جنوری ۲۰۲۲

فہرست مضامین

خیانت اور خیانت کار

پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی | جنوری ۲۰۲۲ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

ارشادِ الٰہی ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۝۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔

  • خیانت کی اقسام: امانت کی طرح خیانت کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم میں جہاں امانت کی ادائیگی کا تاکیدی حکم ہے (النساء۴:۵۸)، وہاں لفظ’امانات‘ ( جمع) استعمال ہوا ہے اور جن آیات میں امانت کی ادائیگی اہلِ ایمان کے ایک امتیازی وصف کے طور پر بیان ہوئی ہے ان میں بھی’امانات‘ ہی مذکور ہے (المؤمنون۲۳:۸؛ المعارج۷۰:۳۲)، اور جہاں امانت میں خیانت کی ممانعت وارد ہوئی ہے(الانفال۸: ۲۷)، وہاں بھی جمع ہی مستعمل ہے۔ اس سے یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہیں، اسی طرح اس کی ضد، یعنی خیانت کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور یہ تمام کی تمام ممنوع ہیں۔ ان میں دو سب سے بڑی یا بد ترین قسم کی خیانت اللہ و رسولؐ اور ا للہ کے بندوں کے ساتھ خیانت ہے۔ ان کے علاوہ خیانت کی اور جتنی شکلیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی طور پر ان میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ارشادِربّانی ہیں:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔

  اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔

جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔

اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔

 مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔

یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔

  • خیانت  کیسے جنم پاتی ہے؟: اسے سمجھنے کے لیے یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ   یہ ایک ایسی بُری خصلت ہے جس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے۔ در اصل نیت کا فتور، بُرا ارادہ یا ناپاک جذبہ ہوتا ہے جو انسان کو خیانت کے ارتکاب پر ابھارتا ہے۔ اس میں فریب دہی و بددیانتی مضمر ہوتی ہے اور نفاق و کذب بیانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نفاق اور جھوٹ لازم و ملزوم ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے ( المنٰفقون۶۳:۱-۲)۔ حدیث میں منافق کی تین علامات میںپہلی علامت جھوٹ بولنے کو قرار دیا گیا ہے: آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : اِذا حدّث کَذَبَ (صحیح بخاری،کتاب الایمان،باب علامات المنافق، حدیث:۳۳)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ نفاق دل میں چھپی ہوئی بیماریوں میں سے ہے۔قرآن کی متعدد آیات میں ’ المنافقون ‘کے ذکر کے فوراً بعد یہ مذکور ہے : وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِـہِمْ مَّرَضٌ (الانفال ۸:۴۹، الاحزاب۳۳: ۱۲،۶۰) ’’اور وہ جن کے دلوں[ اندرون] میں مرض ہے ‘‘۔ خیانت، جو نفاق کی ایک واضح علامت ہے، اس کے باطنی خرابی یااندرونی بیماری ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔

در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۝۱۰  (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔

 یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔  مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔

آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔

  • خیانت  سے پناہ طلب کرنا :ان سب کے علاوہ خیانت کے ایک چھپی ہوئی بری خصلت ہونے پر یہ امر بھی شاہد ہے کہ نبی کریمؐ اپنی دعائوں میں جن چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ان میں خیانت بھی شامل تھی۔آپؐ کے یہ کلماتِ استعاذہ ملاحظہ ہوں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْع فَاِنَّہٗ  بِئسَ الْضَجِیْعُ وَ  اَعُوذُ بِکَ  مِنَ اْلخِیَانَۃِ فَاِنَّہَابِئْسَتِ  الْبِطَانَۃُ  (سنن نسائی، کتاب ۱لا ستعاذۃ ، باب الاستعاذۃ من الجوع ، حدیث: ۷۶۴۱) ’’اے اللہ ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں،اس لیے کہ یہ بُرا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، بے شک یہ بد ترین باطنی خصلت ہے‘‘۔ اس حدیث پاک کا آخری لفظ البطانۃ  گہری توجہ چاہتا ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خیانت کا تعلق باطن یا انسان کے اندرون سے ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ایسی اندرونی بیماری ہے کہ جس کو یہ لگ جاتی ہے ، نہ صرف اس کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے، بلکہ جو بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں اور خیانت کی زد میں آتے ہیں ، ان کے لیے بھی تکلیف دہ بنتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور لفظ ’البطانۃ‘ کا اردو ترجمہ مختلف طور پر: بُری باطنی خصلت، بہت برا اندرونی ساتھی،بدترین چھپا ہوا ساتھی،اندرونی برائی،چھپی ہوئی برائی کیا گیا ہے۔ ’خیانت ‘کے محرکات و نتائج کو محسوس کرکے اس کا توضیحی ترجمہ ’بدترین باطنی خصلت‘ یا ’ بدترین اندرونی بیماری‘ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک باطنی بیماری کی حیثیت سے خیانت کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے ۔
  • خیانت اور کذب : نفاق کی تین واضح نشانیوں میں کذب او ر خیانت ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت وضاحتی ہو تی ہے کہ خیانت اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے۔ جھوٹ،جھوٹی گواہی، غلط بیانی کا ایک اندرونی برائی ہونا بخوبی معلوم ہے۔ حضرت ابو امامۃؓ سے مروی اس ارشادِنبویؐ میں مزید واضح طور پر سامنے آتا ہے ؛ یُطْبَعُ الْمُوْمِنُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ   اِلَّا الْخِیَانۃَ وَالْکَذِبَ (للبہیقی، کتاب الشہادت، باب من کان منکشف الکذب، حدیث: ۱۹۳۷۷)’’مومن کی طبیعت میں ہرچیز( خصلت) کے پائے جانے کا امکان ہے سوائے خیانت و کذب کے‘‘۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ  وَلَا یَکْذِبُہٗ  وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔

  • مسلم و غیرمسلم سے خیانت جائز نہیں: واقعہ یہ کہ خیانت ایسی بری حرکت اور مہلک خصلت ہے کہ اسلام میں کسی کے ساتھ بھی اس کا ارتکاب روا نہیں ہے۔ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں اسے روا نہیں رکھا گیا ہے ،حتیٰ کہ کسی کے ساتھ انتقاماً بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر غیرمسلموں کے ساتھ کوئی عہد وپیمان ہوا ہے اور انھوں نے کوئی غلط طرزِ عمل اختیار کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی سے قبل عہد و پیمان کو باقاعدہ منسوخ کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ کارروائی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور خیانت کے زمرے میں آئے گی ،جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت ۵۸ سے واضح ہوتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ خیانت کا معاملہ کریں، جو ان کے ساتھ خیانت کا رویہ اختیارکرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ملا حظہ ہو : اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی مَنْ ائْتَمَنَکَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ  (جامع ترمذی، ابواب البیوع، باب اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی      مَنْ ائْتَمَنَکَ، حدیث:۱۲۲۲) ’’امانت اس کے حوالے کردو جس نے تمھیں (کسی چیز کا) امین بنا یا ہے اور اس کے ساتھ( بھی) خیانت نہ کرو جو تمھارے ساتھ خیانت کا معاملہ کرے‘‘۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام میں امانت کی پاس داری کو کس قدر اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ خیانت کتنی بُری حرکت ہے کہ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
  • خیانت کفرانِ نعمت ہـے: خیانت اس اعتبار سے بھی نہایت نا پسندیدہ اور اللہ  رب العزت کو ناراض کرنے والی حرکت ہے کہ اس میں کفرانِ نعمت، یعنی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں (جسمانی قوت ،ذہنی صلاحیت،سمجھ بوجھ، فہم و علمی استعداد،مال و دولت وغیرہ) کی ناشکری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی نگاہ میں خیانت کرنے والوں کے ناپسندیدہ ہونے کے ذکر کے فوراً بعد ’کفور‘ ( ناشکرا) کا لفظ آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝۳۸(الحج۲۲:۳۸ ) ۔ اس سے خود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیانت میں کفرانِ نعمت بھی ہے۔اس آیت کی تشریح میں صاحبِ ِتفہیم القرآن  تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ کی ناپسندیدگی اس وجہ سے ہے کہ خائن ؍ خوّان ہر اس نعمت میں خیانت کررہا ہے، جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اورکفرانِ ِنعمت اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ( تفہیم القرآن، ج۳، ص ۲۳۱)۔

درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۝۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

  • خدا کی نصرت سے محرومی:  خیانت یا خفیہ طور پر بد دیانتی کے ذریعے اپنے فائدہ کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ذہنی اذیت دینے والے کوآخرت میں جس سخت عذاب کاسامنا ہو گا (الانعام ۶:۱۲۴، فاطر ۳۵:۱۰) وہ اپنی جگہ ہے، ایسا کرنے والے دنیا میں اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ خیانت کے ارتکاب کے لیے خفیہ تدبیریں،سازشیں و بری چالیں ( چھپانے کی طرح طرح کی حرکتوں کے باوجود) کسی نہ کسی طرح بے نقاب ہوکر رہتی ہیں جو ذلت و رسوائی اور دنیوی گرفت اور مختلف قسم کے نقصانات کا ذریعہ بنتی ہیں (المائدہ ۵: ۱۳؛ الانبیاء۲۱:۷۰؛ الصّٰفّٰت ۳۷:۹۸)۔ دوسرے بعض اوقات خیانت کار اور مکر وفریب کر نے والے خود اپنی ہی بری چالوںمیں گھر جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے (فاطر۳۵:۴۳)۔ تیسرے اللہ کی تدبیرِ متین کے آگے فریب دہی و بُری چال کے ذریعے خیانت کی حرکتیں چل نہیں پاتیں، بالآخر وہ ناکام ہو کر رہتی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۵۴، الاعراف ۷:۹۹،۱۸۳،یوسف۱۲:۳۴، النمل ۲۷:۵۰، فاطر۳۵:۱۰، المومن۴۰: ۲۵، ۳۷،  القلم ۶۸:۴۵؛الفیل ۱۰۵:۲)۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ کہ ان سب بیانات کے ثبوت میں قرآن نے واقعاتی شواہد بھی پیش کیے ہیں جو متعلقہ آیات کے سیاق و سباق پر گہری نظر ڈالنے سے سامنے آ جا تے ہیں ۔

قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ  فَاِذَا خَانَہٗ  خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا  (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔

  • خیانت کا تدارک: رہا یہ مسئلہ کہ یہ اندرونی بیماری کیسے دُور ہوگی؟اس باطنی مرض سے نجات و حفاظت کے لیے ہمارے لیے کون سا نسخہ مفید یاکارگر ثابت ہوگا ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ خیانت کا تعلق،جیسا کہ واضح ہو گیا، انسان کے اندرون سے ہے،یعنی یہ ایک چھپی ہوئی بیماری ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت کے عالم الغیب و والشہادۃ ہونے میں یقین کو تازہ بتازہ رکھنا ا و ر اسے مستحکم بنانا اور ہمیشہ اس حقیقت کا استحضار بہت مفید و مؤثر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر بات ،کھلے و چھپے ہر قول و فعل سے باخبر رہتا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تجویز کردہ ہے، انھی کے الفاظ میں ملا حظہ فرمائیں:’’خیانت صرف دل ہی سے نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک ایک عضو سے ہو سکتی ہے،یہاں تک کہ چشم و ابرو کے اشاروں سے ہو سکتی ہے،لیکن اگر یہ یقین ہو کہ ایک ذات ہے جو چوری چھپی کی ہرحرکت سے ہر وقت با خبر رہتی ہے تو پھر انسان کو کسی قسم کی خیانت کاری کی جرأت نہ ہو۔اسلام اسی یقین کو پیدا کرکے خیانتوں کا خاتمہ کرتا ہے، فرمایا: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹   (المومن۴۰:۱۹) ’’اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کاری کو اور جو چھپا ہوا سینوں میں ہے‘‘ (سیرۃ النبیؐ،ج۶، ص ۳۹۸)۔ 

 اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!