مسلم دنیا کے حوالے سے فرانس کا ایک نہایت گہرا سامراجی کردار رہا ہے، مگر عام طور پر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن جن مسلم علاقوں میں فرانسیسی استعماریت نے اپنی نوآبادیات قائم کر رکھی تھیں، وہ اس خون آشامی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں فرانس کے صدر میکرون نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔
میکرون نے ستمبر ۲۰۲۱ءمیں کہا تھا کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ کوئی الجزائر نامی عرب ملک بھی ہے۔ یہ توہماراملک ہے، جہاں آج بھی فرانسیسی بولی جاتی ہے، جس کے تعلیمی اداروں میں ہمارا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور یہ ممالک عرب کم، فرانسیسی زیادہ ہیں۔ ہمارے علاقے ہم کو چاہییں‘‘۔ اس پر الجزائر اور اس کے ہمسایہ دوسرے افریقی عرب ممالک میں سخت ردعمل ہوا۔ انھوں نے اپنے ہاں متعین فرانسیسی سفیروں کو طلب کرکے فرانسیسی صدر کے غیرذمہ دارانہ الفاظ اور رکیک حملوں پر شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران اسرائیل کی دو آبدوزیں، الجزائر کے ساحل پر نمودار ہوئیں۔ فرانس کے ایک وزیر نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا: ’’ہم الجزائر سے ابھی نہیں گئے ہیں، ہمارا وجود عرب اقوام کو بھولنا نہیں چاہیے‘‘۔
اس تنازعے کی بنیاد پر مراکش، الجزائر، تیونس میں ہنگامے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ الجزائر اور دوسرے ممالک نے اعلان کیا کہ ’’فرانسیسی زبان میں،اپنے ہاں رائج فرانسیسی تعلیمی نصاب کو ہم مستردکرتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی فرانسیسی زبان کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔ اسی دوران صدر میکرون نے پیرس میں چند الجزائری نژاد فرانسیسی نوجوانوں کا اجلاس طلب کیا اور ان کے سامنے اپنی اس شرانگیز خواہش کا اظہار کیا کہ ’’اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے آزادی کی نئی تحریک کا آغاز کریں۔ وہاں پر ایک نئے مغربی ملک کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ چل سکے،وغیرہ‘‘۔
اسی طرح فرانس، دومسلم ممالک تیونس اور لیبیا کی سیاست کو زیروزَبر کرنے اور شفاف جمہوریت کے قیام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
فرانس، یورپ کی ایک بڑی سامراجی طاقت رہا ہے۔ کئی مسلم عرب اور افریقی عرب ممالک پر کم و بیش ڈیڑھ دو صدی تک قابض رہا۔ ان اقوام کے تہذیب و تمدن اور زبان پرفرانسیسی تہذیب کے بڑے پیمانے پر اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ فرانس اپنے پرانے نوآبادیاتی ممالک (مغرب) تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، لیبیا اوران کے ساحلوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ان ممالک کی داخلی سیاست، معیشت، انتظامیہ،تعلیم،عدلیہ اور فوج میں براہِ راست مداخلت کرتا چلا آیا ہے، اور وہ اس مداخلت کو اپنا بین الاقوامی حق سمجھتا ہے۔
ان ممالک میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد،یہاں پر فرانس ہی کے زیراثر کاسہ لیس اور ذہنی غلام حکمرانوں کی بدترین ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔الجزائر اسلامک سالویشن فرنٹ، نیشنل لبریشن فرنٹ اور اسلامک سالویشن آرمی نے ۱۹۹۱ء تا ۲۰۰۲ء تک محمد بوضیاف اور پھر علی کافی اور الیمین زروال کی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے لیے ہرسطح پر جدوجہدکی، جس میں ۱۰لاکھ لوگوں کی جانیں کام آئیں۔ الجزائری انتخابات میں اسلام پسند پارٹی (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی، تو فرانس نے الجزائری فوج کو بھڑکا کر ان انتخابات کو کالعدم قرار دلایا اور ایک ایسی ڈکٹیٹرشپ مسلط کردی، جس کے تسلسل میں عبدالعزیز بوتفلیقہ ۲۷؍اپریل ۱۹۹۹ء سے ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء تک الجزائر کا ڈکٹیٹر رہا۔ لیبیا میں جب جنگجو حفتر کی ملیشیا کے خلاف ترکی نے معمولی سی طاقت استعمال کی توفرانس نے شدید اعتراض کیا اور اس پر ترکی و مراکش کے اختلافات عروج پر پہنچ گئے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مراکش، تیونس اورلیبیا کی ہے کہ ان کے پیچھے فرانس کا مضبوط ہاتھ ہے۔
مراکش، الجزائر،تیونس، لیبیا، موریطانیہ کی حکومتوں کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ یہ بڑی کمزور اور اداراتی سطح پر فیصلہ سازی میں سُست روی کا شکار ہیں۔ فرانس سے آزاد ہوئے ۵۰سال گزرنے کے باوجود بھی یہ ممالک اپنا قومی تعلیمی نظام،عدلیہ اور انتظامیہ کا خودکارنظام قائم نہیں کرسکے۔ ہرسطح پر فرانسیسی طاقت وَر گماشتوں اور مخبروں کی مضبوط گرفت آج بھی نظر آتی ہے۔
اگرفرانس کو ایک اخلاق باختہ ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جہاں ۶۰ فی صد بچے بے نکاح جوڑوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کی شادی کی اوسط عمر ۳۴سال ہے۔ اوسطاً ایک فرانسیسی کے ہاں ۱ء۳ فی صد بچے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان عورتیں ۳سے ۴ بچوں کا تولیدی رجحان رکھتی ہیں۔ یہ رجحان دیکھتے ہوئے فرانسیسی ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ’’اگر اسی رفتار سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا تو ۲۰۵۷ء تک مسلمانوں کی فرانس میں آبادی اکثریت میں آجائے گی، جو سارے یورپی خطے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔
فرانسیسی معاشرے کے لیے سب سے بڑا چیلنج خاندانی نظام کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس زدہ کلچر کو فروغ دینا ہے، اور اس کے خوفناک سماجی اثرات کا سامنا کرنا ہے۔ شادی کے بندھن کو اب فرانسیسی سماج میں سخت معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔جو شادی شدہ جوڑے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں بچے پیدا ہوں،یا جو آزادانہ جنسی اختلاط کے تولد ہونے والےبچے کے ماں باپ بنیں۔
چند سال قبل پیرس میں مکمل طور پر برہنہ عورتوں نے ایک جلوس نکالا تھا اور پلے کارڈوں پر لکھا تھا: ’’مجھ سے شادی کرلو‘‘۔ دُنیا کی تہذیب یافتہ قوم کی جنسی حیوانیت، بے شرمی اور بے حیائی کے اس مظاہرے نے اخلاق باختگی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے کہ پیشہ ور طوائفیں بھی اس طرح نہیں کرتیں۔ ہم جنس زدہ مردوں اور ہم جنس زدہ عورتوں کی شادیوں کا آخرکار انجام یہی ہونا تھا۔ فرانسیسی معاشرے میں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اورعائلی زوجین کے سرے سے کوئی اصولِ زندگی اور کوئی ضابطۂ حیات نہ ہو تو اس معاشرے کو کوئی دوسرا انسانی معاشرہ اپنے لیے رول ماڈل نہیں بنا سکتا۔
فرانس میں کئی برسوں سے اسلاموفوبیا کے بخار میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف بار بار نفرت بھرے جرائم اور بے عزّتی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔یاد رہے جنوری ۲۰۱۵ء کو اخبار چارلی ہیڈو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد مذکورہ اخبار کے دفتر پر ایک ’جعلی حملے‘ میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اضافہ ہوا۔ جرائم کی پرکھ رکھنے والے ماہرین اس حملے کو آج بھی ایک ’جعلی دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔ اسکولوں، گورنمنٹ کے اداروں، کاروباری مراکز، فیکٹریوں، تجارتی و شاپنگ مالوں اور دکانوں میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پیرس میں ایک الجزائری عرب کی بہت مشہور بیکری تھی، جہاں رات دن گاہکوں کی قطاریں لگا کرتی تھیں۔ انتہاپسند فرانسیسی عیسائیوں کو یہ بہت کھٹک رہا تھا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے ایک من گھڑت خبر اُڑا دی کہ ’’یہ انتہا پسند عرب، اپنی بیکری کی آمدنی دہشت گردوں کو بطور عطیہ دیتا ہے‘‘۔ پھر یہ خبر لندن، نیویارک اور دُنیا کے بڑے مشہور میڈیا مراکز پر نشر کر دی گئی۔ اب اس بیکری کے مالکان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا ہے، یہ ہے اسلاموفوبیا کا ایک نمونہ۔
فرانسیسی استعماری نوآبادیاتی نظام کا دورِ استبداد بڑا طویل رہا۔ فرانس نے مراکش پر ۴۴سال ، تیونس پر ۷۵سال اور الجیریاپر ۱۳۲سال تک اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا تھا۔ ۶۰ کے عشرے میں جب فرانس کے خلاف زبردست آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں، تو اس وقت فوج و انتظامیہ میں موجود عرب ملازمین نے عرب عوام کے غصّے سے بچنے کے لیے فرانس میں پناہ لی تھی اور انھیں مسلمانوں سے غداری کے عوض بڑے پیمانے پر فرانسسی شہریت بھی دے دی گئی تھی۔
صدر میکرون کی حکومت نے فرانس میں اسلام کے خلاف جاری شدید نفرت و اہانت کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس کبھی حجاب پر پابندی، کبھی مساجد پر گرفت، کبھی خطباتِ جمعہ پر تادیبی حکم نامے یا مسلم انتظامیہ کے اسکولوں اور قرآن کی تعلیم پر پابندی کے لیے سخت تر قوانین مرتب اور نافذ کیے۔ گورے فرانسیسی ہمیشہ ترکی، الجزائر، تیونس، مراکش، موریطانیہ اور لیبیا کے عرب مسلمانوں کو ایک ناکارہ گندہ بوجھ سمجھتے آئے ہیں۔ فرانس میں گذشتہ ۵۰برسوں کے دوران مسلم آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور اب ان عربی نژاد شہریوں کی چوتھی نسل ہے۔
فرانس کی کُل آبادی ۶کروڑ ۷۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۶ لاکھ یعنی ۸ء۹ فی صد مسلمان فرانسیسی شہریت کے حامل ہیں۔ پھران میں ۸۲ فی صد افریقی عرب نژاد اور باقی ترکی النسل ہیں۔ تیونس کے ۱۱ء۴ فی صد، الجیریا کے ۴۳ فی صد، مراکش کے ۲۷ فی صد، ماریطانیہ کے ۴فی صد، ترکی ۸ء۶ فی صد، ساحل ۹ء۶ فی صد مسلمان شامل ہیں۔
فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو بار بار گستاخی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر اُٹھتی ہے۔ غیرعرب ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی میں شدید احتجاج اس کے خلاف کئی مرتبہ ہوچکے ہیں۔
۲۷، ۲۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو عرب حکمرانوں کی بغداد میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بطورِ مہمانِ خصوصی میکرون نے شرکت کی۔ اس دوران میزبان اورمہمان عرب ممالک کی غیرت جاگنی چاہیے تھی کہ میکرون جیسے ملعون کو عرب ممالک کے حکمران، ایک قائد کے طور پر سرجھکائے سن رہے تھے، اور اس کی پذیرائی کر رہے تھے، حالانکہ اس کا مقاطعہ کیا جانا ضروری تھا۔
نیٹو افواج کی درندگی کے شکار عراق میں، جنگ سے تباہ حال علاقے کا جب میکرون نے دورہ کیا، تو بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں اور کھنڈروں کو جوں کا توں دیکھا۔ مساجد، مدارس، ہسپتال بُری طرح تباہ و برباد نظر آرہے تھے۔ لیکن جب میکرون نے تکریت میں ایک تباہ شدہ چرچ کو دیکھا تو اس کے پادری نے کہا کہ ’’داعش نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا‘‘۔ قریب کھڑے ایک دوسرے عرب پادری نے میکرون سے پوچھا: ’’داعش جس نے بنائی ہے، آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ لوگ اگر چاہتے تو یہ تباہی چند مہینوں میں ختم ہوسکتی تھی۔ بتائیں اس کے کون ذمہ دار ہیں؟‘‘ پھر اسی عرب پادری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ کی فضول باتوں سے ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں‘‘۔
فرانس میں داخلی طور پر مسلم آبادی پر مظالم کی جو لہر روزافزوں ہے ، میکرون اور اس کی حکومت اس کی بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مگر اس کا ذکر نہ بغداد علاقائی کانفرنس میں کسی عرب حکمران نے کیا، اور نہ کسی میں اتنی جرأت اور ہمت تھی کہ وہ اپنی سخت احتجاجی قرار داد فرانسیسی صدر کے حوالے کرتا۔ غالباً میکرون کو مسلمانوں کے بارے بھارت کی دوغلی پالیسی بہت کامیاب نظر آتی ہے، جہاںعرب مہاراجوں سے گہری دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور داخلی طور پر فرانس کی طرح اسلام اورمسلمانوں کے لیے سخت ظالمانہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔
۳۰ ستمبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں، مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی صدر کا حکمرانوں نے پُرتپاک استقبال کیا ،مگر عوامی سطح پر ان کے خلاف سارے عالمِ اسلام میں شدید جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ عرب حکمرانوں نے اتنی جرأت، حوصلے اور ہمت نہیں برتی کہ وہ کہہ سکتے: ’’اسلاموفوبیا اور نبی کریمؐ کے خلاف گستاخیاں، مسلمانوں پر جو ظلم و زیادتیاں فرانس میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ گذشتہ چند برسوں سے ہورہی ہیں، ان پر وہ پہلے معذرت کرے اور مسلمانانِ فرانس کے ساتھ نرمی و مروّت کا معاملہ کرے‘‘۔ یہ ’گلف کوآپریٹیو کونسل‘ (GCC) کی اوّلین ذمہ داری تھی کہ وہ ایک قرارداد، سفارتی پروٹوکول کو ملحوظ رکھتے ہوئے متفقہ طور پر میکرون کو پیش کرتی۔ بہرحال، دوسری طرف پاکستان اور ترکی نے جہاں بھی موقع ملا، بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اسلاموفوبیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی کا مسئلہ پوری قوت سے اُٹھایا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب لیگ کے تمام حکمرانوں نے لبرل ازم اور سیکولرزم کے سامنے جھکنے کی انتہا کردی ہے۔ جس دین اسلام میں، جن رسولِ کریمؐ اور جن پر ایمان باللہ کی وجہ سے دُنیا میں ان کی وقعت، عزّت و احترام ہے، وہی اسلام کے دشمنوں کے دبائو میں آکر لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عرب ممالک میں اسکولوں کے نصاب سے اسلامی مضامین خارج کیے یا غیرمؤثر بنائے جارہے ہیں۔ اسلامیات، اللہ و رسولؐ کی حُرمت و احترام کی جگہ عرب وطنیت اور قومیت کو بڑھا چڑھا کر شامل کیا جارہا ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کی اغیار کے ہاتھوں ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے۔
تاریخ ان فاش غلطیوں کی بناپر مسلم دُنیا کے حاکم طبقوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عالمِ اسلام میں پیدا شدہ مایوسی اسی وقت ختم ہوگی، جب ۵۷ مسلم ممالک اپنے طور پر ایمان، عقل و خرد اور خوداعتمادی کے ساتھ ٹھوس فیصلے کریں گے اور دنیا پر واشگاف کردیں گے کہ ہم کسی بھی صورت اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم کی اہانت ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ یہ کام ایک دو ممالک نہیں، تمام مسلم ممالک کو یک زبان اور ہم قدم ہوکر کرنا ہوگا۔