ارشادِ الٰہی ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔
اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔
جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔
اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔
مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔
یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔
در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:
ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۱۰ (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔
یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔ مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔
آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ وَلَا یَکْذِبُہٗ وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔
درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ فَاِذَا خَانَہٗ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!