ترجمہ و تشریح: مولانا محمد فاروق خاں
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م:۱۷۶۲ء)کی مرتب کی ہوئی یہ چہل حدیث مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ اس چہل حدیث کی تمام احادیث کوشاہ صاحبؒ نے ایک ہی سلسلۂ سند سے روایت کیا ہے اور اس سند کے صحیح اورمستند ہونے پراپنا اطمینان ظاہر فرمایا ہے ۔ان احادیث کے رواۃ کے اسمائے گرامی، شاہ صاحب نے ۲۴نقل کیے ہیں۔ گویا ۲۴واسطوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث شاہ صاحب ؒ تک پہنچی ہیں۔ آخری راوی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ احادیث کو میں نے اسی ترتیب سے نقل کیا ہے ،جس ترتیب سے شاہ صاحبؒ نے ان کو مرتب فرمایا ہے اور سب کے ساتھ ان کے مآخذ بھی درج کردیئے ہیں۔
چہل حدیث میںنقل کی گئی حدیثیں نہایت جامع اورزندگی کے مختلف گوشوں پرحاوی ہیں۔ احادیث کے الفاظ اگرچہ مختصر ہیں، مگر معانی ومفاہیم کے لحاظ سے ان میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ چونکہ الفاظ مختصر ہیں اس لیے ان کو یادکرنا اوربرابرپڑھتے رہناکچھ مشکل نہیں ہے۔ لوگوں کی آسانی کے لیے احادیث کا اُردو ترجمہ اور مختصر تشریح بھی کردی گئی ہے ۔
یہ حدیث مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے: لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اَخْبَرَمُوْسٰی بِمَاصَنَعَ قَوْمُہٗ فِی الْعِجْلِ فَلَمْ یُلْقِ الْاَلْوَاحَ فَلَمَّا عَایَنَ مَاصَنَعُوْااَلْقَی الْاَلْوَاحَ فَانْکَسَرَتْ،’’خبر آنکھ سے دیکھ لینے کے مانند نہیں ہوسکتی۔ خداوند تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچھڑے کے متعلق جوکچھ ان کی قوم نے کیاتھا اس کی خبردی، لیکن اس سے متاثر ہوکر موسیٰ علیہ السلام نے (تورات کی) تختیوں کو نہیں پھینکا ۔مگر جب موسیٰ علیہ السلام (اپنی قوم میں آئے اور انھوں) نے اپنی آنکھوں سے اپنی قوم کے کرتوت دیکھے تو (غضب ناک ہوکر ) تختیوں کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ آنکھ سے کسی چیز کودیکھ لینے کی بات ہی اور ہوتی ہے،خبر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ دیکھنے کاجو اثر دل پر ہوتا ہے، وہ خبر سننے سے نہیں ہوتا، خواہ آدمی کواس خبر پرکتنا ہی یقین کیوں نہ ہو۔ اس کو آپؐ نے ایک مثال دے کر سمجھایا کہ دیکھو حضرت موسٰی کوخدا وند تعالیٰ نے خبردی تھی کہ ان کی قوم نے ان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کواپنا معبود بنالیا ہے۔ لیکن حضرت موسٰی پر اس کایہ اثر نہیں ہوا کہ وہ غصے میں آکر تورات کی تختیاں پھینک دیتے۔ لیکن جب انھوں نے اپنی آنکھوں سے قوم کے کرتوت دیکھ لیے تو وہ غیظ وغضب میں آگئے اورتورات کی تختیاں ایک طرف کو پھینک دیں کہ ہم تو تمھارے لیے کتاب ہدایت لے کرآئے اور تمھاری سرکشی کایہ حال ہے۔
جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جنگی تدابیر اور دفاعی رازوں سے دشمن کوباخبر نہ ہونے دیاجائے۔
ایک مسلمان کوآئینہ کی طرح اپنے بھائی کے اندر پائے جانے والے کسی عیب کواس پر ظاہر توضرور کردینا چاہیے، لیکن اس کے پیچھے جذبہ خیر خواہی کاہونا چاہیے اورمقصد محض اصلاح ہونہ کہ بھائی کے کسی عیب کی تشہیر۔
یعنی وہ مفید اور صحیح مشورہ دے اور مشورہ لینے والے شخص کے راز کو کسی پرظاہر نہ کرے۔ کیونکہ یہ ایک طرح کی خیانت ہے، جس کی توقع کسی مسلم سے نہیں کی جاسکتی ۔
یعنی یہ بھی ایک نیک عمل ہے کہ کسی کو خیر اورنیکی کاکوئی کام بتایا جائے۔ اگر اس کی رہنمائی سے کسی شخص کوعمل خیر کی توفیق ملتی ہے تورہنمائی کرنے والا شخص بھی اس کارخیر میں شریک ہوگا۔ کیونکہ اس کی رہنمائی اگر میسرنہ ہوتی تووہ نیک کام انجام نہیں دیاجاسکتا تھا۔
یعنی کسی کام کی تکمیل کی فکر اور تدبیر خاموشی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ خواہ مخواہ اس کی تشہیر کرنے میں بہت سی خرابیوں کے رونما ہونے کے اندیشے رہتے ہیں۔
یعنی اصل سوال مقدار کانہیں ،اخلاص کاہے۔ تمھارے پاس اگر دینے کو کھجور کاایک ٹکڑا ہی ہے تو، تم اسے ہی صدقہ کرکے اس کا ثبوت بہم پہنچاسکتے ہو کہ تم اللہ سے ڈرنے والے ہواور بندگان خدا کے لیے تمھارے دل میں نرم گوشہ موجود ہے۔
مومن کی امیدیں آخرت سے وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ خدا سے مغفرت اورجنت کاخواست گار اور اُمیدوار ہوتا ہے، جس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔اس لیے وہ دنیوی پریشانیوں سے بددل نہیں ہوتا، جس طرح وہ شخص ہوتا ہے جس کی نگاہ میں دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ مومن جانتا ہے کہ دنیا کے مصائب ومشکلات عارضی ہیں۔ ایک دن اسے لازماً ان سے نجات مل جائے گی۔ اس لیے وہ حدودِ الٰہی کے اندررہ کرزندگی بسر کرتا ہے۔
آدمی کے اندر اگرحیا موجود ہے تو پھر اس سے کسی برائی اورخرابی کا اندیشہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی شخص کے اندر حیا اور شرم نہیں ہے توکچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب کیاحرکت کربیٹھے۔
یعنی مومن اپنے وعدہ کاپاس ولحاظ رکھتا ہے ۔ اس سے کسی وعدہ خلافی کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس کے وعدے پر پورا بھروسا کیاجاسکتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر وہ تمھیں کوئی چیز دینے کا وعدہ کرتا ہے تویوں سمجھوکہ وہ چیز تمھارے ہاتھ میں پہنچ چکی۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلقات کشیدہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر کسی شکایت یاناراضی کی وجہ سے کوئی اپنے مسلم بھائی سے کٹ گیاہے، تو اسے یادرکھنا چاہیے کہ اسلام میں اس طرح تعلق منقطع کیے رہنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔اسے لازما ً تین روز کے اندر اپنے بھائی سے صلح کرلینی چاہیے۔ دینی مقاصد، ذاتی مفادات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔دینی مقاصد کی تکمیل اہل ایمان کے اجتماعی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس لیے ہر مسلمان کافرض ہے کہ وہ ایسا کوئی طرزِ عمل اختیار نہ کرے ،جس سے اجتماعی نظم اور اجتماعی قوت کونقصان پہنچتاہو۔اس حدیث کی اہمیت ومعنویت کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پیش نظر اسلامی نظام زندگی کاوہ تصور ہو ،جس سے قرآن اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمیں آشنا کراتی ہیں۔
یعنی جوشخص ذاتی فائدے کے لیے فریب اورخیانت سے کا م لیتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کی ذمہ داری فراموش کردیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنا رشتہ اورتعلق مسلم گروہ سے منقطع کررہا ہے ۔ انجام کے لحاظ سے یہ جس قدر خطرناک بات ہے، اس کا اسے احساس ہونا چاہیے۔
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک شخص نے بیچنے کے لیے گیہوں کاڈھیر لگارکھا تھا۔ آپؐ نے اس میں ہاتھ ڈالا تواندر گیہوں بھیگے ہوئے تھے ۔ آپؐ نے وجہ دریافت فرمائی تو اس نے کہا کہ میں نے ارادے سے گیہوں نہیں بھگوئے ۔آپؐ نے فرمایا کہ بھیگے ہوئے گیہوں اوپر کیوں نہیں رکھے؟ اسی موقعے پر آپؐ نے وہ بات ارشاد فرمائی، جواس حدیث میں نقل کی گئی ہے۔
مال دار لوگ اکثر اپنی دولت کی کثرت کی وجہ سے حق سے بے گانہ اور غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی کثیر دولت سے وہ تھوڑا مال کہیں بہتر ہے، جو آدمی کی ضروریات کے لیے کافی ہواور اس سے آدمی کے غفلت میں پڑنے کا اندیشہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اسی پردنیا کی دوسری چیزوں کوبھی قیاس کیاجاسکتا ہے کہ ان میں کو ن سی چیز کس صورت میں بہتر ہے اورکس صورت میں بہتر نہیں ہے۔
تحفے میں یااللہ کی راہ میں دی ہوئی چیز کوواپس لینا انتہائی ذلیل حرکت ہے۔ جس کے تصور سے بھی آدمی کوگھن آنی چاہیے۔ ایسی حرکت اخلاق سے گرا ہوا شخص ہی کرسکتا ہے۔ ایک حدیث میں دی ہوئی چیز کو واپس لینے والے کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے ہوئے گھوڑے کو قیمت دے کر بھی واپس لینے سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو روکا تھا ۔کیونکہ اس صورت میں بھی یہ عمل دی ہوئی چیز کوواپس لینے سے مشابہت رکھتا تھا۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ دین کا مزاج کس قدر نازک ولطیف ہے۔
اکثر زبان کاغلط استعمال مصیبت اورآزمائش کاپیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ خاموشی آدمی کوہزار بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ کتنے ہی اچھے تعلقا ت محض زبان کوقابو میں نہ رکھنے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں اور آدمی مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ زبان کی کاٹ تلوار سے بھی بڑھ کرہوتی ہے۔ زبان کے ناروا استعمال سے بعض اوقات دلوں میں ایسے زخم ہوجاتے ہیں جو کبھی نہیں بھرسکتے۔ اس لیے بولنے اورزبان کے استعمال کرنے میں آدمی حددرجہ محتاط رہے۔
یعنی لوگوں کی فطری اورمطلوب حالت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط وتعلق اس طرح کاہو، جیسا ربط وتعلق کنگھی کے دندانوں کے مابین ہوتا ہے ۔کنگھی کے دندانے صاف اورسیدھے رہ کر باہم ایک دوسرے کاساتھ دیتے ہیں۔ اگر کنگھی کے کچھ دندانے ٹوٹ جائیں توپوری کنگھی ناقص اورخراب ہوجاتی ہے ۔مثالی معاشرہ وہی ہے جس کے افراد باہمی ربط و تعلق کی اہمیت کوسمجھتے اور اس کاپا س ولحاظ رکھتے ہوں۔
دل اگر مستغنی نہیںہے تو بڑی سے بڑی دولت بھی بے کار ہے۔ لیکن اگر انسان کادل مطمئن ہے تو ظاہر کے اعتبار سے خواہ وہ مال دارنہ بھی ہو تو کوئی نقصان کی بات نہیں۔ کہابھی گیا ہے ع
تونگری بہ دل است، نہ بہ مال
بُرے لوگوں کے بُرے انجام کو دیکھ کر بھی جو لوگ عبرت اورنصیحت حاصل نہیں کرتے اوربُرائیوں اورگناہ کے کاموں سے باز نہیں آتے وہ آخرکار خود نشان عبرت بن کر رہتے ہیں۔
ایسے اشعار جوعلم وحکمت کاخزینہ ہوں، لائق تحسین ہیں۔ بعض تقاریر بھی اپنے اندر جادو کا سا اثر رکھتی ہیں۔ البتہ وہی جادو اثر تقریر پسندیدہ قرار پائے گی، جو حق وصداقت کے لیے کی جارہی ہو۔ لیکن اگر وہ باطل کی خدمت کے لیے ہے تو اس جادو اثری کو سامانِ ہلاکت ہی کہا جائے گا۔
حاکم کافرض ہے کہ عوام کے ساتھ ہمدردی اوربہی خواہی کاسلوک رکھے۔ اس صورت میں لازماً وہ لوگوں کے لیے سخت گیر نہ ہوگا، بلکہ حتی الامکان وہ عفو ودرگزرہی سے کام لے گا۔ عوام بھی اس کے کریمانہ اخلاق سے متاثر ہوں گے اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے ۔یہ چیز سلطنت کے استحکام کاباعث ہوگی۔ اس کے برخلاف عوام میں اگر بے اطمینانی پائی جاتی ہے تو اسے سلطنت کے حق میں فال نیک نہیں کہا جاسکتا۔
محبت بڑا طاقت ور اوربنیادی جذبہ ہے ۔جس شخص یاگروہ سے آدمی محبت رکھتا ہے، اس کا شمار اسی کے ساتھ ہوگا ۔ اصل اعتبار خلوص ومحبت کاہے، دوسری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سچی محبت کایہ تقاضا ہے کہ وہ آدمی کے طرزِ عمل پراثر انداز ہواور وہ کوئی ایسا کام نہ کرے، جواس کی محبوب شخصیت کی مرضی کے خلاف ہویا وہ اس گروہ کے مفاد کے خلاف ہو جس سے وہ محبت کاتعلق رکھتا ہے ۔
آدمی تباہی اورہلاکت سے اسی صورت میں دوچار ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنی حیثیت اورقدروقیمت سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتا ہے۔ ایسی حالت میں یاتو وہ احساس کمتری کاشکار ہوگا اورزندگی میں ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گا، جواس کے شایان شان نہیں۔ اوراس طرح وہ اپنے آپ کو پستی میں گراکررہے گا اورکوئی چیز نہ ہوگی جواسے تباہی وبربادی سے بچاسکے۔یاپھر وہ بے جاپندارمیں مبتلا ہوکر اپنے فرائض اورذمے داریوں کی طرف سے یکسرغافل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں خسران اورہلاکت کے سوا اس کا کوئی اور انجام نہیں ہوسکتا ۔
یعنی زناکار درحقیقت زیاں کار ہے ۔بدکار ی کے صلے میں اس کو بچہ نہیں مل سکتا بلکہ سزا میں اس پر پتھر ہی پڑیں گے۔
فضیلت اسی میں ہے کہ آدمی کوشش اس بات کی کرے کہ وہ دینے والا ہو نہ کہ لینے والا۔
جو شخص لوگوں کے احسانات کاشکریہ ادا نہیں کرتا بلکہ احسان فراموشی کا ثبوت دیتا ہے، تویہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس کے اندر حق شناسی کامادہ ہی نہیں ہے ۔پھر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ خدا کا شکرگزار بندہ بن سکے گا ؟ احسان شناسی اوراعتراف حق دراصل ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔
یعنی انسان کی یہ ایک بڑی کمزوری ہے کہ وہ جب کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو وہ اس محبت میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ پھر اسے حق اور ناحق سجھائی نہیں دیتا، اور نہ وہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس معاملے میںکسی کی نصیحت سن سکے۔ اس لیے پیاراور محبت کے معاملے میں آدمی کوہمیشہ محتاط رہنا چاہیے خواہ یہ محبت بیوی اوربچوں کی ہو، یاکسی دوسری چیز کی۔ محبت اگراندھی ہے اور بالعموم یہ اندھی ہی ہوا کرتی ہے ــــــ تو وہ آدمی سے حق وباطل کی تمیز سلب کرسکتی ہے۔
یعنی کسی کے دل کو احسان اور حسنِ اخلاق کے ذریعے سے جیتا جاسکتا ہے۔ایسا دل ملنا مشکل ہے جواحسان سے متاثر نہ ہو ۔ اسی طرح کسی کے ساتھ برائی سے پیش آکر اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کا وہ کوئی بُرا اثر نہ لے گا، اوراس کے دل میں ہمارے لیے عداوت اورنفرت کاجذبہ پیدانہ ہوگا۔ اپنے محسن کے لیے دل میں محبت کاجذبہ ابھرنا اوربدخواہ کے لیے نفرت کاپیدا ہونا ایک فطری امر ہے،اس حقیقت کونظر انداز نہیں کرناچاہیے۔ دوست بنانا پسندیدہ بات ہے۔ خواہ مخواہ کسی کو دشمن بنالینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔
مطلب ہے کہ کسی گناہ گار کو اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے ہرگزمایوس نہ ہونا چاہیے ۔خدا اس کے سارے ہی گناہوں کوبخش سکتا ہے، بشرطیکہ وہ سچے دل سے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے۔ پھر تو اللہ کی نگاہ میں وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے وہ کبھی گناہوں کے قریب بھی نہیں گیا۔
اسی لیے اعتماد اس شخص کی گواہی پرکیا جاتا ہے جو موقع پر موجود رہا ہو۔
جوشخص ہمارے پاس آئے ہم اس کے مرتبے ومقام کالحاظ رکھیں، یہ اسلامی اخلاق کاتقاضا ہے ۔اگر ہم نے کسی شخص کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جس کاوہ فی الواقع مستحق تھا تو پھر ہمیں اس کی امید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کرے گا۔ اس صورت میں وہ ہمارے دین وایمان کااثر بھی قبول نہیں کرسکتا ۔ایک داعی اسلام کوکبھی وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرناچاہیے، جواسلام کی طرف آنے میں لوگوں کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہو۔
جھوٹی قسمیں اس بات کاثبوت فراہم کرتی ہیں کہ لوگوں کے اندر نہ تو اپنے بھائیوں کی خیرخواہی کاجذبہ پایا جاتا ہے اورنہ ان کے دل میں خدا کاخوف باقی ہے۔ جب کسی ملک کے لوگوں کی اخلاقی حالت اس پستی کوپہنچ گئی ہو توپھر اس ملک کو ویرانی اورتباہی گھیرلیتی ہے۔
یعنی اپنے مال واسباب کی حفاظت میں اگرکسی مومن کی جان چلی گئی تو وہ ضائع نہیں ہوئی بلکہ اس مرد مومن کو شہادت کادرجہ حاصل ہوگا۔ اپنے مال کے لیے لڑنا اور ڈاکا ڈالنے والوں سے مقابلہ کرنا ایک طرح سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کادرجہ رکھتا ہے ۔ مومن اپنے مال کو خدا کی امانت سمجھتا ہے اور اس کو خدا کی رضا کے لیے اس کے حکم کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے۔
یعنی انسان کاوہی عمل باعث اجر وثواب ہے، جس کے پیچھے اچھی نیت رہی ہو۔ نیت اگر درست نہیں توبڑے سے بڑا عمل بھی بے سود ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ فرد محض خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کام کرے۔ کسی کام کامحرک اگر نام ونمود کی خواہش یا کوئی اور مذموم جذبہ ہے، تو وہ اللہ کے یہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتا ۔ایک حدیث میں ریا اورنمایش کے لیے کام کرنے کوشرک تک کہا گیا ہے۔
سردارِ قوم یاقوم کے قائد کافرض ہے کہ وہ قوم کے کام آئے۔ قوم کی فلاح وبہبود کے لیے تدابیر اختیارکرے اور حتی المقدورقوم کوفائدہ پہنچائے۔ اس کی سعی وجہد اس بات کے لیے ہو کہ اس کی قوم حق وصداقت سے بے بہرہ نہ رہے۔ وہ اسے مقامِ عزّت تک پہنچانے کی پوری کوشش کرے ۔ لیکن آج حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیش قیمت تعلیم کوفراموش کردیاگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قائد اپنے کو خادم تصور کرنے کے بجائے مخدوم سمجھتا ہے ۔
کام کوئی بھی ہواس میں افراط وتفریط سے بچنا ضروری ہے ۔ کسی معاملے میں غیر معتدل رویہ اختیار کرنے سے مختلف قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں،جن کاپہلے سے آدمی کواندازہ بھی نہیں ہوتا۔ معتدل اورمتوازن طرزِ عمل ہی وہ طرزِ عمل ہے جسے اختیار کرکے آدمی آخر تک اس پر قائم رہ سکتا ہے۔ وہی کام نتیجہ خیز ہوسکتا ہے جسے آخر تک انجام دیا جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنج شنبہ (جمعرات)کے دن باہر جانے کوپسند فرماتے تھے۔ غزوئہ تبوک کے لیے آپؐ پنج شنبہ ہی کے دن نکلے تھے۔ آپؐ چھوٹا یابڑا لشکر کہیں روانہ کرتے تو دن کے اوّل وقت روانہ فرماتے۔پنج شنبہ کی صبح کے لیے برکت کی دعا جوآپؐ نے مانگی ہے، اس سے آپؐ کی یہ تمنا بھی ظاہر ہوتی ہے کہ امت خدا کی راہ میں نکلنا ترک نہ کرے۔ یوں تو ہر ایک دن اللہ ہی کا ہے لیکن بعض پہلوؤں سے بعض دنوں کو خصوصیت حاصل ہے۔پنج شنبہ کے دن نکلنے کی جوفضیلت ہے اس کے کئی وجوہ ممکن ہیں۔ ایک تو اس روز بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش ہوتے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ پنج شنبہ کوعربی میں خمیس کہتے ہیں، جس کے معنی لشکر کے ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ دن عملِ جہاد کے لیے فال نیک کی حیثیت رکھتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا حاصل کرنے کی ایک شکل بھی اس حدیث سے نکلتی ہے ۔اگر کوئی نیا کام کرنا ہوتو اسے پنج شنبہ کے دن سویرے شروع کیاجائے۔
یعنی فقر اورمحتاجی کے سبب سے آدمی کفر تک پہنچ سکتا ہے ۔افلاس کی وجہ سے کسی آدمی کاکفر میں پڑنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ فقروفاقہ، افلاس وغیرہ آد می کے ایمان کے لیے سخت آزمایش ہیں۔ اللہ ہمیں کسی ایسی آزمائش میں نہ ڈالے جوہمارے ایمان کے لیے فتنہ ثابت ہوسکے۔
سفر اور حضر میں بڑا فرق ہے ۔سفر میں وہ اطمینان اورآرام حاصل نہیں ہوتا جوآدمی کو اپنے گھر پر میسر ہوتا ہے ۔اس لیے سفر اسی وقت اختیار کرنا چاہیے جب واقعی کوئی ضرورت ہو، بلاضرورت سفر اختیارکرنا اپنے اوقات کاصحیح استعمال نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: فَاِذَا قَضٰی نَھْمَتَہٗ مِنْ وَجْھِہٖ فَلْیَعْجَلْ اِلٰی اَھْلِہٖ،’’یعنی مسافر اپنے سفر کی غرض پوری کرے تو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے میں جلدی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ذکرالطعام، حدیث: ۵۱۱۹)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب آدمی سفر میں ہواور زحمتیں پیش آئیں توپریشان ہونے کے بجائے اسے یہ خیال کرناچاہیے کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے۔ موجودہ دورنے گرچہ سفر میں بہت سی سہولتیں فراہم کردی ہیں، لیکن اس کے باوجود سفر آج بھی سفر ہی ہے۔
یعنی اہل مجلس کافرض ہے کہ وہ پوری راز داری سے کام لیں ۔مجلس کی کسی ایسی بات کو باہر بیان نہ کریں، جس سے کسی قسم کے فتنہ وفساد کااندیشہ ہو۔مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو امانت تصور کریں، جس کی حفاظت عقل عام کے نزدیک بھی ضروری ہے ۔بالعموم اس معاملے میں لوگوں سے بڑی کوتاہی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کتنے ہی لوگوں کے باہمی تعلقات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی روشنی میں فرمائی ہے۔قرآن میں ہے: وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَالزَّادِ التَّقْوٰی (البقرہ ۲:۹۷) ’’اور تقویٰ کازادِ راہ ساتھ لے لو کیونکہ سب سے بہتر زاد ِراہ تقویٰ ہے‘‘۔ مسافر کے لیے زادِراہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح پاکیزہ اورصحیح زندگی تقویٰ کے بغیر میسر نہیں آتی اور نہ تقویٰ کے بغیر ایسی زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔تقویٰ وہ زادِ راہ ہے جوسفر حیات میں بھی کام آتا ہے اورمنزل پرپہنچنے کے بعد بھی اس کی ضرورت پیش آئے گی ۔ تقویٰ ہی آخرت میں انسان کی کامیابی کاضامن ہے۔