جنرل محمد ایوب خان [م:۲۰؍اپریل ۱۹۷۴ء] اپنی آپ بیتی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی میں لکھتے ہیں:
'میں ۵؍اکتوبر کو کراچی پہنچا ۔ یحییٰ، حمید اور دو ایک افسر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ میں سیدھا جنرل اسکندر مرزا [م: ۱۳نومبر ۱۹۶۹ء]سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے تھے۔ سوچ میں ڈوبے ہوئے، چہرے پر ملال اور مایوسی ٹپکتی ہوئی۔میں نے ان سے پوچھا:کیا آپ نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے؟
’’ہاں‘‘۔ انھوں نے کہا۔
’’کیا آپ کے خیال میں یہ مطلقاً ضروری ہے؟‘‘
’’ہاں، یہ مطلقاً ضروری ہے‘‘ انھوں نے مضبوط ارادے کے ساتھ کہا۔
میں اس کو بدقسمتی سمجھتا تھا کہ وقت کی نزاکت ہمیں ایسا سخت قدم اُٹھانے پر مجبور کردے، اور پھر خود کو اس کارروائی میں شریک دیکھنا بھی تو کوئی خوش گوار بات نہ تھی… مگر ملک بچانے کا یہ آخری موقع تھا۔ (ص ۱۱۷)
اس گفتگو کے دو دن بعد ۷ اور ۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (میجر جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی کمانڈر اِن چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
چونکہ یہ پہلی پہلی کوشش تھی، اس لیے اس اولین مارشل لا میں ’میرے عزیز ہم وطنو!‘ ' وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی تو خیر ابھی آیا ہی نہیں تھا) پر کوئی تقریر نہیں ہوئی۔ بس ٹائپ رائٹر پر لکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اور سفارت خانوں کو بھیج دیا گیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیو پاکستان اور ٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے لیے بھیج دیے گئے۔
مبصرین کی اکثریت کے مطابق یہی وہ 'ناگزیر ' فیصلہ تھا جس نے ملک پر ایسی سیاہ رات طاری کر دی جس کے کالے سائے آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔
اسکندر مرزا کے تحریر کردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والے عشروں میں بار بار تقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، مگر کہانی وہی پرانی رہی۔
مثال کے طور پر دیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:
’ پچھلے دو سال میں گہری تشویش کے ساتھ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ اقتدار کے لیے بے تحاشا رسہ کشی جاری ہے۔ بدعنوانیاں ہیں، سادہ، نیک و محب ِ وطن اور محنتی عوام سے بے شرمی کے ساتھ ناجائز فائدہ اُٹھایا جارہا ہے، شائستگی کا فقدان ہے، اور اسلام کو سیاسی مقاصد کا آلۂ کار بنایا جارہا ہے…
سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اتنی پست ہوگئی ہے کہ مجھے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں رہا کہ انتخابات ملک کے موجودہ داخلی انتشار کو سدھار سکتے ہیں، یا ان کے ذریعے ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت بنائی جاسکتی ہے، جو ان بے شمار پیچیدہ مسائل کو حل کرسکے، جو ہمیں درپیش ہیں۔ آسمان سے نئے لوگ اُتر کر نہ آئیں گے۔ وہی گروہ جس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے، انتخابات کو محض اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا بلکہ یہ لوگ بڑے انتقامی جذبے کے ساتھ دوبارہ برسرِاقتدار آئیں گے تو انھی طریقوں کو استعمال کریں گے، جنھوں نے جمہوریت کو ایک ڈھونگ، ایک الم ناک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ (ص ۳۹۶، ۳۹۷)
بعد میں آنے والے مارشل لاز میں یہی سکرپٹ سرقہ ہوہو کر استعمال ہوتا رہا۔
اسکندر مرزا کے بقول ’’جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے‘‘، لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون [م:۱۹۷۰ء] کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا، اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کو راکٹ میں بٹھا کر خلا میں روانہ کر دیں۔
اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ مارشل لا کے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن نے اپنی حکومت کو جو خفیہ مراسلہ بھیجا، اس میں درج تھا کہ ’’صدرِ پاکستان نے انھیں بتایا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر موجود ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے‘‘۔ سر الیگزینڈر نے اسی مراسلے میں لکھا کہ’’ 'ناپسندیدہ عناصر سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی ہیں، جو اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے ووٹ نہ دیں گے‘‘۔
اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب [م:۱۹۸۶ء]کی زبانی مل جاتی ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی شہاب نامہ ' میں لکھتے ہیں:
۲۲ ستمبر۱۹۵۸ء کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا۔ 'ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’’تم نے اس Trash [کوڑا کرکٹ]کو پڑھا ہے؟‘‘ 'جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے، اس کے متعلق ان کی زبان سے Trash کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ص ۴۸۳)
۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا وہ آئین پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے انھی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔ لیکن ایک اڑچن یہ تھی کہ اس آئین کے تحت صدر کا عہدہ وزیر اعظم سے برتر قرار دیا گیا تھا اور اس میں ۵۸- دو بی قسم کی کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدر، وزیر اعظم کو کسی بھی وقت یک بینی دو گوش نکال باہر کر سکتے تھے۔
اسکندر مرزا نے شق کی شمشیرِ برہنہ کا وہ بےدریغ استعمال کیا کہ اس کے مقابلے پر ۵۸ دو بی کند چھری دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے جن وزرائے اعظم کا شکار کیا ان کی فہرست دیکھیے:
اس میوزیکل چیئر کے بارے میں جواہر لال نہرو سے منسوب یہ فقرہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ’’میں تو اتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل لیتے ہیں‘‘۔
اسکندر مرزا کی محلاتی سازشوں کی ایک جھلک ایک بار پھر شہاب نامہ میں دیکھیے:
’’اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنے تین روز ہوئے تھے کہ شام کے پانچ بجے مجھے گھر پر مسٹر [حسین شہید]سہروردی [م: ۱۹۶۳ء]نے ٹیلی فون کر کے پوچھا:’’پرائم منسٹر کے طور پر میرا حلف لینے کے لیے کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے؟‘‘
یہ سوال سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا، کیوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ میں نے یہی بات ان کو بتائی تو مسٹر سہروردی غصّے سے بولے، '’’تم کس طرح کے نکمّے سیکریٹری ہو؟ فیصلہ ہو چکا ہے، اب صرف تفصیلات کا انتظار ہے۔ فوراً گورنر جنرل کے پاس جاؤ اور حلف اُٹھانے کی تاریخ اور وقت معلوم کرکے مجھے خبر دو۔ میں انتظار کروں گا‘‘۔
مجبوراً میں اسکندر مرزا صاحب کے پاس گیا۔ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے۔ موقع پا کر میں انھیں کمرے سے باہر لے گیا اور انھیں مسٹر سہروردی والی بات بتائی۔ یہ سن کر وہ خوب ہنسے اور اندر جا کر اپنے دوستوں سے بولے، ’’تم نے کچھ سنا؟ سہروردی، وزیر اعظم کا حلف لینے کا وقت پوچھ رہا ہے‘‘۔
اس پر سب نے تاش کے پتے زور زور سے میز پر مارے اور بڑے اونچے فرمائشی قہقہے بلند کیے۔ کچھ دیر اچھی خاصی ہڑبونگ جاری رہی۔ اس کے بعد گورنر جنرل نے مجھے کہا، ’’میری طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ تم سہروردی کو بتا دو کہ حلف برداری کی تقریب پرسوں منعقد ہو گی، اور چودھری محمد علی وزیرِ اعظم کا حلف اٹھائیں گے‘‘۔
وہاں سے میں سیدھا مسٹر سہروردی صاحب کے ہاں پہنچا اور ان کو یہ خبر سنائی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ اس نئی صورتِ حال پر وہ بڑے جھلائے اور میرے سامنے انھوں نے بس اتنا کہا، ’’اچھا، پھر وہی محلاتی سازش‘‘۔(ص ۴۶۸)
لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے، آخر کار صدرِ مملکت کی محلاتی سازشیں خود انھی پر بھاری پڑگئیں۔ اسکندر مرزا نے نہ صرف سفارش کر کے جونیئر افسر ایوب خان کو آرمی چیف لگوایا تھا بلکہ مارشل لا سے صرف تین مہینے پہلے ان کی مدتِ ملازمت میں دو سال کی توسیع بھی کی تھی۔ انھی ایوب خان نے مارشل لا کے ۲۰ دن کے اندر اندر اسکندر مرزا کو جہاز میں لدوا کر خلا تو نہیں، البتہ پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ بھجوا دیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہ سکرپٹ بھی پاکستان میں اتنا چلا ہے کہ گھس پٹ گیا ہے کہ جو جس آرمی چیف کو لگاتا ہے وہی اس کے قدموں تلے سے قالین کھینچ لیتا ہے۔
تو کون تھے یہ مبینہ بازنطینی محلاتی سازش ساز اسکندر مرزا، جنھوں نے پاکستانی وزارتِ عظمیٰ کو دھوتی بنا کر رکھ دیا تھا؟
ان کے تعارف میں سب سے پہلے جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکندر مرزا، نواب آف بنگال میر جعفر [م: ۱۷۶۵ء]کے پڑپوتے ہیں۔ وہی میر جعفر، جنھوں نے ۱۷۵۷ء میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے حکمران سراج الدولہ [م:۲جولائی ۱۷۵۷ء]کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں ؎
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن
انھی اسکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا نے ایک کتاب لکھی ہے: From Plassey to Pakistan (پلاسی سے پاکستان)، جس میں انھوں نے حیرت انگیز طور پر کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔
ہمایوں مرزا صاحب نے سراج الدولہ کو ’بدمزاج اور بےرحم‘ ٹھیراتے ہوئے لارڈ رابرٹ کلائیو [م: ۱۷۷۴ء]کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار خود انھی کو قرار دیا تو دوسری طرف یہ عجیب و غریب مماثلت ڈھونڈی ہے کہ جن لوگوں نے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا تھا (مراد اپنے جدِ امجد میر جعفر سے ہے) انھی کے ساتھ نوجوان حکمران نے بےوفائی کی۔
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس جنگ کے تقریباً ٹھیک دو سو سال بعد بنگال کی تاریخ کراچی میں دہرائی گئی اور میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے جس ایوب خان کو پروان چڑھایا تھا، اسی نے اپنے محسن کے سر سے تاجِ صدارت نوچ لیا۔
اسکندر مرزا، برصغیر کے پہلے فوجی افسر تھے، جنھوں نے برطانیہ کی مشہورِ زمانہ سینڈہرسٹ میں واقع امپیریل ملٹری اکیڈمی سے تربیت پائی، لیکن ملک لوٹنے کے بعد سول لائن کو ترجیح دی، اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں پولیٹیکل افسر بھرتی ہو گئے۔
پاکستان بننے کے بعد لیاقت علی خان نے انھیں وزیر دفاع مقرر کیا ۔ جب گورنر جنرل غلام محمد [م:۱۹۵۶ء]نے بوجہ خرابیِ صحت استعفیٰ دے دیا، تو ان کی جگہ اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔تاریخ کا حصہ یہ بھی ہے کہ سات اکتوبر کو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ آئین معطل کر کے اور اسمبلی تحلیل کر کے انھوں نے درحقیقت وہی شاخ کاٹ ڈالی ہے، جس پر ان کا قیام تھا۔ چنانچہ اسکندر مرزا نے ۷ ؍اور ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء کے درمیانی ۲۰ دن بڑے مصروف گزارے۔ اس دوران انھوں نے پہلے تو فوج کے اندر ایوب مخالف دھڑوں کو شہ دے کر ایوب خان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو ۲۴؍اکتوبر کو ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے الگ کر کے وزیر اعظم بنا ڈالا۔ لیکن ایوب خان کو برابر اسکندر مرزا کی 'محلاتی سازشوں کی اطلاعات ملتی رہیں۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ' میں وہ لکھتے ہیں:
’ہمیں اطلاع ملی کہ ان کی بیوی (بیگم ناہید مرزا) ہروقت ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ ’’تم نے سخت غلطی کی۔ خیر وہ تو جو ہوا سو ہوا، اب تمھیں چاہیے کہ ایوب خاں کو ختم کردو‘‘(ص ۱۲۱)۔ اسکندر مرزا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر وہ فوج اور اس کے سربراہوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے تو فوج سب سے پہلے خود انھی کا کام تمام کردے گی۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور کہا: ’’آپ کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے سنا ہے کہ آپ فوجی افسروں کی گرفتاری کے احکام دیتے رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے تردید کرنے کی کوشش کی، ’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے، اس میں ذرہ برابر سچ نہیں‘‘۔ میں نے انھیں تنبیہہ کی، ’’دیکھیے یہ عیاری اورچال بازی ختم کیجیے، ہوشیار رہیے، آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسی شرارتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ (ص ۱۲۳)
کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے بھی بھانپ لیا کہ اگر آئین نہیں ہے تو پھر صدر کا عہدہ چہ معنی دارد؟ آئینی شاخ نہیں تو پھر صدارتی آشیانہ کیسا؟
۲۷؍ اکتوبر کی رات جرنل برکی، جنرل اعظم خاں اور جنرل خالد شیخ، اسکندر مرزا کے گھر پہنچ گئے۔ ملازموں نے بہتیرا کہا کہ ’’صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں‘‘، لیکن جرنیل اتنی آسانی سے کہاں ٹلتے ہیں۔ انھوں نے شب خوابی کے چوغے ہی میں صدر سے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لے لیے اور کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیں، آپ کو ابھی اسی وقت ایوانِ صدر سے نکلنا ہو گا۔
اسکندر مرزا نے اپنے عہدے کے بارے کچھ بحث کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی بیگم ایک بار پھر زیادہ معاملہ فہم ثابت ہوئیں اور انھوں نے صرف اتنا پوچھا، ’’مگر میری بلیوں کا کیا ہوگا؟‘‘