انتظامی اُمور اور مملکتی نظام(Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔
فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔
اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔
علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(Civil Administrators)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔
فوج کا اس میدان میں اُترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقعے پر ملک کا ہرفرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔
دُنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کومفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیئے ہیں۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۴، جنوری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)