اور بار بار اس جرم کو کرنے والے خیر کی قبولیت کی صلاحیت سے محروم اور رحمتِ الٰہی سے دُور کردیے جاتے ہیں اور آخرت میں ان کا جو بدترین انجام ہو گا وہ علیحدہ ہے۔
قرآن سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وعدہ خلافی و کذب دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دونوں کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے۔ دونوں کو نفاق کی و ا ضح علامت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں منافقین کو کاذبین و مفسدین کہا گیا ہے (البقرۃ ۲:۱۱-۱۲، ۲۷، الرعد ۱۳:۲۵، المنافقون ۶۳:۱) اور اس سے بھی باخبر کیا گیا ہے کہ کاذب و عہد شکن کا وہی انجام ہوتا ہے جو منافقین کے لیے مقدر ہے (النساء ۴: ۱۴۰،۱۴۵)۔ مزید یہ کہ قرآن یہ بھی بتاتاہے کہ عہد شکنی و وعدہ خلافی سے دل میں نفاق کی پرورش ہوتی ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کے ذکر میں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کیا تھا کہ اگر اللہ کے فضل و کرم سے انھیں مال نصیب ہوا تو وہ صدقہ و خیرات کریں گے، لیکن مال ملنے کے بعد وہ اس وعدہ کو بھول گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۷۷ (التوبۃ۹:۷۷) نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جوبولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا جو اس کے حضور ان کی پیشی تک پیچھا نہ چھوڑے گا ۔
نفاق کی علامات کے بارے میں یہ حدیث بہت مشہور ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُریْرَۃَ انَّ رَسُوْلَ اللہَ قَالَ : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَاِذَا اوئْتُمِنَ خَانَ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔
دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو: لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ ، ’’اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۹ء،ج۶،ص ۴۷۱)۔
ایک حدیث کے مطابق ایفاے وعدہ ان خصوصی اوصاف میں شامل ہے جن سے مزین ہونے والوں کو جنت نصیب ہو نے کی ضمانت دی گئی ہے۔ حضرت عبادہ ابن صامتؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے چھے چیزوں (کے پورا کرنے) کا ذمہ لے لو تو میں تمھارے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں: اضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃ (مسنداحمد، سندالانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت، حدیث:۲۲۱۶۶) ان چھے باتوں میں سے اولین دو کا تعلق سچ بولنے اور وعدہ پورا کرنے سے ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کا نام لے کر عہد کرے اور پھر اسے توڑ دے تو وہ ایک حدیثِ قدسی میں مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان تین افراد میں شامل ہوگا جن کے خلاف روزِ قیامت خود اللہ تعالیٰ خصم (فریقِ مقدّمہ) بنیں گے۔ حدیث کا متعلقہ حصہ ملاحظہ ہو:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ ثَلَاثَۃٌ اَنَـا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، رَجَلٌ اَعْطیٰ بِیْ ثُمَّ غَدَرَ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔
حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔ غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کرلی، لیکن کفّارِ مکہ(جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکا رہے ( سیرۃ النبی ؐ،ج۲،ص ۲۷۷ ) ۔
بلا شبہہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے، جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ( سیرۃ النبیؐ، ج۲، ص ۲۷۶، ۲۷۷ ،ج۶،ص۳۹۹، ۴۰۰) ۔
l وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل : ان تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اللہ کے بندوں سے کیے گئے وعدے یا قول و قرار کی خلاف ورزی کا معاملہ اس پہلو سے بھی سنگین ہوجا تا ہے کہ یہ معاملہ حکمِ الٰہی کی سرتابی کے ساتھ اللہ کے بند وں کے لیے باعثِ زحمت و موجبِ تکلیف ہوتا ہے۔ قرآن کا یہ صاف اعلان ہے کہ اللہ ہر گز ایسے کام کو پسند نہیں فرماتا جس سے اس کے بندوں کو تکلیف پہنچتی ہے یا ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
ان سب ہدایات و تعلیمات کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرے میں جو خرابیاں در آئی ہیں ان میں وعدہ خلافی نے ایک عام برائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے برائی بھی نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے ذہنوں سے ایفاے وعدہ کی اہمیت نکلتی جارہی ہے۔ وعدہ خلافی کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے اور یہ احساس بھی نہیں ہو تا کہ اس کے لیے آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا، جب کہ قرآن میں بہت واضح طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ عہد اور وعدے کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلسل وعدہ خلافی کرنے والے اپنی کوتاہی کو چھپانے کے لیے ایسی ایسی ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ بلا شبہہ وعدہ خلافی ان لوگوں کے لیے بھی وبال کا باعث بنتی ہے جو اس بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جب بار بار کسی سے وعدہ خلافی ہوتی ہے تو ایسے شخص کا اعتبار اٹھ جاتا ہے یا وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور یہ یقیناً بہت بڑی دولت سے ہاتھ دھونا ہے۔ دوسرے کسی کام کے لیے وعدہ خلافی کرنے پر بعض اوقات اسی کام کے لیے بار بار دوڑنا پڑتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے ایک بار وہ کام ٹل گیا تو پھر دوبارہ ہو ہی نہیں پاتا جس کے لیے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں اصحابِ معاملہ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انھیں جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ علٰٰیحدہ ہے۔
وعدہ خلافی کی وجہ سے سامنے آنے والی ان تکلیف دہ باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وعدہ خوب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور کسی سے ایسا وعدہ نہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جاسکے یا جس کا پورا کرنا انتہائی مشکل ہو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے مروی آپؐ کایہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو ( وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِداً فَتُخْلِفَہٗ ، جامع ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء)۔وعدہ خلافی کی وجہ سے پیش آنے والی زحمتوں اور پریشانیوں سے بچنے بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ ہو سکے یا پورا نہ ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں صاحبِ معاملہ( یعنی جس سے کوئی وعدہ کیا گیا ہے) کو اس سے با خبر کردیا جائے اور اگر وقت ہے تو بہتر ہوگا کہ اس کی پیشگی اطلاع دی جائے ۔
♦ ایفاے عہد کی برکات :دوسری جانب اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پا جا تا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔
سورۃ المعارج کی آیت۳۲ کے حوالے سے اہلِ ایمان کے اوصاف میں ’ایفاے وعدہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے اس وصف کے فضائل وبرکات میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ (راہیں کھلتی ہیں، ۲۰۱۷ء،ص ۸۱) ۔
♦ وعدہ اور احساسِ جواب دہی: رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے و ا لوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔
مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرُضٰی، آمین ثمّ آمین!